اگر یہ کالم نگار اوریا مقبول جان کی غفلت نہیں ہے تو یقینا ایڈیٹر کی غلطی سے کالم کے ابتدائی حصے میں ایک سنگین ابہام پایا جاتا ہے۔ جس میں قائداعظم سے منسوب بات میں کہا گیا ہے کہ وہ لندن سے ہی اسلامی مملکت کے قیام کا ہدف لے کر آئے تھے۔ حقیقت میں قائداعظم نے 1904 میں کا نگریس میں شمولیت اختیار کر لی تھی جو کہ ظاہر ہے کہ 1947 تک پاکستان کے قیام کی مخالف رہی۔ بلکہ مسلم لیگ بھی اپنے قیام سے ہی قیام پاکستان کا نظریہ نہیں رکھتی تھی یہ 1906 میں ڈھاکہ میں قائم ہوئی اور 1940 تک یہ مسلم ہندو اتحاد کی کسی نہ کسی طور پر حامی تھی اور مسلمانوں کے لئے اقتدار میں منصفانہ حصے کے لئے کو شش کر رہی تھی ، لکھنؤ پیکٹ اور قائداعظم کے 14 نکات اس کی واضح مثال ہے۔ خود قائداعظم مسلم لیگ میں شامل ہونے کے بعد بھی ہند و مسلم اتحاد کے حامی تھے تا وقتیکہ 1940 میں جب مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان فاصلے عداوت کی شکل اختیار کر گئے تو مسلم لیگ نےباقاعدہ ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا اور منٹو پارک میں قرارداد پاکستان منظور کی۔ اگر فی الواقعی یہ امر کوئی وجود رکھتا کہ قائداعظم ایک الگ اسلامی مملکت کا کوئی خاکہ لے کر برطانیہ سے واپس آئے تھے تو آپ ہندوستان واپسی پر کانگریس میں شمولیت اختیار نہ کرتے کہ جو تقسیمِ ہند کی زبردست مخالف تھی۔
کالم کے شروع کا ابہام ہی بعد میں لکھی گئی باتوں کی بنیاد بنایا گیا ہے جو کم از کم میرے خیال میں بعد میں بیان کئے گئے واقعات کے اثر کو بھی کم کرتا ہے حالانکہ وہ باتیں بڑی اہم ہیں۔۔ ہمیں تاریخ اور مذہب پر لکھتے ہوئے انتہائی باریک بینی سے تحقیق کرنے کی عادت اپنانا چاہئیے تا کہ ہمارا لکھا دوسروں کی نظر میں معتبر ٹھہرے۔