سیاسی منظر نامہ

جاسم محمد

محفلین
وہی اخبار، وہی بیان، لیکن ایک حرام لیکس کہلائیں۔
نواز شریف ایسے بیانات فوج کو دباؤ میں لانے کیلئے سازش کے تحت دیتے تھے۔ جبکہ عمران خان اپنی موصومیت میں دیتے ہیں۔
نیت میں فرق واضح ہے۔ اور فوج اس معاملہ میں ان کے ساتھ ہے
 

فرقان احمد

محفلین
نواز شریف ایسے بیانات فوج کو دباؤ میں لانے کیلئے سازش کے تحت دیتے تھے۔ جبکہ عمران خان اپنی موصومیت میں دیتے ہیں۔
نیت میں فرق واضح ہے۔ اور فوج اس معاملہ میں ان کے ساتھ ہے
ایک ٹی وی شو یاد آ گیا۔
معین اختر (قاضی واجد سے): آپ نے مجھے یہ تھپڑ سنجیدگی سے رسید کیا ہے یا مذاق میں؟
قاضی واجد: نہایت سنجیدگی کے ساتھ۔
معین اختر: چلیں، پھر ٹھیک ہے۔ دراصل، مجھے ایسا مذاق پسند نہیں ہے۔
 
D402r-RQWw-AAXEIB.jpg

پرانے ٹرک کی نئی لال بتی ۔:)
 
نواز شریف ایسے بیانات فوج کو دباؤ میں لانے کیلئے سازش کے تحت دیتے تھے۔ جبکہ عمران خان اپنی موصومیت میں دیتے ہیں۔
نیت میں فرق واضح ہے۔ اور فوج اس معاملہ میں ان کے ساتھ ہے
نوازشریف نے بند کمرے میں اپنے ملک میں ، اپنے ماتحتوں کے ساتھ بات کی تھی۔ دوسرے ملک جاکراس کے سربراہ مملکت کے ساتھ بیٹھ کر ملک کا منہ کالا نہیں کیا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین

فرقان احمد

محفلین
اتنی خفیہ اسٹیٹ میٹنگ کا اندرونی احوال ایک معروف انگریزی اخبار میں لیک کیسے ہو گیا یا کس نے کروایا؟ یہ زیادہ بڑا جرم ہے :)
واقعی، وہ بہت بڑا جرم تھا۔ خان صاحب زیادہ سیانے ہیں جو اس جرم کے ارتکاب سے بچ گئے۔ صاحب! جن کو تھپڑ رسید ہوا، ان کو اعتراض نہیں، تو پھر اسے ہم خان صاحب کا کارنامہ ہی گنیں گے۔ جو اُن کو لائے ہیں، وہ اکیلے میں روتے پائے جائیں تو ہمیں چنداں حیرانی نہ ہو گی ۔۔۔! :)
 

جاسم محمد

محفلین
انجام دیکھ کر فرض کر لیں کہ اصطبلیہ نے خود کروایا تھا۔
اگر نواز شریف یا ان کی کابینہ اس معاملہ میں بے قصور تھے تو ان کو پرویز رشید کی قربانی نہیں دینی چاہیے تھی۔ بلکہ ہمیشہ کی طرح اپنے موقف پر “ڈٹ” جانا چاہیے تھا۔ اقتدار نے کونسا ہمیشہ ساتھ رہنا تھا :)
پرویز رشید کو ہٹا کر انہوں نے یہ تاثر دیا جیسے یہ سیکورٹی بریچ حکومت میں سے کسی نے کروائی ہیں اور یوم فوج پھر سرخرو ہو گئی :)
 
اگر نواز شریف یا ان کی کابینہ اس معاملہ میں بے قصور تھے تو ان کو پرویز رشید کی قربانی نہیں دینی چاہیے تھی۔ بلکہ ہمیشہ کی طرح اپنے موقف پر “ڈٹ” جانا چاہیے تھا۔ اقتدار نے کونسا ہمیشہ ساتھ رہنا تھا :)
اناؤں کی جنگ تھی، کسی ایک کوپیچھے ہٹنا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
اناؤں کی جنگ تھی، کسی ایک کوپیچھے ہٹنا تھا۔
چلیں شکر ہے آپ نے کم از کم یہ تسلیم تو کیا کہ نواز شریف ایک کمزور لیڈر تھے۔ جو اپنا صحیح اور درست موقف ہونے کے باوجود فوج سے انا کی جنگ ہار گئے۔ جس کا دیر است نتیجہ یہ نکلا کہ خود بھی زیر عتاب آئے۔ اور فوج سے جہادی تنظیموں کی پشت پناہی بھی نہ رکوا سکے۔ یہاں تک کہ پلوامہ سانحہ ہو گیا ۔
 

فرقان احمد

محفلین
چلیں شکر ہے آپ نے کم از کم یہ تسلیم تو کیا کہ نواز شریف ایک کمزور لیڈر تھے۔ جو اپنا صحیح اور درست موقف ہونے کے باوجود فوج سے انا کی جنگ ہار گئے۔ جس کا دیر است نتیجہ یہ نکلا کہ خود بھی زیر عتاب آئے۔ اور فوج سے جہادی تنظیموں کی پشت پناہی بھی نہ رکوا سکے۔ یہاں تک کہ پلوامہ سانحہ ہو گیا ۔
آپ یہ بات نظرانداز کر رہے ہیں کہ مضبوط اپوزیشن بھی عام طور پر حکومت سے غلطیاں کرواتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خان صاحب نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے چیری بلاسم اسی بیانیہ شدت سے اپنائے رکھا جس طرح ماضی میں میاں صاحب پیپلز پارٹی کے خلاف اپنائے رکھتے تھے تو اس وجہ سے عام طور پر حکومت بیک فٹ پر ہی کھیلتی نظر آتی ہے۔ چونکہ خان صاحب ابھی نئے نئے آئے ہیں، اس لیے ان پر دباؤ ذرا کم ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ انہیں 'ٹریننگ' فراہم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کے باوجود، وہ اس طرح کے بلنڈر کرتے چلے گئے تو آپ کو غالباً نتیجہ ماضی کی بہ نسبت مختلف نظر نہ آئے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
پیپلزپارٹی، ن لیگ کے متبادل کے طور پر نئی جماعت بنانے کا فیصلہ
رضوان آصف منگل 23 اپريل 2019
1642502-ppppmlnphotofilex-1555969259-846-640x480.jpg

جماعت کے نام اور منشور کا اعلان کچھ عرصے میں کر دیا جائیگا، رجسٹریشن کی تیاریاں مکمل۔ فوٹو : فائل

لاہور: مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے اپنی اپنی قیادت سے ناراض رہنمائوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور دونوں جماعتوں کی مرکزی قیادت کیخلاف سنگین کرپشن کے مقدمات اور نااہلی کے سبب ملک کے سیاسی اور مقتدر حلقوں نے قومی سطح پر ایک نئی سیاسی جماعت کی تشکیل کا فیصلہ کر لیا ہے۔

سینئر سیاستدان محمد علی درانی اس نئی جماعت کی تشکیل کیلیے متحرک ہیں اور ان کے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے ناراض رہنماوں اور کارکنوں سے بھی رابطے جاری ہیں۔

سیاسی ذرائع کے مطابق آئندہ انتخابات تک کرپشن کے مقدمات کی وجہ سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے مستقل طور پر نااہل ہونے کا خدشہ ہے جس سے ان کا پاکستانی سیاست میں موثر کردار بھی تقریباً ختم یا انتہائی کمزور ہو چکا ہوگا اور ان کی انتخابی طاقت بھی بہت کمزور ہو چکی ہو گی۔ ایسے میں ملک کو ایک نئی قومی سیاسی جماعت کی ضرورت ہو گی جو اس سیاسی خلا کو پر کر سکے۔محمد علی درانی اس سیاسی جماعت کے قیام کیلئے اپنے دوستوں اور دیگر ہم خیال سیاستدانوں سے رابطہ کر رہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق اس جماعت کے قیام کے لیے ایک روڈ میپ تیار کر لیا گیا ہے جس کے مطابق مذکورہ جماعت ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے ان رہنمائوں اور کارکنوں کے لیے بڑے متبادل کے طور پر سامنے آئے گی جن کیلیے تحریک انصاف میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ جس کے ساتھ ہر انتخابی حلقہ میں ایک مضبوط دھڑا قائم ہو جائیگا۔

نئی سیاسی جماعت کیلیے تین نام شارٹ لسٹ کر لیے گئے ہیں۔ جن میں سے ایک نام محمد علی درانی اپنے دوستوں کی اگلی نشست میں اگلے 24گھنٹے میں فائنل کرلیں گے۔ پارٹی کے آئین کا ابتدائی مسودہ بنا لیا گیا ہے جبکہ جھنڈے اور دیگر چیزوں کی تیاری کیلیے ملک کی ایک اشتہاری ایجنسی کو کام دے دیا گیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
آپ یہ بات نظرانداز کر رہے ہیں کہ مضبوط اپوزیشن بھی عام طور پر حکومت سے غلطیاں کرواتی ہے۔
آپ درست کہہ رہے ہیں لیکن جمہوریت میں اپوزیشن کا مقصد حکومت سے غلطیاں کروانا نہیں بلکہ ان سے سرزد ہونے والی غلطیوں کی نشاندہی کرنا ہے۔
میرے خیال میں یہ مضبوط لیڈر کی نشانی ہے کہ وہ کسی کے بھی دباؤ میں آئے بغیر اپنے منشور اور نظریہ پر ڈٹ کر عمل پیرا رہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
آپ درست کہہ رہے ہیں لیکن جمہوریت میں اپوزیشن کا مقصد حکومت سے غلطیاں کروانا نہیں بلکہ ان سے سرزد ہونے والی غلطیوں کی نشاندہی کرنا ہے۔
میرے خیال میں یہ مضبوط لیڈر کی نشانی ہے کہ وہ کسی کے بھی دباؤ میں آئے بغیر اپنے منشور اور نظریہ پر ڈٹ کر عمل پیرا رہے۔
پاکستان ایسی ریاست میں مضبوط لیڈر۔۔۔! مذاق اچھا کرتے ہیں آپ ۔۔۔!
 

فرقان احمد

محفلین
پیپلزپارٹی، ن لیگ کے متبادل کے طور پر نئی جماعت بنانے کا فیصلہ
رضوان آصف منگل 23 اپريل 2019
1642502-ppppmlnphotofilex-1555969259-846-640x480.jpg

جماعت کے نام اور منشور کا اعلان کچھ عرصے میں کر دیا جائیگا، رجسٹریشن کی تیاریاں مکمل۔ فوٹو : فائل

لاہور: مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے اپنی اپنی قیادت سے ناراض رہنمائوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور دونوں جماعتوں کی مرکزی قیادت کیخلاف سنگین کرپشن کے مقدمات اور نااہلی کے سبب ملک کے سیاسی اور مقتدر حلقوں نے قومی سطح پر ایک نئی سیاسی جماعت کی تشکیل کا فیصلہ کر لیا ہے۔

سینئر سیاستدان محمد علی درانی اس نئی جماعت کی تشکیل کیلیے متحرک ہیں اور ان کے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے ناراض رہنماوں اور کارکنوں سے بھی رابطے جاری ہیں۔

سیاسی ذرائع کے مطابق آئندہ انتخابات تک کرپشن کے مقدمات کی وجہ سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے مستقل طور پر نااہل ہونے کا خدشہ ہے جس سے ان کا پاکستانی سیاست میں موثر کردار بھی تقریباً ختم یا انتہائی کمزور ہو چکا ہوگا اور ان کی انتخابی طاقت بھی بہت کمزور ہو چکی ہو گی۔ ایسے میں ملک کو ایک نئی قومی سیاسی جماعت کی ضرورت ہو گی جو اس سیاسی خلا کو پر کر سکے۔محمد علی درانی اس سیاسی جماعت کے قیام کیلئے اپنے دوستوں اور دیگر ہم خیال سیاستدانوں سے رابطہ کر رہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق اس جماعت کے قیام کے لیے ایک روڈ میپ تیار کر لیا گیا ہے جس کے مطابق مذکورہ جماعت ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے ان رہنمائوں اور کارکنوں کے لیے بڑے متبادل کے طور پر سامنے آئے گی جن کیلیے تحریک انصاف میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ جس کے ساتھ ہر انتخابی حلقہ میں ایک مضبوط دھڑا قائم ہو جائیگا۔

نئی سیاسی جماعت کیلیے تین نام شارٹ لسٹ کر لیے گئے ہیں۔ جن میں سے ایک نام محمد علی درانی اپنے دوستوں کی اگلی نشست میں اگلے 24گھنٹے میں فائنل کرلیں گے۔ پارٹی کے آئین کا ابتدائی مسودہ بنا لیا گیا ہے جبکہ جھنڈے اور دیگر چیزوں کی تیاری کیلیے ملک کی ایک اشتہاری ایجنسی کو کام دے دیا گیا ہے۔
یہ خبر لگوانے کے لیے بھی، خدا جانے، درانی صاحب نے کتنے جتن کیے ہوں گے ۔۔۔! :)
 
Top