سید جمال الدین افغانی نوآبادیاتی طاقتوں سے آزادی کی مسلم جدوجہد میں ایک اہم نام ہیں ۔ برصغیر پاک وہند میں انہیں ایک مصلح اور مفکر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے ۔ ہمارے سامنے ان کا یہی پہلو ہے ۔ پچھلے دنوں معاصر ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل میں مولانا غلام رسول مہر کا افغانی صاحب کی سیرت اور کارناموں پر ایک مضمون تاریخ کے اوراق سے نکال کر شایع کیا گیا تو محمد تنزیل الصدیقی الحسینی صاحب کی تحقیق آئندہ ہفتے شایع ہوئی میرے لیے افغانی صاحب کا یہ پہلو اجنبی تھا ۔ مولانا غلام رسول مہر صاحب کے مضمون کو یہاں پیش کرنے کی حاجت نہیں کہ ان کے کارناموں سے عمومی واقفیت پائی جاتی ہے ان کی شخصیت کا دوسرا رخ یہاں پیش خدمت ہے ۔ امید ہے کہ احباب اس حوالے سے اپنی معلومات اور تحقیق سے آگاہ فرمائیں گے ۔ راقم کے خیال میں اردو میں اس حوالے سے معلومات کی انتہائی قلت ہے ۔
(فرائیڈے اسپیشل کے گزشتہ سے پیوستہ شمارے (9 تا 15 مارچ 2012ئ) میں عالمِ اسلام میں بیداری کی تحریک کے اہم رہنما سید جمال الدین افغانی کے بارے میں مورّخ اسلام مولانا غلام رسول مہر مرحوم کا مضمون شائع کیا گیا تھا۔ اس مضمون کی تحریر کے بعد جمال الدین افغانی کی شخصیت اور حالاتِ زندگی کے بارے میں کئی تحقیقات شائع ہوچکی ہیں۔ نوجوان اہل قلم تنزیل الصدیقی الحسینی نے نئی تحقیقات کے حوالے سے جمال الدین افغانی کی شخصیت پر نئے زاویے سے روشنی ڈالی ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔ (ادارہ) ٭٭٭٭
جمال الدین افغانی ( ۱۸۳۸ء -۱۸۹۷ء ) اسلامی تاریخ کے انتہائی غیر معمولی اور متاثر کن شخصیت کے حامل رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے دور کے تقریباً ہر بڑے اسلامی خطے میں اپنی جگہ بنائی اور وہاں کی سیاست و معاشرت پر اثرا نداز ہوئے۔ جس سے ان کی عبقریانہ صلاحیتوں کا بَر ملا اظہار ہوتا ہے۔ انہوں نے ایران، افغانستان، ہندوستان، مصر اور خلافتِ عثمانیہ میں اپنا وقت گزارا۔ ہندوستان میں ان کا عرصۂ قیام بہت کم رہا۔ یہی وجہ رہی کہ یہاں کہ اہلِ علم ان کی شخصیت کے ہَمہ گیر پہلوئوں سے اس قدر واقف نہیں۔ اسلامی ممالک میں صرف خطۂ حجاز ہی ان کے اثر و نفوذ سے محروم رہا۔ اسلامی خطوں کے علاوہ جمال الدین افغانی نے یورپ اور روس میں بھی کچھ عرصہ گزارا۔ وہ ایک متحرک شخصیت کے حامل تھے جہاں بھی گئے تحریک برپا کرتے گئے۔ان کی شخصیت بڑی انقلابی تھی جس نے ایک بہت بڑے حلقے کو متاثر کیا۔ انہیں جدید اتحاد عالم اسلامی کے نظریے کا بانی بھی قرار دیا جاتا ہے۔ ان کی شخصیت ہَمہ گیر بھی تھی اور اس کے پہلو ہَمہ جہت بھی۔ برصغیر پاک وہند کے مسلمان عام طور پر انہیں ایک مصلح و مجدد کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ اس کے بَر عکس عالم عرب خصوصاً مصر کے راسخ العقیدہ علماء ان کے شدید مخالف ہیں کیونکہ جمال الدین افغانی کی زندگی کا بیشتر عملی حصہ بھی مصر ہی میں گزرا ہے۔ اسی طرح جو جدید تحقیقات خود جمال الدین افغانی کے خطوط اور نوشتوں کی صورت میں منظرِ شہود پر آئی ہیں اس سے بھی ان کی شخصیت کے کئی اہم مگر پوشیدہ اور گمشدہ پہلو نمایاں ہوئے ہیں۔ گو ان کی ’’ پُر اسرار شخصیت ‘‘ کے ’’ اسرار ‘‘ اب برصغیر کے اہلِ علم میں بھی کھلتے جارہے ہیں۔ مولانا سیّد ابو الحسن علی ندوی ( م ۱۹۹۹ء ) نے بھی اپنی کتاب ’’ مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش ‘‘ میں جمال الدین افغانی کی شخصیت کے اس دوسرے پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جدید تحقیقات کے نتیجے میں کئی چشم کشا انکشافات ہوئے ہیں۔ ذیل کے مضمون میں تصویر کے اسی دوسرے رُخ کوقارئین کے سامنے پیش کرنا مقصود ہے۔
جمال الدین افغانی کے ایک تذکرہ نگار شیخ علی الوردیٰ نے اپنی کتاب ’’ لمحات اجتماعیۃ فی تاریخ العراق الحدیث ‘‘ ( ۳ /۳۱۳) میں لکھا ہے :
’’ افغانی کا لقب ایک مقام سے دوسرے مقام میں منتقل ہونے کے ساتھ بدلتا رہا۔ ہم نے انہیں مصر و ترکی میں افغانی کا لاحقہ استعمال کرتے دیکھا۔ ایران میں وہ حسینی تھے۔ بعض اوراق جو ضائع ہونے سے بچ گئے ان سے ان کے دوسرے لاحقات بھی واضح ہوتے ہیں۔ مثلاً استنبولی، کابلی، روسی،طوسی اور اسد آبادی۔ لقب کی طرح ان کا لباس و حلیہ بھی اپنے مقام کی نوعیت کے اعتبار سے بدلتا رہا۔‘‘ پاک و ہند میں جمال الدین افغانی یا جمال الدین اسد آبادی کے نام سے معروف ہوئے۔’’ العروۃ الوثقیٰ ‘‘ میں مدیر السیاسۃ کی حیثیت سے ان کا نام جمال الدین الحسینی الافغانی مرقوم ہوتا تھا۔
خیر الدین زرکلی ( ۱۸۹۳ء -۱۹۷۶ء ) نے ’’ الاعلام ‘‘ (۶/ ۱۶۹) میں لکھا ہے :
’’ ان کے ایک ] نصرانی[ مرید ادیب اسحاق کے زیر ادارت نکلنے والے جریدے ’’ مصر ‘‘ میں جمال الدین کی تحریریں مظہر بن وضاح کے نام سے شائع ہوتی تھیں۔‘‘
اس کے علاوہ جمال الدین افغانی جن لاحقوں سے معروف ہوئے ان میں جمال الدین استنبولی اور جمال الدین حسینی عبد اللہ بن عبد اللہ بھی ہے ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ’’ جمال الدین الافغانی ‘‘ از ڈاکٹر علی عبد الحلیم محمود )۔ ۔