سیدمنورحسن کابیان اور لبرل "مکتب فکر" کاردعمل۔۔۔

لاہور میں منعقدہ جماعت اسلامی کےعا لمی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے سا بق امیر جماعت اسلا می سید منور حسن نے کہا ہے کہ ملک میں جہاد اور قتال فی سبیل اللہ کا کلچر عام ہو جائے تو یہ ملک مشکلات سے نکل سکتا ہے۔ اس بیان پر دوسری سیاسی جماعتوں نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔ خصوصاً ایم کیو ایم اور پی پی پی نے انکے بیان کو ملک میں خانہ جنگی اور فرقہ وارانہ لڑائی کی کوشش قرار دیا۔

سید منور حسن کا بیان قابل وضاحت ہے جیسا کہ مولانا طاہر اشرفی نے بھی کہاہے کہ اُ نہیں واضح کرنا چاہیے کہ یہ جہاد کس کے خلاف ہوگا موجودہ سسٹم کے خلاف یا اس سسٹم میں موجود لوگوں کے خلاف۔ اس کی وضاحت بہرحال آنی چاہیئے۔

من حیث القوم ہمارا رویہ ایسا ہو چکا ہے کہ ہم کسی کی بات سننا چاہتے ہیں نہ سمجھنا چاہتےہیں۔ با الفرض اگر کسی بات کی وضاحت درکار ہے تو سوال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ مگر اپنے مفادات کی جنگ لڑنے والے سطحی سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ صرف وہی سوچتے ہیں جس میں انکا مفاد پوشیدہ ہوتا ہے۔ جب سے ترجمان کا منصب اداروں کا لازمی جز ٹہرا تب سے لفظوں کا استعمال اور باتوں کے مطلب بدل گئے ہیں۔ لچھےدار وضاحتیں، پہلودار گفتگو، بے جوڑ حقائق اور سفید جھوٹ پر مبنی بیانات۔ اپنے اپنے مفادات کے تحفظ اور پالیسیوں کے تسلسل کے لیے وہ راگ الاپا جاتا ہے کہ آقا مدنی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وہ حدیث یاد آ جاتی ہے جس کا مفہوم ہے کہ ایک دور ایسا آئے گا کہ جب جھوٹ اتنا بولا جائے گا کہ سچ کا گمان ہونے لگے گا۔

یہاں مسلہ صرف سید منور حسن کے بیان کا نہیں اصل خرابی مختلف الخیال گروہوں کی اپنی اپنی موقف کے حوالے سے انتہاپسندی ہے۔ مذ ہبی اور لبرل انتہا پسند عموماً ایک دوسرے کے سامنے کھڑے نظر آتے ہیں۔ ہمارا مذہب مسائل پیدا نہیں کرتا بلکہ ان کا حل پیش کرتا ہے۔لیکن اگردونوں طبقات کی بات سنی جائے تو انکے پاس اپنی فکر و عمل کے حوالے سے وضاحتیں اور دلائل موجود ہیں جو ایک دوسرے کو خرابی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں مگر دوسرے لوگوں کے الزامات ماننے کو تیار نہیں۔ پھر یہ فیصلہ کیسے ہوگا کہ کون کس کام کا زمہ دار ہے۔؟

مذہبی طبقہ ہمیشہ تنقید کی زد میں رہتا ہے۔ تنقید کرنے والوں کو میڈیا پر بھر پورموقع بھی ملتا ہے جبکہ مذہبی رہنماوں کو اپنے موقف کی وضاحت کرنے کاپورا موقع نہیں دیا جاتا۔ اگر کسی پروگرام میں انہیں بلا لیا جائے تو صورتحال یہ ھوتی ھے کہ چار پانچ لبرلزمع اینکر ایک مولوی کو گھیرے ھوتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کسی بحث کے نتیجے تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے چنانچہ عام آدمی ہمیشہ دیندار لوگوں سے متعلق میڈیائی پراپیگنڈے کا شکار رہتا ہے۔

ایک سوال میرے ذہن میں ہمیشہ کلبلاتا رہتا ہے کہ کیا انتہا پسندی صرف مذہبی طبقے کے ساتھ مخصوص ہے یا لبرلز بھی انتہا پسند ہوتے ہیں۔؟ اس سوال کے تناظر میں اگر لبرلز کی سوچ، حرکات و سکنات کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو بہت کچھ واضح ہو جائے گا۔ ان باتوں کا جواب تلاش کرنے سے قبل ہم جماعت اسلامی کے جماعتی ڈھانچے اور نظام کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ ہم آسانی سے اپنے سوال کا جواب تلاش کر سکیں۔

یہ بات بین الاقوامی اور ملکی سطح پر تسلیم شدہ ہے کہ جماعت اسلامی ملک میں فوج کے بعد سب سے منظم جماعت ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ قیادت اور کارکن اس جماعت کے پاس ہیں۔ امیر اور دیگر عہدے داروں کا انتخاب شفاف ترین الیکشن کے بعد ہوتا ہے جماعت موروثی سیاست کے خلاف ہے اور آج تک کسی امیر نے اپنے بچے کو امیر منتخب کرنے یا کرانے کی کوشش نہیں کی۔ جماعت اسلامی کا ایک اعزاز یہ بھی ہے کہ تمام دیگر قابل ذکر سیاسی جماعتوں کو کئی اہم سیاست دان جماعت کے فراہم کردہ ہیں یعنی وہ لوگ جو جماعت کو چھوڑ کردوسری جما عتوں میں گئے ہیں وہ اپنی قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر آج اہم زمہ دارعہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ یہ بحث اپنی جگہ کہ وہ لوگ جماعت کو کیوں چھوڑ گئے۔ سب سے اہم اور قابل زکر بات یہ ہے کہ جماعت کے کسی رکن اسمبلی پر آج تک کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا۔ یہاں سے ہمارے مطلوبہ جواب کا آغاز ہوتا پے۔

کہ اتنی خوبیوں کے باوجود آج تک جما عت اسلامی کسی بھی الیکشن میں اکثریت حاصل کر کے حکومت نہیں بنا سکی۔ آخر کیوں۔؟ ہمارے ہاں ایک اچھا آدمی یا جماعت صلاحیت واہلیت کے با وجود الیکشن کیوں نہیں جیت سکتی۔ یہ جماعت کی نہیں ہمارے معاشرےاور سسٹم کی ہار ہے۔ اگر ہم اس نظام سے تنگ ہیں اور اسکی درستگی چاہتے ہیں تو پھر اس خرابی کے زمہ داروں کے تعین اور ان سے گلو خلاصی کرانے میں کیا چیز ما نع ہے۔ منور حسن کے بیان پر تنقید کرنے والوں کو اشتعال انگیز بیانات دینے کی بجائے ٹھنڈے دل سے اس نظام کی درستگی سے متعلق سوچنا چاہیئے۔ اب جبکہ انکی وضاحت بھی سامنے آ گئی ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ کے کلچر سے انکی مرادایک ایسا چلن اور جدو جہد ہے جس کا مقصد اللہ کی رضا ہو۔ یعنی سیا ست ہو یا دیگر شعبہ ہائے زندگی ہمارا مقصود محض اللہ کی رضا کا حصول ہونا چاہیئے۔ ایمانداری اور اخلاص سے ہی معاشرے اور نظام میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ مگر اس عمل میں کیا چیز روکاوٹ ہے؟

کیا اقتدار کی غلام گردشوں کے رسیا اور کرپٹ سیاست دان ،انکی ہمنوا اشرافیہ اور قوم کا خون چوستی سرکاری نوکری یافتہ جونکیں قابل احتساب نہیں۔ اس ملک میں کرپشن، بے ایمانی، اقربہ پروری، رشوت ستانی کے کلچر کو فروغ دینے والا کون ہے ۔ کیا ان خرابیوں کا باعث مذہبی طبقہ ہے؟ اگر نہیں تو ہم ان سے نالاں کیوں رہتے ہیں اور ہر بار دین بیزار لوگوں کو کیوں چن لیتے ہیں۔ اس ملک کے حالات کے زمہ داروں کا احتساب کون کرے گا ؟

یہ وہ سوال ہیں جو سسٹم کی خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اور نظام تب درست ہوگا جب اس نظام کو چلانے والے لوگ بدلیں گے۔ افغان طالبان سے کئی باتوں پہ اختلاف ہو سکتا ہے لیکن انکی حکومت کے 7 سال مثالی تھے یہ بات عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے کہ طالبانی دور میں امن، سکون، عزت، برکت تھی۔ نہ کوئی ظالم نہ کوئی مظلوم۔ جو حاکم تھے عوام کے خدمت گزار تھے۔

لبرل نظام جمہوریت کوداغ دار کرنے والے یہی لبرل لوگ ہیں جو اس نظام کا سہارا لے کر اپنی خواہشات، اور ہوس کی تسکین میں مصروف ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نظام کی درستگی کے لیے درست لوگوں کا انتخاب ضروری ہے۔ اپنے زمہ امور کی بہتر انجام دہی تب ہی ممکن ہے جب نگرانی اور احتساب کا شفاف نظام قائم کیا جائے گا۔

سعودیہ اور افغانستان میں اسلامی نظام کے نفاز کے خوشگوار اثرات اور نتائج دنیا نے دیکھے ہیں۔ اسلام سے بڑھ کر شفاف مکمل، انسان دوست اور انصاف پر مبنی نظام کوئی اور نہیں ہے۔ اور اب دنیا میں امیر ترین مسلم ریاست برونائی دارالسلام کے بادشاہ سلطان حسن البلقیہ نے ملک میں شرعی سزاوں کے نفاذ کا اعلان کر کے دنیا کو بتا دیا ہے کہ عافیت اور بھلائی اسی نظام حیات میں ہے۔ پاکستان کا آئین اسلامی ہے صرف اس کی اصل روح کے مطابق عمل ہو نا شروع ہو جائے تو نتائج حیران کن حد تک مختلف ہو سکتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

منقب سید

محفلین
یہ تحریر ہے کس کی؟ ان کا نام اور لنک شیئر کریں تاکہ سمجھنے میں آسانی ہو سکے
لاہور میں منعقدہ جماعت اسلامی کےعا لمی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے سا بق امیر جماعت اسلا می سید منور حسن نے کہا ہے کہ ملک میں جہاد اور قتال فی سبیل اللہ کا کلچر عام ہو جائے تو یہ ملک مشکلات سے نکل سکتا ہے۔ اس بیان پر دوسری سیاسی جماعتوں نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔ خصوصاً ایم کیو ایم اور پی پی پی نے انکے بیان کو ملک میں خانہ جنگی اور فرقہ وارانہ لڑائی کی کوشش قرار دیا۔

سید منور حسن کا بیان قابل وضاحت ہے جیسا کہ مولانا طاہر اشرفی نے بھی کہاہے کہ اُ نہیں واضح کرنا چاہیے کہ یہ جہاد کس کے خلاف ھوگا موجودہ سسٹم کے خلاف یا اس سسٹم میں موجود لوگوں کے خلاف۔ اس کی وضاحت بہرحال آنی چاہیئے۔

من حیث القوم ہمارا رویہ ایسا ہو چکا ہے کہ ہم کسی کی بات سننا چاہتے ہیں نہ سمجھنا چاہتےہیں۔ با الفرض اگر کسی بات کی وضاحت درکار ہے تو سوال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ مگر اپنے مفادات کی جنگ لڑنے والے سطحی سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ صرف وہی سوچتے ہیں جس میں انکا مفاد پوشیدہ ہوتا ہے۔ جب سے ترجمان کا منصب اداروں کا لازمی جز ٹہرا تب سے لفظوں کا استعمال اور باتوں کے مطلب بدل گئے ہیں۔ لچھےدار وضاحتیں، پہلودار گفتگو، بے جوڑ حقائق اور سفید جھوٹ پر مبنی بیانات۔ اپنے اپنے مفادات کے تحفظ اور پالیسیوں کے تسلسل کے لیے وہ راگ الاپا جاتا ہے کہ آقا مدنی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وہ حدیث یاد آ جاتی ہے جس کا مفہوم ہے کہ ایک دور ایسا آئے گا کہ جب جھوٹ اتنا بولا جائے گا کہ سچ کا گمان ہونے لگے گا۔

یہاں مسلہ صرف سید منور حسن کے بیان کا نہیں اصل خرابی مختلف الخیال گروہوں کی اپنی اپنی موقف کے حوالے سے انتہاپسندی ھے۔ مذ ہبی اور لبرل انتہا پسند عموماً ایک دوسرے کے سامنے کھڑے نظر آتے ہیں۔ ہمارا مذہب مسائل پیدا نہیں کرتا بلکہ ان کا حل پیش کرتا ہے۔لیکن اگردونوں طبقات کی بات سنی جائے تو انکے پاس اپنی فکر و عمل کے حوالے سے وضاحتیں اور دلائل موجود ہیں جو ایک دوسرے کو خرابی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں مگر دوسرے لوگوں کے الزامات ماننے کو تیار نہیں۔ پھر یہ فیصلہ کیسے ھوگا کہ کون کس کام کا زمہ دار ہے۔؟

مذہبی طبقہ ہمیشہ تنقید کی زد میں رہتا ہے۔ تنقید کرنے والوں کو میڈیا پر بھر پورموقع بھی ملتا ہے جبکہ مذہبی رہنماوں کو اپنے موقف کی وضاحت کرنے کاپورا موقع نہیں دیا جاتا۔ اگر کسی پروگرام میں انہیں بلا لیا جائے تو صورتحال یہ ھوتی ھے کہ چار پانچ لبرلزمع اینکر ایک مولوی کو گھیرے ھوتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کسی بحث کے نتیجے تک پہنچنا مشکل ھوتا ہے چنانچہ عام آدمی ہمیشہ دیندار لوگوں سے متعلق میڈیائی پراپیگنڈے کا شکار رہتا ھے۔

ایک سوال میرے ذہن میں ہمیشہ کلبلاتا رہتا ہے کہ کیا انتہا پسندی صرف مذہبی طبقے کے ساتھ مخصوص ھے یا لبرلز بھی انتہا پسند ہوتے ہیں۔؟ اس سوال کے تناظر میں اگر لبرلز کی سوچ، حرکات و سکنات کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو بہت کچھ واضح ہو جائے گا۔ ان باتوں کا جواب تلاش کرنے سے قبل ہم جماعت اسلامی کے جماعتی ڈھانچے اور نظام کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ ہم آسانی سے اپنے سوال کا جواب تلاش کر سکیں۔

یہ بات بین الاقوامی اور ملکی سطح پر تسلیم شدہ ہے کہ جماعت اسلامی ملک میں فوج کے بعد سب سے منظم جماعت ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ قیادت اور کارکن اس جماعت کے پاس ہیں۔ امیر اور دیگر عہدے داروں کا انتخاب شفاف ترین الیکشن کے بعد ہوتا ہے جماعت موروثی سیاست کے خلاف ہے اور آج تک کسی امیر نے اپنے بچے کو امیر منتخب کرنے یا کرانے کی کوشش نہیں کی۔ جماعت اسلامی کا ایک اعزاز یہ بھی ہے کہ تمام دیگر قابل زکر سیاسی جماعتوں کو کئی اہم سیاست دان جماعت کے فراہم کردہ ہیں یعنی وہ لوگ جو جماعت کو چھوڑ کردوسری جما عتوں میں گئے ہیں وہ اپنی قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر آج اہم زمہ دارعہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ یہ بحث اپنی جگہ کہ وہ لوگ جماعت کو کیوں چھوڑ گئے۔ سب سے اہم اور قابل زکر بات یہ ہے کہ جماعت کے کسی رکن اسمبلی پر آج تک کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا۔ یہاں سے ہمارے مطلوبہ جواب کا آغاز ہوتا پے۔

کہ اتنی خوبیوں کے باوجود آج تک جما عت اسلامی کسی بھی الیکشن میں اکثریت حاصل کر کے حکومت نہیں بنا سکی۔ آخر کیوں۔؟ ہمارے ہاں ایک اچھا آدمی یا جماعت صلاحیت واہلیت کے با وجود الیکشن کیوں نہیں جیت سکتی۔ یہ جماعت کی نہیں ہمارے معاشرےاور سسٹم کی ہار ہے۔ اگر ہم اس نظام سے تنگ ہیں اور اسکی درستگی چاہتے ہیں تو پھر اس خرابی کے زمہ داروں کے تعین اور ان سے گلو خلاصی کرانے میں کیا چیز ما نع ہے۔ منور حسن کے بیان پر تنقید کرنے والوں کو اشتعال انگیز بیانات دینے کی بجائے ٹھنڈے دل سے اس نظام کی درستگی سے متعلق سوچنا چاہیئے۔ اب جبکہ انکی وضاحت بھی سامنے آ گئی ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ کے کلچر سے انکی مرادایک ایسا چلن اور جدو جہد ہے جس کا مقصد اللہ کی رضا ہو۔ یعنی سیا ست ہو یا دیگر شعبہ ہائے زندگی ہمارا مقصود محض اللہ کی رضا کا حصول ہونا چاہیئے۔ ایمانداری اور اخلاص سے ہی معاشرے اور نظام میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ مگر اس عمل میں کیا چیز روکاوٹ ہے؟

کیا اقتدار کی غلام گردشوں کے رسیا اور کرپٹ سیاست دان ،انکی ہمنوا اشرافیہ اور قوم کا خون چوستی سرکاری نوکری یافتہ جونکیں قابل احتساب نہیں۔ اس ملک میں کرپشن، بے ایمانی، اقربہ پروری، رشوت ستانی کے کلچر کو فروغ دینے والا کون ہے ۔ کیا ان خرابیوں کا باعث مزہبی طبقہ ہے؟ اگر نہیں تو ہم ان سے نالاں کیوں رہتے ہیں اور ہر بار دین بیزار لوگوں کو کیوں چن لیتے ہیں۔ اس ملک کے حالات کے زمہ داروں کا احتساب کون کرے گا ؟

یہ وہ سوال ہیں جو سسٹم کی خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اور نظام تب درست ہوگا جب اس نظام کو چلانے والے لوگ بدلیں گے۔ افغان طالبان سے کئی باتوں پہ اختلاف ہو سکتا ہے لیکن انکی حکومت کے 7 سال مثالی تھے یہ بات عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے کہ طالبانی دور میں امن، سکون، عزت، برکت تھی۔ نہ کوئی ظالم نہ کوئی مظلوم۔ جو حاکم تھے عوام کے خدمت گزار تھے۔

لبرل نظام جمہوریت کوداغ دار کرنے والے یہی لبرل لوگ ہیں جو اس نظام کا سہارا لے کر اپنی خواہشات، اور ہوس کی تسکین میں مصروف ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نظام کی درستگی کے لیے درست لوگوں کا انتخاب ضروری ہے۔ اپنے زمہ امور کی بہتر انجام دہی تب ہی ممکن ہے جب نگرانی اور احتساب کا شفاف نظام قائم کیا جائے گا۔

سعودیہ اور افغانستان میں اسلامی نظام کے نفاز کے خوشگوار اثرات اور نتائج دنیا نے دیکھے ہیں۔ اسلام سے بڑھ کر شفاف مکمل، انسان دوست اور انصاف پر مبنی نظام کوئی اور نہیں ھے۔ اور اب دنیا میں امیر ترین مسلم ریاست برونائی دارالسلام کے بادشاہ سلطان حسن البلقیہ نے ملک میں شرعی سزاوں کے نفاز کا اعلان کر کے دنیا کو بتا دیا ہے کہ عافیت اور بھلائی اسی نظام حیات میں ھے۔ پاکستان کا آئین اسلامی ہے صرف اس کی اصل روح کے مطابق عمل ہو نا شروع ہو جائے تو نتائج حیران کن حد تک مختلف ہو سکتے ہیں۔
 
قتال فی سبیل اللہ کا کلچر کیا ہوتا ہے؟
جہاد فی سبیل اللہ کے کلچر سے انکی مرادایک ایسا چلن اور جدو جہد ہے جس کا مقصد اللہ کی رضا ہو۔ یعنی سیا ست ہو یا دیگر شعبہ ہائے زندگی ہمارا مقصود محض اللہ کی رضا کا حصول ہونا چاہیئے۔ ایمانداری اور اخلاص سے ہی معاشرے اور نظام میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔
 

زیک

مسافر
جہاد فی سبیل اللہ کے کلچر سے انکی مرادایک ایسا چلن اور جدو جہد ہے جس کا مقصد اللہ کی رضا ہو۔ یعنی سیا ست ہو یا دیگر شعبہ ہائے زندگی ہمارا مقصود محض اللہ کی رضا کا حصول ہونا چاہیئے۔ ایمانداری اور اخلاص سے ہی معاشرے اور نظام میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔
منور حسن کے بیان میں جیسے آپ نے اوپر لکھا ہے جہاد اور قتال دونوں کا ذکر ہے۔ جہاد کے معنی مسلمان جب مرضی آئے بدل دیتے ہیں مگر قتال کے معنی ہرگز جدوجہد کے نہیں ہیں
 
لبرل نظام جمہوریت کوداغ دار کرنے والے یہی لبرل لوگ ہیں جو اس نظام کا سہارا لے کر اپنی خواہشات، اور ہوس کی تسکین میں مصروف ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نظام کی درستگی کے لیے درست لوگوں کا انتخاب ضروری ہے۔ اپنے زمہ امور کی بہتر انجام دہی تب ہی ممکن ہے جب نگرانی اور احتساب کا شفاف نظام قائم کیا جائے گا۔

شاہ جی لگتا ہے آپکو لبرل سے بہت تکلیف پہنچی ہیں اس لیے ہی اپنے تیسرئے بلاگ میں ہی اپنی بھرپور منافقت کا مظاہرہ کر ڈالا۔ اگر منافق منور حسن کے بارئےمیں پڑھنا ہے وہ اس لنک میں پڑھ لیں۔
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/منور-حسن-طالبان-دہشت-گردوں-کے-بھائی.78886/
 
شاہ جی لگتا ہے آپکو لبرل سے بہت تکلیف پہنچی ہیں اس لیے ہی اپنے تیسرئے بلاگ میں ہی اپنی بھرپور منافقت کا مظاہرہ کر ڈالا۔ اگر منافق منور حسن کے بارئےمیں پڑھنا ہے وہ اس لنک میں پڑھ لیں۔
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/منور-حسن-طالبان-دہشت-گردوں-کے-بھائی.78886/

محترم شا ہ صاحب۔۔
آداب۔۔ میری تحریر کو پڑھنے کا شکریہ۔۔ یہ آپ کا نقطہ نظر ہے۔جیسے آپ مجھ سے متفق نہیں اس طرح میں بھی آپ سے اتفاق نہیں کرتا۔
 
شاہ جی معذرت کے ساتھ اپنا نیا مضمون ارسال کر رہا ہوں۔ پیشگی معذرت قبول کریں۔
یہاں سیاست کے زیر عنوان لڑی میں بھی "دو چہرہ لوگ" کے نام سے اپلوڈ کیا ہے۔
http://naqshefaryadi.blogspot.com/2014/12/blog-post.html

شاہ صاحب آپکے نئے مضمون پر آپکو دلی مبارکباد۔
آپکے مضمون کے مطابق
"ان کا مضمون اندھی مخالفت اور حقائق سے چشم پوشی کا غماز ہے۔
شاہ صاحب پڑھے لکھے آدمی ہیں یقیناً منافقت کےمطلب ومفہوم سے بخوبی آگاہ ہونگے۔ پھر اس کے استعمال میں اس قدر بے احتیاتی کیوں؟ میری ناقص معلومات کے مطابق منافق وہ انسان ہوتا ہےجو دل میں سوچتاکچھ اور ہے مگرجب بات کرتا ہے تو محفل یا سامع کے موڈ کے موافق ۔یعنی اندر سے کچھ اور باہر سے کچھ۔"

اگر آپ یہ نشاندہی بھی کردیتے کہ میں نے کہاں اندھی مخالفت اور حقائق سے چشم پوشی کی ہے تو رہنمائی مل جاتی۔
آپکی رائے ناقص نہیں بہت اعلی ہے اور منور حسن ایک منافق ہیں، یعنی اندر سے کچھ اور باہر سے کچھ۔

شاہ صاحب میرا خیال ہے کہ آپ اپنے نظریات کا اظہار کرتے رہیں بقول آپکے "شاہ جی میں خود لبرل ہوں مگر کٹھور قسم کا نہیں۔۔ جو حق بات ہے وہ ماننی چاہیے۔"
 
Top