سیدنا عمر کے یومِ شہادت کے موقع پر ایک تحریر

طالوت

محفلین
سیدنا عمر کے یومِ شہادت کے موقع پر ایک جاوید چوہدری کی ایک تحریر
1100548311-2.gif

بشکریہ ایکسپریس
-------------------
وسلام​
 

الف نظامی

لائبریرین
اک مدبر ، اک مفکر ، ایک مردِ باکمال
ایک مصلح ، ایک رہبر ، اک فقیہہ بے مثال

نعرہ خار اشگاف و ضربتِ باطل شکن
جذبہِ دشمن شکار و قاطعِ دام کہن

جلوہ صبح درخشاں ، تابشِ روئے حیات
سطوتِ دینِ مقدس ، پرتو مہرِ صفات

حاملِ سوزِ دروں ، بالغ نظر ، روشن ضمیر
پیکرِ اوصافِ لاثانی امامِ بے نظیر

کس قدر پُرعظمت و پُر رعب تیرا نام تھا
کفر تیرے نام ہی سے لرزہ براندام تھا

یوں مٹایا زعمِ قیصر ، سطوتِ شاہنشہی
سرنگوں سرکش ہوئے ٹوٹا طلسمِ خواجگی

مصر و ایران و دمشق و روم و موصل اور شام
تیرے ہی حسن و تدبر سے ہوئے زیرِ نظام

اے سراپا عزم و استقلال امام العادلیں
رہنمائے جادہِ عرفاں ، امیر المومنیں

تیرے ہی حق میں ہے یہ فرمودہ خیرالبشر
"بعد میرے گر نبی ہوتا کوئی ، ہوتا عمر"

از عارف سیمابی
 

طالوت

محفلین
مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ایسے عظیم انسان کا یوم شہادت کتنی خاموشی سے گزر جاتا ہے ۔۔
اور ایک دہائی ہر محیط حکومت کی کوئی مستند تاریخ بھی مرتب نہیں ۔۔
سیدنا عمر کے دور حکومت سے متعلق کسی مستند تفصیلی کتاب کا علم ہو مطلع کریں ۔۔
وسلام
 

زین

لائبریرین
بہت خوب۔

ایک کتاب شاید شمشاد بھائی نے یہاں لائبریری میں ‌پوسٹ کی تھی ۔
 

شمشاد

لائبریرین
طالوت بھائی حیرت ہے آپ نے یہ کتاب نہیں پڑھی۔
یہ مولانا شبلی نعمانی کی لکھی ہوئی ہے اور یہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حیات مقدس اور ان کے عظیم الشان کارناموں پر مشتمل ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مصر کے نامور محقق محمد حسین ھیکل کی شہرہ آفاق کتاب "عمرِ فاروق"۔ اردو میں ترجمہ ہو چکا ہے اور عام ملتا ہے۔
 

مغزل

محفلین
بہت خوب جناب ،
میں نے یہ کالم پڑ ھ کر سوچا کہ یہاں پیش کروں گا آپ بازی لے گئے۔
کوئی دوست مجھے یہ تحریری شکل میں فراہم کرسکتا ہے ۔۔ نوازش ہوگی۔
والسلام
 

شمشاد

لائبریرین
اصل سکندر اعظم​

سکند اعظم کون تھا مقدونیہ کا الیگزینڈر یا تاریخ اسلا م کے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب دینا دنیا بھر کے مؤرخین پر فرض ہے۔ آج "ایس ایم ایس کا دور ہے، موبائل کا میسجنگ سسٹم چند سیکنڈ میں خیالات کو دنیا کے دوسرے کونے میں پہنچا دیتا ہے۔ جدید دور کی اس سہولت سے اب قارئین اور ناظرین بھی بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ گزشتہ روز کسی صاحب نے پیغام بھجوایا " کاش آپ نے آج حضرت عم فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ پر کالم لکھا ہوتا" یہ پیغام پڑھتے ہی یاد آیا آج تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یومِ شہادت تھا اور میں اس وقت سے سوچ رہا ہوں مقدونیہ کا الیگزینڈر سکندر اعظم تھا یا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ ہم نے بچپن میں پڑھا تھا مقدونیہ کا الیگزینڈر بیس سال کی عمر میں بادشاہ بنا، 23 سال کی عمر میں مقدونیہ سے نکلا، اس نے سب سے پہلے پورا یونان فتح کیا، اس کے بعد وہ ترکی میں داخل ہوا، پھر ایران کے دارا کو شکست دی، پھر وہ شام پہنچا، پھر اس نے یروشلم اور بابل کا رخ کیا، پھر وہ مصر پہنچا، پھر وہ ہندوستان آیا، ہندوستان میں اس نے پورس سے جنگ لڑی، اپنے عزیز از جان گھوڑے کی یاد میں پھالیہ شہر آباد کا، مکران سے ہوتا ہوا واپسی کا سفر شروع کیا، راستے میں ٹائیفائیڈ میں مبتلا ہوا اور 323 قبل مسیح میں 33 سال کی عمر میں بخت نصر کے محل میں انتقال کر گیا۔ دنیا کو آج تک بتایا گیا وہ انسانی تاریخ کا عظیم جرنیل، فاتح اور بادشاہ تھا اور تاریخ نے اس کے کارناموں کی وجہ سے اسے الیگزینڈر دی گریٹ کا نام دیا اور ہم نے اسے سکندر اعظم یعنی بادشاہوں کا بادشاہ بنا دیا۔ لیکن آج اکیسویں صدی کے نویں سال کے پہلے دن میں پوری دنیا کے مؤرخین کے سامنے یہ سوال رکھتا ہوں کیا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہوتے ہوئے الیگزینڈر کو سکندر اعظم کہلانے کا حق حاصل ہے؟ میں دنیا بھر کے مؤرخین کو سکندر اعظم اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فتوحات اور کارناموں کے موازنے کی دعوت دیتا ہوں، آپ بھی سوچئے الیگزینڈر بادشاہ کا بیٹا تھا، اسے دنیا کے بہترین لوگوں نے گھڑسواری سکھائی، اسے ارسطو جیسے استادوں کی صحبت ملی تھی اور جب وہ بیس سال کا ہو گیا تو اسے تخت اور تاج پیش کر دیا گیا جبکہ اس کے مقابلے میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سات پشتوں میں کوئی بادشاہ نہیں گزرا تھا، آپ "بھیڑ بکریاں اور اونٹ چراتے چراتے بڑے ہوئے تھے اور آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تلوار بازی اور تیر اندازی بھی کسی اکیڈمی سے نہیں سکھی تھی، سکندر اعظم نے آرگنائزڈ آرمی کے ساتھ دس برسوں میں 17 لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا تھا جبکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دس برسوں میں آرگنائزڈ آرمی کے بغیر 22 لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا اور اس میں روم اور ایران کی دو سپر پاورز بھی شامل تھیں۔ آج کے سیٹلائیٹ، میزائل اور آبدوزوں کے دور میں بھی دنیا کے کسی حکمران کے پاس اتنی بڑی سلطنت نہیں جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نہ صرف گھوڑوں کی پیٹھ پر فتح کرائی تھی بلکہ اس کا انتظام و انصرام بھی چلایا تھا۔ الیگزینڈر نے فتوحات کے دوران اپنے بے شمار جرنیل قتل کرائے، بے شمار جرنیلوں اور جوانوں نے اس کا ساتھ چھوڑا، اس کے خلاف بغاوتیں بھی ہوئیں اور ہندوستان میں اس کی فوج نے آگے بڑھنے سے انکار بھی کر دیا لیکن حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے کسی ساتھی کو ان کے حکم سے سرتابی کی جرات نہ ہوئی۔ وہ ایسے کمانڈر تھے کہ آپ نے عین میدان جنگ میں عالم اسلام کے سب سے بڑے سپہ سالارحضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ کو معزول کر دیا اور کسی کو یہ حکم ٹالنے کی جرات نہ ہوئی۔ آپ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ کو کوفے کی گورنری سے ہٹا دیا، اپ نے حضرت حارث بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے گورنری واپس لے لی۔ آپ نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مال ضبط کر لیا اور آپ نے حمص کے گورنر کو واپس بلا کر اونٹ چرانے پر لگا دیا لیکن کسی کو حکم عدولی کی جرات نہ ہوئی۔

(جاری ہے۔۔۔)
 

شمشاد

لائبریرین
الیگزینڈر نے 17 لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا لیکن دنیا کو کوئی نظام، کوئی سسٹم نے دے سکا جبکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دنیا کو ایسے سسٹم دیئے جو آج تک پوری دنیا میں رائج ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نماز فجر میں الصلٰوۃ خیر من النوم کا اضافہ کرایا۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد میں نماز تراویح کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے شراب نوشی کی سزا مقرر کی۔ سن ہجری کا اجراء کیا، جیل کا تصور دیا۔ مؤذنوں کی تنخواہیں مقرر کیں۔ مسجدوں میں روشنی کا بندوبست کرایا، پولیس کا محکمہ بنایا۔ ایک مکمل عدالتی نظام کی بنیاد رکھی، آب پاسی کا نظام قائم کرایا، فوجی چھاؤنیاں بنوائیں اور فوج کا باقاعدہ محکمہ قائم کیا۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دنیا میں پہلی بار دودھ پیتے بچوں، معذوروں، بیواؤں اور بے آسراؤں کے وظائف مقرر کئے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دنیا میں پہلی بار حکمرانوں، سرکاری عہدیداروں اور والیوں کے اثاثے ڈکلیئر کرنے کا تصور دیا۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بے انصافی کرنے والے ججوں کو سزا دینے کا سلسلہ بھی شروع کیا اور آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دنیا میں پہلی بار حکمران کلاس کی اکاؤنٹبلٹی شروع کی۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ راتوں کو تجارتی قافلوں کی چوکیداری کرتے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرمایا کرتے تھے جو حکمران عدل کرتے ہیں وہ راتوں کو بےخوف سوتے ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا فرمان تھا "قوم کا سردار قوم کا سچا خادم ہوتا ہے"۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مہر پر لکھا تھا "عمر! نصیحت کے لیے موت ہی کافی ہے۔" آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دسترخوان پر کبھی دو سالن نہیں رکھے گئے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ زمین پر سر کے نیچے اینٹ رکھ کر سو جاتے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ سفر کے دوران جہاں نیند آ جاتی تھی آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کسی درخت پر چادر تان کر سایہ کرتے تھے اور سو جاتے تھے اور رات کو ننگی زمین پر دراز ہو جاتے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے کرتے پر چودہ پیوند تھے اور ان پیوندوں میں ایک سرخ چمڑے کا پیوند بھی تھا۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ موٹا کھردرا کپڑا پہنتے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نرم اور باریک کپڑے سے نفرت تھی۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کسی کو جب سرکاری عہدے پر فائز کرتے تھے تو اس کے اثاثوں کا تخمینہ لگوا کر اپنے پاس رکھ لیتے تھے اور اگر سرکاری عہدے کے دوران اس کے اثاثوں میں اضافہ ہو جاتا تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کی اکاؤنٹبلٹی کرتے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ جس کسی کو گورنر بناتے تو اسے نصیحت فرماتے تھے، کبھی ترکی گھوڑے پر نہ بیٹھنا، باریک کپڑے نہ پہننا، چھنا ہوا آٹا نہ کھانا، دربان نہ رکھنا اور کسی فریادی پر دروازہ بند نہ کرنا۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے تھے ظالم کو معاف کر دینا مظلوموں پر ظلم ہے اور آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ فقرہ آج انسانی حقوق کے چارٹر کی حیثیت رکھتا ہے۔ "مائیں بچوں کو آزاد پیدا کرتی ہیں تم نے انہیں کب سے غلام بنا لیا؟" فرمایا میں اکثر سوچتا ہوں اور حیران ہوتا ہوں " عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بدل کیسے گیا"۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ اسلامی دنیا کے پہلے خلیفہ تھے جنہیں "امیر المومنین" کا خطاب دیا گیا۔ دنیا کے تمام مذاہب کی کوئی نہ کوئی خصوصیت ہے۔ اسلام می سب سے بڑی خصوصیت عدل ہے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ وہ شخصیت ہیں جو اس خصوصیت پر پورا اترتے ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عدل کی وجہ سے عدل دنیا میں عدل فاروقی رضی اللہ تعالٰی عنہ ہو گیا۔ آپ شہادت کے وقت مقروض تھے چنانچہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی وصیت کے مطابق آپ کا واحد مکان بیچ کر آپ کا قرض ادا کر دیا گیا اور آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ دنیا کے واحد حکمران تھے جو فرمایا کرتے تھے میرے دور میں اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مر گیا تو اس کی سزا عمر (حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ) کو بھگتنا ہو گی۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عدل کی یہ حالت تھی آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا انتقال ہوا تو آپ کی سلطنت کے دور دراز علاقے کا ایک چرواہا بھاگتا ہوا آیا اور چیخ کر بولا "لوگو! حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا انتقال ہو گیا" لوگوں نے حیرت سے پوچھا "تم مدینہ سے ہزاروں میل دور جنگل میں ہو، تمہیں اس سانحے کی اطلاع کس نے دی" چرواہا بولا "جب تک حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ زندہ تھے میری بھیڑیں جنگل میں بے خوف پھرتی تھیں اور کوئی درندہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا لیکن آج پہلی بار ایک بھیڑیا میری بھیڑ کا بچہ اٹھا کر لے گیا، میں نے بھیڑیئے کی جرات سے جان لیا آج دنیا میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ موجود نہیں ہیں۔"

(جاری ہے ۔۔۔)
 

شمشاد

لائبریرین
میں دنیا بھرکے مؤرخین کو دعوت دیتا ہوں وہ الیگزینڈر کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سامنے رکھ کر دیکھیں۔ انہیں الیگزینڈر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حضور پہاڑ کے سامنے کنکر دکھائی دے گا کیونکہ الیگزینڈر کی بنائی سلطنت اس کی وفات کے پانچ سال بعد ختم ہو گئی جبکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے دور میں جس جس خطے میں اسلام کا جھنڈا بھجوایا وہاں سے آج بھی اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدائیں آتی ہیں۔ وہاں آج بھی لوگ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اللہ کے سامنے سجدہ کرتے ہیں۔ دنیا میں الیگزینڈر کا نام صرف کتابوں میں سمٹ کر رہ گیا ہے جبکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بنائے نظام دنیا کے 245 ممالک میں آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ آج بھی جب کسی ڈاک خانے سے کوئی خط نکلتا ہے، پولیس کا کوئی سپاہی وردی پہنتا ہے، کوئی فوجی جوان چھ ماہ بعد چھٹی پر جاتا ہے یا پھر حکومت کسی بچے، معذور، بیوہ یا بے آسرا شخص کو وظیفہ دیتی ہے تو وہ معاشرہ، وہ سوسائٹی بے اختیار حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کر گریٹ تسلیم کرتی ہے۔ وہ انہیں تاریخ کا سب سے بڑا سکندر مان لیتی ہے ماسوائے ان مسلمانوں کے جو آج احساس کمتری کے شدید احساس میں کلمہ تک پڑھنے سے پہلے دائیں بائیں دیکھتے ہیں۔ لاہور کے مسلمانوں نے ایک بار انگریز سرکار کو دھمکی دی تھی "اگر ہم گھروں سے نکل پڑے تو تمہیں چنگیز خان یاد آ جائے گا" اس پر جواہر لال نہرو نے مسکرا کر کہا تھا "افسوس آج چنگیز خان کی دھمکی دینے والے مسلمان یہ بھول گئے ان کی تاریخ میں ایک (حضرت) عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی تھا" ہم آج بھی یہ بھولے ہوئے ہیں کہ ہم میں ایک (حضرت) عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی تھے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا "میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بن خطاب ہوتے"۔

(بشکریہ ' ایکسپریس')
 
شمشاد بھائی اللہ آپ کو اس کا اجر دے۔ میں‌ تو پڑھنے کے بعد صرف سوچتا رہ گیا کہ کاش اسے ٹائپ کر سکتا۔
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
محترم جناب شمشاد جی
جزاک اللہ
خلافت راشدہ کے اک اہم ستون جناب عمر الفاروق رضی اللہ تعالی عنہ
سیرت کردار اور عقل دانش پر لکھی اتنی اچھی تحریر سے نوازنے کا بہت شکریہ
مالک دوجہاں اسے آپ کے لیے باعث اجر و ثواب کرے آمین
نایاب
 

طالوت

محفلین
طالوت بھائی حیرت ہے آپ نے یہ کتاب نہیں پڑھی۔
یہ مولانا شبلی نعمانی کی لکھی ہوئی ہے اور یہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حیات مقدس اور ان کے عظیم الشان کارناموں پر مشتمل ہے۔
میری نالائقی سمجھیے کہ نہیں پڑھ سکا ۔۔ اب پڑھتا ہوں ۔۔

اور علامہ غلام احمد پرویز کی کتاب "شاہکارِ رسالت"

جی یہ کتاب میں پڑھ چکا ہوں اور میری ای-لائبریری میں موجود ہے ۔۔ بہت شاندار کتاب ہے ۔۔۔
وسلام
 
Top