سیاسی منظر نامہ

جاسم محمد

محفلین
ادارتی صفحہ
کچرا سیاست!
ارشاد بھٹی

ہم نے بھی کیا قسمت پائی، دائروں میں گھومتی، کنویں کی مینڈک کچر اسیاست، جیب کترے، کن ٹٹے، دیہاڑی باز، ڈنگ ٹپاؤ، مک مکاؤ قسم کے سیاسی پردھان، کوہلو کا بیل، مسلسل سفر میں انگریزی والاsuffer ہوچکی جی حضور قوم بلکہ قوم کیا ہجوم، 72سال ہوگئے۔


ڈرائیور بدل بدل کے تھک گئے، گاڑی مسلسل ریورس گیئر میں، جوآیا، پچھلے سے زیادہ نالائق، پہلے والے سے بڑا جیب تراش، 5فیصد کے معدے کھا کھا جواب دے گئے، 95فیصد کے معدے بھوکےرہ رہ جواب دے چکے، انیس، بیس کے فرق سے کچرا سیاست کا ماحول ایک سا، ایک سا منظر، ایک سے چہرے، ایک سی باتیں۔

باقی چھوڑیں، آزادی مارچ، دھرنوں کو لے لیں، آج وہی فلم چل رہی جو 2014میں چل چکی، وہی لوگ، وہی رستے، وہی منزل، کل 2014میں بھی آزادی مارچ، آج 2019میں بھی آزادی مارچ، کل 2014میں بھی اپوزیشن 14مہینوں بعد حکومت کیخلاف سڑکوں پر ، آج2019میں بھی اپوزیشن 14مہینوں بعد حکومت کیخلاف سڑکوں پر۔

ہاں یہ تبدیلی ضرور، کل 2014میں سالارِ قافلہ عمران خان، آج 2019 کے دلہا مولانا صاحب، کل 2014میں جو عمران خان فرمارہے تھے، آج 2019میں وہی مولانا فرمارہے، کل 2014میں جو نواز شریف فرمارہے تھے، آج 2019میں وہی عمران خان فرمارہے، کل 2014میں عمران خان اپوزیشن میں اور پی پی، ن لیگ، مولانا حکومت میں، آج 2019میں عمران خان حکومت میں اور پی پی، ن لیگ، مولانا اپوزیشن میں۔

ذراکل، آج مطلب ایک ہی جگہ گھمن گھیریاں کھاتی کچرا سیاست کے چند نمونے ملاحظہ کریں، پہلے یہ، عمران خان کیا فرمایا کرتے، 3اگست 2014، جعلی مینڈیٹ سے بنی حکومت کا وقت ختم، میں گرفتار ہو سکتا ہوں۔

پارٹی متبادل قیادت تیا ررہے، 4اگست 2014، مجھے منانے کا وقت گزر گیا، نو مذاکرات، مجھے نظر بندکیا گیا تو پورا ملک بند کر دیں گے، پرامن احتجاج جمہوری حق، نئے انتخابات سے کم کچھ قبول نہیں۔

13اگست 2014، وزیراعظم سے استعفیٰ لینے آرہاہوں، ملک برباد ہوگیا، یہ حکومت رہی، کچھ نہیں بچے گا، یہ عمران خان کے صرف 3بیانات، سینکڑوں اور بھی، لیکن یہ 3بیانات جو عمران خان نے کل 2014میں داغے، آج 2019میں یہ تینوں بیانات مولانا داغ چکے۔

اب نواز شریف کے تین بیانات، 13اگست 2014، دھرنے والوں سے مذاکرات کیلئے تیار ہوں، لانگ مارچ والے مسلسل جھوٹ بول رہے، یہ ملکی ترقی روکنا چاہتے، 22 اگست 2014، مارچ، دھرنے کا مقصد معیشت تباہ کرنا، مسئلہ کشمیر سے توجہ ہٹانا، 30ستمبر2014،مارچ، دھرنے عالمی سازش، نرمی کو کمزوری نہ سمجھا جائے، مٹھی بھر عناصر سے نمٹنا جانتے ہیں، یہ نواز شریف کے صرف 3بیانات، یہ عمران خان، وزراء فرماچکے، آگے سنئے۔

4اگست 2014نواز حکومت کہہ رہی تھی، مظاہروں، دھرنوں میں غیر ملکی پیسہ استعمال ہورہا، آج موجودہ حکومت مولانا کے بارے میں یہی کہہ رہی، کل چوہدری نثار نے کہا، دھرنا سیاسی اجتماع نہیں، پاکستان کے خلاف بغاوت، آج یہی وزراء فرمار ہے۔

اب آجائیں مولانا صاحب کی طرف، عمران خان دھرنے کے دوران نواز شریف کے اتحادی، کشمیر کمیٹی کے چیئرمین، مولانا کیا کہا کرتے، 3اگست 2014، دھرنے، لانگ مارچ، اوچھے ہتھکنڈے جمہوریت کیلئے نقصان دہ، 5اگست 2014، دھرنے، لانگ مارچ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کیلئے ہوتے ہیں۔

15اگست 2014، مارچ، دھرنے بازمنتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کررہے، ان پر بغاوت کے مقدمے قائم کئےجائیں، 28اگست 2014، وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ غیر آئینی، غیر منطقی، میڈیا نے ہر طرف آگ لگا رکھی، اگر میڈیا 24گھنٹوں کیلئے بند کر دیاجائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔

یہ تھے مولانا فضل الرحمٰن، جو آج جھوٹ پر اپنے خوابوںکا تاج محل تعمیرکئے بیٹھے، جو آج اس لئے سر دھڑ کی بازی لگائے بیٹھے کہ خود اقتدار سے باہر اور عمران خان سے اندھی نفرت، کہنا یہ، چلو مان لیا، مہنگائی، بے روزگاری، بیڈ گورننس، لوٹ مار جیسے معاملات کبھی بھی مولانا کی توجہ حاصل نہ کر پائے، لیکن پاکستان، کشمیر، اسلام، ان کاتو مولانا صبح وشام ورد کریں مگر مولانا یہ بتانا پسند کریں گے کہ اپنی تین ساڑھے تین دہائیوں پرپھیلی سیاست میں صرف 3کام جو پاکستان کیلئے کئے ہوں، 3کام جو اسلام کیلئے کر چکے، 3کام جو بحیثیت چیئرمین کشمیر کمیٹی کشمیرکیلئے کئے، پھر یہ جھوٹ کیوں کہ عمران خان یہودی ایجنٹ، کشمیر کا سودا ہوگیا، عمران حکومت اسرائیل کو تسلیم کررہی، اسلام یا تحفظ ِناموس رسالت خطرے میں، دن دہاڑے ایسے جھوٹ، ایسی دیدہ دلیری سے جھوٹ، توبہ توبہ۔

دوسری طرف نواز سیاست، جھوٹ کومنافقت کے تڑکے، کل نواز شریف کہا کرتے، لانگ مارچ، دھرنوں کے ذریعے حکومت فارغ کرنے والوں پر آرٹیکل 6لگنا چاہئے، آج نواز شریف کہہ رہے، سب مولانا کے لانگ مارچ، دھرنے کو کامیاب بنائیں، کل نواز شریف کہا کرتے، لانگ مارچ، دھرنے ملکی معیشت کی تباہی اور یہ ملک دشمنی، آج نواز شریف کہہ رہے، سب مولانا کے لانگ مارچ، دھرنے کو کامیاب بنائیں۔

کل نواز شریف کہا کرتے، اگر دھاندلی ہوئی، ثبوت دیں، سب کچھ پارلیمنٹ میں طے کریں، آج نواز شریف کہہ رہے، کوئی دھاندلی ثبوت نہیں دینا، بس مولانا کے ساتھ سڑکوں پر آئیں، مولانا کو کامیاب کرائیں، کل نواز شریف دکھی ہو کر کہا کرتے، یہ کیسا ملک یہاں 18وزیراعظموں کو مدت پوری نہ کرنے دی گئی(حالانکہ دو وزیراعظموں کو خودمقررہ مدت سے پہلے گھر بھجوایا)۔

آج نواز شریف کہہ رہے مولانا کا ساتھ دو مطلب انیسویں وزیراعظم کو بھی مقررہ مدت سے پہلے گھر بھجوا دو، کل نواز شریف کہا کرتے، سیاست میں غداری کے فتوے، مذہبی کارڈ نہیں ہونا چاہئے، آج نواز شریف کہہ رہے غداری، فتوے، مذہبی کارڈ سب جائز، مولانا کا ساتھ دیں، عمران خان کو گھر بھجوائیں، یہی حال زرداری صاحب کا بھی، 24گھنٹے دکان کھولے بیٹھے، پہلے آؤ، پہلے پاؤ، بدقسمتی، بدنصیبی، یہی ہماری کچرا سیاست، کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے، یہی ہماری کچرا سیاست، جس کا ایک ہی اصول کہ کوئی اصول نہیں، یہی ہماری کچرا سیاست، اپنے پاؤبھر گوشت کیلئے دوسرے کا پورا بکرا ذبح کردو، یہی ہماری کچرا سیاست کہ ملک پر یہ وقت، پارلیمنٹ میں کشمیر پر متفقہ قرار داد منظور ہوتو عمران خان، آصف زرداری، بلاول بھٹو، شہباز شریف پارلیمنٹ میں موجود نہ ہوں اور سی پیک اتھارٹی بل، جی ہاں سی پیک بل جسے پارلیمنٹ سے منظور ہونا چاہئے تھا، اس کیلئے صدارتی آرڈیننس جاری کرنا پڑے۔
 

جاسم محمد

محفلین
چوہدری شوگر مل کیس؛ نوازشریف نیب کے سوالات کا جواب نہ دے سکے
طالب فریدی منگل 15 اکتوبر 2019
1842959-nawazsharif-1571130506-904-640x480.jpg

نوازشریف چوہدری شوگر مل کیس میں نیب کی تحویل میں ہیں فوٹو: فائل


لاہور: سابق وزیراعظم میاں نواز شریف چوہدری شوگر مل کیس میں نیب کو کسی بھی سوال کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق نیب کی تحقیقاتی ٹیم نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف سے لاہور کے ڈے کئیر سینٹر میں چوہدری شوگر مل کیس کے حوالے سے تفتیش کی، اس دوران ان سے 13 سوالات پوچھے گئے مگر نواز شریف نے کسی ایک سوال کا بھی تسلی بخش جواب نہ دیا۔

نواز شریف کا زیادہ تر تحقیقاتی ٹیم کو یہی جواب تھا کہ میں حکومتی امور سرانجام دینے میں مصروف تھا کاروبار کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں، جتنی تھی بتا دی، مزید کاروباری معلومات کے لیے میرے بیٹے حسین نواز سے رابط کریں۔

’410 ملین روپے کی منی لانڈرنگ‘

نیب کی ٹیم نے جب نواز شریف سے پوچھا کہ آپ نے یوسف عباس اور مریم نواز کی شراکت داری سے 410 ملین روپے کی منی لانڈرنگ کی ہے اور اس کے ثبوت ہیں تو سابق وزیراعظم کا جواب تھا کہ یہ آپ متعلقہ افراد سے پوچھیں جن کے نام ہیں، بزنس کرنا کوئی غیر قانونی کام نہیں۔

’غیر ملکی سے لین دین یوتا رہتا ہے‘

نیب نے نواز شریف سے سوال کیا کہ اپ نے گیارہ ملین روپے کے شیئرز غیر ملکی شخص نصیر عبداللہ کو منتقل کئے، جس پر انہوں نے کہا کہ ان سے ہمارے بزنس معاملات چلتے ہیں، کاروبار میں لین دین یوتا رہتا ہے۔

’غیر ملکی معاملات حسین نواز دیکھتے ہیں‘

نیب نے نواز شریف سے سوال کیا کہ غیر ملکی کو ٹرانسفر کئے جانے والے شیئرز 2014 میں واپس کردئیے گئے، اس کی وجوہات کیا تھیں؟ جس پر نواز شریف کا جواب تھا کہ غیر ملکی معاملات حسین نوازشریف دیکھتے ہیں۔

’قرضہ لینا کونسا جرم ہے؟‘

نیب نے جب نواز شریف سے پوچھا کہ آپ نے ایک کروڑ 55 لاکھ 20 ہزار ڈالر کا قرض شوگر ملز میں ظاہر کیا، یہ قرض کہاں سے لیا گیا؟ سابق وزیر اعظم نے جواب دیا کہ میرے علم میں نہیں اور قرضہ لینا کونسا جرم ہے، اس وقت میرے پاس قرضے کا ریکارڈ موجود نہیں ہے، قرضہ لینے کے لیے جو دستاویزات تیار کی گئیں اور جن لوگوں نے تیار کیں وہی درست معلومات فراہم کرسکتے ہیں۔

واضح رہے کہ نواز شریف چوہدری شوگر مل کیس میں 14 روز کے لیے نیب کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے پاس ریمانڈ پر ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
لاہور: سابق وزیراعظم میاں نواز شریف چوہدری شوگر مل کیس میں نیب کو کسی بھی سوال کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔
بچپن میں پڑھائی کے دوران تسلی بخش جواب دینے کی عادت ڈالی گئی ہوتی آج اتنی بے عزتی نہ ہو رہی ہوتی۔
 

جاسم محمد

محفلین
ویسٹ لینڈ اور نیند میں چلنے والا قبیلہ
15/10/2019 وجاہت مسعود

اس برس کی آخری سہ ماہی ہمارے ملک میں بہت سی تبدیلیوں کے اشارے لے کر آئی ہے۔ اس سے پہلے لیکن کچھ ذکر 2019ءکے نوبل انعام برائے امن کا جو ایتھوپیا کے44سالہ وزیر اعظم ابی احمد کے حصے میں آیا۔ ابی احمد 18 مہینے قبل شمال مشرقی افریقہ کے ملک ایتھوپیا کے وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے۔ ایتھوپیا کی آبادی دس کروڑ سے کچھ زیادہ ہے۔ جنگ، قحط اور سیاسی عدم استحکام اس ملک کی پہچان رہے ہیں۔ 1992 سے برسراقتدار پیپلز انقلابی پارٹی نے سیاسی مخالفین پر قید و بند، میڈیا پر پابندیوں اور انحرافی آوازوں کے لئے جبر کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ ہمسایہ ملک اری ٹیریا کے ساتھ تعلقات سخت کشیدہ تھے۔ 1998 سے 2000ء تک دو سالہ جنگ میں ایک لاکھ افراد کام آئے۔ 1000 ڈالر سے کچھ کم فی کس آمدنی والے ملک ایتھوپیا میں ایک تہائی آبادی مسلمان ہے، قبائلی، نسلی اور مذہبی اختلافات کی روایت پرانی ہے۔

ابی احمد نے اپریل 2018 میں انتخاب جیتنے کے بعد اری ٹیریا سے معمول کے تعلقات بحال کئے، دونوں ممالک میں عوامی رابطے بحال ہوئے ہیں۔ اندرون ملک سیاسی قیدیویں کو رہا اور میڈیا کو آزاد کر دیا گیا۔ سول سوسائٹی تیزی سے فعال ہو رہی ہے۔ مسلمان باپ اور مسیحی ماں کے بیٹے ابی احمد مذہبی ہم آہنگی کی گہری لگن رکھتے ہیں۔ 18 مہینے کچھ زیادہ مدت نہیں ہوتی۔ ابی احمد کا کام ابھی نامکمل ہے، سوال اٹھایا گیا ہے کہ ابی احمد کو امن کا نوبل انعام دینے مین کچھ جلد بازی تو نہیں ہوئی۔ جواب ملا کہ قوموں کی تعمیر تو ایک مسلسل اور کبھی ختم نہ ہونے والا کام ہے۔ ابی احمد کو اعزاز دے کر اعتراف کیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے ملک کے سیاسی، معاشی اور تمدنی امکانات کا دروازہ کھول دیا ہے۔ ابی احمد اپنا کام مکمل کر پائیں یا نہیں، ایتھوپیا کے باشندوں نے اٹھارہ ماہ میں اپنا راستہ دریافت کر لیا ہے اور دنیا ان کی پیش رفت کو سراہتی ہے۔

اب اپنے ملک کی خبر لیجئے۔ اتفاق سے ہمارے ملک میں بھی 14 ماہ پہلے عمران خان کی سواری باد بہاری بڑے اہتمام سے ایوان وزیر اعظم پہنچائی گئی۔ انتخابات میں ہار جیت جمہوری عمل کا حصہ ہے لیکن ہمیں بتایا گیا کہ ہمارے دیدہ ور کو عروس نرگس نے ہزار سالہ آہ و زاری کے آنسوؤں سے غسل دیا ہے۔ عوامی مقبولیت، ریاستی پخت و پز اور تعمیرات سیاسی کی مہارت سے خواب کا یہ رنگ محل تعمیر کیا گیا۔ اب اس سعی کا انجام دیکھیے۔ منتخب وزیر اعظم اور ان کی حکومت نے تمام مخالف سیاسی قوتوں کا مقاطعہ کر رکھا ہے۔ مفروضہ یہ ہے کہ حکومتی جماعت کو چھوڑ کر تمام سیاسی قوتیں بدعنوان اور گردن زدنی ہیں۔ سیاسی مخالفین جیلوں میں ہیں، ذرائع ابلاغ کا قافیہ تنگ ہے، پارلیمنٹ مفلوج ہے، خود ساختہ خلائی تجربے سے گزرنے والی حکومت بے وزنی کی کیفیت سے دوچار ہے، جمہوریت کا یہ چلن کامیاب نہیں ہو سکتا۔ معاملہ ہی کیا ہو اگر زیاں کے لئے….

معیشت کا حل پہلے سے کچھ ایسا سرسبز نہیں تھا لیکن اب لٹیا بالکل ڈوب گئی ہے۔ عشروں سے قرض پر مدار ہے۔ معیشت پیداواری نہیں، دست نگر ہے۔ صنعت مانگے تانگے کی ہے، زراعت میں کسی فصل کی فی ایکڑ پیداوار عالمی پیمانے پر قابل مسابقت نہیں، کاروبار غیر دستاویزی اور نادیدہ اجارہ داریوں سے مملو ہے۔ برامدات بڑھانے کی دہائی سنائی دیتی ہے، یہ نہیں بتایا جاتا کہ آخر فروخت کرنے کو ہے کیا؟ پچھلے 40 برس میں کسی بھی درجے کی صلاحیت اور استعداد رکھنے والے لاکھوں شہری ملک چھوڑ گئے۔ سالانہ 20 ارب ڈالر کی ترسیلات زر کے ہوائی رزق پر خوش ہونے والوں نے کارآمد اور تعلیم یافتہ افراد کے مہاجرت کے اجتماعی معاشی اور تمدنی نقصان کا تخمینہ نہیں لگایا۔

معیشت کا براہ راست تعلق انسانی سرمائے کے معیار سے ہے۔ یہ سرمایہ تعلیم کے ذریعے تخلیق کیا جاتا ہے۔ ہم نے تعلیم کی بنیاد علم سے دشمنی پر رکھی ہے۔ پیوستہ مفادات کو حقیقی طور پر تعلیم یافتہ آبادی کے تصور ہی سے ہول آتے ہیں چنانچہ تعلیم کے نام پر تلقین اور تقلید کی روش اپنائی ہے۔ یہ طالب علموں کی استعداد کا نہیں، اساتذہ کی کم سوادی کا سوال ہے۔ تعلیم کے لئے وسائل میں کٹوتی ہو رہی ہے۔ یکساں نظام تعلیم کے لغو نعرے کی آڑ میں نسبتاً بہتر تعلیمی اداروں کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ اشرافیہ کے بچے بیرون ملک تعلیم پا رہے ہیں، چنانچہ اندرون ملک اکا دکا تعلیمی نخلستان میں گدھے کا ہل چلا کر قومی پسماندگی بڑھانے میں ہرج نہیں۔

کسی ملک میں سیاسی بندوبست، معاشی امکانات اور صحافتی آزادی کے معمولی اشارے کیا ہیں؟ شہری ملک چھوڑ کے بھاگنا چاہتے ہیں یا وہاں آنے کے لئے اتاؤلے ہو رہے ہیں۔ سرمایہ کاری کا رجحان بڑھ رہا ہے یا پہلے سے موجود سرمایہ بھی فرار ہو رہا ہے۔ عوام اہل صحافت کی آواز پر کان دھرتے ہیں یا صحافت کو ناقابل اعتبار، بکاؤ اور حکمیہ کتر بیونت کا نمونہ سمجھتے ہیں۔ قوم کے وقار کا ایک پیمانہ اس کی خارجہ ساکھ ہے۔ ہمیں تو نیند میں چلنے کا ایسا عارضہ لاحق ہے کہ ایک تقریر کے خمار میں ہفتوں انٹاغفیل رہتے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف میں ہمارا فیصلہ بدستور معلق ہے۔ کشمیر پر ہمارے موقف کو کسی نے آنکھ بھر کے نہیں دیکھا اور ہم دوسرے ملکوں میں ثالثی کا شوق پالے ہوئے ہیں۔ وجہ یہ کہ داخلی سیاسی اور معاشی صورت حال سے نظریں ملانے کی ہمت نہیں۔ کبھی سوچا کہ زوال، ابتری اور بحران کی یہ بلائیں ہمارے ہی دروازے پر کیوں جمع ہیں؟ ٹی ایس ایلیٹ کی ویسٹ لینڈ سے چند سطریں دیکھ لیجئے، کوئی مشابہت محض اتفاقیہ ہو گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
پیپلز پارٹی کو اپنے گڑھ میں شکست کا سامنا، جی ڈی اے کامیاب
ویب ڈیسک جمعرات 17 اکتوبر 2019
1845310-granddemocraticalliancemoazzamalikhanwinlarkanapselectionpeoplespartylose-1571339176-755-640x480.jpg

معظم خان عباسی 31 ہزار 557 ووٹ لے کر جیت گئے جب کہ جمیل سومرو 26 ہزار 21 ووٹ حاصل کرسکے (فوٹو: فائل)


لاڑکانہ: سندھ کے حلقہ پی ایس 11 لاڑکانہ کے ضمنی انتخاب میں گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس نے پیپلز پارٹی کو شکست دے دی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کو اپنے ہی گڑھ لاڑکانہ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے امیدوار معظم علی خان نے پیپلز پارٹی کے امیدوار جمیل سومرو کو شکست دے دی۔

الیکشن کمیشن کے جاری کردہ فارم 47 کے مطابق پی ایس 11 سے جی ڈی اے کے معظم علی خان 31 ہزار 535 ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے جب کہ پیپلز پارٹی کے امیدوار 26 ہزار 11 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔

انتخاب کے باعث حلقے میں عام تعطیل کا اعلان کیا گیا تھا، حلقے میں 138 پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے تھے جہاں پولنگ کا عمل شام 5 بجے تک جاری رہا، الیکشن کمیشن کے مطابق حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 52 ہزار 614 ہے۔

واضح رہے کہ جی ڈی اے کے امیدوار معظم عباسی کو پی ٹی آئی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کی حمایت حاصل ہے، مذاکرات کی ناکامی پر جمعیت علمائے اسلام (ف) نے پیپلز پارٹی کے امیدوار جمیل سومرو کی حمایت سے انکار کردیا تھا۔
 

انیس جان

محفلین
آج ہمارے شہر رائیونڈ میں شیخ رشید المعروف شیدا ٹلی جو عمران خان کو بطورِ چپڑاسی بھی قبول نہ تھا
وزیر ریلوے بن کر سعد رفیق کے شروع کردہ پروجیکٹ کا افتتاح کرنے آیا تھا
 

جاسم محمد

محفلین
ریاست مدینہ کےلیے آپ بھی تو کچھ کیجئے
محمد عمران چوہدری اتوار 20 اکتوبر 2019
1845829-riyasatmadina-1571314552-425-640x480.jpg

وہ دن دور نہیں جب ریاست مدینہ کی طرز پر ایک حقیقی اسلامی معاشرہ قائم ہوجائے گا۔ (فوٹو: فائل)


جب سے عمران خان صاحب نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی ریاست بنانے کےلیے ریاست مدینہ کی طرز پر ڈھالنے کا اعلان کیا ہے، ان پر تنقید کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہے۔

ابتدا میں ان پر تنقید ان کی ذات کے حوالے سے کی گئی، ان کی نجی زندگی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ یہاں پر ایک چھوٹا سا واقعہ عرض کرتا چلوں۔ ایک معروف گلوگار جو توبہ کرکے اس شعبے سے کنارہ کشی اختیار کرچکے تھے، ایک موقع پر لوگوں کو اللہ رب العزت کی ذات کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتے ہوئے کچھ یوں گویا ہوئے کہ لوگو، اللہ کی طرف لوٹ آؤ۔ اگر آپ نے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع نہ کیا تو اللہ پاک میرے جیسے ناچنے والے کو ہدایت دے کر ممبر پر بٹھا دے گا۔ یعنی اگر ہماری نیک اور پارسا لیڈرشپ نے اسلامی ریاست کی طرف پیش قدمی کی ہوتی تو شائد آج عمران خان جیسے بندے کو یہ کوشش نہ کرنی پڑتی۔

جوں جوں وقت گزرا ان کی کارکردگی بھی تنقید کی زد میں آگئی۔ ابتدا میں ان پر تنقید ان کے سیاسی مخالفین ہی کرتے تھے، مگر اب ایک سال گزرنے کے بعد ان پر تنقید کرنے والوں میں پڑھے لکھے، سمجھدار اور محب وطن لوگ بھی شامل ہوچکے ہیں۔

پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے عمران خان واحد حکمران ہیں جنہوں نے اس بات کا عزم کیا ہے کہ پاکستان کو اس کے قیام کے مقاصد کے عین مطابق ڈھالا جائے۔ مگر کیا کیا جائے کہ یہ عزم خان صاحب نے اس وقت کیا جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ پل ہی بہہ چکا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ بہرحال یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ کسی کو تو یہ خیال آیا کہ وطن عزیز کو اس کے مقاصد جلیلہ کے مطابق ڈھالا جائے۔

لیکن نہایت دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ بجائے قوم خان صاحب کی معاونت کرتی، ہر شخص خان صاحب کا انتظار کرنے کے بجائے خود مدنی بننے کی کوشش کرتا، یعنی وہ صفات جو اہل مدینہ کی تھیں، قوم کا ہر فرد وہ صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرتا، جیسے مثال کے طور پر مدینہ میں رسول پاکؐ کا ہر ماننے والا سنت نبویؐ سے پیار کرتا تھا، کسی شخص کےلیے کسی بات پر عمل کرنے کےلیے یہ کافی تھا کہ یہ سنت ہے، (اور ہم سنت کو اس لیے چھوڑ دیتے ہیں کہ یہ سنت ہے، عمل کرلو تو ثواب ہے نہ کرو تو گناہ تو نہیں ہے۔ چند ایک کو چھوڑ کر) مدینہ میں کوئی شخص جھوٹ نہیں بولتا تھا۔ ہم بھی عہد کرلیں کہ جھوٹ نہیں بولیں گے، (کیونکہ حضور نبی اکرمؐ کا فرمان عالیشان ہے (مفہوم) ’’جھوٹ میں ہلاکت ہے‘‘)، فراڈ نہیں کریں گے، رشوت نہیں لیں گے، (کیونکہ فرمان نبویؐ ہے (مفہوم) رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں)، کسی سے زیاتی نہیں کریں گے، ایثار کریں گے۔

ہم نے بجائے خان صاحب کا معاون بننے کے اعتراض کرنا شروع کردیا۔ ہم نے بنی اسرائیل کی طرح سوالات شروع کردیئے۔ اگر ہماری یہی روش رہی تو شائد آئندہ کوئی حکمران خواہش کے باوجود ایسا کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اگر ہمارے نشتر برسانے پر عمران خان صاحب نے دلبرداشتہ ہوکر راہ فرار اختیار کرلی، تو ہم سب بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہوں گے۔

آئیے ہم سب بھی عہد کریں کہ بجائے ہم خان صاحب کا انتظار کریں، ہم خود مدنی بن جائیں۔ علما سے پوچھ کر صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ کی صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ بجائے خان صاحب پر تنقید کرنے کے اپنی ذات کی خامیاں دیکھیں گے۔ ریاست مدینہ کے شہریوں میں جو صفات مطلوب ہیں، وہ صفات اپنی ذات، اپنے اہل عیال اور اپنے دست نگر لوگوں کے اندر پید ا کرنے کی کوشش کریں گے۔ کیونکہ بقول شاعر
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو وہ دن دور نہیں جب ریاست مدینہ کی طرز پر ایک حقیقی اسلامی معاشرہ قائم ہوجائے گا۔ بصورت دیگر اگر ہم ریاست مدینہ کے قیام کےلیے صرف عمران خان کی طرف دیکھ کر تنقید کے نشتر ہی برساتے رہے اور خود کچھ نہ کیا، تو شائد ریاست مدینہ کی تعمیر مشکل ہوجائے۔ کیونکہ خان صاحب ستر سال کا بگاڑ ٹھیک کرنے کی کوشش کررہے ہیں، جو یقینی طور پر ایک طویل اور محنت طلب کام ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
....یہ نظام جواب دے چکا ہے
مظہر بر لاس

وہ ابھی ریٹائرڈ نہیں ہوا بلکہ ابھی نظام کا حصہ ہے، وہ بھی سارا دن ان میٹنگوں کا حصہ بنتا ہے جو اس ملک کی بہتری کے لیے ہوتی ہیں مگر اس سب کے باوجود مایوسی کے سائے اتنے لمبے ہیں کہ اسے اس نظام سے بہتری کی کوئی توقع نظر نہیں آرہی۔

دو روز پہلے اس سے ملاقات ہوئی تو میں نے اس سے کہا کہ تم ایک ذہین ترین بیوروکریٹ ہو، لوگوں کی بہتری چاہتے ہو، حکومتی کوششوں کے باوجود لوگوں کی بہتری کیوں نہیں ہو رہی؟

میرے اس سادہ سے سوال پر گورا چٹا بیوروکریٹ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا، ایک لمحے کیلئے سوچا اور پھر کہنے لگا ’’ہم صبح سے لے کر شام تک کام کرتے ہیں، صرف ہماری وزارت نہیں باقی وزارتوں کا بھی یہی حال ہے۔ سارا دن کام ہوتا ہے، میٹنگیں ہوتی ہیں، فیصلے ہوتے ہیں مگر رزلٹ زیرو ہے۔

میں نے بہت سوچا کہ سیکرٹریٹ میں کام کرنے والے لوگ آخر کس بات کی تنخواہ لیتے ہیں، عوام کو تو ان کی نوکریوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا کیونکہ ان کے فیصلوں کا کوئی ثمر عوام تک نہیں پہنچ رہا۔

ان کی میٹنگوں کا کوئی اثر نہیں ہو رہا، اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ جس قوم کے ٹیکسوں سے ہماری تنخواہیں ملتی ہیں ہمارا اس قوم کو کوئی فائدہ کیوں نہیں ہو رہا؟ یہ تمام سوالات میرے سامنے بھی کھڑے رہتے ہیں۔ میں نے اس سلسلے میں بہت سوچا، بہت غور کیا، بہت سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ سارا نظام جواب دے چکا ہے۔

اس نظام سے لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا، جو مرضی پارٹی اقتدار میں آجائے لوگوں کا فائدہ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ نظام اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ یہ نظام اپنی موت کے قریب ہے، اس نظام سے عوام کی بھلائی ہو ہی نہیں سکتی، یہ نظام گل سڑ چکا ہے، یقین کیجئے میں سارا دن فائلوں کو سیکشن افسر سے ڈپٹی سیکرٹری، جوائنٹ سیکرٹری، ایڈیشنل سیکرٹری اور سیکرٹری تک سفر کرتے دیکھتا ہوں، بس ان فائلوں کی آنیاں جانیاں لگی رہتی ہیں لیکن اس تمام مسافت کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ نظام بوسیدہ ہو چکا ہے۔

اگر حکومتیں لوگوں کا فائدہ چاہتی ہیں تو انہیں اس نظام کو بدلنا پڑے گا۔ جب تک یہ نظام بدلا نہیں جاتا لوگوں کی بھلائی، لوگوں کا فائدہ خواب ہی رہے گا‘‘۔

ایک حاضر سروس بیوروکریٹ کی باتیں میری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھی مگر اس کی ان باتوں نے مجھے ایک پرانا واقعہ یاد کروا دیا۔

ملک طاہر سرفراز سیاستدان سمیرا ملک کے خاوند ہیں، میری ان دونوں میاں بیوی سے دوستی ہے، ایک زمانے میں ملک طاہر سرفراز وزارت داخلہ میں جوائنٹ سیکرٹری یا ایڈیشنل سیکرٹری تھے، میں ایک روز ان سے ملنے گیا، ان کے گرد فائلوں کے پہاڑ لگے ہوئے تھے، ان کے اسٹاف نے دروازہ کھولا اور میں چپکے سے بیٹھ گیا۔

میں بیٹھا رہا اور ملک طاہر سرفراز فائلیں پڑھتا رہا، کافی دیر کے بعد گردن اوپر کی تو سامنے مجھے پا کر ملک طاہر سرفراز نے کہا ’’آپ کب آئے، میں تو ان فائلوں میں کھویا ہوا تھا، کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ شاید میں بھی ان فائلوں کی طرح ایک فائل ہی ہوں، ان فائلوں میں رہ کر میں بھی ان کا حصہ بن چکا ہوں‘‘۔

میں نے ملک طاہر سرفراز کی باتیں سنیں، ہنسا اور واپس آ گیا مگر دیر تک سوچتا رہا کہ آخر ان فائلوں کا اس ملک کو کیا فائدہ ہے، جن فائلوں سے لوگوں کی بہتری نہیں ہو سکتی، کوئی بھلا نہیں ہو سکتا، ان کے دو نہیں دس پہاڑ بھی بن جائیں تو سب بے کار ہے، سفر کا زیاں ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔

دوسرے ملکوں میں لوگ سسٹم سے فائدہ اٹھاتے ہیں، لوگ شوق سے نظام کا حصہ بنتے ہیں اور نظام سے مستفید ہوتے ہیں، جس سے معاشرہ اور ملک دونوں ٹھیک چلتے ہیں، ہمارے ہاں نظام کی خرابی نے معاشرے اور ملک دونوں کا نقصان کیا ہے۔

ہمارا معاشرہ کوئی مثالی معاشرہ نہیں، اس معاشرے میں کوئی نظم و نسق نہیں، یہ معاشرہ ایک ریوڑ کی طرح ہے اس معاشرے میں ظلم و زیادتی، جبر، ناانصافی عام ہے۔ یہ معاشرہ قدرت کے اصولوں کے خلاف چل پڑا ہے، اس معاشرے میں بددیانتی، ملاوٹ اور بےایمانی کا رواج ہے، یہاں جھوٹ بولنا عام سی بات ہے، وعدہ خلافی عادت ہے۔

اس معاشرے کے کھانے پینے اور سونے جاگنے کے اوقات قدرت کے دیئے ہوئے طریقۂ کار کے خلاف ہیں۔ یہ معاشرہ راتوں کو جاگتا اور دن کو سوتا ہے۔ دکھ یہ نہیں کہ ہم کیسی زندگی گزار رہے ہیں دکھ یہ ہے کہ ہماری اگلی نسلیں برباد ہو رہی ہے اور حیرت یہ ہے کہ کسی کو کوئی فکر نہیں۔ کبھی کسی نے سوچا کہ آخر یہ ظلم و ناانصافی کا نظام کب تک چلے گا۔ کیا معاشرہ ریوڑ کی طرح ہی رہے گا۔

اس نظام نے ہمارے ملک کو کتنا پیچھے کردیا ہے، یہ ملک کبھی ایشیا میں سب سے آگے تھا، آج یہ ملک ایشیائی ملکوں میں کہیں پیچھے ہے۔ اس میں راہبروں کا قصور ہوگا مگر اس میں اس نظام کا بھی بڑا دخل ہے کیونکہ دنیا کے ملکوں کو ان کے نظام آگے لے کر گئے ہیں۔

ان ملکوں میں معاشروں کو نظام نے اپنے حصار میں لے رکھا ہے، ایک ہم ہیں ہماری گورننس ہی ٹھیک نہیں، ہمارا نظام ہمیں بربادیوں کے راستے دکھاتا ہے، اس نظام سے نہ معاشرہ درست ہو سکتا ہے اور نہ ہی ملک۔ اس پوری کہانی پر، پورے نظام پر مجھے سرور ارمان کا شعر یاد آتا ہے کہ

بانجھ ہو کر رہ گیا جس وقت دھرتی کا بدن


تب ہمارے نام یہ جاگیر کر دی جائے گی
 

جاسم محمد

محفلین
اندر کی خبر، فوج کا کردار اور سیاسی احتجاج
25/10/2019 سید مجاہد علی



اسے اتفاق سے زیادہ پاکستانی سیاست کی سنگین ستم ظریفی کہنا چاہئے کہ گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے اپنے اپنے طور پر سیاست اور فوج کے بارے میں ایک ہی بات کہی ہے۔ یعنی فوج اس وقت تحریک انصاف کی حکومت اور عمران خان کی مکمل حمایت کررہی ہے۔ لاریب ہر قومی ادارے کو حکومت کے بارے میں یہی رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا فوج نے ہمیشہ اور ہر حکومت کو ایسی ہی حمایت فراہم کی ہے؟
یہی سوال دراصل اس ملک میں سیاسی قیادت کی ناکامی اور جمہوری سفر کے لئے مشکلات کا سبب بنتا رہا ہے۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ یہ صورت حال پیدا کرنے کے لئے سیاسی لیڈروں کو معاف نہیں کیا جاسکتا ۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں ہر سیاسی لیڈر نے اپنے طور پر فوج کی خوشنودی حاصل کرنے اور برسر اقتدار یا معتوب حکومت سے بہتر ’حق نمک‘ ادا کرنے کا وعدہ کیا تاکہ انہیں پہلی بار یا ایک بار پھر برسر اقتدار آنے کا موقع مل جائے۔ اس طرح اسٹبلشمنٹ کے پاس ہمیشہ یہ ’چوائس‘ موجود رہا ہے کہ وہ کسے وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھانا چاہتی ہے یا کس پارٹی کو انتخاب میں جیتنے کا موقع دیا جائے۔ سیاسی قوتوں کے علاوہ گزشتہ عشرہ کے دوران بادشاہ گر بننے کے خواہاں یا گمان میں مبتلا اینکرز، سینئر صحافیوں یا میڈیا پرسنز نے بھی درحقیقت اسٹیبلشمنٹ کے معاون کا کردار ادا کیا ہے۔
مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کے تناظر میں اگرچہ کہا جارہا ہے کہ بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی، مقبوضہ کشمیر کی صورت حال اور لائن آف کنٹرول پر تصادم کی صورت حال میں ملک اس وقت قومی احتجاج، لاک ڈاؤن یا اسلام آباد کو بند کرنے جیسے حالات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ لیکن اس کے باوجود خود کو نمایاں کرنے کے شوقین یا حکومت اور خاص حلقوں کی خدمت گزاری پر مامور صحافیوں اور اینکرز نے گزشتہ روز سے مولانا فضل الرحمان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملاقات اور اس میں ہونے والی گفتگو کی تفصیلات سامنے لاکر اشتعال ، بے یقینی اور سیاسی بے چینی کی نئی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔
حکومت یا پاک فوج کے ترجمان نے اس قسم کی ’درون خانہ‘ خبروں کا نوٹس لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ پہلے تو یہ جاننا چاہئے کہ اگر اس وقت ملک میں واقعی سیاسی ہم آہنگی اور حکومت و اداروں کے اشتراک عمل کی شدید ضرورت ہے تو سیاسی انتشار پیدا کرنے والی خبروں کی تردید یا تصدیق کا اہتمام کرنے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی جاتی؟ وزیر اعظم ہاؤس اور آئی ایس پی آر کیوں ایک ایسی رپورٹ پر چپ سادھے ہوئے ہیں، جس سے اداروں کے کردار پر سوال اٹھتے ہیں اور حکومت کی زبوں حالی کا پول کھلتا ہے۔
جن دو سینئر اینکرز اور صحافیوں نے مولانا کی جنرل باجوہ کے ساتھ ملاقات کی خبردی ہے، انہیں حکومت اور اس کی سرپرستی کرنے والی فوج کے قریب سمجھا جاتا ہے۔ جب ایسے لوگ کوئی بات کہیں یا تو یہ درست خبر ہوتی ہے یا متعلقہ ادارے اسے پلانٹ کروانا چاہتے ہیں۔ بدنصیبی سے جدید صحافت میں خبروں کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو وقوعہ کی بنیاد پر رپورٹ ہوتی ہے اور دوسری وہ جو کسی وقوعہ کے بغیر پروپیگنڈا کے نقطہ نظر سے پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کام میں قومی میڈیا کے بعض ’جاں باز اور محب وطن‘ صحافی پوری دل جمعی سے سرکاری ذرائع کا آلہ کار بنتے ہیں۔ عام طور سے حالت جنگ میں دشمن کو گمراہ کرنے کے لئے اس قسم کے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں لیکن پاکستان کی سیاست کو مستقل طور سے میدان کارزار بنا کر عوام کو وہ ’دشمن‘ تصور کرلیا گیا ہے جنہیں گمراہ کرنا مقصود ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ اور مولانا فضل الرحمان کی ملاقات کا معاملہ صرف اسے رپورٹ کرنے تک محدود نہیں رہا۔ بلکہ اس کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’ آرمی چیف نے اس ملاقات میں کہا کہ وہ جمہوریت اور آئین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم وہی کر رہے ہیں جو آئین ہم سے مطالبہ کرتا ہے۔ مولانا کو ذمہ دار سیاسی رہنما کے طور پر خطے کی پریشان کن صورت حال کا اندازہ ہونا چاہئے ۔ آرمی چیف نے مولانا سے کہا کہ یہ دھرنے کیلئے درست وقت نہیں ہے کیونکہ ملکی معیشت کو دن رات محنت سے درست سمت کی طرف لے جایا گیا ہے۔ آرمی چیف نے واضح کیا کہ وہ اس وقت کسی بھی طرح کے عدم استحکام کی اجازت نہیں دیں گے۔ آرمی چیف نے مائنس عمران کے امکانات کو بھی مسترد کر دیا کیونکہ عمران خان ہی آئینی وزیراعظم ہیں۔ انہوں نے مولانا کو بتایا کہ آپ اور نہ ہی میں انہیں مائنس کر سکتے ہیں۔ اس اطلاع کے مطابق آرمی چیف نے یہ بھی واضح کیا کہ اگر مولانا نے احتجاج پر اصرار کیا تو کچھ اور لوگ مائنس ہو سکتے ہیں۔ استحکام کیلئے اگر جانی نقصان ہوا اور آئین میں اس کی اجازت بھی ہوتو وہ ایسے کسی اقدام سے نہیں گریز نہیں کریں گے‘۔
سوال تو یہ ہے کہ دو اہم افراد کی ملاقات میں ہونے والی باتوں تک رسائی صرف دو اینکرز کو ہی کیوں ہوسکی ہے۔ یہ دونوں صاحبان اس خبر کو منکشف کرنے سے پہلے صحافیوں کے اس گروپ میں شامل تھے جنہیں وزیر اعظم سے ملاقات کے لئے پی ایم ہاؤس بلایا گیا تھا۔ خبر کو شروع سے آخر تک پڑھ لیجئے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک خاص سیاسی ایجنڈے کے تحت تیار کی گئی ہے۔ اور اسے باقاعدہ پھیلانے اور ملک میں ’سازشی نظریہ‘ کو شدید کرنے کی غرض سے منظر عام پر لایا گیا ہے۔ اگر آرمی چیف یا مولانا فضل الرحمان اس ملاقات کے بارے میں کوئی معلومات فراہم کرنا چاہتے تو ان کے ترجمان یہ کام بخوبی کرسکتے ہیں ۔ اس صورت میں صرف دو ’خاص اور قابل اعتماد‘ صحافیوں کا انتخاب کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔
تاہم اس حوالے سے سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ پاک فوج کے متحرک اور فعال شعبہ تعلقات عامہ اور اس کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کو بھی گزشتہ چوبیس گھنٹے کے دوران اس خبر کی تردید کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ حالانکہ اس میں جنرل باجوہ سے ایسی باتیں منسوب کی گئی ہیں جو آرمی چیف کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔ ان سے ایسی گفتگو کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ مثال کے طور پر آرمی چیف کسی سیاسی لیڈر کو کیسے بتا سکتے ہیں کہ وہ کب، کیسے اور کیوں احتجاج کریں؟ یا وہ کیسے یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ اگر حالات بگاڑنے کی کوشش کی گئی تو ملک میں خوں ریزی بھی ہوسکتی ہے اور لاشیں بھی گر سکتی ہیں۔ یا وہ فوج کے سربراہ کے طور پر کیسے یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ حکومت کے اقدامات کی وجہ سے معیشت پاؤں پر کھڑی ہورہی ہے۔ اب کسی کو صورت حال خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ملک میں ابھرنے والے سیاسی احتجاج کی صورت حال میں یہ ساری باتیں عمران خان اور تحریک انصاف کے ہاتھ مضبوط کرنے اور عام لوگوں کو خوفزدہ کرنے کی سوچی سمجھی کوشش ہیں۔ پھر آئی ایس پی آر اس پر خاموشی اختیار کرکے کون سا آئینی فرض ادا کررہا ہے؟
اعلیٰ سطحی خفیہ ملاقات کا احوال بتانے والے صحافی نے محض یہی بتانا کافی نہیں سمجھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کیسے مولانا فضل الرحمان کی غلط سیاسی حکمت عملی کو مسترد کیا بلکہ اس سے آگے بڑھتے ہوئے یہ بھی رپورٹ کیا ہے کہ مولانا نے اس ملاقات کے بعد آشیرباد حاصل کرنے کے لئےکسی شخص کو فون کال کی ۔ اس میں مولانا نے یقین دہانی کروائی کہ وہ دھرنا نہیں دیں گے اور کوئی عوامی اجتماع بھی نہیں ہوگا۔ بس انہیں مارچ کی اجازت دے دی جائے۔ ’خبررساں ‘کے مطابق مولانا کو ایسا کرنے سے سختی سے منع کر دیا گیا۔ میز کے دونوں طرف سے خبریں لانے والے اس تجربہ کار صحافی اور اینکر نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ اس کے بعد مولانا فضل الرحمان شدید مایوس اور پریشان ہوگئے ہیں۔
خبر کے اس حصے کو اگر درست تناظر میں دیکھا جائے تو یہ فوج کے ڈسپلن اور یک جہتی کے بارے میں شبہات پیدا کرنے کی مذموم کوشش سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ مولانا نے آرمی چیف سے ’ڈانٹ‘ کھانے کے بعد جس بھی شخصیت کو فون کیا، وہ اسٹیبلشمنٹ کی کسی ایسی پوزیشن پر فائز ہوگی جو آرمی چیف کی مرضی و منشا کے بغیر کسی سیاسی لیڈر کو احتجاج کرنے کا گرین سگنل دینے کا اختیار رکھتی ہے۔ وزیر اعظم نے گزشتہ روز صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے مولانا کے احتجاج کے بارے میں اسے بالواسطہ طور سے بھارت کا ایجنڈا اور قومی مفاد کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔ وزیر اعظم کو اب یہ بتانا چاہئے کہ فوج کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کرنے والی خبریں پھیلانا کیا کسی قومی مفاد کا ایجنڈا ہے یا اسے بھی دشمن کی سازش ہی کہا جائے گا؟
خبر لانے یا پھیلانے کے اس واقعہ کو عمران خان کے دعوے اور شہباز شریف کی شکایت کے ساتھ ملاکر پڑھنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ فوج پوری طرح حکومت کی پشت پر ہے۔ جبکہ شہباز شریف کا شکوہ ہے فوج عمران خان کی نااہل حکومت کا مکمل ساتھ دے رہی لیکن مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو دس فیصد حمایت بھی نہیں دی گئی تھی۔ گویا ملک کا وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر عوام کی حمایت یا ساتھ کو اہمیت دینے کی بجائےیہ بتا رہے ہیں کہ حکومت کی کامیابی کا راز اس بات میں پوشیدہ ہے کہ فوج کس حد تک اس کے ساتھ ہے۔
یہ ساری خبریں ، دعوے اور شکائتیں ایک ہی بات واضح کرتی ہیں کہ فوج ملک کے سیاسی منظر نامہ میں اہم ترین عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔ آئین کی بالادستی کا اعلان کرنے والے جنرل قمر جاوید باجوہ ہی بتا سکتے ہیں کہ وہ اس ناجائز تاثر کو ختم کرنے کے لئے کیا کریں گے۔ یا یہ تاثر قائم رکھنا ہی فوج اور ملک کے مفاد میں ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
جبکہ شہباز شریف کا شکوہ ہے فوج عمران خان کی نااہل حکومت کا مکمل ساتھ دے رہی لیکن مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو دس فیصد حمایت بھی نہیں دی گئی تھی۔
کیونکہ ن لیگ ہر بار اقتدار میں آکر پاک فوج کو اپنی ذاتی پنجاب پولیس بنانے کی کوشش کرتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف صاحب، کچھ عقل کریں
25/10/2019 خواجہ محمد کلیم

سابق وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کی صحت سے متعلق مبہم اطلاعات دم توڑ چکی ہیں۔ انہیں لاحق بیماری کی تشخیص کر لی گئی ہے لیکن آئی ٹی پی نامی یہ بیماری اپنی نوعیت میں خاصی سنگین ہے اور اس کا علاج بھی کافی پیچیدہ۔ طبی ماہرین کے مطابق یہ بیماری انسانی جسم کی قوت مدافعت کو براہ راست متاثر کرتی ہے۔کہا یہ جارہا ہے کہ میاں نواز شریف کے خون میںپلیٹ لیٹس کی تعداد دوہزار تک رہ گئی تھی لیکن طب کی تاریخ میں یہ ایک انوکھا واقعہ ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق کسی بھی صحت مندانسان کے خون میں پلیٹ لیٹس کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے چارلاکھ تک ہونی چاہیے۔ اگر کسی بھی وجہ سے یہ تعداد تیس ہزار سے کم ہوجائے تو ڈاکٹر پلیٹ لیٹس مریض کے جسم میں داخل کرنا شروع کردیتے ہیں (جیسا کہ میاں نواز شریف کے ساتھ بھی کیا گیا)۔کسی بھی انسان کے خون میں پلیٹ لیٹس کی تعداد اگر بارہ یا دس ہزار تک گر جائے تو اس کے ناک،منہ، کان اور آنکھوں سے خون نکلنے لگتا ہے اور دماغ سے بھی خون نکلنے کا امکان ہوتا ہے جو کہ ظاہر ہے نظر نہیں آتا اور اس صورت میں مریض کی فوری موت واقع ہوجاتی ہے۔ اسی بنا پر میں یہ کہنے پر مجبور ہوں (مسلم لیگ ن کے ڈاکٹر سعید الہی نے دنیا ٹی وی پر اسے معجزہ قرار دیا ہے) کہ یہ طب کی دنیا کا ایک انوکھا واقعہ ہے۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ پلیٹ لیٹس کی رپورٹ میں کسی غلطی کا امکان موجود ہو سکتا ہے۔ بہرحال زیر نظر تحریر میں یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ قصہ مختصرتمام تر حالات اس بات کی دلیل ہیں کہ میاں صاحب کی طبیعت بہرحال تشویش ناک ہے۔

اس سے پہلے سوموار کی رات بارہ بجے سے ٹیلی ویژن چینلز اور سوشل میڈیا پر بعض حلقوں کی طرف سے میاں نواز شریف کی بیماری سے متعلق جو رویہ اپنایا گیا وہ اس سے قطعاََ مختلف نہیں تھا جو محترمہ کلثوم نواز کی بیماری سے متعلق اپنایا گیاتھا۔بحیثیت قوم یہ ہمارے لئے انتہائی شرم کا مقام ہے۔ ڈاکٹر فردو س عاشق اعوان نے جو کچھ اس دوران فرمایا کاش وہ پاکستانی تاریخ میں ان کے نام سے منسوب نہ ہوتا لیکن ہونی کو کون روک سکتا ہے۔ ایک طرف تو صورتحال یہ تھی لیکن دوسری طرف اصل صورتحال کا علم ہوتے ہی اقتدار کے ایوانوں میں موجود بعض افراد کے ہاتھ پاو ¿ں حقیقتاََ پھول چکے تھے۔ وہ یہ سوچ کر ہی ہلکان ہورہے تھے کہ اگر سچ مچ میاں نواز شریف کو’کچھ‘ ہو گیا تو اس کے نتائج وہ کیسے بھگتیں گے ؟۔

اس دوران میاں نواز شریف کی صاحبزادی نے جو العزیزیہ کیس میں نیب کے زیر حراست ہیں عدالت سے درخواست کی کہ انہیں دوران حراست ہی جاںبلب والد سے صرف ایک گھنٹے کے لئے ملنے کی اجازت دی جائے لیکن آبدیدہ بیٹی کی یہ درخواست رد کر دی گئی۔ پھر چند ہی گھنٹوں بعد اسی مریم نواز کو جیل سے ہسپتال لانا پڑا۔ نہیںمعلوم پھر کیا جلدی ہوئی کہ علی الصبح اسی مریم نواز کو جیل واپس لے جایا گیا۔

یہ سطور تحریر کرتے وقت تک صورتحا ل یہ ہے کہ میاں نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کے لئے دائر کی گئی درخواست جو اعتراض لگا کر خارج کر دی گئی تھی اسلام آباد ہائی کورٹ نے نہ صر ف اسے منظور کر لیا ہے بلکہ اسے جمعہ کے دن سماعت کے لئے مقرر بھی کر دیاہے۔ ممکن ہے جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں تب تک میاں نواز شریف کی ضمانت منظور ہوچکی ہو اور وہ رہا بھی ہو چکے ہوں۔

لیکن میڈیا خبریں یہ دے رہا ہے کہ میاں نواز شریف اپنے علاج کے لئے ملک سے باہر جانے کو تیار نہیں اور مسلسل انکار کر رہے ہیں۔ ان کے ذہن میں شاید یہ ہے کہ اگر وہ ملک سے باہر گئے تو ان کے خلاف ڈیل کا تاثر ان کی سیاسی موت کا باعث بن جائے گا۔

یہاں میاں صاحب سے میری ایک گزارش ہے۔ میاں صاحب! اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ایک آمر ضیاءالحق کے کندھوں پر بیٹھ کر مخصوص سیاسی اشرافیہ کا نمائندہ بن کر اقتدار میں پہنچے۔ انیس سو اٹھاسی تک آپ کاعوام سے اور عوام کا آپ سے اگر کوئی تعلق تھا بھی تو نہایت واجبی سا۔ نوے کی دہائی میں آپ کا عوام سے تعلق پیدا ہونا شروع ہوا لیکن آپ نے اور محترمہ بینظیر بھٹو نے نہ صرف جمہوریت کو بلکہ اس ملک کو بھی اپنی ذاتی انا کی لڑائی میں بہت نقصان پہنچایا۔

لیکن میاں صاحب آپ نے اس ملک اور قوم کے لئے کچھ اچھے کام بھی کئے۔آپ کا آمر مشرف کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونا قوم کو پسند آیا۔ آپ نے محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ مل کر چارٹر آف ڈیمو کریسی بھی کیا لیکن بدقسمتی سے اس پر بھی پوری طرح عمل نہ ہوسکا۔ پھر بھی کسی نہ کسی طرح آپ نے اورآپ کی حریف پیپلزپارٹی نے غلطیوں کے باوجود اس ملک میں دس برس تک جمہوریت کی گاڑی کو چلائے رکھا۔ آپ کی جماعت نے دوہزارتیرہ سے اٹھارہ تک جو کارکردگی دکھائی وہ یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔

لیکن میاں صاحب آپ کے مخالفین آپ پر ایک الزام لگاتے ہیں کہ آپ میں عقل بالکل نہیں ہے اور یہ الزام مجھے آج سو فیصد سچ لگ رہا ہے۔ بھلا کیسے ؟آپ نے کبھی سر سری ہی سہی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے؟ تو سنئے میں آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں۔

اس ملک کا بانی، اس قوم کا باپ محمد علی جناح، جسے اس قوم نے قائد اعظم کا خطاب دیا تھا۔ ایک کھٹارہ ایمبولینس میں چند قطرے پٹرول کے انتظارہ میں ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مر گیا لیکن آج تک کسی نے نہیں پوچھا کہ اس کا ذمہ دار کون تھا۔ قائد ملت لیاقت علی خان کو روالپنڈی میں گولی مارکر قتل کرنے کامعاملہ ہم نے اس خوبصورتی سے دبایا کہ اس جگہ کا نام ہی لیاقت باغ رکھ دیا۔ حسین شہید سہروری، خواجہ ناظم الدین اور خواجہ خیرالدین کا نام کیالینا یہ تو تھے ہی غدار بنگالی۔آپ نے دیکھا نہیں ہم نے خواجہ خیرالدین نے بیٹے پروفیسر ڈاکٹر خواجہ علقمہ کو کیسے ہتھکڑیاں لگا کر نیب کی جیل میں ٹھونسا؟۔

بھٹو جیسابھی تھا سیاسی رہنما تھا اور اس ملک کے لئے اس کی کچھ خدمات بھی تھیں لیکن اس کو عدالت کے ایک حکم پر پھانسی لگایا گیا۔آج اس ملک کی کوئی عدالت اس فیصلے کو ماننے کے لئے تیار نہیں، اس فیصلے کو غلط قرار دلوانے کے لئے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے والے بابر اعوان اب اس کیس کو شاید بھول چکے ہیں۔بھٹو کو بیٹی کو دن دیہاڑے کھوپڑی میں گولی مار کر قتل کیا گیا، جائے وقوعہ کو فورا دھوکر پاک صاف کر دیا گیا۔ پیپلزپارٹی پانچ برس اقتدار میں رہی لیکن آج بھی انصاف کی متلاشی ہے۔ بگٹی اور مینگل جیسے نام تو ہمارے حافظے میں ویسے ہی زیادہ دیر نہیں ٹھہرتے تاریخ میں کیسے محفوظ ہوں گے ؟۔

یہ تو ہوئے سیاستدان، اب ایک اور مخلوق کی بھی سنئے۔اس ملک میں ایوب خان نام کا ایک جرنیل تھا جوبانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو بھارت کی ایجنٹ کہا کرتا تھا آپ کو یاد ہے اس کی قبر کو بھی سیلوٹ پیش کئے گئے تھے ؟وہی جس کا بیٹا آپ کی پارٹی کا سپیکر قومی اسمبلی اور پوتا وزیر تھا، جی ہاں وہی جو آج موجودہ حکومت میں وزیر ہے۔ پھر یحییٰ خان نامی ایک جرنیل نے پاکستان کو دو لخت کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ آپ کو کیا معلوم اس کی لاش بھی سبز ہلالی پرچم میں لپیٹ کر دفن کی گئی تھی۔ ضیاالحق کی آخری آرام گاہ تاریخ کا حصہ ہے اور اس کا بویا ہم آج بھی کاٹ رہے ہیں۔ وہی کبھی جس کا مشن آپ کا مشن تھا لیکن پھر آپ نے جمہور کو عزیز جانااوراس کی قبر پر جانا چھوڑ دیا۔ مشرف کو آپ کیسے بھول سکتے ہیں اور اس دن کو آپ کیسے بھول سکتے ہیں جب عدالت جاتے ہوئے اچانک اس کی کمر میں درد اٹھا اور اسے دل کے امراض کے ایک ہسپتال میں لے جایا گیا اور پھر عدالت نے اسے ملک سے باہر جانے کا پروانہ عطا کیا۔

میاں صاحب آج آپ پر مشکل وقت ہے، آپ شدید بیمار ہیںڈاکٹرز نے شاید آپ کو ٹی وی اور اخبارت سے دور رکھا ہو۔ میں آپ کو دو تازہ ترین خبریں سناتا ہوں۔ پچھلے برس ساہیوال میں ایک بے گناہ انسان اپنی بیوی اور معصوم بیٹی سمیت دن دیہاڑے قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں کے ہاتھوں مارا گیاتھا۔ اس واقعے کی ویڈیو بائیس کروڑ پاکستانیوں سمیت آپ نے بھی دیکھی ہوگی۔ وہی جس کے بارے میں وزیراعظم نے کہا تھا کہ ذمہ داروں کو عبرت ناک سزا ملے گی۔ آج انسداد دہشتگردی کی عدالت نے اس کے تما م ملزموں کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کردیا ہے۔ یہ ہوتی ہے عبرت ناک سزا؟

دوسری خبر یہ ہے کہ پرویزمشرف کے خلاف سنگین غداری کا جو مقدمہ آپ نے دائر کیا تھا اس میں پرویز مشرف کے وکیل تھے ایم کیو ایم والے فروغ نسیم۔ فروغ نسیم صاحب آج کل وزیر قانون ہیں اور انہوں نے سنگین غداری کے اس مقدمے میں سرکار کے وکیلوں کو عین اس وقت گھر بھیجنے کا حکم نامہ جاری کیا ہے جب انہوں نے پرویزمشرف کے خلاف حتمی دلائل دینے تھے۔

اس لئے میاں صاحب عقل کریں اور ملک سے باہر جا کر علاج کرائیں۔ جان ہے توجہان ہے۔ پاکستان کے لئے سندھ کا بھٹو کافی ہے، پنجاب کا میاں برداشت سے باہر ہو جائے گا۔

پس تحریر:کالم ختم کر چکا تو خبر آئی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے گورنرپنجاب چودھری سرورکو فون کر کے ہدایت دی ہے کہ میاں نواز شریف کو بہترین طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔ یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ محترمہ مریم نواز کو والد کے ساتھ رہنے کی اجازت دی جار ہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ جذبہ قابل قدر ہے لیکن شاید اب وقت ان کے ہاتھ سے نکل چکا اور کاتب تقدیر کچھ فیصلے صادر کر چکا۔
 

جاسم محمد

محفلین
بے رحمی کا Vulture کلچر
وکالت نامہ - بابر اعوان

یہ 26 اپریل کا دن ویسا ہی تھا، جیسے اپریل کا پورا مہینہ۔

ویسے تو سارے دن عام ہی ہوتے ہیں لیکن واقعات یا حادثات انہیں خاص بنا دیتے ہیں۔ 2012 کی اس صبح 8:50 پر میں ڈریسنگ روم میں سپریم کورٹ جانے کے لئے وکالتی وردی پہن کر تیار ہو رہا تھا۔ بیگم صاحبہ نے موبائل فون پکڑاتے ہوئے کہا: کوئی گیلانی صاحب بات کر رہے ہیں۔ دوسری جانب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی تھے۔ لمبے عرصے بعد انہوں نے رابطہ بحال کیا تھا۔ اس دوران میں نے کابینہ سے استعفیٰ دیا۔ کابینہ کے اکثر کولیگ خورشید شاہ گروپ میں شامل تھے، جن سے بول چال تو کیا علیک سلیک بھی استعفے کے واقعہ کے بعد سے ختم ہو چکی تھی۔

وزیر اعظم نے کال کرنے کا مقصد بتایا کہ کوئی لاسٹ منٹ ایڈوائس کر دیں۔ میں نے کہا، آپ کے پاس اور کون کون ہے؟ جواب آیا ''NO BODY"۔ میں نے کہا: ایڈوائس کے دو حصے ہیں۔ آپ کے ارد گرد جتنے NO body بیٹھے ہوئے ہیں، ان کی گاڑیوں کی ڈگیاں چیک کروا لیں۔ رضا ربانی کے علاوہ، سب میں تیار شیروانیاں پڑی ہوئی ہیں۔ یہ سارے ہی وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔ اس پر بیک گرائونڈ سے زوردار قہقہہ سنائی دیا۔ پتہ چلا کہ گیلانی صاحب فون کا speaker آن کر کے اپنے آفس کی land line سے بول رہے تھے۔

ایڈوائس کا دوسرا حصہ یہ تھا کہ آپ عدالت میں اپنے وکیلوں کا وکالت نامہ کینسل کر دیں اور کہیں کہ میری توقع کے مطابق میرا ڈیفنس پیش نہیں ہو سکا، اس لئے مجھے مزید وقت دیا جائے۔ میں نیا وکیل کروں گا یا خود ہی اپنا مقدمہ لڑوں گا۔ وزیر اعظم کا اگلا سوال تھا: اس سے کیا ہو گا؟ میں نے کہا: اس سے آپ کو 4/6 ہفتے مل جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر نئے دن کے سورج میں علیحدہ انرجی رکھ چھوڑی ہے۔ اس لئے، ہر نیا دن نئے مواقع لاتا ہے، ''you will save the day"۔ گیلانی صاحب نے کہا: میرا وکیل تو کہتا ہے کہ جیل جا کر بھی وزیر اعظم میں ہی رہوں گا۔ اس بارے میں آپ کا کیا تبصرہ ہے: میں نے کہا، مبارک ہو... عدالت کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی آپ کو جیل پہنچا دیا گیا ہے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ معلوم تاریخ ہے۔

آج 2019 میں چہرے اور مہرے، دونوں بدل چکے ہیں، لیکن تاریخ تبدیلی سے انکاری ہے۔ انکار کے کمالِ فن کے کچھ شاہکار، ان دنوں پردۂ سکرین پر جگنو بن کر جگمگا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر سیفما والے عالم، سیاسی عالمِ دین کی رہنمائی فرما رہے ہیں۔ کسی زمانے میں رہنمائی کے طالب چل کر اہل علم کے پاس جاتے تھے۔ آج جہاں گیری کے طالب دست گیری کے لئے سیفما والے عالم کے دفتر جاتے ہیں۔ ڈی آئی خان سے لاہور۔ یہ وہی عالم ہیں جن کی تقریب میں نواز شریف نے پاکستان کے مشرقی بارڈر کو واہگہ والی ''ایویں ای لکیر" کہا تھا۔ یہ تو معلوم نہیں کہ احمد فراز نے یہ کس کے لئے کہا تھا، لیکن ان حالات میں بالکل ٹھیک کہا تھا:

یہ ''عالم" شوق کا دیکھا نہ جائے

وہ بُت ہے یا خُدا، دیکھا نہ جائے

Investment یا سرمایہ کاری کے بین الاقوامی تنازعات طے کرنے والے ٹریبونل میں ایک پروسیجر کا نام ہے Vulture Fund۔ ایسے لگتا ہے نواز شریف صاحب کے حوالے سے، ان دنوں اُن کے ''دردیوں " نے بڑی بے دردی سے vulture کلچر اپنا لیا ہے۔ نواز شریف تا دمِ تحریر، قائم دائم ہیں۔ بقائمیٔ ہوش و حواس۔ لیکن گاڑیوں کی ڈگی میں شیروانی رکھنے والے کہہ رہے ہیں کہ اگر وہ خدانخواستہ گزر گئے تو اس کا ذمہ دار وزیر اعظم عمران خان نیازی ہو گا۔ کسی بھی بیمار کے لئے اس قدر بے رحمانہ جملہ صرف سیاست میں ہی سنا، لکھا اور بولا جا سکتا ہے۔ عام زندگی میں تیمار داری کے لئے مہذب لوگ کہتے ہیں '' سنا ہے، آپ کے دشمنوں کی طبیعت کچھ نا ساز ہے" ہر مریض بسترِ مرگ تک امید کے سہارے علاج کرواتا ہے۔ بیماری اور تکلیف ہر ذی روح کے حصے میں آ سکتی ہے لیکن یہ طرزِ کلام کسی زندہ شخص کے بارے میں پہلی بار سننے میں آ رہا ہے۔ اس ہمدردی کے بیانیے میں سے '' ہم دردی" کا عنصر 100 فیصد غائب ہے جب کہ شیروانی پہننے کی خواہش 100 فیصد غالب بلکہ ظاہر و باہر نظر آ رہی ہے۔

بے رحمی کا یہ Vulture کلچر multi-dimensional ہے۔ اگلے دن وٹس ایپ پر ایک کلپ (clip) کہیں سے آیا جس میں لاہوری مزاحیہ اداکار لوگوں کو لیموں کا ریٹ 650 روپے فی کلو بتا رہا تھا۔ گزشتہ حکمرانوں کے ارسطو نے، کان سے دھواں اور ناک سے شعلے برسانے والی پریس کانفرنس میں ملکی معیشت کا اُس مزاحیہ اداکار کی طرح ہی نقشہ کھینچا ہے۔ دوسری جانب، تین وزارتوں اور اداروں کے اعداد و شمار ایسے ارسطوئوں کو یوں بول بول کر ''چل جھوٹے" کہہ رہے ہیں، جس کی وجوہات یوں ہیں :


پہلی وجہ: مالی سال 2019-2020 یعنی سرمایہ کاری کے سال کی پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر)۔ ٹیکس ریونیو میں 15 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ سال 2018 میں یہ ریونیو832 ارب روپے تھا۔ سال 2019 میں بڑھ کر 960 ارب روپے ہو گیا۔ درآمدات (Imports) میں 3 ارب ڈالر کی کمی کے باوجود بھی یہ اضافہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ پاکستان معاشی خود انحصاری کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اسی عرصے میں ان لینڈ ریونیو میں 25 فی صد اضافہ ریکارڈ ہوا جب کہ پرائیویٹ بیرونی سرمایہ کاری میں 51 فی صد اضافہ اور کل بیرونی سرمایہ کاری میں 130 فی صد اضافہ ریکارڈ ہوا۔

دوسری وجہ، Circular debt ہے، جسے اردوئے معلّیٰ میں گردشی قرضہ اور اردوئے محلہ میں گشتی قرضہ کہتے ہیں۔ جس کی وجہ منسٹری آف فارن افیئرز سے ہی پوچھی جانی چاہیے، جن کے خفیہ ترین دروازے ہر طرح کی مٹر گشت کرنے والے گشتی مسافروں کے لئے دن اور زیادہ تر رات میں کھلے رہتے ہیں۔

2017-2018 میں یہ گردشی قرضہ 38 ارب روپے ماہانہ کے حساب سے اُوپر چڑھ رہا تھا۔ سال 2018-2019 میں اسے cap کر کے 26 ارب روپے ماہانہ تک نیچے لایا گیا۔ اس سہ ماہی میں یہ قرضہ مزید کم ہو کر 12 ارب روپے ماہانہ پر آ گیا ہے۔ اس منحوس قرضے کا vicious سرکل انشاء اللہ جلد ہی ختم ہو جائے گا۔ یہ وہی قرضہ ہے جسے اتارنے کے نام پر مفرور سمدھی نے نواز حکومت کے پہلے ہفتے میں 480 ارب روپے حسبِ منشا کمپنیوں میں تقسیم کر دئیے تھے۔

تیسری وجہ: تین خساروں میں کمی ہے۔ پہلی کمی، عمران خان کی حکومت نے پہلے بجٹ کی تکمیل سے پہلے ہی 30 ارب کرنٹ اکائونٹ خسارے میں 64 فی صد کمی کر دی ہے۔ دوسری، تجارتی خسارے میں یہی کمی 35 فی صد ریکارڈ کی گئی۔ تیسری، مالیاتی خسارے میں بھی 35 فی صد کمی آئی ہے۔ پچھلے ایک عشرے میں گزشتہ دونوں حکومتیں ایسے معاشی اعشاریے حاصل کرنے میں ناکام رہی تھیں۔ وہ بھی اتنی کم مدت کے اندر۔

شہر اقتدار کی بہت بڑی خبر تو میرے پاس ہے۔ اگر نثر میں لکھی تو بے رحم کہلائوں گا، اس لیے چند دن صبر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ویسے سمجھنے والوں کے لئے یہ رباعی کافی اور شافی ہے:

اب نہ طفلاں کو خبر ہے کسی دیوانے کی

اور نہ آواز کہ ''او چاک گریباں والے"

نہ کسی ہاتھ میں پتھّر نہ کسی ہاتھ میں پھول

کر گئے کُوچ کہاں کوچۂ جاناں والے
 

زیک

مسافر
Sharing of blasphemy, pornography, terrorism and other unlawful content on social media/internet is illegal. Users are advised to report such content on content-complaint@pta.gov.pk for action under PECA- 2016
محفل کا سرور امریکہ میں ہے۔ ہم نہیں مانتے کہ اس پر پاکستانی قوانین کا اطلاق ہوتا ہے۔ ہاں پاکستانی محفلین اپنی استطاعت کے مطابق ہی محفل پر آئیں
 
Top