اقتباسات سیاہ حاشیے، سعادت حسن منٹو

لوٹا ہوا مال برآمد کرنے کے لیے پولیس نے چھاپے مارنے شروع کیے۔

لوگ ڈر کے مارے لوٹا ہوا مال رات کے اندھیرے میں باہر پھینکنے لگے۔ کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنا مال بھی موقع پاکر اپنے سے علیحدہ کر دیا تاکہ قانونی گرفت سے بچے رہیں۔

ایک آدمی کو بہت دقت پیش آئی۔ اس کے پاس شکر کی دو بوریاں تھیں جو اس نے پنساری کی دکان سے لوٹی تھیں۔ ایک تو وہ جوں کی توں رات کے اندھیرے میں پاس والے کنویں میں پھینک آیا، لیکن جب دوسری اٹھا کر اس میں ڈالنے لگا تو خود بھی ساتھ گر گیا۔

شور سن کر لوگ اکٹھے ہوگئے۔ کنویں میں رسیاں ڈالی گئیں۔ دو جوان نیچے اترے اور اس آدمی کو باہر نکال لیا۔ لیکن وہ چند گھنٹوں کے بعد مر گیا۔

دوسرے دن جب لوگوں نے استعمال کے لیے اس کنویں میں سے پانی نکالا تو وہ میٹھا تھا۔

اور پھر صاحب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اس رات اس آدمی کی قبر پر دیے جل رہے تھے۔
 
لوٹا ہوا مال برآمد کرنے کے لیے پولیس نے چھاپے مارنے شروع کیے۔

لوگ ڈر کے مارے لوٹا ہوا مال رات کے اندھیرے میں باہر پھینکنے لگے۔ کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنا مال بھی موقع پاکر اپنے سے علیحدہ کر دیا تاکہ قانونی گرفت سے بچے رہیں۔

ایک آدمی کو بہت دقت پیش آئی۔ اس کے پاس شکر کی دو بوریاں تھیں جو اس نے پنساری کی دکان سے لوٹی تھیں۔ ایک تو وہ جوں کی توں رات کے اندھیرے میں پاس والے کنویں میں پھینک آیا، لیکن جب دوسری اٹھا کر اس میں ڈالنے لگا تو خود بھی ساتھ گر گیا۔

شور سن کر لوگ اکٹھے ہوگئے۔ کنویں میں رسیاں ڈالی گئیں۔ دو جوان نیچے اترے اور اس آدمی کو باہر نکال لیا۔ لیکن وہ چند گھنٹوں کے بعد مر گیا۔

دوسرے دن جب لوگوں نے استعمال کے لیے اس کنویں میں سے پانی نکالا تو وہ میٹھا تھا۔

اور پھر صاحب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اس رات اس آدمی کی قبر پر دیے جل رہے تھے۔
بہت خوب
 
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے

عطاء الحق قاسمی کی زبانی (گوجرانوالہ سے لاہور کی طرف ویگن میں سفر کرتے ہوئے)

ویگن میں چند لڑکے سوار ہوئے اور انہوں نے سارا راستہ اونچی اونچی باتیں اور شورشرابہ جاری رکھا۔ اس دوران میں بعض مسافروں نے انہیں خاموش کروانے کی بہت کوشش بھی کی مگر وہ زندہ دلانِ گوجرانوالہ باز نہیں آئے۔

میرے ساتھ بیٹھے بزرگ نے تنگ آ کر ان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ علامہ اقبال نے انہی نوجوانوں کے لئے فرمایا تھا:

اُٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے:dancing:

جواباً ایک نوجوان نے برجستہ جملہ کسا:

انکل جی! علامہ اقبال نے جب یہ شعر کہا تھا تب آپ جوان تھے، ہم تو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ (گویا یہ شعر تو آپ کے لئے ہے۔) :lol:

اب گاڑی میں جو قہقہے تھے انہیں کوئی روکنے والا نہ تھا۔
 
Top