سیالکوٹ تاریخ کے آئینے میں

جموں کے پہاڑوں کے آنگن میں ہیرے کی طرح چمکتی ہوئی نشاط انگیز اور نیلگوں فضائوں میں رچی ہوئی ایک تاریخی بستی امرت گھومتی نالی کی موجیں مہکتے سبزہ زاروں کو کف گل میں شبنم کی طرح چمکا اور مہکا دیتی تھیں قریبی پہاڑوں پر اگے ہوئے موتیے اور چنبے کے گلزاروں سے شبنمی مہکتی ہوائیں بادلوں سے سرسراتی ہوئی جب گزرتی تو سیالکوٹ کی‌ڈالی ڈالی جھوم کر فضا کو نشیلی اور نغمہ سرا کر دیتی یہ روحانی ماحول بڑے بڑے درویشوں اور عارفوں کو دھیان سے گیان کی منزل تک لے آتا اس وجہ سے اسے مہاتماوں کی سرزمین کے نام سے یاد کیے جانے کے علاوہ اسے آٹھ دروازوں کا شہر بھی کہا جاتا رہا ہے
راجہ سل کے زمانے میں اسے سل کوٹ کے نام سے بھی پکارا جاتا رہا ہے
حیران کن کہانی یہ ہے کہ آپ بوسیدہ ،کھنڈر،سلاطین باطن کے پاک مزارات ،مسمار قلعے،ٹوٹی پھوٹی قبریں،چپہ چپہ پر پرانے قحبے اسکی گزشتہ بڑائی کے افسانے دوہراتے ہیں جس قدر پے درپے انقلابات اور زمانے کی نیر نگیاں سیالکوٹ کے حصہ میں آئی ہیں شاید ہی روح زمین پر کوئی شہر ان کا متحمل ہو سکا ہو
اس شہر کی بنیاد چار ہزار سال قبل راجہ سل نے رکھی اور شہر کے وسط میں دہری فصیل والا قعلہ دفاع کے نقطہ نظر سے تعمیر کروایا جس وقت راجہ سل نے اس قلعہ کی بنیاد رکھی اس وقت اصل شہر آجکل کے ٹبہ ککے زئیاں،امام صاحب،ٹبہ سیداں،ٹبہ شوالہ،دھاروال اور پالا شاہ گیٹ پر مشتمل تھا 323 سال قبل سکند اعظم کے ساتھ مورخ پنجاب آئے اور 300 سال قبل دریائے راوی اور چناب میں زبردست طغیانی آنے سے سل کوٹ اور گردو نواح کے علاقہ صفحہ ہستی سے مٹ گئے شاہ جہاں بادشاہ کے دور حکومت میں سل کوٹ ایک بار پھر دنیا کے نقشہ پر ابھرا اور یہاں پر 13 باغ،12 دریاں بنیں اور تعمیر و ترقی کا دور شروع ہوا پھر ایک وقت میں سکھوں نے اس پر قبضہ کر لیا اور ایک عرصہ تک شراب و جواء اس شہر میں‌چلتے رہے سکھ بادشاہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد انگریزوں نے اس شہر میں پنجے جما لئے 1849ء میں مہا راجہ دلیپ سنگھ کو معزول کر دیا گیا اور سل کوٹ کو دوسرے علاقوں کی طرح اپنی گرفت میں لےلیا1857ء میں پہلا مارشل لا نافذ کر دیا گیا جہلم اور راولپنڈی کے مسلم فوجیوں نے اپنی توپوں کے منہ انگریز چھاونیوں کی طرف کر کے بغاوت کا آغاز کیا تین ماہ کے قلیل عرصہ بعد انگریز مارشل لاء اٹھانے پر مجبور ہوگئے
پھر صوفیاء کرام نے سل کوٹ میں پانچ دینی درسے قائم کئے جن میں دوردراز سے طلبہ طالبات حفظ قرآن اور دین کی تعلیم کےلئے جوک دو جوک آتے رہے پاکستان کو معرض وجود میں لانے کےلئے سیالکوٹ کے باسیوں نےانتھک کوششیں کیں 1944ء میں مسلمانوں کی عظیم رہنما قاعد اعظم محمد علی جناح سیالکوٹ دورہ پر آئے اور تالاب شیخ مولا بخش میں عوامی اجتماع سے خطاب کیا انکے ہمراہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان تھے انہوں نے اپنے خطاب میں فرمایا”” میں آپ کی طرح نوجوان نہیں ہوں لیکن آپ کے جذبے نے میری قوت کو دو آتشہ کر دیا ہے““
پاکستان کی آزادی لاکھوں قربانیوں کے نتیجے میں وجود میں آئی جس میں سیالکوٹ کے باسیوں نے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا اور مہکتی ہوائوں کی وادی جموں کشمیر جو ہم سے بھارتی سیاسی سورمائوں نے انگریزوں کی سازش سے چھین لیا سیالکوٹ میں آزادی کے بعد بہت کم صنعتیں تھیں اور ضلع کی آبادی ایک لاکھ نفوس پر مشتمل تھی ضلع سیالکوٹ کی ایک تحصیل نارووال کو بعد میں ضلع کا درجہ دے دیا گیا اور اب سیالکوٹ میں صعنتوں کا جال پھیلایا جا چکا ہے چیمبر آف کامرس آج سیالکوٹ کی تعمیر و ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کر رہی ہے اور چیمبر ہی کی بدولت سے آج سیالکوٹ میں ایک انٹرنیشنل ائیر پورٹ تعمیر کیا جا چکا ہے جس میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہ تھا اور ایک خطیر رقم سیالکوٹ چیمبر آف کامرس نے دی
سیالکوٹ میں جنم لینے والے چند معروف شخصیات
ڈاکٹر علامہ اقبال مفکر پاکستان
فیض احمد فیض
پروفیسر اصغر سوادئی جو کہ پاکستان کا مطلب کیا کے خالق ہیں
مگر افسوس کہ اس عظیم شخص جو اس ترانہ کا پاکستان کا مطلب کیا کا خالق تھا انتہائی کسمپرسی کے حالات میں دنیا سے رخصت ہوا جس کی نمازہ جنازہ میں حکومت کے کسی عہدیدار نے شر کت نہیں کی
اجازت کے ساتھ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر سید انجم شاہ
 

خرم

محفلین
فیض صاحب تو نارووال کے تھے شاہ جی ہمارے ہمسایہ گاؤں کالا قادر سے :)
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت اچھا لگا شاہ صاحب اپنے شہر کے بارے میں پڑھ کر اور سیالکوٹ چیمبر کا کردار سیالکوٹ کی تعمیر و ترقی میں واقعی گراں قدر ہے بلکہ پوری دنیا میں 'رول ماڈل' کے طور پر مشہور ہے۔

خرم صاحب: جب فیض صاحب نے جنم لیا تھا تب نارووال بھی سیالکوٹ کا ہی حصہ تھا :) اور مولانا ظفر علی خان بھی تو سیالکوٹ کے ہی تھے!
 

خرم

محفلین
بہت اچھا لگا شاہ صاحب اپنے شہر کے بارے میں پڑھ کر اور سیالکوٹ چیمبر کا کردار سیالکوٹ کی تعمیر و ترقی میں واقعی گراں قدر ہے بلکہ پوری دنیا میں 'رول ماڈل' کے طور پر مشہور ہے۔

خرم صاحب: جب فیض صاحب نے جنم لیا تھا تب نارووال بھی سیالکوٹ کا ہی حصہ تھا :) اور مولانا ظفر علی خان بھی تو سیالکوٹ کے ہی تھے!
وارث بھیا آپکی بات بالکل درست ہے لیکن اب جب نارووال علٰیحدہ ضلع ہو گیا تو پھر فیض صاحب بھی نارووال کے ہوئے۔ جنم کے وقت تو ہم بھی ضلع سیالکوٹ کے ہی باشندہ تھے :devil:
 

محمد وارث

لائبریرین
مان لیا برادرم :)

ویسے مجھے تو اقبال کو بھی سیالکوٹی ماننے میں تامل ہے، کہ ساری زندگی تو وہ سیالکوٹ سے باہر ہی رہے، ایران میں تو وہ مشہور ہی "اقبال لاھوری" کے نام سے ہیں اور صرف اقبال ہی کیا سیالکوٹ میں جنم لینے والے سارے مشاہیر سیالکوٹ سے باہر جا کر ہی چمکے، ہاں اصغر سودائی سیالکوٹ میں ہی رہے لیکن گمنام، پاکستان کی اکثریت کو یہ بھی نہیں علم کہ نعرۂ پاکستان کے خالق وہی تھے!
 

محمد وارث

لائبریرین
نہیں بھائی یہ تو ویب کے چند دوست ہیں جو مجھے جانتے ہیں وگرنہ میرے تو بہت سارے ہمسائے بھی مجھے نہیں جانتے :)

اور یہ اچھا ہی ہے!
 

خرم

محفلین
یہی تو بات ہے مشہور ہونے کی حضرت غالب صاحب کو بھی ان کے ہمسائے نہیں جانتے تھے ہی ہی ہی
میرزا کو تو ان کی قرض مانگنے کی عادت کی وجہ سے پہچاننے سے منکر ہوجاتے ہوں گے۔ وارث بھیا کو شائد کسی اور وجہ سے گمنام رہنا پسند ہے :) ویسے تو ہمارے ہمسائے میں بھی ہمیں‌کوئی نہیں جانتا تھا، برادر خورد البتہ خوب مشہور تھے بلکہ گاؤں میں بھی ہم اپنے چھوٹے بھائی کے بھائی کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔
 

زونی

محفلین
جموں کے پہاڑوں کے آنگن میں ہیرے کی طرح چمکتی ہوئی نشاط انگیز اور نیلگوں فضائوں میں رچی ہوئی ایک تاریخی بستی امرت گھومتی نالی کی موجیں مہکتے سبزہ زاروں کو کف گل میں شبنم کی طرح چمکا اور مہکا دیتی تھیں قریبی پہاڑوں پر اگے ہوئے موتیے اور چنبے کے گلزاروں سے شبنمی مہکتی ہوائیں بادلوں سے سرسراتی ہوئی جب گزرتی تو سیالکوٹ کی‌ڈالی ڈالی جھوم کر فضا کو نشیلی اور نغمہ سرا کر دیتی یہ روحانی ماحول بڑے بڑے درویشوں اور عارفوں کو دھیان سے گیان کی منزل تک لے آتا اس وجہ سے اسے مہاتماوں کی سرزمین کے نام سے یاد کیے جانے کے علاوہ اسے آٹھ دروازوں کا شہر بھی کہا جاتا رہا ہے
راجہ سل کے زمانے میں اسے سل کوٹ کے نام سے بھی پکارا جاتا رہا ہے
حیران کن کہانی یہ ہے کہ آپ بوسیدہ ،کھنڈر،سلاطین باطن کے پاک مزارات ،مسمار قلعے،ٹوٹی پھوٹی قبریں،چپہ چپہ پر پرانے قحبے اسکی گزشتہ بڑائی کے افسانے دوہراتے ہیں جس قدر پے درپے انقلابات اور زمانے کی نیر نگیاں سیالکوٹ کے حصہ میں آئی ہیں شاید ہی روح زمین پر کوئی شہر ان کا متحمل ہو سکا ہو
اس شہر کی بنیاد چار ہزار سال قبل راجہ سل نے رکھی اور شہر کے وسط میں دہری فصیل والا قعلہ دفاع کے نقطہ نظر سے تعمیر کروایا جس وقت راجہ سل نے اس قلعہ کی بنیاد رکھی اس وقت اصل شہر آجکل کے ٹبہ ککے زئیاں،امام صاحب،ٹبہ سیداں،ٹبہ شوالہ،دھاروال اور پالا شاہ گیٹ پر مشتمل تھا 323 سال قبل سکند اعظم کے ساتھ مورخ پنجاب آئے اور 300 سال قبل دریائے راوی اور چناب میں زبردست طغیانی آنے سے سل کوٹ اور گردو نواح کے علاقہ صفحہ ہستی سے مٹ گئے شاہ جہاں بادشاہ کے دور حکومت میں سل کوٹ ایک بار پھر دنیا کے نقشہ پر ابھرا اور یہاں پر 13 باغ،12 دریاں بنیں اور تعمیر و ترقی کا دور شروع ہوا پھر ایک وقت میں سکھوں نے اس پر قبضہ کر لیا اور ایک عرصہ تک شراب و جواء اس شہر میں‌چلتے رہے سکھ بادشاہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد انگریزوں نے اس شہر میں پنجے جما لئے 1849ء میں مہا راجہ دلیپ سنگھ کو معزول کر دیا گیا اور سل کوٹ کو دوسرے علاقوں کی طرح اپنی گرفت میں لےلیا1857ء میں پہلا مارشل لا نافذ کر دیا گیا جہلم اور راولپنڈی کے مسلم فوجیوں نے اپنی توپوں کے منہ انگریز چھاونیوں کی طرف کر کے بغاوت کا آغاز کیا تین ماہ کے قلیل عرصہ بعد انگریز مارشل لاء اٹھانے پر مجبور ہوگئے
پھر صوفیاء کرام نے سل کوٹ میں پانچ دینی درسے قائم کئے جن میں دوردراز سے طلبہ طالبات حفظ قرآن اور دین کی تعلیم کےلئے جوک دو جوک آتے رہے پاکستان کو معرض وجود میں لانے کےلئے سیالکوٹ کے باسیوں نےانتھک کوششیں کیں 1944ء میں مسلمانوں کی عظیم رہنما قاعد اعظم محمد علی جناح سیالکوٹ دورہ پر آئے اور تالاب شیخ مولا بخش میں عوامی اجتماع سے خطاب کیا انکے ہمراہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان تھے انہوں نے اپنے خطاب میں فرمایا”” میں آپ کی طرح نوجوان نہیں ہوں لیکن آپ کے جذبے نے میری قوت کو دو آتشہ کر دیا ہے““
پاکستان کی آزادی لاکھوں قربانیوں کے نتیجے میں وجود میں آئی جس میں سیالکوٹ کے باسیوں نے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا اور مہکتی ہوائوں کی وادی جموں کشمیر جو ہم سے بھارتی سیاسی سورمائوں نے انگریزوں کی سازش سے چھین لیا سیالکوٹ میں آزادی کے بعد بہت کم صنعتیں تھیں اور ضلع کی آبادی ایک لاکھ نفوس پر مشتمل تھی ضلع سیالکوٹ کی ایک تحصیل نارووال کو بعد میں ضلع کا درجہ دے دیا گیا اور اب سیالکوٹ میں صعنتوں کا جال پھیلایا جا چکا ہے چیمبر آف کامرس آج سیالکوٹ کی تعمیر و ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کر رہی ہے اور چیمبر ہی کی بدولت سے آج سیالکوٹ میں ایک انٹرنیشنل ائیر پورٹ تعمیر کیا جا چکا ہے جس میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہ تھا اور ایک خطیر رقم سیالکوٹ چیمبر آف کامرس نے دی
سیالکوٹ میں جنم لینے والے چند معروف شخصیات
ڈاکٹر علامہ اقبال مفکر پاکستان
فیض احمد فیض
پروفیسر اصغر سوادئی جو کہ پاکستان کا مطلب کیا کے خالق ہیں
مگر افسوس کہ اس عظیم شخص جو اس ترانہ کا پاکستان کا مطلب کیا کا خالق تھا انتہائی کسمپرسی کے حالات میں دنیا سے رخصت ہوا جس کی نمازہ جنازہ میں حکومت کے کسی عہدیدار نے شر کت نہیں کی
اجازت کے ساتھ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر سید انجم شاہ








شکریہ انجم سیالکوٹ‌کے بارے میں معلومات شئیر کرنے کیلئے ۔
 
Top