آبی ٹوکول
محفلین
جہاں تک بات ہے طلعت بھائی کے پی ٹی آئی کے خلاف کسی قدر جارحانہ رویہ کی تو ہمارے نزدیک یہ لاشعوری طور پر ہے اور اس میں کس قدر ہاتھ پی ٹی آئی کی حد سے زیادہ جذباتی یوتھ کا بھی ہے جوکہ پی ٹی آئی کے ہرناقد کی بات اولا آدھی ادھوری سنتی ہے پھراس پر مستزاد یہ کہ قائل کی کہی گئی بات کا سیاق و سباق بھی انکے مدنظر نہیں ہوتا، اورنہ ہی وہ حالات و واقعات جنکے تناظر میں کوئی بھی بات بطورتنقید کہی جاتی ہے اور نہ ہی قرآئن و شواہد کا مطالعہ انکے پیش نظر ہوتا ہے اور آخر مین نہ کہنے والی کی ذات اور اسکی کریڈیبیلٹی ، طلعت بھائی کا شمار گنتی کے ان صحافیوں اور اینکر پرسنز میں ہوتا ہے کہ جنکا اپنا کوئی ذاتی ایجنڈہ نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے تو فقط انکے پیشے سے وفاداری ہی ہوتا ہے طلعت بھائی ملک کے گنے چنے ان صحافیوں میں سے ہیں کی جنکی کریڈبیلٹی انکے نام سے بھی زیادہ ہے لیکن ان سب کہ باوجود وہ بھی ایک بندے بشر ہیں ان سے بھی درست اور نادرست تنقید کا وقوع ہوسکتا ہے اورکبھی کبھار کسی بشری کمزوری کے تحت خود کی ذات پر تنقید کا اثربھی انکی تحریر اور تقریر میں جھلک سکتا ہے.
جہاں تک تومعید پیرزادہ کے کل والے پروگرام کی بات ہے تو اس میں طلعت بھائی کا نکتہ استدلال کافی وزنی تھا طلعت بھائی نے یہ نہیں کہا کہ دھاندلی کی تحقیق نہیں ہونی چاہیے بلکہ انھوں نے پی ٹی آئی کے طریقہ کار پر اعتراض کیا ہے ، کیونکہ پی ٹی آئی کو 25 حلقوں پر اعتراضات ہیں جبکہ پی ٹی آئی نے بطور سیمپل فقط چار یا چھ سیٹوں کے لیے الیکشن کمیشن کو درخواست دی ہے جسکی وجہ اسد عمر صاحب نے یہ بیان کی کہ اگر سب حلقوں کے لیے درخواست دیتے تو شاید یہ الیکشن کمیشن کے لیے ایگزامن کرنا پریکٹکلی ممکن نہ ہوتا، جبکہ اس پر طلعت صاحب کا آرگیو یہ تھا کہ جب آپ ایک سے زائد حلقوں کے لیے فقط چند حلقوں کو بنیاد بنا کر بطور سیمپل الیکشن کمیشن کو اپروچ کرتے ہیں اوراس کے نتیجہ میں اگر کچھ ثابت ہوجاتا ہے تونتیجتا پھر وہ سارے حلقے متنازعہ ہوجائیں گے کہ جنکی سیمپلنگ کے لیے ان چار یا چھ حلقوں کو بنیاد بنایا گیا تھا ۔ طلعت بھائی کے مطابق یہ آپ بناسپتی چاول کا سیمپل نہیں لے رہے کہ چند دانے دیکھ کر باقی سب کو ان پر قیاس کرلیا جائے بلکہ یہ الیکشن کا پراسس ہے اور اس میں اگر کسی کو کسی حلقے میں پرابلم ہوئی ہو تو امیدوار کو خود چاہیے کہ وہ قانون میں وضع کیے گئے طریقہ کار کہ مطابق پرابلمز کو باقاعدہ سپیسیفائی کرتے ہوئے قانونی چارہ جوئی کرئے اور یہی اعتراض انکو تحریک انصاف کے طریقہ کار پر ہے کہ انھوں نے بغیر سپیسیفائی کیئے بطور سیمپل چند حلقوں کو لیا اور پھر انھے الیکشن کمیشن میں تحقیق کے لیے پیش کردیا جبکہ حلقہ ایک ہو یا ایک سے زائد دھاندلی کی پرابلمز کوباقاعدہ سپیسفیکلی ایڈریس کیا جانا ضروری ہے اور پھر اسی بنیاد پر درخواست دینا بھی۔
سمپل یہ کہ طلعت بھائی کہ مطابق یا تو تحریک انصاف کو ان 25 کی 25 سیٹوں پر قانون کے مطابق قانونی چارہ جوئی کرنی چاہیے یا پھر فقط انہی چار یا چھ حلقوں پر کہ جنھے تحریک انصاف نے بطور سیمپل کے الیکشن کیمشن کہ سامنے پیش کیا ہے یعنی دھاندلی اگر چیک ہوگئی تو پھر ہر ہر واحد حلقے کو سپییفائی کرتے ہوئے سپیسیفیکلی طریقہ سے چیک ہوگی اور طریقہ کار یہ ہوگا کہ ہر حلقہ کا متاثرہ امیدوار قانون میں دیئے گئے طریقہ کار مطابق اپنی شکایات الیکشن کیمشین کو جمع کروائے گا بمع تمام تر دستاویزی اور دیگر ثبوتوں کے
جہاں تک تومعید پیرزادہ کے کل والے پروگرام کی بات ہے تو اس میں طلعت بھائی کا نکتہ استدلال کافی وزنی تھا طلعت بھائی نے یہ نہیں کہا کہ دھاندلی کی تحقیق نہیں ہونی چاہیے بلکہ انھوں نے پی ٹی آئی کے طریقہ کار پر اعتراض کیا ہے ، کیونکہ پی ٹی آئی کو 25 حلقوں پر اعتراضات ہیں جبکہ پی ٹی آئی نے بطور سیمپل فقط چار یا چھ سیٹوں کے لیے الیکشن کمیشن کو درخواست دی ہے جسکی وجہ اسد عمر صاحب نے یہ بیان کی کہ اگر سب حلقوں کے لیے درخواست دیتے تو شاید یہ الیکشن کمیشن کے لیے ایگزامن کرنا پریکٹکلی ممکن نہ ہوتا، جبکہ اس پر طلعت صاحب کا آرگیو یہ تھا کہ جب آپ ایک سے زائد حلقوں کے لیے فقط چند حلقوں کو بنیاد بنا کر بطور سیمپل الیکشن کمیشن کو اپروچ کرتے ہیں اوراس کے نتیجہ میں اگر کچھ ثابت ہوجاتا ہے تونتیجتا پھر وہ سارے حلقے متنازعہ ہوجائیں گے کہ جنکی سیمپلنگ کے لیے ان چار یا چھ حلقوں کو بنیاد بنایا گیا تھا ۔ طلعت بھائی کے مطابق یہ آپ بناسپتی چاول کا سیمپل نہیں لے رہے کہ چند دانے دیکھ کر باقی سب کو ان پر قیاس کرلیا جائے بلکہ یہ الیکشن کا پراسس ہے اور اس میں اگر کسی کو کسی حلقے میں پرابلم ہوئی ہو تو امیدوار کو خود چاہیے کہ وہ قانون میں وضع کیے گئے طریقہ کار کہ مطابق پرابلمز کو باقاعدہ سپیسیفائی کرتے ہوئے قانونی چارہ جوئی کرئے اور یہی اعتراض انکو تحریک انصاف کے طریقہ کار پر ہے کہ انھوں نے بغیر سپیسیفائی کیئے بطور سیمپل چند حلقوں کو لیا اور پھر انھے الیکشن کمیشن میں تحقیق کے لیے پیش کردیا جبکہ حلقہ ایک ہو یا ایک سے زائد دھاندلی کی پرابلمز کوباقاعدہ سپیسفیکلی ایڈریس کیا جانا ضروری ہے اور پھر اسی بنیاد پر درخواست دینا بھی۔
سمپل یہ کہ طلعت بھائی کہ مطابق یا تو تحریک انصاف کو ان 25 کی 25 سیٹوں پر قانون کے مطابق قانونی چارہ جوئی کرنی چاہیے یا پھر فقط انہی چار یا چھ حلقوں پر کہ جنھے تحریک انصاف نے بطور سیمپل کے الیکشن کیمشن کہ سامنے پیش کیا ہے یعنی دھاندلی اگر چیک ہوگئی تو پھر ہر ہر واحد حلقے کو سپییفائی کرتے ہوئے سپیسیفیکلی طریقہ سے چیک ہوگی اور طریقہ کار یہ ہوگا کہ ہر حلقہ کا متاثرہ امیدوار قانون میں دیئے گئے طریقہ کار مطابق اپنی شکایات الیکشن کیمشین کو جمع کروائے گا بمع تمام تر دستاویزی اور دیگر ثبوتوں کے