سید انجم شاہ
محفلین
جموں کے پہاڑوں کے آنگن میں ہیرے کی طرح چمکتی ہوئی نشاط انگیز اور نیلگوں فضائوں میں رچی ہوئی ایک تاریخی بستی امرت گھومتی نالی کی موجیں مہکتے سبزہ زاروں کو کف گل میں شبنم کی طرح چمکا اور مہکا دیتی تھیں قریبی پہاڑوں پر اگے ہوئے موتیے اور چنبے کے گلزاروں سے شبنمی مہکتی ہوائیں بادلوں سے سرسراتی ہوئی جب گزرتی تو سیالکوٹ کیڈالی ڈالی جھوم کر فضا کو نشیلی اور نغمہ سرا کر دیتی یہ روحانی ماحول بڑے بڑے درویشوں اور عارفوں کو دھیان سے گیان کی منزل تک لے آتا اس وجہ سے اسے مہاتماوں کی سرزمین کے نام سے یاد کیے جانے کے علاوہ اسے آٹھ دروازوں کا شہر بھی کہا جاتا رہا ہے
راجہ سل کے زمانے میں اسے سل کوٹ کے نام سے بھی پکارا جاتا رہا ہے
حیران کن کہانی یہ ہے کہ آپ بوسیدہ ،کھنڈر،سلاطین باطن کے پاک مزارات ،مسمار قلعے،ٹوٹی پھوٹی قبریں،چپہ چپہ پر پرانے قحبے اسکی گزشتہ بڑائی کے افسانے دوہراتے ہیں جس قدر پے درپے انقلابات اور زمانے کی نیر نگیاں سیالکوٹ کے حصہ میں آئی ہیں شاید ہی روح زمین پر کوئی شہر ان کا متحمل ہو سکا ہو
اس شہر کی بنیاد چار ہزار سال قبل راجہ سل نے رکھی اور شہر کے وسط میں دہری فصیل والا قعلہ دفاع کے نقطہ نظر سے تعمیر کروایا جس وقت راجہ سل نے اس قلعہ کی بنیاد رکھی اس وقت اصل شہر آجکل کے ٹبہ ککے زئیاں،امام صاحب،ٹبہ سیداں،ٹبہ شوالہ،دھاروال اور پالا شاہ گیٹ پر مشتمل تھا 323 سال قبل سکند اعظم کے ساتھ مورخ پنجاب آئے اور 300 سال قبل دریائے راوی اور چناب میں زبردست طغیانی آنے سے سل کوٹ اور گردو نواح کے علاقہ صفحہ ہستی سے مٹ گئے شاہ جہاں بادشاہ کے دور حکومت میں سل کوٹ ایک بار پھر دنیا کے نقشہ پر ابھرا اور یہاں پر 13 باغ،12 دریاں بنیں اور تعمیر و ترقی کا دور شروع ہوا پھر ایک وقت میں سکھوں نے اس پر قبضہ کر لیا اور ایک عرصہ تک شراب و جواء اس شہر میںچلتے رہے سکھ بادشاہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد انگریزوں نے اس شہر میں پنجے جما لئے 1849ء میں مہا راجہ دلیپ سنگھ کو معزول کر دیا گیا اور سل کوٹ کو دوسرے علاقوں کی طرح اپنی گرفت میں لےلیا1857ء میں پہلا مارشل لا نافذ کر دیا گیا جہلم اور راولپنڈی کے مسلم فوجیوں نے اپنی توپوں کے منہ انگریز چھاونیوں کی طرف کر کے بغاوت کا آغاز کیا تین ماہ کے قلیل عرصہ بعد انگریز مارشل لاء اٹھانے پر مجبور ہوگئے
پھر صوفیاء کرام نے سل کوٹ میں پانچ دینی درسے قائم کئے جن میں دوردراز سے طلبہ طالبات حفظ قرآن اور دین کی تعلیم کےلئے جوک دو جوک آتے رہے پاکستان کو معرض وجود میں لانے کےلئے سیالکوٹ کے باسیوں نےانتھک کوششیں کیں 1944ء میں مسلمانوں کی عظیم رہنما قاعد اعظم محمد علی جناح سیالکوٹ دورہ پر آئے اور تالاب شیخ مولا بخش میں عوامی اجتماع سے خطاب کیا انکے ہمراہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان تھے انہوں نے اپنے خطاب میں فرمایا”” میں آپ کی طرح نوجوان نہیں ہوں لیکن آپ کے جذبے نے میری قوت کو دو آتشہ کر دیا ہے““
پاکستان کی آزادی لاکھوں قربانیوں کے نتیجے میں وجود میں آئی جس میں سیالکوٹ کے باسیوں نے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا اور مہکتی ہوائوں کی وادی جموں کشمیر جو ہم سے بھارتی سیاسی سورمائوں نے انگریزوں کی سازش سے چھین لیا سیالکوٹ میں آزادی کے بعد بہت کم صنعتیں تھیں اور ضلع کی آبادی ایک لاکھ نفوس پر مشتمل تھی ضلع سیالکوٹ کی ایک تحصیل نارووال کو بعد میں ضلع کا درجہ دے دیا گیا اور اب سیالکوٹ میں صعنتوں کا جال پھیلایا جا چکا ہے چیمبر آف کامرس آج سیالکوٹ کی تعمیر و ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کر رہی ہے اور چیمبر ہی کی بدولت سے آج سیالکوٹ میں ایک انٹرنیشنل ائیر پورٹ تعمیر کیا جا چکا ہے جس میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہ تھا اور ایک خطیر رقم سیالکوٹ چیمبر آف کامرس نے دی
سیالکوٹ میں جنم لینے والے چند معروف شخصیات
ڈاکٹر علامہ اقبال مفکر پاکستان
فیض احمد فیض
پروفیسر اصغر سوادئی جو کہ پاکستان کا مطلب کیا کے خالق ہیں
مگر افسوس کہ اس عظیم شخص جو اس ترانہ کا پاکستان کا مطلب کیا کا خالق تھا انتہائی کسمپرسی کے حالات میں دنیا سے رخصت ہوا جس کی نمازہ جنازہ میں حکومت کے کسی عہدیدار نے شر کت نہیں کی
اجازت کے ساتھ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر سید انجم شاہ
راجہ سل کے زمانے میں اسے سل کوٹ کے نام سے بھی پکارا جاتا رہا ہے
حیران کن کہانی یہ ہے کہ آپ بوسیدہ ،کھنڈر،سلاطین باطن کے پاک مزارات ،مسمار قلعے،ٹوٹی پھوٹی قبریں،چپہ چپہ پر پرانے قحبے اسکی گزشتہ بڑائی کے افسانے دوہراتے ہیں جس قدر پے درپے انقلابات اور زمانے کی نیر نگیاں سیالکوٹ کے حصہ میں آئی ہیں شاید ہی روح زمین پر کوئی شہر ان کا متحمل ہو سکا ہو
اس شہر کی بنیاد چار ہزار سال قبل راجہ سل نے رکھی اور شہر کے وسط میں دہری فصیل والا قعلہ دفاع کے نقطہ نظر سے تعمیر کروایا جس وقت راجہ سل نے اس قلعہ کی بنیاد رکھی اس وقت اصل شہر آجکل کے ٹبہ ککے زئیاں،امام صاحب،ٹبہ سیداں،ٹبہ شوالہ،دھاروال اور پالا شاہ گیٹ پر مشتمل تھا 323 سال قبل سکند اعظم کے ساتھ مورخ پنجاب آئے اور 300 سال قبل دریائے راوی اور چناب میں زبردست طغیانی آنے سے سل کوٹ اور گردو نواح کے علاقہ صفحہ ہستی سے مٹ گئے شاہ جہاں بادشاہ کے دور حکومت میں سل کوٹ ایک بار پھر دنیا کے نقشہ پر ابھرا اور یہاں پر 13 باغ،12 دریاں بنیں اور تعمیر و ترقی کا دور شروع ہوا پھر ایک وقت میں سکھوں نے اس پر قبضہ کر لیا اور ایک عرصہ تک شراب و جواء اس شہر میںچلتے رہے سکھ بادشاہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد انگریزوں نے اس شہر میں پنجے جما لئے 1849ء میں مہا راجہ دلیپ سنگھ کو معزول کر دیا گیا اور سل کوٹ کو دوسرے علاقوں کی طرح اپنی گرفت میں لےلیا1857ء میں پہلا مارشل لا نافذ کر دیا گیا جہلم اور راولپنڈی کے مسلم فوجیوں نے اپنی توپوں کے منہ انگریز چھاونیوں کی طرف کر کے بغاوت کا آغاز کیا تین ماہ کے قلیل عرصہ بعد انگریز مارشل لاء اٹھانے پر مجبور ہوگئے
پھر صوفیاء کرام نے سل کوٹ میں پانچ دینی درسے قائم کئے جن میں دوردراز سے طلبہ طالبات حفظ قرآن اور دین کی تعلیم کےلئے جوک دو جوک آتے رہے پاکستان کو معرض وجود میں لانے کےلئے سیالکوٹ کے باسیوں نےانتھک کوششیں کیں 1944ء میں مسلمانوں کی عظیم رہنما قاعد اعظم محمد علی جناح سیالکوٹ دورہ پر آئے اور تالاب شیخ مولا بخش میں عوامی اجتماع سے خطاب کیا انکے ہمراہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان تھے انہوں نے اپنے خطاب میں فرمایا”” میں آپ کی طرح نوجوان نہیں ہوں لیکن آپ کے جذبے نے میری قوت کو دو آتشہ کر دیا ہے““
پاکستان کی آزادی لاکھوں قربانیوں کے نتیجے میں وجود میں آئی جس میں سیالکوٹ کے باسیوں نے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا اور مہکتی ہوائوں کی وادی جموں کشمیر جو ہم سے بھارتی سیاسی سورمائوں نے انگریزوں کی سازش سے چھین لیا سیالکوٹ میں آزادی کے بعد بہت کم صنعتیں تھیں اور ضلع کی آبادی ایک لاکھ نفوس پر مشتمل تھی ضلع سیالکوٹ کی ایک تحصیل نارووال کو بعد میں ضلع کا درجہ دے دیا گیا اور اب سیالکوٹ میں صعنتوں کا جال پھیلایا جا چکا ہے چیمبر آف کامرس آج سیالکوٹ کی تعمیر و ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کر رہی ہے اور چیمبر ہی کی بدولت سے آج سیالکوٹ میں ایک انٹرنیشنل ائیر پورٹ تعمیر کیا جا چکا ہے جس میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہ تھا اور ایک خطیر رقم سیالکوٹ چیمبر آف کامرس نے دی
سیالکوٹ میں جنم لینے والے چند معروف شخصیات
ڈاکٹر علامہ اقبال مفکر پاکستان
فیض احمد فیض
پروفیسر اصغر سوادئی جو کہ پاکستان کا مطلب کیا کے خالق ہیں
مگر افسوس کہ اس عظیم شخص جو اس ترانہ کا پاکستان کا مطلب کیا کا خالق تھا انتہائی کسمپرسی کے حالات میں دنیا سے رخصت ہوا جس کی نمازہ جنازہ میں حکومت کے کسی عہدیدار نے شر کت نہیں کی
اجازت کے ساتھ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر سید انجم شاہ