حماد
محفلین
قرونِ وسطی کے جن مسلمان حکما نے مغربی فکر کو سب سے زیادہ متاثر کیا ان میں ابو بکر رازی اور ابن رشد کے نام سرِفہرست ہیں۔ رازی نہایت آزاد خیال اور روشن فکر سائنس دان تھا۔ البیرونی اس کی 56 تصنیفات کا ذکر کرتا ہے لیکن اس کی کتابوں کی تعداد سو سے بھی زیادہ ہے۔ (33 نیچرل سائنس پر، 22 کیمسٹری پر، 17 فلسفے پر، 14 مذہبیات پر، 10 ریاضی پر، 6 مابعدالطبیعات پر، اور 10 متفرقات) رازی کی تصنیفات پہلے جرارڈ نے لاطینی میں ترجمہ کیں اور پھر بادشاہ چارلس آف انجو کے حکم سے تیرھویں صدی میں ترجمہ ہوئیں۔
رازی اسلاف پرستی کے سخت خلاف ہے۔ وہ منقولات کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ عقل اور تجربے کو علم کا واحد ذریعہ سمجھتا ہے۔ اس کا قول تھا کہ ہم کو فلسفے اور مذہب دونوں پر تنقید کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ وہ معجزوں کا منکر تھا کیونکہ معجزے قانونِ فطرت کی نفی کرتے ہیں اور خلافِ عقل ہیں۔ وہ مذاہب کی صداقت کا بھی چنداں قائل نہیں کیونکہ مذاہب عموماً حقیقتوں کو چھپاتے ہیں اورلوگوں میں نفرت اور عداوت پیدا کرتے ہیں۔ وہ کہتا تھا کہ سائنس میں حرفِ آخر کوئ نہیں بلکہ علوم نسلاً بعد نسل ترقی کرتے رہتے ہیں لہذا انسان کو لازم ہے کہ اپنے دماغ کی کھڑکیاں کھلی رکھے اور منقولات کے بجائے حقیقی واقعات پر بھروسہ کرے۔
رازی اسلاف پرستی کے سخت خلاف ہے۔ وہ منقولات کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ عقل اور تجربے کو علم کا واحد ذریعہ سمجھتا ہے۔ اس کا قول تھا کہ ہم کو فلسفے اور مذہب دونوں پر تنقید کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ وہ معجزوں کا منکر تھا کیونکہ معجزے قانونِ فطرت کی نفی کرتے ہیں اور خلافِ عقل ہیں۔ وہ مذاہب کی صداقت کا بھی چنداں قائل نہیں کیونکہ مذاہب عموماً حقیقتوں کو چھپاتے ہیں اورلوگوں میں نفرت اور عداوت پیدا کرتے ہیں۔ وہ کہتا تھا کہ سائنس میں حرفِ آخر کوئ نہیں بلکہ علوم نسلاً بعد نسل ترقی کرتے رہتے ہیں لہذا انسان کو لازم ہے کہ اپنے دماغ کی کھڑکیاں کھلی رکھے اور منقولات کے بجائے حقیقی واقعات پر بھروسہ کرے۔
(نوید فکر)