سید حیدر حلی نے اس دا ئمی واقعہ کی منظر کشی کرتے ہوئے اپنے جد کا یوں مرثیہ پڑھا:
طَمَعَتْ اَنْ تَسُوْمَه الْقَوْمُ ضَیْماً
وابیٰ اللّٰه وَالحُسَامُ الصَّنِيعُ
کيفَ يلویْ علیٰ الدَّنِيةِ جِیِّداً
لِسَوَ ی اللّٰه مَا لَوَا ه الخُضُوْعُ
وَلَدَيه جَأْ شُ اَرَدُّ مِنَ الدِّرْعِ
لِظَمأ ی الْقَنَا وَ هنَّ شُرُوْعُ
وَبِه يرْجِعُ الْحِفَاظُ لِصَدْرٍ
ضَاقَتِ الْاَرْضُ وَه فِيه تَضِيعُ
فَاَبیٰ اَنْ يعِيشَ اِلَّا عَزِيزاً
فَتَجَلّیَ الْکِفَاحُ وَهوَ صَرِيعُ(١)
”ستم پیشہ لوگ چا ہتے تھے کہ حسین اپنی غیرت کا سودا کر لیں جبکہ خدا اور شمشیر حسینی کا یہ منشأ نہیں تھا۔
بھلا حسین کس طرح ذلت قبول کر لیتے جبکہ آپ غیر خدا کے سامنے کبھی نہیں جھکے تھے۔
آپ کے پاس سپر سے زیادہ مضبوط ہمتِ قلبی تھی وہ ابتدا سے ہی اس طرح جنگ کرتے تھے…………..
١۔دیوان سید حیدر،صفحہ ٨٧۔
جس
طرح پیاسا پانی کی طرف دوڑ کر جا رہا ہو ۔
زمین کے تنگ ہونے کے باوجود آپ کا سینہ کشادہ تھا۔