"سیاسی مباحثے" یا "عدم برداشت اور اخلاقی انحطاط" کا رجحان

احمد محمد

محفلین
السّلام علیکم!

حالاتِ حاضرہ ہوں یا سیاسی منظرنامے پر رونما ہونے والی تبدیلیاں یا ایسے دیگر بےشمار عنوانات پر بحث مباحثہ کرنا ہمارا وطیرہ بن چکا ہے۔ گو کہ اس میں کوئی قباحت نہیں مگر اس کی آڑ میں ہم کن اخلاقی و معاشرتی برائیوں کا ارتکاب کرتے ہیں، یہ ہم نے شاید کبھی سوچا ہی نہیں اور اگر غلطی سے احساس ہو ہی جائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ شاید ہمارے چپ رہنے یا خاموش ہو جانے سے شاید دوسرے فریق کی جیت ہوگی جو کہ قطعی قابلِ برداشت نہیں۔ سو ہم دل کھول کر بحث کرتے ہیں بلکہ بحث کیا، صرف ایسی باتیں ہی کرتے ہیں جو دوسرے کو دلخراش کریں یا کم از کم چُبیں تو ضرور۔

بظاہر تو یہ عمومی سے مباحثے ہوتے ہیں مگر حقیقتاً ان میں غیبت، تہمت و بہتان، جھوٹ، کینہ و بغض، حسد، الزام تراشی، منافقت، نفرت و ناپسندیدگی کا برملا اظہار، دوسروں کے قول و فعل پر وثوق کے ساتھ برا گمان کرنا، قدرے مہذب گالم گلوچ اور غیر مصدقہ اطلاعات کا فروغ جیسی بے شمار اخلاقی و معاشرتی برائیاں پنہاں ہوتی ہیں جنہیں ہم شاید ثواب کی نیت سے عام کرتے ہیں۔ اور اگر کوئی اس طرف توجہ مبذول کروانے کی جسارت کر ہی دے تو ہمارا جواب ہوتا ہے کہ ہم تو صرف شغل کر رہے ہیں۔ کچھ احباب تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ معلومات کا ایک خزانہ ہے جو صرف ان کے ہاتھ لگا ہے اور اسے دوسروں تک پہنچا کر وہ صدقۂ جاریہ اپنے نام کر رہے ہیں حالانکہ کہ اگر یہ مقدس فریضہ بذاتِ خود سرانجام نہ بھی دیا جائے تو بھی یہ تمام برائیاں کسی اور توسط سےشاید ہم تک پہنچتی ہی رہیں گی مگر کم از کم ان برائیوں کا پرچار اور تشہیر کا گناہ تو ہم سے سرزد نہیں ہوگا۔

پہلے پہل لوگ اپنی سیاسی پسندیدگی یا وابستگی کا اظہار اپنی من پسند شخصیت یا گروہ کے حق میں بات کر کے کرتے تھے جس سے کم از کم مذکورہ بالا برائیاں پروان نہیں چڑھتی تھیں۔ آج کل ہم لوگ اپنی ناپسندیدہ شخصیت یا جماعت کی تذلیل و تحقیر کرکے اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں اور ان تمام برائیوں کا ارتکاب کرتے ہیں جو پہلے بیان کی جا چکی ہیں۔

یہ کیسا شوق اور شغل ہے، یہ کیسی معلومات ہے، یہ کیسی بحث ہے، یہ کیسی پسندیدگی اور وابستگی ہے جو ہمارے مذہبی و اخلاقی اور سماجی و معاشرتی اقدار اور معیار کو تباہ کر رہی ہے۔ خدارا اس شعار سے باز آنے کی کوشش کیجئے ورنہ ہمارے معاشرہ میں نفرت، عدم برداشت اور اخلاقی انحطاط اس قدر ہو جائے گا کہ ہمارا اور خاص کر آنے والی نسلوں کا چین اور سکون غارت ہو جائے گا۔

اس بیان کا مقصد یہ بھی ہے کہ ہم سب سوچیں کہ جو غلط باتیں یا کام دوسرے (یعنی سیاسی و سماجی عناصر) کرتے ہیں جنہیں ہم تنقید یاتشہیر کرنےکی غرض سے دہراتے ہیں یا ان پر جرح کرتے ہوئے ہم اپنے قلوب کو کس قدر آلودہ کر رہے ہیں۔

اللّہ تعالٰی ہمیں ہدایت عطا فرمائیں، آمین۔
 

A jabbar

محفلین
ایک معاشرتی برائی جو دن بدن فروغ پا رہی ہے اس کی نشان دہی کی کوشش پر صاحب تحریر مبارک باد کے مستحق ہیں۔اگرچہ اس عالم ہائو ہو میں اسے نقارخانے میں توتی کی آواز ہی سمجھا جائے گا اس کے باوجود یہ احسن فعل ہے۔اور پھر حق بات کہنے کے لئے یہ نہیں سوچنا چاہیئے کہ کتنی بڑی تعداد اس کا اثر لے گی بلکہ نتیجے کی پرواہ کئے بغیر اپنے ضمیر کا برملا اظہار کر دینا چاہیئے۔ کہ۔۔۔ اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں ۔۔۔۔۔۔ مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ
 
Top