اس طرح تو کوئی سائیکل نہیں دیتا
جاوید چوہدری منگل 10 ستمبر 2019
مانچسٹر ایئرپورٹ پر دو ستمبر 2019کو دل چسپ واقعہ پیش آیا‘ ایزی جیٹ کی فلائٹ مانچسٹر سے اسپین کے شہر ’’ایل کانتے‘‘ جا رہی تھی‘ ایل کانتے اسپین کا سیاحتی مقام ہے‘ لوگ گرمیوں کی چھٹیاں منانے یہاں آتے ہیں اور جی بھر کر سورج‘گرمی اور سمندر تینوں کا لطف اٹھاتے ہیں۔
فلائٹ کے تمام مسافر بھی چھٹیاں گزارنے ایل کانتے جا رہے تھے‘ فلائٹ کا وقت ہو گیالیکن جہاز نہیں اڑا‘ مسافر شروع میں گپ شپ کرتے رہے‘ یہ پھر عملے سے تاخیر کی وجہ پوچھنے لگے اور یہ آخر میں احتجاج کرنے لگے‘ اسٹاف نے مسافروں کو بتایا ’’ہمارا پائلٹ غائب ہے‘ یہ ایئرپورٹ نہیں پہنچ سکا‘ ایئر پورٹ سیکیورٹی اور جہاز کا اسٹاف مسلسل تلاش کر رہا ہے لیکن رابطہ نہیں ہو پا رہا‘‘۔
یہ ایک دل چسپ صورت حال تھی‘ جہاز تیار تھا مگر جہاز کا پائلٹ غائب تھا‘ ایئرپورٹ پر سراسیمگی کا عالم تھا‘ مسافروں میں سے اچانک ایک شخص اٹھا اور اپنے موبائل سے اسٹاف کا کسی نامعلوم شخص سے رابطہ کرا دیا‘ اسٹاف نے اسے کاک پٹ میں پہنچا دیا‘ مسافر نے جہاز چلایا‘ اسپیڈ بڑھائی اور جہاز چند لمحوں میں فضا میں تھا‘ مسافروں نے سکھ کاسانس لیا۔ یہ مسافرمائیکل بریڈلے تھا‘ یہ کمرشل پائلٹ تھا‘ ایزی جیٹ میں ملازمت کرتا تھااور یہ اپنی بیوی اوربیٹے کے ساتھ چھٹیاں گزارنے ’’ایل کانتے‘‘ جا رہا تھا‘ یہ جہاز میں تھا اور اچانک کرائسیس پیدا ہو گیا۔
بریڈلے کی بیوی نے اس کے کندھے پر چپت مار کر کہا ’’تم پائلٹ لوگ ہوتے ہی ایسے ہو‘ دیکھ لو ایک پائلٹ کی وجہ سے کتنے لوگ پریشان ہیں‘‘ بریڈلے کو شرم آئی‘ اس نے ایزی جیٹ کی انتظامیہ سے رابطہ کیا‘ اپنی شناخت اور سیکرٹ نمبر بتایا اور جہاز اڑانے کی پیش کش کر دی‘ انتظامیہ نے سسٹم سے ویری فکیشن کی اور 38 سیکنڈ بعد اسے جہاز اڑانے کی اجازت دے دی۔
بریڈلے نے انتظامیہ کو بتایا ‘میں جینز شرٹ میں ہوں‘ میرے پاس یونیفارم موجود نہیں‘ انتظامیہ نے جواب دیا‘ یونیفارم پر لعنت بھیجو تم بس جہاز اڑائو‘ وہ اٹھا اور یونیفارم کے بغیر کاک پٹ میں گھس گیا‘ جہاز اڑایا اور مسافروں کو بحفاظت ایل کانتے پہنچا دیا‘ یہ بظاہر چھوٹا سا واقعہ ہے لیکن یہ واقعہ ثابت کرتا ہے بحرانوں میں پائلٹ تبدیل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہوتا‘ کیوں؟ کیوں کہ پائلٹ اتنے اہم نہیں ہوتے جتنے اہم جہاز اور اس کے مسافر ہوتے ہیں۔
ہم بھی اس وقت ایسی ہی صورت حال کا شکار ہیں‘ پوری قوم ایک سال سے تبدیلی کے جہاز میں محصور ہے‘ پائلٹ بھی اپنی سیٹ پر موجود ہے اور اسٹاف بھی ضرورت سے زیادہ ہے لیکن جہاز اس کے باوجود نہیں اڑ رہا چناں چہ ہمارے پاس اب دو آپشن ہیں‘ ہم جہاز کے اندر بیٹھے رہیں اور باقی زندگی جہاز کے اسٹاف اور پائلٹ کی تسلیوں پر گزار دیں یہاں تک کہ یہ لوگ جہاز کا دروازہ کھول کر فرار ہو جائیں اور ہم اس کے بعد نیا پائلٹ اور نیا اسٹاف تلاش کرنا شروع کر دیں یا پھر ہم ابھی سے نیا پائلٹ اور نیا اسٹاف تلاش کر لیں تاکہ کم از کم یہ جہاز بھی اڑ سکے اور ہم بھی منزل مقصود تک پہنچ سکیں۔
ہمارے پاس بہرحال دو ہی آپشن ہیں‘ انتظار یا پھر فوری فیصلہ‘ یہ دونوں آپشن مشکل ہیں‘ ہم اگر انتظار کرتے ہیں تو پھر چار سال بعد دنیا کا ماہر ترین پائلٹ بھی یہ جہاز نہیں اڑا سکے گا‘ ہم دیوالیہ ہو چکے ہوں گے اور ہم اگر اس وقت پائلٹ تبدیل کرتے ہیں تو بھی بحران میں اضافہ ہو جائے گا‘ ہمیں خوف ناک سیاسی اور نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا تاہم یہ بھی حقیقت ہے ہم شاید پائلٹ کی تبدیلی کے بحران سے نکل آئیں لیکن ہم اگر آرام سے بیٹھے رہے اور اسٹاف کی تسلیوں پر یقین کرتے رہے توپھر ہم اڑنے کے قابل نہیں رہیں گے‘ جہاز کی صورت حال اس وقت کیا ہے؟
آپ ملاحظہ کیجیے‘ وفاقی ادارہ شماریات نے 5 ستمبر کو حکومت کے ایک سال کے دوران مہنگائی کے اعداد وشمار جاری کیے‘ حکومت کے اپنے ڈیٹا کے مطابق ملک میں ایک سال میں 11فیصد مہنگائی بڑھ گئی‘ ملک میں کوئی ایک بھی ایسی چیز نہیں جس کی قیمت میں اضافہ نہ ہواہو‘ علاج تک 12 فیصد مہنگا ہوگیا۔ عمران خان روز کہتے ہیں ملک کے سابق حکمرانوں نے ملکی قرضے دس سال میں چھ ہزار ارب روپے سے 30 ہزار روپے کر دیے لیکن آپ اس مقدس حکومت کا کارنامہ دیکھیے‘ نئے پاکستان میں ایک سال میں 30 ہزار ارب روپے کا قرضہ چالیس ہزار ارب روپے ہو گیا‘ گویا آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف نے پانچ برسوں میں جتنا قرضہ بڑھایا تھا عمران خان نے اتنا ایک ہی برس میں بڑھا دیا۔
آپ کسی دکان دار‘ کسی ریڑھی بان حتیٰ کہ آپ کسی کھوکھے پر رک جائیے‘ آپ کسی کاریگر‘ کسی ایکسپرٹ سے پوچھ لیجیے‘ آپ کو پاکستان کا ہر شخص روتا ہوا ملے گا‘ سیالکوٹ‘ فیصل آباد اور کراچی یہ تینوں شہر سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کے دارالحکومت ہیں‘ حکومت سروے کرا لے یہ حیران رہ جائے گی‘ صنعت کار فیکٹریاں بند کر کے ملک سے باہر جا چکے ہیں‘ یہ اپنی پراپرٹی تک فروخت کر رہے ہیں‘ کاروباری زوال کی صورت حال یہ ہے لوگ اب ڈاکٹروں کے کلینکس میں بھی نہیں جاتے۔
آپ کسی اسپیشلسٹ ڈاکٹر کو فون کر لیجیے‘ آپ کواس سے وقت مل جائے گا جب کہ یہ چند ماہ پہلے تک سال سال تک کے لیے بک ہوتا تھاگویالوگوں کے پاس اب ڈاکٹروں کو دینے کے لیے بھی رقم موجود نہیں اور ملک میں ایک سال میں 10 لاکھ لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں تاہم تین قسم کے کاروبار میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے‘ میڈیکل اسٹورز کا بزنس بڑھ رہا ہے‘ لوگ ڈاکٹروں کے نسخے کے بغیر دھڑا دھڑ ادویات خرید رہے ہیں‘ دوسرا امیگریشن کا بزنس اپنی ’’پیک‘‘ کو چھو رہا ہے اور تیسرا پورے ملک میں اسٹریٹ کرائم میں اضافہ ہو رہا ہے‘ اسلام آباد جیسے شہر میں رات کے وقت ہوم ڈیلیوری معطل ہو چکی ہے‘ ہوم ڈیلیوری کے لڑکوں کو سڑک پر روک کر لوٹ لیاجاتا ہے۔
آپ پنجاب کا چکر لگا لیں‘ پنجاب کے دس بڑے شہر اور کراچی میں کوئی فرق نہیں رہا‘ عثمان بزدار مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں‘ یہ ایک سال میں عمران خان کوخوش رکھنے کے سوا کچھ نہیں کر سکے‘ یہ سارا دن وزیراعظم کے گرد موجود لوگوں کے حکم پر تبادلوں اور تقرریوں کے سوا کچھ نہیں کرتے‘ عثمان بزدار کے پاس ایک وزیر یا ایک ایم این اے آتا ہے اور اپنی مرضی کی تقرریاں کرا کر چلا جاتا ہے۔
دوسرے دن کوئی دوسرا یہ تمام تقرریاں منسوخ کرا کر اپنے لوگ لگوا جاتا ہے‘ آپ عثمان بزدار کی انتظامی صلاحیتوں کا اندازہ اے سی ماڈل ٹائون لاہور سے لگا لیجیے‘ ماڈل ٹائون میں 21 دنوں میں پانچ اے سی تبدیل ہوئے‘ شوکت علی 21 ویں گریڈ کے سینئر بیوروکریٹ ہیں‘ یہ 12 دنوں میں چار بار تبدیل ہوئے‘ یہ سیکریٹری فوڈ تھے‘ یہ سیکریٹری ٹرانسپورٹ لگائے گئے‘ تین دن بعد یہ سیکریٹری ہائیر ایجوکیشن لگا دیے گئے اور یہ تین دن بعد سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو تعینات کر دیے گئے اور وزیراعلیٰ نے تین ماہ انٹرویوز کر کے مختلف اضلاع میں ڈپٹی کمشنر تعینات کیے‘ یہ اب دھڑا دھڑ بدلے جا رہے ہیں۔
ڈی سی جہلم سہیل خواجہ مقامی ایم این اے کے دبائو پر 12 دن بعد ہٹا دیے گئے‘ ڈی سی بہاولنگر رانا سلیم کو 57 دن بعد زکوٰۃ کمیٹیوں کے ایشو پر ہٹا دیا گیا‘ زکوٰۃ کے صوبائی وزیر شوکت علی لالیکا نے ڈی سی کو فون کر کے اپنی مرضی کی زکوٰۃ کمیٹیاں بنوانی چاہیں‘ ڈپٹی کمشنر نے جواب دیا ’’سر ہم حکومت کی ہدایات کے مطابق چل رہے ہیں‘‘ وزیر صاحب نے جواب دیا ’’میں حکومت ہوں‘‘ ڈی سی نے کہا ’’سر آپ وزیر ہیں‘ آپ حکومت نہیں ہیں‘‘ وزیر نے جواب دیا ’’میں تمہیں بتاتا ہوں حکومت کون ہے؟‘‘ اور ڈی سی تبدیل کر دیا گیا‘ یہ صرف چند مثالیں ہیں۔
آپ تحقیق کر لیں آپ کے سارے طبق روشن ہو جائیں گے‘ عثمان بزدار وزیراعظم آفس اور ہائوس کے ہر فون کو حکم سمجھتے ہیں چناں چہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ ایک سال میں انتظامی لحاظ سے ’’بنانا ری پبلک‘‘ بن چکا ہے‘ یہ سلسلہ اگر چھ ماہ اور چلتا رہا تو حکومت کو پنجاب میں ڈی ایس پی اور اے سی تک نہیں ملیں گے‘ وزیراعلیٰ جس کی تقرری کریں گے وہ چھٹی لے کر چلا جائے گا اور آپ اب وفاقی حکومت کا اندازہ بھی کر لیجیے‘ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار وزیراعظم آفس نے 27 وزارتوں کو ریڈ لیٹر جاری کر دیا‘ اس کا مطلب ہے بیوروکریٹس وزیراعظم کے احکامات بھی نہیں مان رہے۔
وزارتیں عملاً مفلوج ہو چکی ہیں‘ وزیراعظم کی معاملات پر گرفت کا یہ عالم ہے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیر خزانہ تھے‘ ڈاکٹر عاصم اور حفیظ شیخ نے 2011ء میں اپنی مرضی کے بزنس مینوں کو نوازنے کے لیے جی آئی ڈی سی کے نام سے گیس سبسڈی دی‘ صنعت کاروں اور بزنس مینوں نے جی بھر کر عوام کی جیبوں سے نوٹ نکالے۔
میاں نواز شریف کے دور میں بھی بزنس مینوں کو فائدہ پہنچتا رہایوں یہ لوگ 420 ارب روپے ہڑپ کر کے سپریم کورٹ کے پیچھے چھپ گئے‘ حفیظ شیخ نے آ کر چپکے سے انھیں 208 ارب روپے (سود کے ساتھ 280 ارب روپے) معاف کر دیے اور وزیراعظم کو اتنے بڑے ڈاکے کی سمجھ ہی نہیں آئی جب کہ کے پی کے کا وسیم اکرم پلس ابھی تک میٹرو مکمل نہیں کر سکا‘ یہ اپنے وزراء کے نام تک نہیں جانتا ۔
یہ حالات اگر اسی طرح چلتے رہے تو ملک ایک سال بعد کہاں ہو گا ملک کا بچہ بچہ جان چکا ہے چناں چہ میری درخواست ہے آپ جہاز نہ بدلیں لیکن کم از کم پائلٹ تو تبدیل کر دیں ورنہ وہ وقت دور نہیں جب ہم بریڈلے کی طرح مسافروں میں سے کسی کو اٹھا کر کاک پٹ میں بٹھانے پر مجبور ہو جائیں گے‘ ہم کب تک تجربے کرتے رہیں گے‘ دنیا میں کوئی شخص کسی اناڑی کو سائیکل تک نہیں دیتا اور ہم نے ان لوگوں کو پورا ملک بھی دے دیا اور ہم تماشا بھی دیکھ رہے ہیں‘ ہم کچھ تو خدا خوفی کریں۔