سیاسی فرقہ واریت : سوشل میڈیا سیاسی گروہوں کا ٹوئٹر ٹرینڈز میں گالیوں کا مقابلہ

الف نظامی

لائبریرین
”سیاسی فرقہ واریت “ یہ عنوان شاید آپ کو عجیب سا لگے، ممکن ہے یہ لفظ آپ نے پہلے کبھی سنا بھی نہ ہو، لیکن یہ حقیقت ہے کہ سیاسی فرقہ واریت کی تاریخ نہ صرف بہت پرانی ہے بلکہ یہ عنوان سیاہ ترین تاریخ رکھتا ہے۔ سیاسی تفرقہ باز ہمیشہ اپنے کالے کرتوں پر پردہ ڈالنے کے لئے مذہبی تفرقہ بازی کا واویلا کرتے رہے ہیں۔سیاسی تفرقہ بازی کے مختلف لیول ہیں، ایک انٹرنیشنل سطح کی سیاسی تفرقہ بازی ہے اور ایک ملکی سطح کی تفرقہ بازی۔​

جس طرح تمام شعبوں میں سیاست کو تفوق حاصل ہے، باقی دنیا جہان کے شعبے سیاست کے ماتحت ہی ہیں اسی طرح فرقہ واریت میں بھی سیاسی فرقہ واریت کو باقی تمام فرقہ واریتوں پر برتری حاصل ہے، اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مذہبی فرقہ واریت کی خفیہ سرپرستی اور قیادت درحقیقت سیاسی لوگ ہی کرتے آئے ہیں، یعنی مذہبی فرقہ واریت میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ سیاستدانوں کی پشت پناہی کے بغیر چل سکے۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ سیاستدان ایسا کیوں کرتے ہیں، تو اس کا سادہ سا جواب ہے کہ اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لئے مذہبی لوگوں کو استعمال کرنا صدیوں پرانی بات ہے۔

فرقہ واریت اور تفرقہ بازی کوئی بھی ہو، چاہے مذہبی ہو یا سیاسی، لسانی ہو یا علاقائی ہر ایک انتہائی بُری اور بیانک نتائج رکھتی ہے۔لیکن سیاسی تفرقہ بازی کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو کلیجہ منہ کو آجاتا ہے۔ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے ہمیشہ یہی سنتے آئے ہیں کہ مذہبی فرقہ واریت معاشرے کے لئے ناسور ہے۔ جی! یقینا یہ بات بالکل سچ ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑا سچ یہ ہے کہ سیاسی فرقہ واریت اور تفرقہ بازی صرف معاشرے ہی نہیں بلکہ پوری انسایت کے لئے ناسور ہے۔
اگرملکی سطح کی سیاسی فرقہ واریت کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں نظر آئے گا کہ ایک پاکستانی قوم کو سینکڑوں سیاسی پارٹیوں میں تقسیم کرکے ایک دوسرے کا ایسا دشمن بنا دیا گیا ہے کہ اب سیاسی پارٹیوں نے اپنے اپنے عسکری ونگ بھی بنالئے ہیں۔ہمارے ملک میں تین چار بڑے سیاسی فرقے ہیں، باقی چھوٹی چھوٹی فرقیاں تو بے حساب ہیں۔ ان فرقوں کے نمائندے روزانہ شام سات بجے سے رات گیارہ بجے تک مختلف چینلز پر آکر اپنے اپنے فرقے کی مدح سرائی اور مخالف فرقے کی خرابیوں کو بیان کرنا جہاد سمجھتے ہیں۔سیاسی فرقہ بازوں میں ایک کمال یہ بھی ہے کہ یہ کسی بھی وقت اپنا فرقہ تبدیل کرلیتے ہیں چنانچہ کل کا یزید آج کا حسین بن جاتا ہے۔

مذہبی فرقہ واریت سے جو نقصان ہوتا ہے وہ بھی درحقیقت سیاسی فرقہ واریت کا ہی نتیجہ ہوتا ہے لیکن آئیے دیکھتے ہیں کہ خالصتا سیاسی فرقہ واریت نے اس دنیا کو کیا دیا:
٭پچھلے چند سالوں میں صرف کراچی شہر میں سیاسی فرقہ واریت کے نتیجے میں 25ہزار لوگ قتل ہوئے۔
٭مقبوضہ کشمیر میں سیاسی اختلاف کی بنیاد پر ایک لاکھ کشمیریوں کو قتل کیا جاچکا ہے۔
٭برما میں ہزاروں مسلمانوں کو بدھ متوں نے قتل اور دو لاکھ کو ملک بدر کیا۔
٭2001سے اب تک امریکا افغانستان میں15لاکھ مسلمانوں کو قتل کرچکا ہے۔
٭80ءکی دہائی میں روس نے افغانستان میں15لاکھ مسلمانوں کو قتل کیا،50لاکھ ہجرت کرکے دربدر ہوئے۔
٭90ءکی دہائی میں امریکا نے عراق پر حملہ کرکے15لاکھ انسانوں کو قتل کیا اور بعد میں ”سوری“ کرکے فرشتہ بن گیا۔
٭1992ءبوسنیا میں ایک لاکھ مسلمانوں کو قتل کیا گیا،20لاکھ ہجرت کرکے دربدر ہوئے،20ہزار عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔
٭1994ءمیں روانڈا (عیسائی ملک) میں صرف اور صرف100دنوں میں ”10 لاکھ“ انسانوں کو قتل اور5لاکھ خواتین کی عصمت دری کی گئی۔
٭1975ءکمبوڈیا میں صرف4سالوں میں20لاکھ انسانوں کو قتل کیا گیا۔ ٭امریکا نے پچھلے 200سال میں دنیا کے70ملکوں میں1ارب30کروڑ انسانوں کو قتل کیا۔
1948 سے اب تک اسرائیل 51لاکھ فلسطینیوں کو شہید کرچکا ہے۔
٭1945ءامریکا نے ایک منٹ میں بم گرا کر80ہزار جاپانیوں کو سیاسی تفرقہ بازی میں قتل کیا۔
٭1943ءبرطانوی حکمران چرچل نے بنگلہ دیش میں مصنوعی قحط پیدا کرکے 70لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا۔
٭1942میں اسٹالن نے کریمیا کے اڑھائی لاکھ شہریوں کو صرف30منٹ میں شہر سے نکلنے کا حکم دیا اور پھرزبردستی اٹھا اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا۔
٭پہلی جنگ عظیم میں2کروڑ انسان قتل کیے گئے۔
٭دوسری جنگ عظیم میں6کروڑ انسان قتل ہوئے۔
٭ہٹلر نے اپنے دور حکومت میں ڈیڑھ کروڑ انسانوں کو قتل کیا۔
٭لینن روسی حکمران نے اپنے دور حکومت میں2کروڑ انسانوں کو قتل کیا۔
٭اسٹالن نے اپنے دور حکومت میں6کروڑ انسانوں کو قتل کیا۔
٭نپولین(عیسائی لیڈر) نے 50لاکھ انسانوں کوقتل کیا۔
٭سری لنکا میں سیاسی اختلافات کی بنیاد پر حکومت اور باغیوں کی لڑائی میں ایک لاکھ انسان قتل ہوئے۔
٭یگوڈا (کمیونسٹ پولیس آفیسر) نے 10لاکھ انسانوں کو تشدد کرکے قتل کیا۔
٭جنرل لوتھر وون نے لمیبیا میں ایک لاکھ انسانوں کو قتل کیا۔
٭شاکازولو افریقہ کا حکمران، جس نے 20لاکھ انسانوں کو قتل کیا۔
٭ماوزے تنگ چین کے کمیونسٹ حکمران نے 5کروڑ انسانوں کو سیاسی بنیادوں پر قتل کیا۔
٭روس نے اٹھارویں صدی کے آخر میں قفقاز کے15لاکھ مسلمانوں کو قتل کیا،نقل مکانی کرنے والے اس سے الگ ہیں۔
٭گیارہویں صدی میں سیاسی فرقہ واریت کے نتیجے میں25000000 اڑھائی کروڑ انسانوں کو قتل کیا گیا۔
٭سکندر اعظم (عیسائی حکمران) نے 10لاکھ انسانوں کو قتل کیا
۔ ٭چنگیز خان نے ایک گھنٹے میں17لاکھ 48ہزار انسانوں کو قتل کرنے کا ریکارڈ بنایا، کل 4کروڑ انسان قتل کیے۔
یہ ساری تاریخ نہیں بلکہ چند ایک نمونے ہیں۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی فرقہ واریت کو ختم کرکے پورے ملک کی عوام کو ایک امت بنایا جائے۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم قرآن وسنت کی رہنمائی میں اسلام کے درخشندہ اصولوں کے مطابق اپنا سیاسی نظام وضع کریں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
غلام دستگیر خان نے جب ایک کتیا کے گلے میں لال ٹین ڈال کر اسے مادر ملت فاطمہ جناح سے تشبیہ دی اس وقت عمران خان ایک کم سن بچہ تھا۔
بھٹو نے جب بھرے جلسہ میں بنگالیوں کو سور کے بچے کہا اس وقت عمران خان لندن میں زیر تعلیم تھا۔
نواز شریف نے جب بینظیر کی ایڈیٹ شدہ برہنہ تصاویر ہیلی کاپٹر سے گرائیں اس وقت عمران خان کرکٹر تھا۔
مولانا فضل الرحمان کو جب پہلی بار کسی سیاست دان نے ڈیزل کہا، اس وقت عمران خان شوکت خانم کینسر ہسپتال تعمیر کر رہا تھا۔
نواز شریف نے جب بھرے جلسے میں بینظیر کو ٹیکسی، آوارہ عورت، انگریز کے کتے نہلانے والی کہا، اس وقت عمران خان اپنی زندگی کا پہلا الیکشن لڑ رہا تھا۔
بعض پاکستانی بغض عمران میں اس ڈھٹائی سے جھوٹ بول کر اس پر یقین کر لیتے ہیں کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے۔
آپ کی باتیں درست سہی، لیکن ماضی کی کوئی غلطی موجودہ غلطی کا جواز نہیں بن سکتی۔

پاکستان سیاسی تاریخ کی یہ ایک الم ناک حقیقت ہے کہ سیاسی میدان میں خواتین سیاستدانوں کو شرمناک طریقے سے رسوا کرنے کی کوشش کی گئی۔ 64ء میں سرکاری طور پر مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو، 77ء میں پیپلز پارٹی کے پر جوش جیالوں کے ہاتھوں بیگم نسیم ولی خان کو، 88ء اور 90ء میں آئی جے آئی اور مسلم لیگ کے ہاتھوں بے نظیر اور نصرت بھٹو کو جس طرح مغلظات سے نوازا گیا اسی طوفان بد تمیزی کی نذر آج کی سیاست ہے۔

اس بیہودہ اور غیر اخلاقی سلسلے کو فی الفور بند ہونا چاہیئے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اجتماعی شعور اس وقت بلند ہو گا جب ہم اپنی اور مخالف شخصیت کے درست کام کو درست اور غلط کو غلط کہنا سیکھ جائیں گے۔
کسی سیاسی جماعت کو ووٹ دینے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آپ اس سیاسی جماعت کی اندھی تقلید کرتے ہوئے اس کی غلط حرکتوں سے صرفِ نظر کر لیں اور مخالف سیاسی جماعت کی اچھی بات کی تعریف نہ کر پائیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
اور ہاں، واحد کپتان ہے جس کی زبانِ مُبارک سے پُھول جڑتے ہیں۔
عمران خان کو جب وزارت عظمی مل گئی تو پوری اپوزیشن نے ان کو گھیر کر پارلیمنٹ کے فلور پر زانی زانی کے نعرہ لگائے یہاں تک کہ ان کو پہلی تقریر بھی نہیں کرنی دی (یاد رہے کہ یہ سب “میں ان کو این آر او نہیں دوں گا” کی گردان سے پہلے کی بات ہے۔ اسی لئے تمام تر موجودہ سیاسی تلخی کا ذمہ دار اپوزیشن خود ہے)
اسی اسمبلی کے فلور پر بلاول زرداری نے وزیر اعظم کو بے غیرت کہا، خواجہ آصف نے شیریں مزاری کو ٹریکٹر ٹرالی کہا، فردوس عاشق اعوان کو ڈمپر کہا، فواد چوہدری کو مشاہد حسین نے ڈبو کہا اور مراد سعید کو ایسا غلیظ لفظ ریحام خان کی کتاب سے کہا جو میں یہاں بیان بھی نہیں کر سکتا۔ اگر آپ پھر بھی وزیر اعظم عمران خان کو ہی قصوروار سمجھتے ہیں تو سمجھتے رہیں۔ وہ عدالت سے سزا یافتہ مجرموں، اشتہاریوں کو چور ڈاکو کہتے رہیں گے لیکن مخالفین کی طرح ذاتیات پر کبھی نہیں اتریں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
آپ کی باتیں درست سہی، لیکن ماضی کی کوئی غلطی موجودہ غلطی کا جواز نہیں بن سکتی۔
درست فرمایا۔ میرا جواب صرف ان کے لئے تھا جو یہ پراپگنڈہ کر رہے ہیں کہ عمران خان کی سیاست میں آمد سے قبل پاکستانی سیاست میں عین مہذب زبان استعمال ہوتی تھی۔ جو کہ ظاہر ہے تاریخی حوالوں کے مطابق سفید جھوٹ ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
درست فرمایا۔ میرا جواب صرف ان کے لئے تھا جو یہ پراپگنڈہ کر رہے ہیں کہ عمران خان کی سیاست میں آمد سے قبل پاکستانی سیاست میں عین مہذب زبان استعمال ہوتی تھی۔ جو کہ ظاہر ہے تاریخی حوالوں کے مطابق سفید جھوٹ ہے۔
  • اجتماعی شعور اس وقت بلند ہو گا جب ہم اپنی اور مخالف شخصیت کے درست کام کو درست اور غلط کو غلط کہنا سیکھ جائیں گے۔
  • کسی سیاسی جماعت کو ووٹ دینے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آپ اس سیاسی جماعت کی اندھی تقلید کرتے ہوئے اس کی غلط حرکتوں سے صرفِ نظر کر لیں اور مخالف سیاسی جماعت کی اچھی بات کی تعریف نہ کر پائیں۔
  • کسی کی خامی آپ کی خوبی نہیں بن سکتی اور کسی کی غلطی آپ کو بھی وہی غلطی کرنے کا جواز فراہم نہیں کرتی
 

الف نظامی

لائبریرین
سائبر کرائم ونگ ان ٹوئٹر اکاونٹس کی تفصیل جاری کرے گا جنہوں نے گالی گلوچ والے ٹرینڈ شروع کیے اور ان کو ملکی قانون کے مطابق سزا دی جائے گا یا اس معاملے میں حکومت کی طرف سے کھلی چھوٹ ہے کہ سوشل میڈیا پر گالیوں کے ٹرینڈ بنانے کی اجازت ہے؟
 

الف نظامی

لائبریرین
تحریک انصاف کے سوشل میڈیا رضا کار یہ کام پہلے ہی کر چکے ہیں۔ ان سب کو پکڑنا ایف آئی اے کا کام ہے:
چونکہ ان غلیظ ٹرینڈز کی شروعات تحریک انصاف کے ٹرولز نے کی تھی اس لئے ان کو نشان عبرت بنانے کے ساتھ ساتھ ن لیگی اور لبرل ٹرولز کو بھی سزا دینی چاہیے جنہوں نے جوابی ٹرینڈز بنائے۔
اس میں یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ ان میں کتنے اکاونٹس غیر ملکی ہیں جو پاکستانی معاشرے کی سوشل ہیکنگ میں مصروف ہیں؟
 

الف نظامی

لائبریرین
دیکھتے ہیں حکومت اس معاملے پر نوٹس لیتی ہے یا نہیں۔ اگر اس پر کچھ بھی نوٹس نہیں لیا گیا تو سمجھ لیجیے باقی معاملات میں بھی ہونا ہوانا کچھ نہیں بس ایویں گلاں ای بنڑیاں نیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب کی درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے ایف آئی اے نے سیاسی شخصیات کیخلاف غیر اخلاقی ٹرینڈز بنانے والے 2 ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے ایف آئی میں شکایت درج کروائی تھی کہ سوشل میڈیا پر خواتین اور سیاسی شخصیات کیخلاف غیر اخلاقی ٹرینڈز بنائے جا رہے ہیں۔

جس پر ایف آئی اے نے کارروائی کرتے ہوئے 2 ملزمان کو حراست میں لے لیا، دونوں ملزمان عاصم خان اور فخر علی خان، خواتین اور سیاسی شخصیات کے خلاف سوشل میڈیا پرغیراخلاقی ٹرینڈز بناتے تھے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ایف آئی اے نے گرفتار ملزمان سے ڈیٹا بھی برآمد کرلیا، ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ مذکورہ کارروائی ترجمان مسلم لیگ ن مریم اورنگزیب کی شکایت پر عمل میں لائی گئی ہے۔
----

اس حوالے سے گرفتار کئے گئے دونوں ملزمان کے نام عاصم خان اور فخر خان ہیں جن پر سیاسی شخصيات کے نامناسب ٹویٹر ٹرینڈ بنانے کا الزام ہے۔ عاصم خان کو لاہور اور فخر علی کو شانگلہ سے گرفتار کیا گیا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
سوال تو بنتا ہے کہ کیا ہمیں بطور قوم اِس دھینگا مُشتی اور غلاظت پر مبنی ٹرینڈز کلچر سے باہر نہیں نکلنا چاہیئے ؟

 

الف نظامی

لائبریرین
سوال تو بنتا ہے کہ کیا ہمیں بطور قوم اِس دھینگا مُشتی اور غلاظت پر مبنی ٹرینڈز کلچر سے باہر نہیں نکلنا چاہیئے ؟
دیکھتے ہیں حکومت اس معاملے پر نوٹس لیتی ہے یا نہیں۔ اگر اس پر کچھ بھی نوٹس نہیں لیا گیا تو سمجھ لیجیے باقی معاملات میں بھی ہونا ہوانا کچھ نہیں بس ایویں گلاں ای بنڑیاں نیں۔
 
Top