سیاسی منظر نامہ

جاسم محمد

محفلین
جنرل قمر جاوید باجوہ وزیر اعظم عمران خان کو ان کے سیاسی مخالفین سے نہیں بچا سکتے: حامد میر
21/08/2019 ہم سب نیوز


معروف صحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کا ایک مکمل ہونے کے ایک روز بعد ہی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کر دی۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو تین سال کی توسیع کیوں دی؟ اپنے کئی انٹرویوز میں عمران خان نے پیپلز پارٹی کی جانب سے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو مدت ملازمت میں دی جانے والی توسیع کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ اگر ملک حالت جنگ میں ہو تب بھی آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں ہونی چاہئیے۔

حامد میر نے کہا کہ عمران خان کو وزیراعظم بننے کے بعد آرمی اور عدلیہ سے مکمل حمایت ملی لیکن گذشتہ ایک برس کے دوران عمران خان ملک کی سیاست اور پالیسیز میں تبدیلی لانے میں ناکام رہے۔

انہوں نے کہا کہ خطے کی صورتحال کے پیش نظر جنرل قمر جاوید باجوہ کو مدت ملازمت میں توسیع نہیں دی گئی کیونکہ کافی لوگوں کا خیال ہے کہ یہ توسیع اس لیے دی گئی ہے کہ عمران خان جنرل باجوہ کے بغیر حکومت نہیں چلا سکتے۔ وہ کئی مرتبہ کُھلے عام جنرل قمر جاوید باجوہ کی تعریف بھی کر چکے ہیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ میں وزیر اعظم اس لیے بنا کیونکہ میرے ساتھ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی ”نیا پاکستان” پر یقین رکھتے ہیں۔

لیکن عمران خان کا یہ نیا پاکستان عام عوام کو معاشی ریلیف دینے میں ناکام ہو گیا۔ ملک کے معاشی حالات سنبھالے نہیں سنبھل رہے تھے، آرمی چیف کا کام امداد مانگنا نہیں لیکن اس کے باوجود جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایسا کیا۔ عام تاثر ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ چین ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی وجہ سے ہی پاکستان کو مالی امداد ملی۔

عمران خان کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کا احتجاج زور پکڑ رہا تھا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر سے متعلق آرٹیکل 370 کا خاتمہ کر دیا۔ یہ معاملہ وزیراعظم عمران خان کے لیے ایک نعمت تھا کیونکہ اس سے تمام جماعتوں اور عوام کی توجہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور پاک بھارت جنگ کی جانب مبذول ہو گئی۔

یہ اطلاعات پہلے سے مل رہی تھیں کہ عمران خان نے جنرل باجوہ کو مدت ملازمت میں توسیع دینے کا فیصلہ کر رکھا ہے لیکن اس کا اعلان مناسب وقت پر کیا جائے گا۔ عمران خان نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو ٹھیک اُسی دن مدت ملازمت میں توسیع دینے کا اعلان کیا جس دن اسلام آباد میں اپوزیشن پارٹیوں کا اجلاس ہوا اور عمران خان کے خلاف بڑی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔

حامد میر کا کہنا تھا کہ ایک آرمی چیف ملک کو درپیش بیرونی خطرات سے نمٹ سکتا ہے لیکن اس کے لیے سول حکومت کے مخالفین سے لڑنا آسان نہیں ۔ یہ بھی رائے ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی دوسری مدت میں محتاط رہیں گے اور پاکستان کے سیاسی معاملات میں ملوث ہونے سے گریز کریں گے۔ اس وقت جنرل قمر جاوید باجوہ کا مقصد پاک بھارت جنگ کا خطرہ ختم کرنے اور افغان طالبان امن عمل کو مکمل کرنے کا ہے۔ حامد میر نے مزید کہا کہ ملک کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی سول اور عسکری قیادت بلا شبہ ایک پیج پر ہے لیکن یہی سکیورٹی صورتحال جنرل قمر جاوید باجوہ کو حکومت کی بجائے صرف پاکستان کا دفاع کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
نواز اور مریم بتادیں کہ پیسے کیسے آئے تو کل رہا ہوجائیں گے، فواد چوہدری
ویب ڈیسک 2 گھنٹے پہلے
1788512-fawadx-1566727217-904-640x480.jpg

دنیا میں اب کوئی اسلامی بلاک نہیں رہا،فواد چوہدری فوٹو: فائل

لاہور: وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ نوازشریف اور مریم نواز بتادیں کہ پیسے کیسے آئے تو کل رہا ہوجائیں گے۔

لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ کشمیر پر پاکستان کا سفارتی اور سیاسی نظریہ بالکل صحیح ہے، ہم درست طریقے سے آگے بڑھ رہے ہیں، وزیراعظم کا دورہ امریکا بہت سود مند رہا، سلامتی کونسل نے کشمیرکو بھارت کا اندرونی معاملہ تسلیم نہیں کیا، امریکی صدر نے عمران خان اور مودی سے 2،2 بار بات کی، ٹرمپ نے کہا کہ وہ فرانس میں بھارت کے ساتھ معاملہ اٹھائیں گے۔ وزیراعظم 27 ستمبر کو یو این کی جنرل اسمبلی میں خطاب کریں گے۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ دو ایٹمی طاقتیں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑی ہیں، بھارت امن چاہتا ہے تو امن دکھائیں گے، جنگ چاہتے ہیں تو اس کے لیے بھی تیار ہیں، بھارت سے تین جنگیں لڑچکے، چوتھی کے لیے بھی تیار ہیں، ہمارا بچہ بچہ جنگ کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہے، آپ ہمیں مکا دکھائیں گے تو ہم آپ کا جبڑا توڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے مزید کہا کہ کشمیر صرف پاکستان کا نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے انسانیت کا مسئلہ ہے۔ کشمیر میں کرفیو ہے، لوگوں کو باہر نہیں نکلنے دیا جا رہا، دنیا دیکھ رہی ہے 80لاکھ افراد جیل کی طرح پڑے ہیں، مودی نے مقبوضہ کشمیر میں زندگی تنگ کردی ہے، مودی سمجھتا ہے کہ کشمیر پر لکیر لگانے سےعلاقہ بٹ جائےگا، بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو جیل اس لیے بنایا ہوا ہے کہ باہر کی دنیا کو کچھ پتا نہ چلے لیکن مودی بری طرح پھنس گیا ہے۔ عالمی آزاد میڈیا مودی کے اقدامات کو نازی جرمنی سے تشبیہ دے رہا ہے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ دنیا میں اب کوئی اسلامی بلاک نہیں رہا، اسلامی ممالک انتشار کا شکار ہیں، یواےای آج جس مقام پر ہے اس میں پاکستان کا بھی کردار ہے، یو اے ای کا مودی کو ایوارڈ دینے سے پاکستان میں مایوسی ہوئی۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ فضل الرحمان کی سربراہی میں کشمیر کمیٹی پر 3 سال میں کروڑوں خرچ ہوگئے۔ مولانا فضل الرحمان کے لئے اسلام نہیں اسلام آباد اہم ہے، وہ لاکھوں لوگ لے کر اسلام آباد کی طرف آنا چاہتے ہیں لیکن کشمیر کی طرف کیوں نہیں جاتے۔ کھالوں کی قیمتیں کم ہوئی ہیں، مولانا فضل الرحمان اگلے دو سال میں ویسے ہی فارغ ہو جائیں گے۔

نواز شریف کے معاملے میں فواد چوہدری نے کہا کہ نوازشریف کا مسئلہ صرف اپنے بچوں کے ساتھ ہے، ان کا مسئلہ یہ ہے کہ حسن اور حسین نواز پیسے لے کر باہر بیٹھ گئے ہیں، دونوں بیٹے پیسے بچانے کے لیے نواز شریف اور مریم نواز کو رہا نہیں کرارہے، نوازشریف اور مریم نواز بتادیں کہ پیسے کیسے آئے تو کل رہا ہوجائیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
خان صاحب سے کچھ بھی بعید نہیں- ناقابل اشاعت کالم
24/08/2019 عمار مسعود


سچ پوچھیے تو عمران خان کی سب سے بڑی خوبی اب تک یہی رہی ہے کہ وہ بات اس جذبے، استدالال اور تیقن سے کرتے ہیں کہ یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ یہ وہ بات ہے جو ان کے دل کی بات تھی۔ اس پر عمل پیرا نہ ہوئے تو اس قوم کا کیا بنے گا؟ یہ الگ بات کہ کچھ عرصے کے بعد خان صاحب اسی بات کے برعکس بیان دے رہے ہوتے ہیں۔ لیکن مجال ہے جو استدلال، جذبے اور تیقن میں کوئی فرق پڑتا ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خان صاحب کے چاہنے والے ایک نئے حوصلے سے تازہ بیان پر نہ صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اس کی نصحیت کرتے ہیں۔

اس کشیدہ صورت حال کا نام کسی دل جلے نے یو ٹرن رکھ دیا ہے۔ لیکن جو لوگ خان صاحب کی محبت میں گرفتار ہیں ان کو ایسے ناموں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ ان کی چھیڑ نہیں بنتی۔ چونکہ سوشل میڈیا پر خان صاحب کے ماننے والوں کے پاس کسی کی چھیڑ بنانے، کسی کو گالی دینے کے سلسلے میں ابلاغ کی کوئی کمی نہیں ہے اس لئے ایسی معمولی باتیں ان کے سر پر سے گزر جاتی ہیں۔

اکثر جگہ یہ سوال ہوا کہ خان صاحب کی حکومت کو ماشاء اللہ ایک سال بیت گیا ہے اس ایک سال میں حکومت کے کارہائے نمایاں کیا رہے؟ کیا کامیابیاں حاصل کیں؟ کیا گل کھلائے؟ تو سچ بات تو یہ ہے کہ کوئی زریں کارنامے نہ معیشت کے میدان میں نظر آئے نہ ہی سفارتی سطح پر کوئی بڑی کامیابی ان کے نام ہوئی، نہ خارجہ پالیسی کامیاب ہوئی اور نہ ہی غریب کی حالت زار پر کوئی فرق پڑا۔ نہ تھانوں کی صورت حال میں افاقہ ہوا نہ صحت کے مسائل حل ہوئے۔

نہ تعلیم کے میدان میں ہر طرف علم سے پرنور شمعیں روشن ہوئیں نہ ٹیکس کولیکشن میں کوئی امید افزاء خبر آئی۔ نہ سڑکوں کا جال بچھا نہ کوئی ڈیم تعمیر ہوا۔ نہ معاملات عدل میں کوئی بہتری ہوئی نہ کوئی قانون سازی کی طرف کوئی پیش رفت ہوئی۔ نہ اقرباء پروری ختم ہوئی نہ ہی کرپشن کا سدباب ہوا۔ نہ ادویات کی قیمت کم ہوئی نہ کسانوں کی بھلائی کے لئے کوئی کام ہوئے۔ نہ کوئی صنعتیں لگیں نہ روزگار کے مواقع عوام کو میسر آئے۔ نہ پٹرول کی قیمت کم ہوئی نہ سبز پاسپورٹ کو لازوال عزت ملی۔

لیکن ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ سال کے تین سو پینسٹھ دن گزر جائیں اور کامیابی کا کوئی سہر ا حکومت وقت کے سر نہ ہو سکے؟ بہت سوچ بچار کے بعد ایک نقطہ ذہن میں آیا اور وہ نقطہ کیا ہے ایک مکمل کارنامہ ہے۔ ایک انقلاب ہے ایک سونامی ہے۔ گذشہ ایک سال میں خان صاحب کی سب سے بڑی کامیابی خان صاحب کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے فرمایا کہ یو ٹرن لینا کوئی بری بات نہیں۔ بلکہ یہ تو سعادت کی بات ہے۔ تمام بڑے لیڈروں کی زندگی یو ٹرن لیتے گزری ہے۔

جن لیڈران کا نام انہوں نے یو ٹرن کے حوالے سے لیا میرا قلم ان کے نام لکھتے بھی کانپتا ہے۔ خان صاحب نے جب یہ یو ٹرن والا بیان دیا تو ان کے لہجے میں وہی جذبہ، تیقن اور استدلال موجود تھا جو ان کی شخصیت کا خاصہ ہے۔ جس پر لوگ عاشق ہیں۔ جس سے سوشل میڈیا کے ٹرینڈز بنتے ہیں اور جس سے اخبارات اپنی شہ سرخیاں گھڑتے ہیں۔

یقین مانیے یہ ایک بیان اس حکومت کی ایک سال کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یہ بیان ایک ایسا خاص بیان ہے کہ ان چند الفاظ سے خان صاحب نے اپنے مخالفوں کو پچھاڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس ایک بیان کے بعد کسی بحث کی گنائش نہیں رہتی۔ اب ہم ایسے تجزیہ کار خان صاحب کی کسی بات پر تبصرہ کرتے گھبراتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ اپنا تبصرہ مکمل ہو خان صاحب اس صورت حال پر یو ٹرن لے چکے ہوں اور ہم ایسے بہت سے تجزیہ کار اپنے تبصرے کے ساتھ منہ چھپاتے پھریں۔ خان صاحب کے عزیز دوست، کابنیہ کے ممبران بھی ہر لمحے شک میں رہتے ہیں کہ جس بیان کا ابھی وہ دفاع کر رہے ہیں کہ اصلی والا ہے یا پھر چند گھنٹوں کے بعد ان کو اس کے برعکس بات کا دفاع کرنا ہے۔

اب آپ خود ہی سوچیئے کہ اس ایک بیان نے کتنے مسائل کو یک دم حل پیش کر دیا۔ اب لاکھ چینلوں اور سوشل میڈیا والے خان صاحب کے پروگراموں کے کلپ دکھائیں یا ان کی پرانی تقاریر کا حوالہ دیں سب کا پتہ ایک بیان سے پانی ہو گیا ہے۔ اب آئی ایم ایف سے قرضے پر خود کشی کی بات ہو، پشاور میں دنیا کی سب سے سستی میڑو بننے کا دعوی ہو، تین سو پچاس ڈیم بنانے کو وعدہ ہو، ایک کروڑ نوکریاں دینے کا سوال ہو، پچاس لاکھ گھر بنانے کی بات ہو، بجلی کے بل جلانے کا اعلان ہو، سول نافرمانی کی کال ہو، عوام کے ٹیکس نہ جمع کروانے کی وجوہات ہوں، سٹاک مارکیٹ کے ڈوبنے کا ماتم ہو، پٹرول کی بڑھتی قیمت کی وجہ ہو، ڈالر کی اڑان کا ذکر ہو، روپے کی ناقدری کا طرف دھیان ہو، ہر ہفتے اسمبلی آنے کا وعدہ ہو، احباب کو اہم عہدے نہ دینے کا عزم ہو، بڑھتی ہوئی مہنگائی کا ذکر ہو، ڈوبتی ہوئی صنعتوں کا نوحہ ہو، پنجاب میں بزدار کی وجہ تسمیہ ہو یا پھر ایم کیو ایم سے اتحاد ہو، شیخ رشید کو وفادار ساتھی کہنے کا معاملہ ہو۔

ان سب پر خان صاحب کے پہلے بیان مختلف تھے اب بیانیہ کچھ اور ہے اور اس تضاد کا بہترین حل اس ایک جملے میں پوشیدہ ہے کہ بڑے لیڈر ہی یو ٹرن لیتے ہیں۔ یہ ان کی میراث ہے۔ یہ عظمت کی نشانی ہے۔ یہی سعادت ہے۔ یہ بزرگوں کی نشانی ہے۔ دلچست بات یہ ہے کہ مندرجہ بالا ہر ہر موضوع کے حق اور مخالفت میں خان صاحب نے ایک اچھے مقرر کی طرح خوب یوٹرن لئے۔ یہ بھی ہوا کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیا گئیں، سننے والوں کے کان تمتما اٹھے مگر خان صاحب کے جذبے استدلال اور تیقن میں ذرا بھر فرق نہیں آیا۔

اپوزیشن کی کرپشن ایک ایسا موضوع ہے جس پر خان صاحب نے ابھی تک کوئی یو ٹرن نہیں لیا۔ اس عتاب یا سیاسی انتقام کا نشانہ زیادہ تر مسلم لیگ ن بنی ہے۔ آدھی سے زیادہ جماعت جیل میں ہے مگر خان صاحب کے جذبہ انتقام کی آگ ٹھنڈی نہیں ہو رہی۔ اس مسئلے پر ابھی تک وہ اپنی طرف سے اپنے اصولی موقف پر کھڑے ہیں۔ مقدمات میں سزا ہوتی ہے یانہیں، کرپشن کا کوئی ثبوت ملتا ہے کہ نہیں، عدلیہ کے فیصلے خان صاحب کے انتقام کا ساتھ دیتے ہیں یا نہیں، اپوزیشن میثاق معیشت کے لئے ہاتھ بڑھاتی ہے کہ نہیں۔ اس سے خان صاحب کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

وہ اپنے کرپشن کے بیانیے پر قائم ہیں۔ لیکن فرض کریں صرف ایک لمحے کو فرض کریں کہ اگر نومبر تک خان صاحب اس بیانیئے پر یو ٹرن لے لیں تو کیا آپ اس پر یقین کریں گے؟ ایسا ہونا اس وقت ناممکنات سے میں سے لگتا ہے۔ لیکن خان صاحب کی تمام عمر ناممکنات کو ممکنات بناتے گزری ہے ان سے کچھ بھی بعید نہیں۔ کوئی بھی شخص یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ایسا ہو گا کہ نہیں لیکن ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر ایسا ہوا تو یقین مانیے کہ ایسا کرتے ہوئے خان صاحب کے لہجے میں وہی جذبہ، استدلال اور تیقن ہو گا جو ان کی کرشمہ ساز شخصیت کا خاصہ ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یوٹرن کرتے کرتے وزیراعظم بن گیا ہوں، وزیراعظم عمران خان
ویب ڈیسک 3 گھنٹے پہلے
1789627-imrankhanspeechphotoafp-1566819556-633-640x480.jpg

ہماری حکومت کی ترجیح تعلیم ہے،وزیراعظم عمران خان فوٹو: فائل


صوابی: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ لوگ کہتے ہیں آپ یوٹرن کرتے ہیں لیکن یوٹرن کرتے کرتے وزیراعظم بن گیا ہوں۔

غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ صوابی میں تقریب سے خطاب کے دوران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت کی اولین ترجیح تعلیم ہے، یونیورسٹی کا معیار جتنا اچھا ہوگا اتنے زیادہ طلبہ آئیں گے، یونیورسٹی پر بھی ملک کی طرح برا وقت آتا ہے، تعلیمی معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہیے، فنڈز ہوں یا نہ ہوں اپنے معیار کو کم نہیں ہونے دینا، ہم نے شوکت خانم اسپتال کے معیار کو کبھی گرنے نہیں دیا۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہر انسان کے رول ماڈلز ہوتے ہیں اور ہر مسلمان کے رول ماڈل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، جن کا کوئی ثانی نہیں، ریاست مدینہ اور سیرت نبوی ﷺ پر تحقیق ہونی چاہیے، مسلمانوں نے برسوں دنیا کی قیادت کی، بدقسمتی سے آج دین ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جن کو اس کی سمجھ ہی نہیں۔ زندگی میں سکون کھونا چاہتے ہیں تو پیسہ بنانا اپنا مقصد بنا لیں، تاریخ اسے یاد رکھتی ہے جو انسانوں کے لئے کچھ کرتا ہے، آج اولیا اللہ کے مزاروں پر لاکھوں لوگ جاتے ہیں۔

وزیر اعظم نے مزید کہا کہ آرایس ایس کا نظریہ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانا ہے۔ قائداعظم آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی سمجھ گئے تھے، پاکستان نہ بنتا تو ہمارے ساتھ وہ ہونا تھا جو آج کشمیر اور ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے، ہر مشکل وقت میں کشمیریوں کے ساتھ ہیں میں نے خود کو کشمیر کے سفیر کا درجہ دیا ہے، کشمیر کے لوگوں سے وعدہ ہے دنیا بھر میں ہر فورم پر کشمیر کا کیس لڑوں گا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ جب میں بور ہوتا ہوں تو ٹی وی پر اپنے مخالفین کو سن لیتا ہوں، لوگ کہتے ہیں آپ یوٹرن کرتے ہیں لیکن یوٹرن کرتے کرتے وزیراعظم بن گیا ہوں، میں اپنے ویژن سے کبھی سمجھوتہ نہیں کرتا، جس دن میں نے ان کو این آر او دیا تو میں اپنے وژن پر سمجھوتہ کرجاؤں گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
منحرف صحافی کو عاصمہ جہانگیر کیوں یاد آئیں؟
27/08/2019 وجاہت مسعود


درویش بے نشاں کو ادارہ ’جنگ‘ کے پیشہ ورانہ بندوبست کی بدولت اور عملہ ادارت کے ذمہ دار ارکان کی شفقت کے طفیل آپ جیسے نکتہ رس پڑھنے والوں تک رسائی کا موقع ملا۔ ہفتے میں دو بار اس نعمت سے استفادہ کرتے آٹھ برس گزر گئے۔ درویش کی قلم کاری کی مدت تیس برس سے کچھ زیادہ ہے۔ طبعاً عقب نشین ہوں اس لئے کہ حاشیہ نشینی کا ذوق نہیں۔ اس دوران مختلف چھوٹے بڑے اداروں سے واسطہ رہا۔ جنگ ایک موقر اخبار ہی نہیں، اسے ملک کا سب سے کثیر الاشاعت اخبار ہونے کی سند پر 63 برس مکمل ہو چکے۔ اس اخبار کے ادارتی صفحے پر خامہ فرسائی کا موقع ملا تو خوشی سے زیادہ ذمہ داری کا احساس ہوا۔ شان خدا ہے آج زمانہ آیا ہم بے ہنروں کا، ورنہ اس اک ایک شہر میں کیا کیا اہل کمال ہوئے۔ زندگی کے اس احسان کی شکر گزاری میں عہد کیا کہ جہاں تک ممکن ہوا، اپنی محدود فہم کی حد تک دیانت سے لکھیں گے۔

اتفاق دیکھیے۔ اس موقر اخبار پر جو ایک مدت سے اقتدار کے عزائم کی بازگشت سمجھا جاتا تھا، اچانک پیغمبری وقت آن پڑا۔ آزمائش ابھی ختم نہیں ہوئی۔ طاقت اور اختیار کی ان غلام گردشوں سے بندگان خاک نشیں کو کیا نسبت ہونا تھی۔ مختصر یہ کہ اخبار نے درویش کی ملفوف سرکشی کا بوجھ اٹھائے رکھا اور قلم کار نے کسی قدر احتیاط کی روش سیکھ لی۔ اس کیفیت کو ہم عصر اردو شاعر اعجاز گل نے کس نفاست سے باندھا ہے، رات نے خواب سے وابستہ رفاقت کے عوض / راستہ بند رکھا دن کی نموداری کا۔ گزشتہ دنوں پہلی بار ایسا ہوا کہ یکے بعد دیگرے دو مرتبہ کالم نہیں لکھا گیا۔ سبب یہ کہ باہر واقعات کی یورش تھی اور اندر کا موسم دگرگوں تھا۔ قلم کا خیال سے ربط نہیں ہو پایا۔ آج اسی کیفیت کا کچھ بیان ہو جائے۔

بھارت نے ریاست جموں کشمیر سے متعلقہ آئینی بندوبست میں یک طرف تبدیلی کر کے کشمیر تنازع کا تناظر تبدیل کر دیا۔ خطے میں کشیدگی پیدا ہونا ناگزیر تھا اور ایسا ہی ہوا۔ ریاست کا دیوہیکل درندہ اپنے حجم اور طاقت کی بدمستی میں پہلو بدلتا ہے تو بہت سی گھاس کچلی جاتی ہے۔ 24 روز سے کشمیر کے چپے چپے پر بندوق کا پہرا ہے، گھروں کے دروازے بند ہیں، راستے سنسان ہیں، ایک کروڑ انسان بھوک، پیاس، بیماری، بے بسی اور اہانت کی آزمائش سے دوچار ہیں۔ ہمارے ہاں شعلہ بیانی کی مشق جاری ہے۔ کسی عملی اقدام کے راستے مسدود نہیں تو محدود ضرور ہیں۔ ضمیر عالم حسب توقع غنودگی میں ہے۔ مسلم امہ کے غول بیابانی کی حقیقت کھل چکی۔ ایک صفحے پر قائم حکومت نے سیاسی اختلاف کے خط تنصیف کے دوسری طرف واقع سیاسی اثاثوں سے بدستور بے اعتنائی اختیار کر رکھی ہے۔ نتیجہ یہ کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس قومی یکسوئی کا استعارہ بننے کی بجائے جگ ہنسائی کا اشارہ بن گیا۔

افواج کے سپہ سالار کو خطے میں سلامتی کی صورت حال کے پیش نظر تین برس کی توسیع دے دی گئی۔ اکبر الہ آبادی نے انگلش اور جرمن فوجوں میں فتح اور پیش قدمی کے تقابل پر ایک بولتا ہوا مصرع کہہ رکھا ہے، جسے دہرانے کا یارا نہیں۔ بھٹو شہید بھارت کی توسیع پسندی کی شدومد سے مذمت کیا کرتے تھے۔ اب کھلا کہ بھٹو صاحب نے شاید مجید امجد کی نظم ’توسیع شہر‘ پڑھ رکھی تھی۔ بیس ہزار میں کٹ گئے سارے ہرے بھرے اشجار۔

تیسرا محاذ قانون کی عملداری اور احتساب کا ہے۔ بندی خانوں میں رونق ہے۔ احتساب کے قوانین میں ترمیم کر کے انتظامی اہل کاروں کی تالیف قلب کا غلغلہ ہے۔ ہم نے اس ملک میں دہشت گردی کی اصطلاح پامال کی، جمہوریت کو نئے معنی پہنائے اور اب احتساب کا مردہ خراب کرنے پر کمر باندھی ہے۔ مشکل مگر یہ ہے کہ انصاف کی کرسی کے فیصلوں میں بے یقینی بڑھ جائے تو کتاب قانون مبسوط نہیں رہتی۔ مہذب قوموں میں حرف قانون کی تشریح واضح ہوتی ہے چنانچہ دلیل کی روشنی میں قانونی فیصلے کی پیش بینی کی جا سکتی ہے۔ دوسری طرف انتخاب عوام کے ووٹوں سے طے پاتا ہے چنانچہ انتخاب کا فیصلہ پہلے سے معلوم نہیں ہوتا۔ ہم نے یہ ترتیب بدل دی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اسی طرح انصاف کی دہلیز پر کھڑے ہیں جیسے 13 مارچ 2007 ءکی صبح افتخار محمد چوہدری نے کمرہ نمبر ایک کے دروازے پر دستک دی تھی۔ دیگر تفصیل وقت کے بیجوں پر لکھی ہے۔ سامنے کا منظر البتہ یہ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر نے اپنے ادارے کے لئے دو نئے نامزد ارکان کو حلف اٹھوانے سے انکار کر دیا ہے۔

چوتھے کھونٹ پر معیشت کا سود و زیاں دھرا ہے۔ ملکی معیشت کے کارپردازوں نے وزیر اعظم کو بتایا ہے کہ بجٹ کا خسارہ تخمینے سے 700 ارب روپے بڑھ گیا۔ اس جانگداز بحران سے نکلنے کے دو راستے تجویزکیے گئے ہیں، عوام پر ٹیکس بڑھایا جائے یا 900 ارب روپے پر سسکتے ترقیاتی بجٹ میں مزید کٹوتی کی جائے۔ ایک تیسرا غیرترقیاتی راستہ بھی موجود تھا لیکن وسیع تر قومی مفاد میں اس طرف نظر نہیں گئی۔ وزیر اعظم نے معاشی مشیروں کو مختصر مدتی اقدامات کا حکم دیا ہے۔ صاحبزادہ یعقوب علی خان ایسے موقع پر فرمایا کرتے تھے، ’ہم اچھے دنوں کی امید پر ہی زندہ رہ سکتے ہیں‘ ۔ یعقوب علی خان قومی خسارے کا سودا کرنے کی بجائے منصب چھوڑنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ ہمارے ایک مدبر عبدالرب نشتر اپنی خطا یوں بیان کرتے تھے، ’کہ ہم سے قافلے منزل پہ لٹوائے نہیں جاتے‘ ۔ جسٹس رستم کیانی فرماتے تھے کہ اگر بنیادی حقوق واقعی بنیادی ہیں تو انہیں کھو کر کیا ہم اپنی بنیادیں نہیں کھود رہے؟

ہم نے ایک مدبر، ایک سالار اور ایک منصف کو یاد کیا، اب رہا منحرف صحافی، تو وہ غریب مرحومہ عاصمہ جہانگیر کو یاد کرتا ہے۔ فروری 2018 میں خاموش ہونے والی یہ آواز آج زندہ ہوتی تو راست گوئی کے اس پیکر سے کیا صدا آتی؟ ایران میں 32 سالہ خاتون صحافی مرضیہ امیری کو دس برس قید اور 184 کوڑوں کی سزا سنائی گئی ہے۔ جمال خشوگی اور مرضیہ امیری درس دیتے ہیں کہ انحراف قومی مفاد سے غداری نہیں، ضمیر کی اعلیٰ ترین ذمہ داری اٹھانے کا منصب ہے۔ یہ اعزاز اپنی قیمت چکانے والوں کا منتظر ہے مگر ہمارے ہاتھ خالی ہیں۔

اپنے خوابوں سے در و بام سجانے والے
داد دیتا ہوں تری بے سروسامانی کی
 

جاسم محمد

محفلین
میئر کراچی نے چند گھنٹوں میں ہی مصطفیٰ کمال کو معطل کردیا
ویب ڈیسک منگل 27 اگست 2019
1790496-kamal-1566891501-173-640x480.jpg

مصطفیٰ کمال کو بد تمیزی پر معطل کیا یہ کام کے بجائے سیاست چمکا رہے ہیں، وسیم اختر۔ فوٹو : فائل


کراچی: میئر کراچی وسیم اختر نے چند ہی گھنٹوں بعد مصطفیٰ کمال کو پروجیکٹ ڈائریکٹر گاربیج کے عہدے سے معطل کردیا ہے۔

میئر کراچی وسیم اختر نے مصطفیٰ کمال کو پروجیکٹ ڈائریکٹر گاربیج کے عہدے سے چند ہی گھنٹوں کے بعد معطل کردیا ہے، وسیم اختر نے مصطفیٰ کمال کو کل ہی پروجیکٹ ڈائریکٹر گاربیج مقرر کیا تھا۔

میئر کراچی وسیم اختر کا کہنا ہے کہ مصطفیٰ کمال کو بد تمیزی پر معطل کیا یہ کام کے بجائے سیاست چمکا رہے ہیں، کراچی کے حالات کے بارے میں سب جانتے ہیں، بڑی نیک نتی سے کراچی کے مسائل کو حل کرنا چاہتا ہوں، میں کراچی کی مدد کے لئے علی زیدی اور بحریہ ٹاؤن کے ساتھ کھڑا رہا، جو جو کراچی کی مدد کرسکتا تھا ان سب سے رابطہ کیا۔

میئر کراچی کا کہنا تھا کہ مصطفیٰ کمال نے کہا کہ میئر کے اختیارات کچرا اٹھانے کے مجھے دیے جائیں، میں نے تمام اختلاف کے باوجود ان کی بات پر لبیک کہا، میری مخلصی سے غلط فائدہ اٹھایا گیا، آپ نے سیاست چمکانا شروع کردی، آپ نے ریلی نکالی، مغلظات بکنا شروع کردیں۔

مصطفیٰ کمال کا موقف

دوسری جانب مصطفیٰ کمال نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ کراچی اور اس کے شہریوں سے پیار کرتا ہوں، میں نے انا کا مسئلہ نہیں بنایا، میئر کراچی نے کل میری پروجیکٹ ڈائریکٹر کی تقرری کا نوٹی فکیشن جاری کیا، میں نے میئر کے آرڈر کو تسلیم کر کے اپنی پوزیشن سنبھال لی۔ کراچی کےلیے اس سے نچلا عہدہ بھی ملے تیار ہوں۔

مصطفیٰ کمال نے کہا کہ کراچی کو اجاڑ دیا گیا ہے، کراچی کے 6 میں سے 4 اضلاع کے اختیارات مجھے دیے گئے تھے، میں نے کہا تھا دن رات کام کریں گے کیونکہ ایمرجنسی ہے، اعلان کے بعد ایم کیوایم ارکان سمیت تمام شعبوں کے افراد نے کہا کہ ہم کام کریں گے۔ صفائی کے معاملے پرآپ کے ساتھ ہیں، میں نے کہا پہلے دیئے گئے اختیارات کا استعمال کرنا ہے۔

سربراہ پی ایس پی نے کہا کہ پوری دنیا کے سامنے میئر کراچی کو باس تسلیم کیا، کراچی کے جو مسائل ہیں اس میں رات میں سونا حرام ہے، میں نے کہا آخری مہینے میں خاکروبوں کو دی گئی تنخواہ اور اخراجات کا حساب لائیں، چند گھنٹوں میں ہی میئر نے میری تقرری کا آرڈر منسوخ کردیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ارباب اختیار شریف خاندان سے رابطہ کرکے معافی مانگ رہے ہیں کہ زیادتی ہو گئی ۔۔۔ : حامد میر
01/09/2019 نیوز ڈیسک



سینئر صحافی حامد میر نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے ارباب اختیار شریف خاندان سے زیادتیوں پر معافی مانگ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ کچھ وقت میں سب ٹھیک کردیا جائے گا۔ موجودہ حکومت کشمیر کے مسئلے کی آڑ میں زیادہ دیر نہیں بچ پائے گی اور اگلے تین ماہ میں بڑی تبدیلی کا امکان ہے۔

نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ ان کی شریف خاندان کے بعض افراد سے ملاقاتیں ہوئی ہیں جنہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے ارباب اختیار ان سے رابطے کرکے معذرت کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ان سے زیادتی ہوگئی ہے، انہیں کچھ وقت دے دیا جائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔

حامد میر کا کہنا تھا کہ مولانا فضل لرحمان حکومت کو کوئی رعایت نہیں دینا چاہتے اور وہ ہر حال میں لانگ مارچ کریں گے۔ حکومت کشمیر کے معاملے کی وجہ سے اب تک بچی ہوئی ہے لیکن یہ تحفظ زیادہ دیر تک حاصل نہیں رہے گا اور اگلے تین ماہ میں بڑی تبدیلی کا امکان ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
حکومت اور فوج کا ایک ہونا کافی نہیں‎
31/08/2019 انیق ناجی

عجیب نعرہ ہے کہ حکومت اور فوج ایک صفحے پر ہیں لہذا ترقی کے لئے تیار ہو جائیں۔ جنگی ماحول بن رہا ہے تو کیا ہوا، حکومت اور فوج ایک صفحے پر ہیں۔ بھارت کشمیر ہڑپ کر رہا ہے، مت گھبرائیں، حکومت اور فوج ایک صفحے پر ہیں۔ او بھائی، حکومت اور فوج نہیں، قوم اور فوج کو ایک صفحے پر ہونا چاہئیے۔ حکومت تو محض ایک سیاسی پارٹی کی نمائندگی کر تی ہے، بائیس کروڑ کے ملک میں ڈیڑھ کروڑ ووٹ سے بھی کم ووٹ لینے والی پارٹی، فوج کو کیا طاقت دے گی، زیادہ سے زیادہ اپنا حلقہ اثر یا ووٹر اور بس۔ یا تمام سیاسی قیادت کو جنگ کے خطرے کے پیش نظر اپنے حلقہ اثر سمیت فوج کے ساتھ کھڑا ہونا ہے؟ اور صرف قوم نے فوج کے ساتھ نہیں، فوج نے بھی قوم کے ساتھ کھڑے ہونا ہے۔ یہ قومی مسائل ہیں، قومی ہنر اور ذہانت مانگتے ہیں۔ چند بنیادی اصولوں پر “ہم ایک ہیں” کا گانا گانے سے کوئی نہیں مانے گا کہ ہم واقعی ایک ہیں۔

تکبر کے بارےمیں اس سے زیادہ کچھ کہنا بے کار ہے کہ یہ جہالت ہے۔ جہالت کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی لاعلم ہو بلکہ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ حق اور سچائی سامنے آنے اور اس کو سمجھنے کے باوجود اس وجہ سےماننے سے انکار کر دینا کہ انا مجروح ہو جائے گی۔ ہم میں کون اپنی موت کا وقت اور وجہ جانتا ہے؟ کون ہے جو آنے والی صبح کی ضمانت دے پائے کہ وہ زندہ یا صحت مند رہے گا۔ کون نہیں جانتا کہ ہمیشہ رہنے والی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ پھر بھی، طاقت، حسن یا دولت پر گھمنڈ محض جہالت نہیں تو اور کیا ہے۔ قومی معاملات جن سے سب کی زندگی،موت، خوشحالی یا بد حالی جڑی ہو، وہ کسی ایک پارٹی پر کس طرح چھوڑے جا سکتے ہیں، اگر یہ ہی مطلوب ہو تو آمریت کیا بری ہے؟ کشمیر جیسا سلگتا ہوا نازک ایشو بھی اگر بر سر اقتدار پارٹی کو سیاسی حرکیات یا حقیقت دکھانے سے قاصر ہے تو پھر جان لیں کہ دور دور تک ایسا ہونے کا کوئی امکان باقی نہیں۔ کشمیر کا نام کے کر آدھا گھنٹہ کھڑے رہنے کو ہی کافی جاننے والوں کو کیا کہوں، صرف اتنا عرض کرتا ہوں کہ اگر اس احتجاج میں تمام سیاسی قیادت اکھٹی ہوتی تو پھر قومی پیغام بھی جاتا، کل جو پیغام گیا وہ زیادہ سے زیادہ برسراقتدار پارٹی یا ان کے حامی حلقوں کی جانب سے تھا اور بس۔

لیکن کیا کریں کہ دنیا بھر میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے خاموش انقلاب نے پرانے سیاسی ڈھانچوں اور روایتوں کو اس بری طرح روندا ہے کہ اب یہاں حیرت کیسی۔ کون سوچ سکتا تھا کہ برطانوی وزیر اعظم اپنی پارلیمنٹ کو معطل کر دے گا۔ کسے خبر تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کا صدر بنے گا اور اپنے ہی ملک کا تماشا بنا ڈالے گا۔ بھارت میں مودی دوبارہ برسر اقتدار آئے گا اور کشمیری قوم، بھارتی سماج کے لئے ایک بھنا مرغ بن جائے گی۔ مگر یہ ہوا اور ہو رہا ہے۔ آگے بھی ایسی ہی توقعات رکھیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ قدرت کے قوانین میں تبدیلی آ چکی ہے، تاریخ اپنی جگہ اٹل کھڑی ہے اور بتا رہی ہے کہ دیوانگی کا ایک انجام ضرور ہوتا ہے۔ جہالت کی قیمت بہرحال دینی ہوتی ہے اس سے بچت ممکن نہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اپنے ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے بھی ہم نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں، کون سا وہ تجربہ رہ گیا ہے جو ہم نے چھوڑا ہو؟ صالحین کی حکومت، منتخب، غیر منتخب، ملی جلی، سب تجربوں کا انجام سامنے ہے پھر بھی ہم کچھ سیکھنے کو تیار نہیں۔

چار موسم ہوں یا انتہائی اہمیت کے حامل راستے، قدرتی حسن کے شاہکار خطے ہوں یا زراعت کے لئے شاندار زمینیں۔ یہ سب قدرت کے انعام ایک غافل قوم کے لئے بے معنی ہیں جس کی مثال ہم خود ہیں کہ قدرت کی بے مثال مہربانیاں سب مل کر بھی بہتر سال میں خوشحال تو کیا، ایک مڈل کلاس معاشرہ بھی نہ دے سکیں اور نہ ہی آئندہ کچھ دے پائیں گی۔ سب سے ضروری کام اپنی نسلوں کی تربیت ہے، اس کی تعلیم ہے کیا یہ سمجھنا اتنا مشکل ہے کہ ہم سمجھ کر نہیں دے رہے۔ واقعی یہ سمجھنا مشکل ہے ہم نے تو عمل سے ایسا ہی ثابت کیا ہے۔ ایک لڑی میں پروئی قوم، تعلیم یافتہ قوم تو جنگل میں منگل بنا دیتی ہے۔ صحراؤں اور سخت موسموں سے لڑ کے فصلیں اگا ڈالتی ہے، زلزلوں کی سر زمین پر رہتے جاپانی قوم نے کیا بلندو بالا عمارتیں نہیں بنائیں؟ اسرائیل کس طرح فصلیں اگا رہا ہے اور پانی کی بچت کرتا ہے؟

مگر ظاہر ہے یہ ہمارا مسلہ ہی نہیں۔ ہم فلک شگاف نعرے لگانے میں مشغول ہیں۔

میرا گمان ہے کہ کشمیر کا مسلہ تو اب حل ہو گا، اس وقت ہم کشمیری عوام کی بہترین مدد اتنی ہی کرنے کے قابل ہیں کہ ہم ان پر ہونے والے مظالم کو کم یا ختم کروا سکیں، اگر ہم آج بھی لائین آف کنٹرول کو بین الاقوامی سرحد ماننے کی پیشکش کر کے مقبوضہ کشمیر کا پرانا سٹیٹس بحال کروا سکتے ہیں تو ہمیں ایسا کر گزرنا چائیے۔ جس کے بعد امن اور خوشحالی کی امید کی جاسکتی ہے مگر یہ فیصلہ یا کوئی اور قابل عمل حل تجویز کرنے اور منوانے کے لئے جس قومی یک جہتی کی ضرورت ہے وہ یہاں اس وقت نظر نہیں آتی۔ کیا ہماری وجہ سے ہمارے دشمن رک جائیں گے یا اس کا فائدہ اٹھائیں گے؟ اور فائدہ اٹھائیں گے بھی کیا، اٹھا رہے ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی کی کامیابی کا جادو ایک مرتبہ پھر مڈل ایسٹ کے عرب ممالک میں جلوہ گر ہو رہا ہے، مطلب یہ کہ ہم جس رستے پر چلے یہ اس کا انجام یا نتیجہ ہے۔ اور ہم اس سے کیا سیکھ رہے ہیں، یہ کہ عرب ممالک ہی غدار نکلے، یا ہم سے کچھ غلط ہو ا ہے؟ اگر غلط ہوا ہے تو کیا؟

وقت نہیں کہ قومی قیادت مل بیٹھے اور ایک مرتبہ طے تو کرے کہ ہم کہاں کہاں غلط ٹھہرے جس کے انجام سے آج دوچار ہیں۔ کیوں ہمارے ملک کا پاسپورٹ دیکھتے ہی باقی دنیا کی تیوریاں چڑھ جاتی ہیں۔ کسی بھی ملک کی بنیادی دستاویز اس کا آئین ہوتا ہے، ہم نے آدھا ملک گنوا دیا پھر کہیں جا کر آئین بنانے پر تیار ہوئے، یہ وہ وقت تھا کہ بحیثیت قوم ہم ان راستوں پر چلنے سے توبہ کر ڈالتے جن پر چل کر ہمارے غرور کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا تھا،مگر نہیں۔ پہلے بھٹو صاحب کی سول آمریت چڑھی اور پھر باقاعدہ آمریت آ گئی۔ وہ وقت اور آج کا دن، نہ تو یہاں آئین کو عزت ملی نہ ہی اس کو توڑنے والوں کو سزا ملی۔ نتیجہ آج کی ہماری وہ شکل ہے جو ہمارے علاوہ باقی تمام دنیا کو نظر آتی ہے۔ ہم اپنے جائز حقوق سے محروم اور ہمارا ملک دنیا میں اس عزت سے محروم جس کا وہ مستحق ہے۔

ایک خاندان کو کس طرح رہنا چائیے اس کے بنیادی اصولوں پر تمام دنیا، بلا تفریق مذہب و رواج، اتنا تو متفق ہے نا کہ والدین کا احترام ہو نا چائیے۔ باہر کی مصیبت آنے پر، آپس کے جھگڑے ایک طرف رکھ کے ایک دوسرے کا ساتھ دینا چائیے۔ ایک دوسرے کی عزت کرنی چائیے وغیرہ۔ یہ بنیادی اصول اگر کسی خاندان میں نہ پائے جاتے ہوں، مثلآ، والدین کا احترام نہ ہو، اولاد پر ظلم و زیادتی ہو، اخلاقی اقدار نام کو نہ ہوں۔ محلے میں سب اس خاندان کے آپس میں جھگڑوں کی شکایت کرتے ہوں تو آپ ایسے خاندان میں رشتہ کرنے یا میل جول سے کترائیں گے نا؟ تو پھر باقی دنیا ہم ایسوں کی عزت کیوں کرے؟

ہم آئین نہ بنا سکے، آدھا ملک گیا۔ جو آئین بنایا اس کو دو ٹکے کا بنا ڈالا، قانون صرف عام آدمی کے لئے، آدھی سے زیادہ آبادی شدید غربت کا شکار، صحت، تعلیم آج بھی کسی ترجیحات کا حصہ نہیں، سڑکوں پر بھیک مانگتے بچے، بوڑھے اور عورتیں۔ دنیا ہمیں کس نظر سے دیکھے، اسی سے نا جس سے دیکھتی ہے۔ پھر کبھی یہودیوں کو الزام، کبھی ہندوؤں کو، کبھی اہل کتاب بھائی بھائی کبھی کافر، ہماری نفرت کا تازہ شکار عرب ٹھہرے ہیں اب ہم تمام سازشوں کا ذمہ ان پر ڈال دیں گے۔ کسے فرصت کہ رک کے دیکھ تو لے کہ ہمارا چال چلن کیا رہا اور کیا ہے۔

شادیانے بجانے والوں پر غور کریں کہ جب وہ کہتے ہیں کہ حکومت اور فوج ایک صفحے پر ہیں تو در اصل وہ اپنی ناکامیاں فوج پر ڈال کر ڈرا رہے ہوتے ہیں کہ ڈنڈا ہمارے ساتھ ہے۔ او بھائی یہ ڈنڈا، کب مستقل طور پر کسی سیاسی جماعت کا یا لیڈر کا بنا ہے جو آپ کا بن جائے گا۔ یہ پاکستان کی فوج ہے اور اس کی ہی رہے گی۔ یقین نہیں آتا تو اپنے محبوب پنچ بیگ نواز شریف سے پوچھ لیں، یہ ڈنڈا کبھی معین قریشی یا شوکت عزیز کے ساتھ بھی تھا، آج وہ کہاں ہیں؟ یہ ڈنڈا اپنے ہم وطنوں پر ایک حد تک ہی چلا ہے اور اسی حد تک چلے گا، بات اگے بڑھی تو یہ ڈنڈا، اوپر کی جانب واپس گھومنا اچھی طرح جانتا ہے اور اس کا طویل تجربہ بھی رکھتا ہے۔ لیڈر شپ فوج نے نہیں حکومت کے آئینی وزیراعظم نے دینی ہے، وہ کہاں ہے؟ اگر آپ کے رہنے کا جواز صرف ڈنڈا ہے تو وہ ڈنڈا، آپ کے لئے کب تک چلے گا؟
 

زیک

مسافر
سوچ رہا تھا اسے لطیفوں میں پوسٹ کروں لیکن مسئلہ کافی سنجیدہ ہے


تردید:

گیارہ سال پہلے صدر زرداری نے بھی نو فرسٹ یوز کا ذکر کیا تھا اور فوراً ہی اصل حکمرانوں نے تردید کروا دی تھی۔ آج عمران خان کے ساتھ بھی یہی ہوا۔

پاکستان میں یہی ہوتا رہے گا
 

جاسم محمد

محفلین
گیارہ سال پہلے صدر زرداری نے بھی نو فرسٹ یوز کا ذکر کیا تھا اور فوراً ہی اصل حکمرانوں نے تردید کروا دی تھی۔ آج عمران خان کے ساتھ بھی یہی ہوا۔
پاکستان میں یہی ہوتا رہے گا
تو کٹھ پتلی حکمران ان پالیسیوں پر بات ہی کیوں کرتے ہیں جو ہمیشہ سے پاک فوج کے زیر سایہ چلتی رہی ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
وزیر اعظم پاکستان جناب قمر جاوید باجوہ

فوجی قوت سے زیادہ طاقتور اخلاقی قوت ہوتی ہے، آرمی چیف
ویب ڈیسک منگل 3 ستمبر 2019
1797954-qamarbajwaxxx-1567511299-166-640x480.png

آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی سندھ کے نوجوانوں کے نمائندہ وفد سے گفتگو فوٹو:فائل

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ فوجی قوت سے زیادہ طاقتور اخلاقی قوت ہوتی ہے اور ایمانداری سے اپنا جائزہ نہیں لیں گے تو کوئی ہماری مدد نہیں کرے گا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق سندھ کے نوجوانوں کے نمائندہ وفد نے آئی ایس پی آر کا دورہ کیا جہاں آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے ان سے گفتگو کی۔

آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے کہا کہ سندھ پاکستان کی جان ہے اور ملک بنانے میں سندھ نے اہم کردار ادا کیا، ہم نے ملک کو وہاں لے جانا ہے جو اس کا حق بنتا ہے، اگر ہم ایمان داری سے اپنا جائزہ نہیں لیں گے تو کوئی اور ہماری مدد نہیں کرے گا، ہم نے پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے تو میرٹ کی بنیاد پر کام کرنا ہوگا۔

جنرل قمرجاوید باجوہ نے کہا کہ کوئی مذہب دوسروں کا حق مارنے کی اجازت نہیں دیتا اور فوجی قوت سے زیادہ طاقتور اخلاقی قوت ہوتی ہے، ہم نے کراچی کو دہشت گردوں سے آزاد کرایا، پاکستان کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے اور نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے۔

آرمی چیف نے مزید کہا کہ نوجوانوں نے پاکستان کی قیادت کے لئے ترجیحات طے کرنی ہیں اور بطور لیڈر پاکستان کی سمت کاتعین کرنا ہے، ہماری مائیں ایسی ہیں جو ملک پر جان نچھاور کرنے والے بچے پیدا کرتی ہیں اور ہمارے جوان ایسے ہیں کہ پسینہ مانگتا ہوں تو وہ خون دیتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
کبھی بھی ڈیل نہیں کروں گا بلکہ قانونی جنگ لڑوں گا، نواز شریف
ویب ڈیسک جمعرات 5 ستمبر 2019
1800139-nawazsharif-1567679512-981-640x480.jpg

ہمیں این آر او کا طعنہ دینے والے بہت جلد عوام سے این آر او مانگیں گے، نواز شریف۔ فوٹو:فائل

لاہور: سابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ کبھی بھی ڈیل نہیں کروں گا بلکہ قانونی جنگ لڑوں گا اور ووٹ کو عزت دو کی بات پر قائم ہوں۔

سنٹرل جیل کوٹ لکھپت میں صدر مسلم لیگ (ن) شہباز شریف نے سابق وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی، شہباز شریف کی 13 اگست کے بعد نواز شریف سے یہ پہلی ملاقات ہے۔ ذرائع کے مطابق ملاقات میں ملکی مجموعی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا اور ممکنہ ڈیل کی خبروں پر شہباز شریف اور نواز شریف میں مکالمہ بھی ہوا۔

ذرائع کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ میں کبھی بھی ڈیل نہیں کروں گا، قانونی جنگ لڑوں گا، ووٹ کو عزت دو کی بات پر قائم ہوں، موجودہ حکومت جلد اپنے انجام کو پہنچنے والی ہے جب کہ ہمیں این آر او کا طعنہ دینے والے بہت جلد عوام سے این آر او مانگیں گے، عوام عمران خان اور ان کی کابینہ کا احتساب کرے گی۔

ذرائع کے مطابق ملاقات میں نواز شریف نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر دنیا کو جاگنا ہوگا، مقبوضہ کشمیر میں بھارت ظلم کر رہا ہے، دنیا آگے بڑھ کر اس مسئلے کو حل کروائے، اس موقع پر نواز شریف نے شہباز شریف کو مولانا فضل الرحمان کے اسلام آباد کے لاک ڈاون میں بھرپور شرکت کی بھی ہدایت کی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف اسی ہفتے رہا ہو سکتے ہیں
09/09/2019 حماد حسن



کیا نواز شریف کی دیو ہیکل سیاسی قوت (خصوصاً پنجاب ) کو اتنی آسانی کے ساتھ نظر انداز کیا جائے اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب وہ اپنی بیٹی سمیت پابند سلاسل ہے، جبکہ پورا خاندان ابتلاء اور آزمائشوں کے سامنے ہے۔ جس نے ہمدردی کی ایک طاقتور لہر کو شریف فیملی کی سمت موڑ دیا ہے۔

پیپلز پارٹی بظاہر قدرے خاموش ہے لیکن پرسکون ہرگز نہیں، آصف زرداری اور فریال تالپور کی گرفتاری اور سندھ حکومت کے ساتھ سوتیلا سلوک انہیں دیوار سے لگا کر ایک توانا جواز فراہم کر چکی ہے اسی لئے بلاول جب بھی میڈیا کے سامنے آئے تو اس کے لہجے کی آتش فشانی مستقبل کے منظرنامے میں پیپلزپارٹی کے کردار کو واضح کرتی ہے۔

اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی کی پراسرار ”گمشدگی“ گو کہ بہت حیرت انگیز ہے لیکن اس جماعت کی سیاسی مزاج سے واقف لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ نقارہُ جنگ بجے تو قیادت چاہے بھی تو خود کو تپتے ہوئے سیاسی منظر نامے سے الگ نہیں کر سکتی کیونکہ اس طرح کرنا ان کے لئے حددرجہ غیر فطری عمل ہوگا اور اس پر اے این پی کی بقاء وفنا کا انحصار ہے۔

سو ہم ایک سہولت کے ساتھ تجزیہ کر سکتے ہیں کہ اس جماعت کی سخت جان کارکنوں کا رُخ کس سمت کو ہوگا۔

یہی صورتحال تقریباً محمود خان اچکزئی اور اس کی جماعت کی بھی ہے، البتہ جماعت اسلامی کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی لیکن یہ تلخ حقیقت بہر حال موجود ہے، کہ جماعت اسلامی سیاسی حوالی سے اب نہ اہم رہی اور نہ ہی قابل اعتماد۔

اب آتے ہیں مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے کی جانب

مولانا کو دو حوالوں سے پاکستانی سیاست میں ہمیشہ برتری حاصل رہی ایک یہ کہ وہ موجودہ سیاسی قیادتوں کی لاٹ میں سب سے زیرک اور معاملہ فہم سیاستدان ہیں اور دوم یہ کہ ان کے کارکن ان کے حکم کو سیاسی معاملات سے الگ ایک گہری عقیدت کے ساتھ برتتے ہیں، یہ کارکن مخصوص مذہبی ماحول کا گہرا اثر لئے ہوتے ہیں اس لئے وہ ہر معاملے کو مذہبی نقطہ نگاہ سے دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں اور رد عمل بھی اسی ماحول کے زیر اثر رہ کر دکھاتے ہیں

اسی لئے یہ جو مولانا فضل الرحمٰن بار بار یہود اور قادیانیوں کا ذکر کرنے لگے ہیں تو یہ دراصل اپنے کارکنوں کو ایک مخصوص جذباتی ایندھن فراہم کرنے لگے ہیں تاکہ وہ ایک جہادی جذبے کے ساتھ نہ صرف احتجاج کا حصہ بنیں بلکہ مشکل صورتحال کو دماغ کی بجائے دل سے برتنے لگیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ موجودہ حکومت شدید ترین ناکامیوں سے دوچار ہے جس کی وجہ سے معیشت بیٹھ گئی ہے جس کا اثر اس ملک کے ہر باشندے پر پڑا جس کی وجہ سے منطقی طور پر ایک طاقتور عوامی رد عمل ابھرا۔

دوسری طرف وزیراعظم عمران خان کی متضاد شخصیت اور روئیے نے جلتی پر تیل کا کام کیا جبکہ کشمیر کی موجودہ صورتحال نے اخلاقی طور پر موجودہ حکومت کو بھی بہت پیچھے کی طرف دھکیل دیا ہے۔ یہ تمام عوامل مل کر اپوزیشن جماعتوں کو منطقی طور پر ایک طاقتور عوامی تحریک کی طرف لے جا رہی ہے۔ اور یہ تحریک اگلے چند ہفتوں میں سڑکوں پر نمودار ہونے کو ہے۔ لیکن اس سے پہلے ہم دیکھ رہے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کی قیادت خصوصا مولانا فضل الرحمان کا رویہ ”خطرناک حد تک“ غیر لچکدار اور جارحانہ ہوتا جا رہا ہے حتی کہ انہوں نے کچھ غیر روایتی آور قدرے اجنبی سوالات بھی اٹھانا شروع کر دیے جبکہ سب سے طاقتور سیاسی حجم رکھنے والے نواز شریف بھی فطری طور پر مولانا کے عقب میں کھڑے نظر آ رہے ہیں کیونکہ نواز شریف نے جیل سے پارٹی کارکنوں کو دھرنے کی حمایت کا واضح پیغام دیا ہے۔ ساتھ ساتھ انہوں نے آب کے بار یہ معاملات جاوید ہاشمی جیسے جی دار اور جارح مزاج سیاستدان کو سونپ دینے ہیں۔ مولانا کی خطرناک بیان بازی اور جاوید ہاشمی کی نئی ذمہ داریوں کو سیاسی پنڈت ایک ہی تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔

آب اگر اکتوبر میں مولانا اسلام آباد کا رخ کریں گے تو گلی گلی میں موجود مذہبی مدارس سے ایک جم غفیر نے برآمد ہونا ہی ہے جس کی زیادہ تعداد خیبر پختون خواہ آور بلوچستان میں ہے لیکن اس دوران نواز شریف حسب توقع پنجاب کو بھی اشارہ دے گیا تو صورتحال خوفناک حد تک گھمبیر ہوتی جائے گی اور پھر دوسری اپوزیشن جماعتوں کے لئے خاموش رہنا بھی تقریبا ناممکن ہوتا جائے گا۔ اس لئے اگلے چند ہفتے انتہائی اہم ہیں کیونکہ سیاسی طور پرطاقتو ر لیکن ڈٹا ہوا نواز شریف اپوزیشن سیاست کو پہلے ہی غیر روایتی رخ پر لے کر گیا ہے جبکہ عوامی بے چینی بھی اپنی انتہا کو چھو رہی ہے اور یہ دونوں عوامل مل کر سیاست کا حیرت انگیز لیکن خوفناک سمت متعین کر سکتی ہے۔
تازہ ترین یہ کہ نواز شریف اسی ہفتے نہ صرف رہا ہو سکتے ہیں بلکہ بہت سے معاملات متضاد سمت میں مڑنے کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
تھوڑا سا صبر اور !
ارشاد بھٹی

بدھ کی سہ پہر جب میں وزیراعظم سیکرٹریٹ میں داخل ہو رہا تھا ٹھیک انہی لمحوں میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ یکے بعد دیگرے نور خان ایئر بیس چکلالہ پر لینڈ کر چکے تھے، وزیراعظم سیکرٹریٹ میں رش کچھ زیادہ ہی، پارکنگ میں بے حساب گاڑیاں، چوتھے فلور پر گیا، ویٹنگ روم ملاقاتیوں سے بھرا ہوا، پانچویں فلور پر آیا، بیورو کریٹ، وزیر، ارکانِ اسمبلی، کوئی یہاں کھڑا، کوئی وہاں کھڑا، نعیم الحق صاحب کی طرف گیا، کمرہ جمعہ بازار بنا ہوا، وزیراعظم سے ملاقات سوا پانچ بجے تھی، شاید اسی رش کی برکت، ملاقات آدھا گھنٹہ لیٹ ہوئی، وزیراعظم دفتر کے سامنے ویٹنگ روم میں بیٹھا تھا کہ پتا چلا ٹیکس خوروں کو 3ارب ٹیکس معافی کا فیصلہ وزیراعظم نے واپس لے لیا، خوشی ہوئی کہ چلو ’دیر آید درست آید‘، پونے چھ بجے وزیراعظم آفس میں داخل ہوا تو سلام دعا کے بعد جب بات شروع یہیں سے کی کہ ٹیکس خور صنعتکاروں کو معافی، فیصلہ واپس، آپ نے اچھا کیا، تو جواباً وزیراعظم نے جو بتایا، حیران کن، مجھے باہر گردش کرتی دو مشیروں، بیورو کریسی، سیٹھ گٹھ جوڑ کہانی سچی لگنے لگی، وزیراعظم کی باتوں سے لگا نہ صرف انہیں بے خبر رکھا گیا بلکہ متعلقہ وزارتوں سے چھپ چھپا کر کابینہ کو بلڈوز کر کے ٹیکس معافی سمری منظور کروائی گئی، وہ تو بھلا ہو فیصل واوڈا، مراد سعید اور ندیم افضل چن کا، جن کے بروقت توجہ دلانے پر وزیراعظم کو پتا چلا کہ یہ وہ نہیں جو مجھے بتایا گیا، یہ معاملہ تو کچھ اور ہی۔

ٹیکس معافی کہانی کے بعد میں نے کہا، سر باقی باتیں بعد میں، پہلے میرے چار سوال، بولے، پوچھو، میں نے کہا، سنا ہے ہم اسرائیل کو تسلیم کر رہے، بیک ڈور بات چیت ہو رہی، وزیراعظم لہجہ تلخ میں بولے، ’’یہ کون لوگ، جو اس قسم کی بیہودہ باتیں پھیلا رہے، ان کو شرم بھی نہیں آتی، یہ سب پروپیگنڈا‘‘، میں نے کہا ’’سنا جا رہا، کشمیر پر سودے بازی ہو چکی‘‘ جواب آیا ’’ویسے تو یہ میرے جیتے جی نہیں، لیکن یہ ہے بھی ناممکن، پاکستان، بھارت، امریکہ مل کر کوئی سمجھوتہ کرنا چاہیں تو بھی یہ ناممکن، کیونکہ جب تک کشمیری قیادت، کشمیری عوام کی مرضی شامل نہیں ہوگی تب تک کوئی کچھ نہیں کر سکتا‘‘، پوچھا ’’سننے میں آ رہا، ہاؤس آف شریفس سے رابطے کئے جا رہے، آئیں سمجھوتہ کر لیں، صلح کر لیں‘‘، عمران خان مسکرائے، سامنے ٹی وی پر لگے انگلینڈ، آسٹریلیا ایشز سیریز ٹیسٹ میچ کو چند لمحوں کیلئے دیکھا اور پھر بہت کچھ بتا کر، اسے آف دی ریکارڈ بتا کر بولے’’جتنا ان کا برا حال ہے، اتنا تو میں نے بھی نہیں سوچا تھا، سب افواہیں شریفوں کے حواری پھیلا رہے، لیکن جان تب چھوٹے گی جب پیسے دیں گے‘‘، میں نے زراری صاحب اینڈ کمپنی کا پوچھا تو وزیراعظم نے یہاں بھی بہت کچھ آف دی ریکارڈ بتا کر کہا ’’تھوڑا سا اور انتظار کر لو‘‘۔میرا اگلا سوال تھا، سر گورننس، معیشت کے مسائل سنگین، کیوں ایسا لگ رہا، جیسے صورتحال آؤٹ آف کنٹرول، عمران خان بولے ’’گورننس کے مسائل ہیں، اسے دیکھ رہا ہوں، سب وزیروں، بیورو کریٹس سے کہہ دیا سال ہوگیا، اب کارکردگی نہیں تو چھٹی ہو جائے گی، جہاں تک معیشت کی بات، یہ معیشت پر فوکس کا سال، ہم مشکل ترین معاشی مسائل سے نکل چکے، اب معیشت روز بروز بہتر ہو گی‘‘، میں نے کہا، یہ تاثر کیوں، آپ کی ٹیم نالائق، کہنے لگے ’’یہ پروپیگنڈا‘‘ میں نے کہا، یہ ٹیم ڈیلیور کر رہی ہے، جواب آیا ’’چیک اینڈ بیلنس سخت کر دیا، تبدیلیاں بھی ہوں گی، اب ڈیلیوری نظرآئے گی‘‘، پوچھا ’’سائیں بزدار تبدیلی کا کوئی امکان‘‘ بولے ’’وہ ایماندار، عاجز، کام کر رہا، تبدیلی کیوں‘‘ میں نے کہا ’’چلو ملک گیر مہنگائی، بے روزگاری کو چھوڑ دیں جو پنجاب کا حال، سائیں بزدار کیا، یاسمین راشد تک نظر نہیں آ رہیں، تعلیم، صحت کا برا حال، وزراء مایوس، بیورو کریسی سازشوں میں لگی ہوئی، پولیس، پٹوار اصلاحات نہ ہو سکیں، ہر ادارے میں سیاسی مداخلت عروج پر، غریب، مڈل کلاس، تاجر، صنعتکار کسی کی کوئی شنوائی نہیں اور آپ کے ہاں سب اچھا‘‘، سب سن کر بولے ’’تم سب شو بازی کے عادی، ڈراموں کے شوقین، اب پنجاب میں ڈرامے نہیں کام ہو رہا، وہ بھی خاموشی سے‘‘، میں نے بات کاٹ کر کہا ’’وہ کام دکھائی کیوں نہیں دے رہا، کیوں لوگ پریشان، کیوں باہر گلیوں، محلوں، بازاروں میں لوگ طنزاً پوچھیں ’’کیسی لگی تبدیلی‘‘، وزیراعظم کہنے لگے ’’ایک تو پہلا سال بنیادی کاموں میں گزرا، ہم سے غلطیاں بھی ہوئیں، پھر دوسرا یہ مسئلہ بھی کہ ہم اپنے اچھے کام بھی لوگوں کو نہیں بتا پائے لیکن تھوڑا سا صبر، اب پرفارمنس دکھائی دے گی‘‘۔اس شام وزیراعظم کی زیادہ تر گفتگو آف دی ریکارڈ تھی، وہ خارجہ محاذ پر ملی کامیابیوں پر مطمئن تھے، وہ اپنی کابینہ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے، وہ اس بات پر خوش تھے کہ کشمیر کے معاملے پر انہوں نے مودی کو دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کیا، وہ بتا رہے تھے، ’’مودی کو میرے اس ردِعمل کی توقع نہیں تھی، مودی کا خیال تھا کہ سابقہ پاکستانی حکمرانوں کی طرح عمران خان کا رویہ بھی معذرت خواہانہ ہوگا مگر میں نے جس طرح ہٹلر سے تشبیہ دے کر اس کے فاشزم کو دنیا کے سامنے ایکسپوز کیا وہ ڈپریشن میں چلا گیا اور اسی فرسٹریشن میں اس نے ٹرمپ کو میری شکایت لگا دی‘‘۔اس شام وزیراعظم سے مل کر جب میں وزیراعظم سیکرٹریٹ کے ایک گیٹ سے نکل رہا تھا تو ٹھیک اسی وقت دوسرے گیٹ سے متحدہ عرب امارات، سعودی عرب کے وزرائے خارجہ کی گاڑیوں کا قافلہ وزیراعظم سیکرٹریٹ میں داخل ہو رہا تھا، واپس جاتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ جیسے عوامی مسائل پر وزیراعظم کو مکمل حقائق کا علم نہیں، ویسے ہی عثمان بزدار کے حوالے سے وہ مسلسل خوش فہمی کا شکار، سال ہوگیا، وزیراعظم ابھی تک بزدار صاحب کی ایمانداری سے آگے نہ بڑھ پائے، بلاشبہ حکمران کا ایماندار ہونا اچھی بات، مگر کیا کسی حکمران کا صرف ایماندار ہونا ہی کافی، کیا سائیں بزدار کی ایک سالہ ایمانداری ایسی ہے کہ تعریف کی جا سکے، میں سوچ رہا تھا کہ کیا عمران خان صرف اس خوبی پر کہ سائیں بزدار ایماندار، انہیں شوکت خانم یا نمل یونیورسٹی کا سربراہ بنا سکتے ہیں، یقیناً نہیں... تو پھر فرانس سے بڑے پنجاب، آدھے پاکستان کو پرفارمنس لیس ایمانداری کی بھینٹ چڑھا دینا کہاں کی عقلمندی۔
 

جاسم محمد

محفلین
وفاق کا کراچی میں سیوریج و کچرے کے مسائل پر براہ راست مداخلت کا فیصلہ
اسٹاف رپورٹر 38 منٹ پہلے
1804240-imrankhanandkarachikakachra-1568054628-142-640x480.jpg

کراچی میں وفاق کے براہ راست کردار میں حائل قانونی رکاوٹیں دور کرنے کے لیے بیرسٹر فروغ نسیم کو ٹاسک دے دیا گیا (فوٹو: فائل)

کراچی: وفاقی حکومت نے کراچی میں کچرا، سیوریج اور دیگر سنگین مسائل کے سدباب کے لیے براہ راست مداخلت کا فیصلہ کیا ہے، ترقیاتی کام وفاقی ادارے اپنی نگرانی میں کرائیں گے جس کے لیے عمران خان 14 ستمبر کو کراچی کا دورہ کریں گے۔

ایکسپریس کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے ملک کی معاشی شہ رگ کراچی میں سنگین انتظامی بحران اور عوامی مسائل پر براہ راست اقدامات کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت نے کراچی میں صوبائی اور بلدیاتی حکومتوں کو شامل کیے بغیر اپنی نگرانی میں اور وفاقی اداروں کے ماتحت منصوبوں کا آغاز اور فنڈز کے اجرا پر غور شروع کردیا ہے۔

اس ضمن میں قانونی و سیاسی پیچیدگیوں کو دور کرنے کے لیے وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کی سربراہی میں قائم کمیٹی کو ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ کراچی میں وفاقی حکومت کے براہ راست کردار کے لیے قانونی راستہ تلاش کریں۔

وزیراعظم عمران خان نے بھی کراچی میں کچرا سیاست اور دیگر مسائل کی سنگینی کا نوٹس لیتے ہوئے خود کراچی آکر صورتحال کے جائزے کا فیصلہ کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان 14 ستمبر کو ایک روزہ دورے پر کراچی آئیں گے اور وزیراعظم کے دورے کا ون پوائنٹ ایجنڈا کراچی ہے۔ وفاقی حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ وزیر اعظم کے مجوزہ دورہ کراچی اور وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کی سربراہی میں قائم کمیٹی کی سفارشات کے بعد وفاقی حکومت کراچی کے امور کے حوالے سے اہم فیصلوں کا اعلان کرے گی۔

ایک روز قبل وزیراعظم عمران خان نے کراچی میں وزیر بحری امور علی زیدی کے زیر نگرانی صفائی مہم کو جاری رکھنے کا حکم دیتے ہوئے یقین دلایا ہے کہ کراچی سے کچرے کی صفائی کے لیے اگر فنڈز اور تکنیکی مدد کی ضرورت ہوگی تو وفاقی حکومت دے گی اور ایف ڈبلیو او بھی کراچی میں صفائی مہم میں ساتھ جاری رکھے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس طرح تو کوئی سائیکل نہیں دیتا
جاوید چوہدری منگل 10 ستمبر 2019

مانچسٹر ایئرپورٹ پر دو ستمبر 2019کو دل چسپ واقعہ پیش آیا‘ ایزی جیٹ کی فلائٹ مانچسٹر سے اسپین کے شہر ’’ایل کانتے‘‘ جا رہی تھی‘ ایل کانتے اسپین کا سیاحتی مقام ہے‘ لوگ گرمیوں کی چھٹیاں منانے یہاں آتے ہیں اور جی بھر کر سورج‘گرمی اور سمندر تینوں کا لطف اٹھاتے ہیں۔

فلائٹ کے تمام مسافر بھی چھٹیاں گزارنے ایل کانتے جا رہے تھے‘ فلائٹ کا وقت ہو گیالیکن جہاز نہیں اڑا‘ مسافر شروع میں گپ شپ کرتے رہے‘ یہ پھر عملے سے تاخیر کی وجہ پوچھنے لگے اور یہ آخر میں احتجاج کرنے لگے‘ اسٹاف نے مسافروں کو بتایا ’’ہمارا پائلٹ غائب ہے‘ یہ ایئرپورٹ نہیں پہنچ سکا‘ ایئر پورٹ سیکیورٹی اور جہاز کا اسٹاف مسلسل تلاش کر رہا ہے لیکن رابطہ نہیں ہو پا رہا‘‘۔

یہ ایک دل چسپ صورت حال تھی‘ جہاز تیار تھا مگر جہاز کا پائلٹ غائب تھا‘ ایئرپورٹ پر سراسیمگی کا عالم تھا‘ مسافروں میں سے اچانک ایک شخص اٹھا اور اپنے موبائل سے اسٹاف کا کسی نامعلوم شخص سے رابطہ کرا دیا‘ اسٹاف نے اسے کاک پٹ میں پہنچا دیا‘ مسافر نے جہاز چلایا‘ اسپیڈ بڑھائی اور جہاز چند لمحوں میں فضا میں تھا‘ مسافروں نے سکھ کاسانس لیا۔ یہ مسافرمائیکل بریڈلے تھا‘ یہ کمرشل پائلٹ تھا‘ ایزی جیٹ میں ملازمت کرتا تھااور یہ اپنی بیوی اوربیٹے کے ساتھ چھٹیاں گزارنے ’’ایل کانتے‘‘ جا رہا تھا‘ یہ جہاز میں تھا اور اچانک کرائسیس پیدا ہو گیا۔

بریڈلے کی بیوی نے اس کے کندھے پر چپت مار کر کہا ’’تم پائلٹ لوگ ہوتے ہی ایسے ہو‘ دیکھ لو ایک پائلٹ کی وجہ سے کتنے لوگ پریشان ہیں‘‘ بریڈلے کو شرم آئی‘ اس نے ایزی جیٹ کی انتظامیہ سے رابطہ کیا‘ اپنی شناخت اور سیکرٹ نمبر بتایا اور جہاز اڑانے کی پیش کش کر دی‘ انتظامیہ نے سسٹم سے ویری فکیشن کی اور 38 سیکنڈ بعد اسے جہاز اڑانے کی اجازت دے دی۔

بریڈلے نے انتظامیہ کو بتایا ‘میں جینز شرٹ میں ہوں‘ میرے پاس یونیفارم موجود نہیں‘ انتظامیہ نے جواب دیا‘ یونیفارم پر لعنت بھیجو تم بس جہاز اڑائو‘ وہ اٹھا اور یونیفارم کے بغیر کاک پٹ میں گھس گیا‘ جہاز اڑایا اور مسافروں کو بحفاظت ایل کانتے پہنچا دیا‘ یہ بظاہر چھوٹا سا واقعہ ہے لیکن یہ واقعہ ثابت کرتا ہے بحرانوں میں پائلٹ تبدیل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہوتا‘ کیوں؟ کیوں کہ پائلٹ اتنے اہم نہیں ہوتے جتنے اہم جہاز اور اس کے مسافر ہوتے ہیں۔

ہم بھی اس وقت ایسی ہی صورت حال کا شکار ہیں‘ پوری قوم ایک سال سے تبدیلی کے جہاز میں محصور ہے‘ پائلٹ بھی اپنی سیٹ پر موجود ہے اور اسٹاف بھی ضرورت سے زیادہ ہے لیکن جہاز اس کے باوجود نہیں اڑ رہا چناں چہ ہمارے پاس اب دو آپشن ہیں‘ ہم جہاز کے اندر بیٹھے رہیں اور باقی زندگی جہاز کے اسٹاف اور پائلٹ کی تسلیوں پر گزار دیں یہاں تک کہ یہ لوگ جہاز کا دروازہ کھول کر فرار ہو جائیں اور ہم اس کے بعد نیا پائلٹ اور نیا اسٹاف تلاش کرنا شروع کر دیں یا پھر ہم ابھی سے نیا پائلٹ اور نیا اسٹاف تلاش کر لیں تاکہ کم از کم یہ جہاز بھی اڑ سکے اور ہم بھی منزل مقصود تک پہنچ سکیں۔

ہمارے پاس بہرحال دو ہی آپشن ہیں‘ انتظار یا پھر فوری فیصلہ‘ یہ دونوں آپشن مشکل ہیں‘ ہم اگر انتظار کرتے ہیں تو پھر چار سال بعد دنیا کا ماہر ترین پائلٹ بھی یہ جہاز نہیں اڑا سکے گا‘ ہم دیوالیہ ہو چکے ہوں گے اور ہم اگر اس وقت پائلٹ تبدیل کرتے ہیں تو بھی بحران میں اضافہ ہو جائے گا‘ ہمیں خوف ناک سیاسی اور نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا تاہم یہ بھی حقیقت ہے ہم شاید پائلٹ کی تبدیلی کے بحران سے نکل آئیں لیکن ہم اگر آرام سے بیٹھے رہے اور اسٹاف کی تسلیوں پر یقین کرتے رہے توپھر ہم اڑنے کے قابل نہیں رہیں گے‘ جہاز کی صورت حال اس وقت کیا ہے؟

آپ ملاحظہ کیجیے‘ وفاقی ادارہ شماریات نے 5 ستمبر کو حکومت کے ایک سال کے دوران مہنگائی کے اعداد وشمار جاری کیے‘ حکومت کے اپنے ڈیٹا کے مطابق ملک میں ایک سال میں 11فیصد مہنگائی بڑھ گئی‘ ملک میں کوئی ایک بھی ایسی چیز نہیں جس کی قیمت میں اضافہ نہ ہواہو‘ علاج تک 12 فیصد مہنگا ہوگیا۔ عمران خان روز کہتے ہیں ملک کے سابق حکمرانوں نے ملکی قرضے دس سال میں چھ ہزار ارب روپے سے 30 ہزار روپے کر دیے لیکن آپ اس مقدس حکومت کا کارنامہ دیکھیے‘ نئے پاکستان میں ایک سال میں 30 ہزار ارب روپے کا قرضہ چالیس ہزار ارب روپے ہو گیا‘ گویا آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف نے پانچ برسوں میں جتنا قرضہ بڑھایا تھا عمران خان نے اتنا ایک ہی برس میں بڑھا دیا۔

آپ کسی دکان دار‘ کسی ریڑھی بان حتیٰ کہ آپ کسی کھوکھے پر رک جائیے‘ آپ کسی کاریگر‘ کسی ایکسپرٹ سے پوچھ لیجیے‘ آپ کو پاکستان کا ہر شخص روتا ہوا ملے گا‘ سیالکوٹ‘ فیصل آباد اور کراچی یہ تینوں شہر سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کے دارالحکومت ہیں‘ حکومت سروے کرا لے یہ حیران رہ جائے گی‘ صنعت کار فیکٹریاں بند کر کے ملک سے باہر جا چکے ہیں‘ یہ اپنی پراپرٹی تک فروخت کر رہے ہیں‘ کاروباری زوال کی صورت حال یہ ہے لوگ اب ڈاکٹروں کے کلینکس میں بھی نہیں جاتے۔

آپ کسی اسپیشلسٹ ڈاکٹر کو فون کر لیجیے‘ آپ کواس سے وقت مل جائے گا جب کہ یہ چند ماہ پہلے تک سال سال تک کے لیے بک ہوتا تھاگویالوگوں کے پاس اب ڈاکٹروں کو دینے کے لیے بھی رقم موجود نہیں اور ملک میں ایک سال میں 10 لاکھ لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں تاہم تین قسم کے کاروبار میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے‘ میڈیکل اسٹورز کا بزنس بڑھ رہا ہے‘ لوگ ڈاکٹروں کے نسخے کے بغیر دھڑا دھڑ ادویات خرید رہے ہیں‘ دوسرا امیگریشن کا بزنس اپنی ’’پیک‘‘ کو چھو رہا ہے اور تیسرا پورے ملک میں اسٹریٹ کرائم میں اضافہ ہو رہا ہے‘ اسلام آباد جیسے شہر میں رات کے وقت ہوم ڈیلیوری معطل ہو چکی ہے‘ ہوم ڈیلیوری کے لڑکوں کو سڑک پر روک کر لوٹ لیاجاتا ہے۔

آپ پنجاب کا چکر لگا لیں‘ پنجاب کے دس بڑے شہر اور کراچی میں کوئی فرق نہیں رہا‘ عثمان بزدار مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں‘ یہ ایک سال میں عمران خان کوخوش رکھنے کے سوا کچھ نہیں کر سکے‘ یہ سارا دن وزیراعظم کے گرد موجود لوگوں کے حکم پر تبادلوں اور تقرریوں کے سوا کچھ نہیں کرتے‘ عثمان بزدار کے پاس ایک وزیر یا ایک ایم این اے آتا ہے اور اپنی مرضی کی تقرریاں کرا کر چلا جاتا ہے۔

دوسرے دن کوئی دوسرا یہ تمام تقرریاں منسوخ کرا کر اپنے لوگ لگوا جاتا ہے‘ آپ عثمان بزدار کی انتظامی صلاحیتوں کا اندازہ اے سی ماڈل ٹائون لاہور سے لگا لیجیے‘ ماڈل ٹائون میں 21 دنوں میں پانچ اے سی تبدیل ہوئے‘ شوکت علی 21 ویں گریڈ کے سینئر بیوروکریٹ ہیں‘ یہ 12 دنوں میں چار بار تبدیل ہوئے‘ یہ سیکریٹری فوڈ تھے‘ یہ سیکریٹری ٹرانسپورٹ لگائے گئے‘ تین دن بعد یہ سیکریٹری ہائیر ایجوکیشن لگا دیے گئے اور یہ تین دن بعد سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو تعینات کر دیے گئے اور وزیراعلیٰ نے تین ماہ انٹرویوز کر کے مختلف اضلاع میں ڈپٹی کمشنر تعینات کیے‘ یہ اب دھڑا دھڑ بدلے جا رہے ہیں۔

ڈی سی جہلم سہیل خواجہ مقامی ایم این اے کے دبائو پر 12 دن بعد ہٹا دیے گئے‘ ڈی سی بہاولنگر رانا سلیم کو 57 دن بعد زکوٰۃ کمیٹیوں کے ایشو پر ہٹا دیا گیا‘ زکوٰۃ کے صوبائی وزیر شوکت علی لالیکا نے ڈی سی کو فون کر کے اپنی مرضی کی زکوٰۃ کمیٹیاں بنوانی چاہیں‘ ڈپٹی کمشنر نے جواب دیا ’’سر ہم حکومت کی ہدایات کے مطابق چل رہے ہیں‘‘ وزیر صاحب نے جواب دیا ’’میں حکومت ہوں‘‘ ڈی سی نے کہا ’’سر آپ وزیر ہیں‘ آپ حکومت نہیں ہیں‘‘ وزیر نے جواب دیا ’’میں تمہیں بتاتا ہوں حکومت کون ہے؟‘‘ اور ڈی سی تبدیل کر دیا گیا‘ یہ صرف چند مثالیں ہیں۔

آپ تحقیق کر لیں آپ کے سارے طبق روشن ہو جائیں گے‘ عثمان بزدار وزیراعظم آفس اور ہائوس کے ہر فون کو حکم سمجھتے ہیں چناں چہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ ایک سال میں انتظامی لحاظ سے ’’بنانا ری پبلک‘‘ بن چکا ہے‘ یہ سلسلہ اگر چھ ماہ اور چلتا رہا تو حکومت کو پنجاب میں ڈی ایس پی اور اے سی تک نہیں ملیں گے‘ وزیراعلیٰ جس کی تقرری کریں گے وہ چھٹی لے کر چلا جائے گا اور آپ اب وفاقی حکومت کا اندازہ بھی کر لیجیے‘ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار وزیراعظم آفس نے 27 وزارتوں کو ریڈ لیٹر جاری کر دیا‘ اس کا مطلب ہے بیوروکریٹس وزیراعظم کے احکامات بھی نہیں مان رہے۔

وزارتیں عملاً مفلوج ہو چکی ہیں‘ وزیراعظم کی معاملات پر گرفت کا یہ عالم ہے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیر خزانہ تھے‘ ڈاکٹر عاصم اور حفیظ شیخ نے 2011ء میں اپنی مرضی کے بزنس مینوں کو نوازنے کے لیے جی آئی ڈی سی کے نام سے گیس سبسڈی دی‘ صنعت کاروں اور بزنس مینوں نے جی بھر کر عوام کی جیبوں سے نوٹ نکالے۔

میاں نواز شریف کے دور میں بھی بزنس مینوں کو فائدہ پہنچتا رہایوں یہ لوگ 420 ارب روپے ہڑپ کر کے سپریم کورٹ کے پیچھے چھپ گئے‘ حفیظ شیخ نے آ کر چپکے سے انھیں 208 ارب روپے (سود کے ساتھ 280 ارب روپے) معاف کر دیے اور وزیراعظم کو اتنے بڑے ڈاکے کی سمجھ ہی نہیں آئی جب کہ کے پی کے کا وسیم اکرم پلس ابھی تک میٹرو مکمل نہیں کر سکا‘ یہ اپنے وزراء کے نام تک نہیں جانتا ۔

یہ حالات اگر اسی طرح چلتے رہے تو ملک ایک سال بعد کہاں ہو گا ملک کا بچہ بچہ جان چکا ہے چناں چہ میری درخواست ہے آپ جہاز نہ بدلیں لیکن کم از کم پائلٹ تو تبدیل کر دیں ورنہ وہ وقت دور نہیں جب ہم بریڈلے کی طرح مسافروں میں سے کسی کو اٹھا کر کاک پٹ میں بٹھانے پر مجبور ہو جائیں گے‘ ہم کب تک تجربے کرتے رہیں گے‘ دنیا میں کوئی شخص کسی اناڑی کو سائیکل تک نہیں دیتا اور ہم نے ان لوگوں کو پورا ملک بھی دے دیا اور ہم تماشا بھی دیکھ رہے ہیں‘ ہم کچھ تو خدا خوفی کریں۔
 
Top