زیرک
محفلین
سیاسی شطرنج کا کھیل اور ترپ کی چالوں کو دور
اس وقت ملک میں دو بڑی پارٹیوں اور ان کے کارکنوں میں اضطراب کی کیفیت ہے، پی ٹی آئی جس رفتار سے منصوبوں کے افتتاح میں جٹی ہوئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی عددی اکثریت کافی کم ہے اور مہنگائی کی وجہ سے کچھ لوگ جو اس سوچ کے ساتھ پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے کہ حکومت میں رہ کر اپنے کام کروا سکیں گے جیسا کہ پچھلے ادوار میں ہوتا رہا ہے، لیکن نہ تو کسی کو گلی، نالی یا سڑک کے لیے فنڈنگ مل رہی ہے اور نہ ہی وزیرانِ کرام ان کو گھاس ڈالتے ہیں۔ آپ سبھی جانتے ہیں سیاستدان موقع سے فائدہ اٹھانے کا کھیل خوب جانتا ہے۔ حکومت میں شامل ہونے والوں نے ترقیاتی کاموں میں اپنے حلقوں میں سفارشات شروع کر دی ہیں لیکن مشکل معاشی حالات حکومت کے آڑے آ رہے ہیں۔ ایسے میں اگر ن لیگ جس کی قیادت اس وقت منقسم ہے، نوازشریف اور ان کی بیٹی اپنی جان و مال بچانے میں لگے ہیں جبکہ شہبازشریف اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اسٹیبلشمنٹ سے فاصلے کم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر تو وہ اس بار بھائی کے سائے سے نکل آئے تو پھر نیا گیم پلان بن سکتا ہے۔ انتظامی اعتبار سے شہباز شریف، اپنے تمام مخالفین سے بہتر شخصیت ہیں، کیونکہ ان کا بیوروکریسی میں کافی ہولڈ ہے، انہیں ترقیاتی کاموں اور انتظامی امور میں ملکہ حاصل ہے، اس وقت ملک کے جو حالات جا رہے ہیں اور ہمارے علاقائی معاملات جو رخ اختیار کرتے جا رہے ہیں، اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ ملکی معیشت مضبوط ہو اور امن و امن کی صورتِ حال بہتر ہو جو موجودہ حکومت میں ایک بار پھر خراب ہونے لگی ہے یہاں تک کی اسلام آباد بھی اب ڈاکا آباد بنتا جا رہا ہے۔ آرمڈ سروسز چیفس بارے ترمیم میں ن لیگ نے بظاہر بغیر کسی سودے بازی کے ووٹ دیئے لیکن یاد رہے کہ شہباز شریف بہت پکا ڈیلر ہے، وہ کچھ نہ کہے بھی ایسی باتیں منوا لیتا ہے جو کسی اور کے بس کی بات نہیں۔ مشکل معاشی حالات کو مقابلہ کرنے کے لیے عین ممکن ہے کہ شہبازشریف کو لا کر ان کے ذریعے سی پیک کو زندہ اور چین کے ساتھ تعلقات کو نئے سرے سے استوار کیا جائے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ن لیگ ٹھوٹ پھوٹ سے بچ جائے، ن لیگ ٹوٹ پھوٹ سے اسی وقت بچ سکتی ہے جب شہبازشریف ملک میں واپس آتے ہیں، اگر وہ واپس آتے ہیں تو وہ لازمی طور پر چودھری نثار کو بھی آن بورڈ لیں گے پھر ان کے لیے ایسے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کو واپس لانا یا ان کی حمایت حاصل کرنا ایک ٹارگٹ ہو گا جو حکومت میں رہ کر کام نہیں کروا پا رہے۔ پہلے ٹارگٹ کے طور پر پنجاب انتظامیہ میں تبدیلی کی پوری کوشش کی جائے گی جس کے لیے بہت سے ممبران صوبائی اسمبلی پہلے ہی حکومت سے ناراضگی بنائے بیٹھے ہیں۔ لیکن اگر شہبازشریف واپس نہیں آتے تو یہی کام الٹ بھی ہو سکتا ہے، اور ن لیگ کا ایک دھڑا پی ٹی آئی کی حمایت کا اعلان کر سکتا ہے، اس صورت میں موجودہ حکومت کے لیے ایک دو سال مزید حکومت چلاما مشکل نہیں رہے گا۔ یہ سیاسی شطرنج کا کھیل کیا رخ اختیار کرے گا اس بات کا فیصلہ دونوں پارٹیوں کی لیڈرشپ پر منحصر ہے، ن لیگ اگر گیم الٹنا چاہتی ہے تو شہبازشریف کو ہر صورت واپس آنا ہو گا، اور اگر عمران خان حکومت کو زیادہ عرصہ قائم رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں امنِ عامہ، مہنگائی، معیشت اور ترقیاتی کاموں پر دھیان دینا ہو گا۔ کرپشن کا نعرہ تو خود عمران خان کی وجہ پِٹ کر رہ گیا ہے، کیونکہ عمران خان نے اپنے کاروباری دوستوں کے لیے نیب آرڈی ننس لا کر نیب کے طوطے کی جان نکالنے کے ساتھ ساتھ اپنی ساکھ بھی خراب کر ڈالی ہے۔ قارئین سیاسی شطرنج کا کھیل جاری ہے اور جیتے گا وہی جو ترپ کی چالوں کو بہتر طریقے سے چلے گا۔