تمام علوم کی کنجی اسماءکا علم ہے علم الاسماءبیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بندہ صاحب رسید و یافت ہوجائے اور وہ اسی صورت ہوگا جب وہ صاحب علم ہوگا یا صاحبِ علم لوگوں کی صحبت میں ہوگا ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔۔۔ ۔کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہوسکتے ہیں ؟؟؟تو سب سے پہلے اس بات پر غور و فکر کرنا ہوگا کہ جاننا کیا ہے ؟؟؟علم کیا ہے؟؟؟ علوم کی کنجی کیا ہے؟؟؟بلاشک و شبہ یہ بات ہمیں قرآن مجید کے مطالعہ سے پتہ چلتی ہے کہ تمام علوم کی کلید اسماءکا علم ہے کیونکہ جب فرشتوں نے کہا کہ اے ہمارے پرودگار
أَتَجۡعَلُ فِيہَا مَن يُفۡسِدُ فِيہَا وَيَسۡفِكُ ٱلدِّمَآءَ وَنَحۡنُ نُسَبِّحُ بِحَمۡدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَۖ
(بقرة۔۰۳) (کیاتو اس قوم کو زمین پر پیدا کرے گا جو طرح طرح کے فساد پیدا کرے گی اور اس سے خون ریزیاں ہونگی اور ہم تیری تسبیح بیان کرتے ہیں ،حمد کرتے ہیں اور تقدیس کرتے ہیں۔فرشتوں کا جواب سن کر اللہ تبارک تعالیٰ نے فرمایا
إِنِّىٓ أَعۡلَمُ مَا لَا تَعۡلَمُونَ(بقرة۔۰۳) اس معاملے میں،میں جو جانتا ہوں تم نہیں جانتے )پس اللہ تبارک تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو کل اسماءاور بعض معانی تعلیم کیئے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ علم منتقل کیا جاتا ہے جسے علم لدنی کہتے ہیں ورنہ اللہ تبارک تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو سامنے بٹھا کر جس طرح کہ استاد شاگرد کو سکول یا مدرسہ میں تعلیم دیتا ہے اس طرح تو نہ کیا ہوگا ۔
تب اللہ تبارک تعالیٰ نے اس کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا
أَنۢبِ۔ُٔونِى بِأَسۡمَآءِ هَ۔ٰٓؤُلَآءِ إِن كُنتُمۡ صَ۔ٰدِقِينَ بقرة:31 مجھ کو ان چیزوں کے نام بتاو اگر تم اس خیال میں سچے ہو کہ ہم آدم علیہ السلام سے افضل ہیں ؟؟؟؟؟
خالق کائنات کا یہ جواب سن کر فرشتوں نے عاجزانہ لہجہ میں کہا
سُبۡحَ۔ٰنَكَ لَا عِلۡمَ لَنَآ إِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَآۖ إِنَّكَ أَنتَ ٱلۡعَلِيمُ ٱلۡحَكِيمُ (بقرة۔۲۳)(پرودگار! تیری ذات پاک ہے جو کچھ تو نے ہمیں علم دیا ہے اس سے زائد ہم کچھ نہیں جانتے تو سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔)
علم الاسماءکی رُو سے اللہ نے انسانوں پر چار بنیادی جہات سے تجلی کی ہے
علم اسماء الٰہیہ
تجلی تنزل کر کے اور کثافت کا لباس پہن کر نور بنی اور نور کثافت کے پردوں میں ظاہر ہوکر روشنی بنا روشنی کا اظہار ایتھر یا ایثر کی لہروں میں توانائی کی صورت میں اس عالم کو تخلیق کررہا ہے ہر شئے اسی ایتھر کی مخصوص لہروں سے ترتیب پارہی ہے خواہ زحل ہے شمس ہے قمر ہے زمین ہے خلا ہے یااس زمین کی ادنیٰ سے ادنیٰ یا اعلیٰ سے اعلیٰ کوئی چیز ۔جو کچھ بھی ہے اسی ایتھر میں مخصوص وائبریشن کا نتیجہ ہے ۔ہر انسان ایک خاص قسم کی وائبریشن سے بنا ہے یہی تحریک رنگ روشنی اعضاءقوت سکون تحلیل اور تحریک سے مزاجِ انسانیہ بنا رہی ہے اسی سے انسان الگ الگ Antigenکا حامل ہے۔
اور اپنا مخصوص بلڈ گروپ رکھتا ہے دراصل یہ انوارِ اسمائِ الٰہیہ ہی ہیں جو تجلی سے نزول کرکرکے اس عالم پر موثر ہیں اور اثر و تاثیر کا یہ سلسلہ ذرہ سے تجلی تک جاری ہے ۔ہر انسان مخصوص اسماءالٰہیہ سے متعلق ہے اور ہراسم ،اسماءالٰہی ایک خاص وائبریشن رکھتا ہے اسی تحریک سے انسانوں کا وجود بن رہا ہے اور تحلیل ہورہا ہے اور سرخ سبز نیلا پیلا سفید رنگ ہر شئے میں ایک خاص تحریک رکھتا ہے اور کسی نہ کسی اسم کی تاثیر کی وجہ سے ہے ہر چیز کی شکل و صورت اور ذائقہ بھی اسماءکا اظہار ہے۔
Oبلڈ گروپ اپنی خاصیت کے حساب سے ہر بلڈ گروپ میں جاری و ساری ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے اس لیئے یہ اسمائے ذاتیہ سے متعلق ہے ۔
Aبلڈ گروپ اعصاب اور رطوبات و آب سے متعلق ہے ٹھنڈک اور سکون سے تعلق ہے اس لیئے یہ اسمائے جمالیہ سے متعلق ہے ۔
Bبلڈ گروپ گرم خشک اور خشک گرم مزاج بناتا ہے اس لیئے یہ اسمائے جلالیہ سے تعلق رکھتا ہے ۔
ABبلڈ گروپ میں جلال و جمال دونوں جمع ہیں اس لیئے یہ اسمائے مشترکہ کمالیہ سے متعلق ہے۔
اسماء کو ہم نیچے بیان کررہے ہیں ہم نے اسمائے الٰہیہ کو الگ الگ درج کردیا ہے ۔اور یہ تقسیم ہم نے سید عبدالکریم بن ابراہیم جیلانی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کی تصنیف لطیف الانسان الکامل سے نقل کی ہے واضح ہو کہ ان کی ایک اور کتاب الکھف والرقیم فی شرح بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا ترجمہ
محمود احمد غزنوی صاحب کرنے کی سعادت حاصل کرچکے ہیں اور محفل پر پیش بھی کرچکے ہیں۔
Oبلڈ گروپ کے حامل افراد کو اسمائے ذات کا ورد کرنا چاہیئے ہے جوکہ درج ذیل ہیں
اللّہ۔الاحد۔الواحدالصمد۔الفرد۔الوتر۔النور ۔الحق۔الحی۔القدوس۔
Aبلڈ گروپ کے حامل افراد کو کو اسمائے جمالیہ(افعالیہ) کا ورد کرنا چاہیئے ہے جوکہ درج ذیل ہیں
العلیم۔الرحیم۔السلام۔المومن باری۔المصور۔ غفار۔الوھاب۔ الرزاق۔الفتاح۔ باسط ۔ الرافع۔ لطیف۔الخبیر۔معز۔الحفیظ۔المقیت۔الحسیب ۔ الجمیل۔الحلیم ۔ الکریم۔ الوکیل ۔ الحمید۔المبدی۔ المحی ۔ المصور۔الواجد۔ الدائم۔باقی۔الباری۔
Bبلڈ گروپ کے حامل افراد کو کو اسمائے جلالیہ(صفاتیہ) کا ورد کرنا چاہیئے ہے جوکہ درج ذیل ہیں
۔الٍکبیر۔المتعال۔عزیز۔العظیم۔الجلیل۔القھار۔القادر۔المقتدر۔الماجد۔الولی۔الجبار۔المتکبر۔القابض۔لخافض۔المذل۔الرقیب۔الواسع۔الشہید۔القوی۔المتین۔الممیت۔المعید۔المنتقم ۔
ABبلڈ گروپ کے حامل افراد کو کو اسمائے مشترک و کمالیہ کا ورد کرنا چاہیئے ہے جوکہ درج ذیل ہیں
۔ الرحمٰن۔العلیم۔الملک ۔الرب۔المھیمن۔الخالق السمیع۔البصیر۔الحکم ۔العدل۔الحکیم۔الولی
القیوم۔المقدم۔الموخر الاول۔الآخر۔الظاہر۔ الباطن ۔الوالی ۔المتعال ۔المالک المک ۔ المقسط
الجامع ۔الغنی۔الذی لیس کمثلہ شئی’‘ المحیط ۔ السلطان ۔المؤید۔المتکلم۔
اسماءکو خون کے گروپوں میں اس لیئے تقسیم کیا گیا ہے کہ جیسا کہ سب لوگ جانتے ہیں کہ ہر بندے کی ایک طبیعت یا مزاج ہوتا ہے جو کہ دوسرے بندے سے الگ ہوتا ہے تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ کل چار مزاج ہوتے ہیں یعنی سرد،گرم،تر اور خشک۔
علمِ اسماءکی رو سے ہر انسان کسی نہ کسی اسم کا مظہر ہوتا ہے اسی لیئے اللہ تبارک تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے انسان میں تیری شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں یااللہ تبارک تعالیٰ فرماتے ہیں کہ (وَ ھُوَ معکم اینما کنتم) وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں تم ہوتے ہو دراصل انسان پر ہروقت اور ہر لمحے اسماءکی روشنیاں پڑتی رہتی ہیں اب ہر اسم کا ایک الگ کیفیت و مزاج ہے جس کا عکس انسان (یعنی اس کے نفس)پر منطبق ہورہا ہے۔
گرم مزاج یعنی B Blood Group کو تقویت یا حرارت اسمائے جلالیہ سے کائنات میں صفات کے زیرِ اثر جو بھی دائرہ کار ہے کو جلا بخش رہے ہیں ۔
تر مزاج O Blood Group کو اسمائے ذات سے تری ملتی ہے کیونکہ ذات میں کشادگی اور بسط ہے(اور باقی سب اعتبارات ہیں)
سرد مزاج A Blood Group والوں کو اسمائے جمالیہ (افعالیہ)سے مدد ملتی ہے جو کہ کائنات میں اپنا فعل ادا کرتے ہیں اور اس کا اپنا ایک Net workہے ۔
خشک مزاج AB Blood Group والوں کو اسمائے مشترک (کمالیہ) سے کمک ملتی ہے۔
درحقیقت انسان جو اللہ کا مظہر ہے اس پر چاربنیادی تجلیات خون کے گروپ کے مطابق ہوتی ہیں ۔اسی لیئے اپنے خون کے گروپ کے مطابق ہی اللہ تبارک تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنی چاہیئے ہے پس اس رمز کو سمجھیں ۔
مثلاً دیکھیں سورج چمکتا ہے اس کی روشنی یا نور سب پر یکساں پڑتا ہے ۔
لیکن اس کے اثرات اشیاءپر مختلف نتائج کے حامل ہوتے ہیں مثلاً
یہ کیچڑ کو خشک کردیتا ہے
پانی کو بھاپ بنا کر اڑا دیتا ہے
موم کو نرم کردیتا ہے
اسی طرح اگر کوئی اللہ کی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے اُس سلاسل یا حلقہ میں جانا چاہیئے ہےجو کہ اس کے خون کے گروپ سے تعلق رکھتے ہوں ۔مثلاً
O Blood Groupوالے کو ہمیشہ قادریہ سلسلہ کے اشغال ہی کرنے چاہیئے ہیں
B Blood Groupوالوں کو سہروردیہ سلسلہ کے وظائف ہی کرنے چاہیئے ہیں
AB Blood Groupوالوں چشتیہ سلسلہ کے اشغال ہی کرنے چاہیئے ہیں
A Blood Groupوالوں کونقشبندیہ سلسلہ کے وظائف ہی کرنے چاہیئے ہیں
اگر اس کے بر خلاف کرے گا تو اپنے آپ کو ضائع کردے گا۔
کیونکہ بہترین توحید وہ ہے جو اللہ سے ہماری طرف ہو اور پھر اس کے بعد جو ہمارے آثار سے اللہ کی طرف ہو۔ تو اللہ سے تو ہردم اور ہروقت ہم پر اس کی تجلیات اور انورات کا ظہور جاری ہے ۔لیکن مزا تو جب ہے جب ہمارے آثار سے بھی کچھ ہو۔
عام ہیں اُس کے تو الطاف شہیدی سب پر
تجھ سے کیا ضد تھی اگر تو کسی قابل ہوتا
دراصل یہ سلاسل کا نام تو اللہ کے دوستوں نے اپنی آسانی یا ظاہری بات ہے کہ کوئی نام تو رکھنا تھا تو
اس طرح نام رکھ دیا تھا کیونکہ اس زمانے میں بلڈ گروپس کا کوئی تصور نہ تھا۔