وقار علی ذگر
محفلین
25 اپریل 1996 کو پاکستان کی سیاست میں اپنے سیاسی سفر کا آغاز کرنے والی
" پاکستان تحریک انصاف " نے اپنے سیاسی سفر کے کم و بیش 20 سال مکمل کرلئےہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کو اپنے ابتدائی دنوں میں نہ تو کوئی کامیابی ملی اور نہ ہی پذیرائی۔پارٹی میں عوام صرف ایک شخص کے نام سے واقف تھی اور وہ نام تھا عمران خان کا جنکی قیادت میں پاکستان 1992 ورلڈکپ کا عالمی چمپئن بنا۔
1998 کے عام انتخابات میں خالی ہاتھ رہ جانے اور 2002 کے انتخابات میں صرف ایک سیٹ جیتنے والی تحریک انصاف آج پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی قوت ہے ۔1996 سے لیکر 2009 ، 2010 تک تحریک انصاف میں کئی بڑے نام شامل ہوئے ( جو بعد میں اختلافات یا ذاتی وجوہات کی بناء پر پارٹی چھوڑ کر بھی گئے ) جن میں (مرحوم ) معراج محمد خان کا نام سرفہرست ہے لیکن صحیح معنوں میں تحریک انصاف کو پذیرائی 30 اکتوبر 2011 لاہورجلسے کے بعد ملی جس کے بعد کئی مشہور سیاسی لیڈرران ، نوجوان اس تحریک کا حصہ بنے۔
نوجواںوں کو عمران خان کی شکل میں ایک لیڈر ملا، تبدیلی کی لہر چلی اور اس لہر نے کچھ ہی عرصے میں پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جو لوگ سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے وہ سیاسی عمل میں دلچسپی لینے لگے۔ پی ٹی آئی نے لاہور، پشاور، کراچی سمیت ملک کے دیگر بڑے شہروں میں جسلےکئے اور عوام کو اپنی تیزگام میں سوار کروایا۔
2013 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے قائدین اور کارکنان کو اپنی کامیابی پر پورا یقین تھا۔ انتخابات ہوئے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ جیسے جسیے نتائج آنا شروع ہوئے پی ٹی آئی کی امیدیں دم توڑنے لگی۔ پی ٹی آئی مرکز میں حکومت نہ بنا سکی اور نہ ہی قائد حزب اختلاف کی نشت پر قبضہ کرسکی اور قومی اسمبلی میں تیسری بڑی جماعت کے طور پر اپوزیشن بینچوں پر براجمان ہوگئی البتہ خیبر پختونخواہ میں اتحادیوں سے ملکر صوبائی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔
پاکستانی سیاست میں عروج تک پہنچنے والی تبدیلی کی جماعت ضمنی انتخابات میں اپنی جیتی ہوئی نشستیں بھی دوبارہ نہ جیت سکی۔ این – اے 01 ، اور این – اے 71 سے عمران خان واضح اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے لیکن ضمنی انتخابات میں پارٹی ان دونوں سیٹوں کو صرف تین مہینوں کے وقفے سے دوبارہ نہ جیت سکی ۔ ان دونوں نشستوں کے بعد
این – اے 19 ہری پور، این – اے 122 لاہور کی نشست کا نتیجہ بھی حق میں نہ آیا۔
2013 کے انتخابات کو جہاں پاکستان کی تاریخ کے دھاندلی زدہ الیکشن قرار دیا گیا تھا 126 دن کے طویل دھرنے کے بعد بھی ثابت نہ کیا جاسکا۔۔ جسکے لئے تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن سے لیکر عدالت تک ہر دروازہ کھٹکٹایا لیکن
30 اکتوبر 2011 کے بعد پارٹی نے جس قدر تیزی سے خود کو منوایا آج اسی پارٹی کا گراف تنزلی کی طرف گامزن ہے۔ کارکنان ، لیڈران کے ذاتی اختلافات اور لڑائی جھگڑوں ، ہرپرانے سیاستدان کی پارٹی میں شمولیت ، دوسری پارٹیوں سے آئے لیڈران کا اثرورسوخ ، وہی پرانے چہروں کے ساتھ تبدیلی کے نعروں اور پرانے نظریاتی کارکنان کے نظرانداز کئے جانے پر مایوس اور نالاں ہیں۔ پارٹی میں تنظیم نام کی کوئی چیز نہیں مقامی سطح پر ہر ایک خود لو لیڈر سے کم نہیں سمجھتا اپنی ضد ، انا اور ہٹ دھرمی سے پیچھے نہیں ہٹتے پارٹی کے انتطامات ٹھیک طریقے سے نہیں چلائے جارہے جسکی وجہ سے پارٹی غیر مقبول ہوتی جارہی ہے۔
2018 کے عام انتخابات میں اب بھی وقت ہے ٹکٹوں کے معاملے میں اور تنظیمی سطح پر جو غلطیاں 2013 کے انتخابات ، ضمنی انتخابات ، کے پی کے کے بلدیاتی انتخابات ، گلگت بلتستان کے انتخابات ، کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات ، پنجاب ، سندھ ، بلوچستان اور خصوصاَ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں جو غلطیاں ہوئی اسکا جائزہ لیا جائے غلطیوں کا ازالہ کیا جائے تنظیم کی مضبوطی پر کام کیاجائے ، کے پی کے میں کارکردگی دکھائی جائے تو 2018 کے عام انتخابات کے لئے راستہ ہموار کیا جاسکتاہے
لیکن
اگر یہ سلسلہ چلتا رہا اور اپنی غلطیوں سے سبق نہ سیکھا گیا اور غلطیوں کو اسی طرح دہرایا جاتا رہا تو " تبدیلی " کا نعرہ لگانے والی ، عوام کو امید دلانے والی ، امید کی کرن بن کے ابھرنے والی پارٹی کو اپنی جیتی ہوئی نشستوں کو بھی دوبارہ جیتنے کے لئے پاپڑ بیلنے پڑینگے اور پارٹٰی ایک ایسے گمنام راستےپر چلی جائیگی جہاں سے واپسی آنے میں انہیں اتنا ہی وقت لگے گا جتنا آج انہیں اس مقام تک پہنچنے میں لگا ہے ۔۔۔!
وقار علی ذگر
" پاکستان تحریک انصاف " نے اپنے سیاسی سفر کے کم و بیش 20 سال مکمل کرلئےہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کو اپنے ابتدائی دنوں میں نہ تو کوئی کامیابی ملی اور نہ ہی پذیرائی۔پارٹی میں عوام صرف ایک شخص کے نام سے واقف تھی اور وہ نام تھا عمران خان کا جنکی قیادت میں پاکستان 1992 ورلڈکپ کا عالمی چمپئن بنا۔
1998 کے عام انتخابات میں خالی ہاتھ رہ جانے اور 2002 کے انتخابات میں صرف ایک سیٹ جیتنے والی تحریک انصاف آج پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی قوت ہے ۔1996 سے لیکر 2009 ، 2010 تک تحریک انصاف میں کئی بڑے نام شامل ہوئے ( جو بعد میں اختلافات یا ذاتی وجوہات کی بناء پر پارٹی چھوڑ کر بھی گئے ) جن میں (مرحوم ) معراج محمد خان کا نام سرفہرست ہے لیکن صحیح معنوں میں تحریک انصاف کو پذیرائی 30 اکتوبر 2011 لاہورجلسے کے بعد ملی جس کے بعد کئی مشہور سیاسی لیڈرران ، نوجوان اس تحریک کا حصہ بنے۔
نوجواںوں کو عمران خان کی شکل میں ایک لیڈر ملا، تبدیلی کی لہر چلی اور اس لہر نے کچھ ہی عرصے میں پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جو لوگ سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے وہ سیاسی عمل میں دلچسپی لینے لگے۔ پی ٹی آئی نے لاہور، پشاور، کراچی سمیت ملک کے دیگر بڑے شہروں میں جسلےکئے اور عوام کو اپنی تیزگام میں سوار کروایا۔
2013 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے قائدین اور کارکنان کو اپنی کامیابی پر پورا یقین تھا۔ انتخابات ہوئے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ جیسے جسیے نتائج آنا شروع ہوئے پی ٹی آئی کی امیدیں دم توڑنے لگی۔ پی ٹی آئی مرکز میں حکومت نہ بنا سکی اور نہ ہی قائد حزب اختلاف کی نشت پر قبضہ کرسکی اور قومی اسمبلی میں تیسری بڑی جماعت کے طور پر اپوزیشن بینچوں پر براجمان ہوگئی البتہ خیبر پختونخواہ میں اتحادیوں سے ملکر صوبائی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔
پاکستانی سیاست میں عروج تک پہنچنے والی تبدیلی کی جماعت ضمنی انتخابات میں اپنی جیتی ہوئی نشستیں بھی دوبارہ نہ جیت سکی۔ این – اے 01 ، اور این – اے 71 سے عمران خان واضح اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے لیکن ضمنی انتخابات میں پارٹی ان دونوں سیٹوں کو صرف تین مہینوں کے وقفے سے دوبارہ نہ جیت سکی ۔ ان دونوں نشستوں کے بعد
این – اے 19 ہری پور، این – اے 122 لاہور کی نشست کا نتیجہ بھی حق میں نہ آیا۔
2013 کے انتخابات کو جہاں پاکستان کی تاریخ کے دھاندلی زدہ الیکشن قرار دیا گیا تھا 126 دن کے طویل دھرنے کے بعد بھی ثابت نہ کیا جاسکا۔۔ جسکے لئے تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن سے لیکر عدالت تک ہر دروازہ کھٹکٹایا لیکن
" کھودا پہاڑ نکلا چوہا "
30 اکتوبر 2011 کے بعد پارٹی نے جس قدر تیزی سے خود کو منوایا آج اسی پارٹی کا گراف تنزلی کی طرف گامزن ہے۔ کارکنان ، لیڈران کے ذاتی اختلافات اور لڑائی جھگڑوں ، ہرپرانے سیاستدان کی پارٹی میں شمولیت ، دوسری پارٹیوں سے آئے لیڈران کا اثرورسوخ ، وہی پرانے چہروں کے ساتھ تبدیلی کے نعروں اور پرانے نظریاتی کارکنان کے نظرانداز کئے جانے پر مایوس اور نالاں ہیں۔ پارٹی میں تنظیم نام کی کوئی چیز نہیں مقامی سطح پر ہر ایک خود لو لیڈر سے کم نہیں سمجھتا اپنی ضد ، انا اور ہٹ دھرمی سے پیچھے نہیں ہٹتے پارٹی کے انتطامات ٹھیک طریقے سے نہیں چلائے جارہے جسکی وجہ سے پارٹی غیر مقبول ہوتی جارہی ہے۔
2018 کے عام انتخابات میں اب بھی وقت ہے ٹکٹوں کے معاملے میں اور تنظیمی سطح پر جو غلطیاں 2013 کے انتخابات ، ضمنی انتخابات ، کے پی کے کے بلدیاتی انتخابات ، گلگت بلتستان کے انتخابات ، کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات ، پنجاب ، سندھ ، بلوچستان اور خصوصاَ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں جو غلطیاں ہوئی اسکا جائزہ لیا جائے غلطیوں کا ازالہ کیا جائے تنظیم کی مضبوطی پر کام کیاجائے ، کے پی کے میں کارکردگی دکھائی جائے تو 2018 کے عام انتخابات کے لئے راستہ ہموار کیا جاسکتاہے
لیکن
اگر یہ سلسلہ چلتا رہا اور اپنی غلطیوں سے سبق نہ سیکھا گیا اور غلطیوں کو اسی طرح دہرایا جاتا رہا تو " تبدیلی " کا نعرہ لگانے والی ، عوام کو امید دلانے والی ، امید کی کرن بن کے ابھرنے والی پارٹی کو اپنی جیتی ہوئی نشستوں کو بھی دوبارہ جیتنے کے لئے پاپڑ بیلنے پڑینگے اور پارٹٰی ایک ایسے گمنام راستےپر چلی جائیگی جہاں سے واپسی آنے میں انہیں اتنا ہی وقت لگے گا جتنا آج انہیں اس مقام تک پہنچنے میں لگا ہے ۔۔۔!
وقار علی ذگر