سید مسعود الحسن تابش دہلوی کی کتاب " دید باز دید " سے اقتباس

سید زبیر

محفلین
اردو شاعری میں ساقی کا کردار

ایرانی نژاد ساقی نگارستان ہند میں جلوہ گر ہوا اساتذہ سخن نے ہاتھوں چھاوں پروان چڑھایا ۔دیکھتے ہی دیکھتے چار دانگ ہند پر چھا گیا محبت کی محفلوں اور حسن کی مجلسوں میں اس کا جلوہ عام ہوا اور ہر طرف اسی کے نام کا سکہ رواں ہونے لگا عشاق کے جمگھٹے ، حسینوں کے پرے ، اغیار کی صحبتیں ، شیخ و صوفی کی خلوتیں بھی اسی کے ذکر سے گونجنے لگیں لوگوں نے اپنے اپنے مذاق کے مطابق اسے اپنے دلوں میں جگہ دی سی نے عشاق کا ہمدرد اور خیرخواہ سمجھا کوئی اس کو بھی 'بزمِ گُلر خاں " کا انمول رتن سمجھنے لگا ۔کسی نے اسے رقیبوں محرمِراز اور جاسوس جانا ،خود ساقی میں بھی اس قسم کی تمام صلاحیتیں تھیں غرض ساقی کی ذات جامع الکمالات مانی گئی۔شیخ و زاہد سے بھی دوستی رہنے لگی حد یہ کہ محتسب کو ایسا گرویدہ کیا گیا کہ وہ بھی اُ کے حلقہ بگوشوں میں شمار ہونے لگا ۔ مگر اس بہروپ میں ساقی نے بھی شاہد پرستی اور جنونِ عشق کے مزے لیے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی البتہ اِکا دُکا پیر جہاندیدہ نے ذرا شبہ کی نظر سے دیکھا
۔ ؎ مجھ تک کب اُن کی بزم میں آتا تھا دور جام ساقی نے کچھ پلا نہ دیا ہو شراب میں
یا کوئی زخم خوردہ بد ظن یہ کہہ کر چپ ہو گیا ؎ کسی کے آتے ہی ساقی کے ایسے ہوش اُڑے شراب سیخ پہ ڈالی شراب شیشے میں
ان بہروپوں کے علاوہ ساقی نے اور بھی کئی بھیس بدلے کہیں ' مے فروش ' بنا اور کہیں ' پیر مغاں '، مے فروش کا سنتے ہی ذہن میں نقشہ کھچ جاتا ہے چاروں طرف نظر ڈالئے تو عجب عالم دکھائی دے گا ،مستی و ہشیار کا بازار،کیف و سرور کی دنیا ، ہائے و ہو کے نعرے ،مغبچوں کی چیخ و پکار ، میفروشوں کی ڈانٹ ڈپٹ ،ایک طرف جھَوت میں کچھ ثقہ صورتیں اپنی باری کا انتظار کر رہی ہیں کیا کریں عادت سے مجبور ہیں کسی کونے میں کچھ بلا نوش خشتِ خم پر کعبے کی بنیاد رکھنے میں مشغول ہیں کچھ منچلے ساغر پٹک پٹک چشمہ زمزم نکالنے کی جستجو میں ہیں کچھ خراباتی من و تُو کی الجھنوں میں گرفتار ، اِ ن میں کچھ کافر پوشیدہ ولی بھی ہیں غرض عجیب کیفیت ہے ہوا میں شراب کی تاثیر ہے زمین سے شراب کے چشمے اُبل رہے ہیں اور یہ ساری گہما گہمی ساقی کے ایک رُوپ ' میفروش' کے دم سے ہے

اب کسی نئے زمانے کے 'پیر مغقاں کا تصور کیجئے پرانے ' پیر مغاں ' میں اور اِن میں بس وہی فرق ہے جو کسی بھٹیاری کی دکان اور ہوٹل میں ، یہ اپنا کام ذرا اعلیٰ پیمانے پر شروع کرتے ہیں کسی عالیشان محل میں سینکڑوں میزیں قرینے سے بچھی ہیں ارد گرد خوبصورت کرسیاں دھری ہیں 'پیر مغاں " کسی امتیازی جگہ پر ایک تجوری کے پاس براجمان ہیں ۔نئی وضع کے مغبچے اہلے گہلے پھر رہے ہیں شراب اور گزک کے خوان کے خوان اِدھر سے اُدھر آ رہے ہیں ساتھ ساتھ موسیقی کی نرم نرم تانیں گوش نواز ی کر رہی ہیں شوقین طبع ،زمانے کی طرح دار نازک بیاں و نازک خیال جمع ہیں کبھی شامت کے مارے حضرت ناصح اور جناب ِ شیخ بھی آ نکلتے ہیں مگر چوری چھپے

؎ دیکھنا پیر مغاں حضرتِ ناصح تو نہیں کوئی بیٹھا نظر آتا ہے پسِ خُم مجھے

؎ یہ مسجد ہے یہ میخانہ تعجب اِس پہ آتا ہے جنابِ شیخ کا نقش ِ قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی

؎ کہاں میخانہ کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

غرض یہ تمام رونقیں ساقی کے دوسرے روپ ' پیر مغاں " کے دم سے ہے

اب ساقی کا اصلی روپ ملاحظہ فرمائیے احباب کا مجمع ہے اربابِ نشاط حاضر ہیں ،رقص و سرود کی محفل شباب پر ہے دلوں میں محبت کی آگ دبی ہے تمنائیں مچل رہی ہیں ایک پرکالہ آتش خمِ گردن کے سہارے مینا اُٹھائے ،جام کا دور پر دور ہو رہا ہے سر مستی اور سر شاری کی ہر طرف دھوم ہے میکشوں کا بس نہیں چلتا کہ ساقی پر جان نچھاور کر دیں مطرب پر دین و ایمان تصدق کر دیں

؎ساقی بجلوہ دشمن ایمان جان و آگہی مطرب بہ نغمہ رہزن ِتمکین و ہوش ہے

کوئی دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر کہہ رہا ہے

؎ یہاں بادہ ہے وحی و جام پیغمبر 'خدا ساقی

غرض ساقی کے شیدائیوں کا ہنگامہ سا برپا ہے 'ہر ایک اپنی اپنی دھُن میں مگن کچھ نہ کچھ کہہ رہا ہے وہ ماہی سے ماہ تک قلابے ملائے جا رہا ہے کہ کچھ سنائی نہیں دیتا ، مگر نہیں بعض آوازیں کچھ کچھ سمجھ میں آرہی ہیں ملاحظہ فرمائیے اور پہچانئے کوئی دل جلا الم نصیب عالم کی بے ثباتی سے نالاں ہے اور چاہتا ہے کہ جب تک یہ واہمہ قائم ہے ساقی کی نگاہیں نہ پھریں

؎ ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاو جب تلک بس چلے ساغر چلے

کوئی مرتد بہک اُٹھتا ہے

؎کہاں کا میخانہ کس کا ساقی کچھ اور بڑھنے دو بیخودی کو یہی بنائے گی جام و ساغر یہی کرے گی شراب پیدا
اور کوئی خوددار پکار اُٹھتا ہے
؎ حجاب جلوہ ساقی ہے میری بیہوشی کچھ اور چاہئیے کہ بیخودی نہ رہے
کوئی قدح خوار اپنے ظرف کے بارے میں انکسار سے پیش آتا ہے
؎ کہتے ہوئے ساقی سے حیا آتی ہے 'ورنہ ہے یوں کہ مجھے دُردِتہہِ جام بہت ہے
اِن میں بعض ایسے بھی ہیں جو ہر ذلت کے باوجود چاہتے ہیں
؎ پلادے اوک سے ساقی جو ہم سے نفرت ہے پیالہ گر نہ دہیں دیتا 'نہ دے 'شراب تو دے
حریف جوششِ دریا نہیں خودداری ساحل جہاں ساقی ہو تو باطل ہے دعویٰ پارسائی کا
کوئی اپنی بیتابی میں احترامِ ساقی کا بھی خیال نہیں رکھتا
؎ساقی ہے یک تبسمِ گل فرصت بہار ظالم بھرے ہے جام تو جلدی سے بھر کہیں
چند پہنچے ہوئے میخواروں کا تقاضا ہے
؎ذرا آہستہ لے چل کاروانِ کیف و مستی کو کہ سطح ِ ذہن عالم سخت نا ہموار ہے ساقی
مجھے میسر نہیں وہ مستی جو ہے سوائے شراب ساقی بڑا کرم ہو اگر اُٹھا دے یہ جام و مے کے حجاب ساقی
کوئی صرف ساقی کی ادائیں دیکھ رہا ہے
؎ سر مستئ حیات ہر لغزشِ قدم ! ساقی کی دلفریبئ رفتار دیکھنا
کسی نے خود اعتمادی پر بھروسہ کر رکھا ہے
؎نفس موجِ محیط ِ بیخودی ہے تغافل ہائے ساقی کا گلہ کیا
کوئی شکوہ سنج ہے
؎ بزم میں پی سب نے مئے 'منہ سب کا ہم دیکھا کیے چشمِ ساغر بن کے ہم ساقی کی محفل میں رہے

کسی نے ساقی کو اُس کے کرم کا واسطہ دیا کہ اس بہانے شائد کچھ اور مل جائے
؎ مرا جنونِ طلب ہے شائد ،ترے مذاق ِ کرم کا باعث فروغ پر مری تشنگی ہے شراب ساقی شراب ساقی
بہر حال عجیب عجیب لوگ ہیں کوئی کہتا ہے
؎ نیتِ شب بخیر ایسے ساقی ! بزمِ جم کیا ہے ساغر ِ جم کیا ہے
احساسِ غیر بادہ گوارہ ہوا مجھے لا جام ساقیا مئے مینا گداز کا
دیکھا آپ نے یہ تمام بزم آرائیاں ساقی کے دم سے ہے ،کوئی ساقی سے کچھ کہہ رہا ہے اور کوئی کچھ ، ساقی نامے پڑھے جا رہے ہیں قصیدہ اور غزل کا تو ذکر ہی کیا حسن و محبت کی یہ تما م محفلیں آراستہ ہی تھیں کہ ایک قلندر آ نکلا اور للکارا
؎ اس دور میں مئے اور ہے جام اور ہے جم اور ساقی نے بنائی روشِ لطف و کرم اور
سب چونک پڑے ،نشے ہرن ہوگئے، ساقی بھی تو ایک دفعہ جھجکا مگر قلندر نے صرف یہ کہا
؎ عشق و مستی نے کیا ضبطِ نفس مجھ پہ حرام
اس کے بعد دردناک آواز میں یہ اشعار گنگنانے لگا آپ بھی سنئیے اور اس درد کا مزا لیجئے
دگرگوں ہے جہاں تاروں کی گردشِ تیز سے ساقی
دلِ ہر ذرہ میں غوغائے رستا خیز ہے ساقی
متاع ِ دین و ایمان لٹ گئی اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا کا غمزہ خونریز ہے ساقی
وہی دیرینہ بیماری وہی نا محکمی دل کی
علاج اس کا وہی آب نشاط انگیز ہے ساقی
حرم کے دل میں سوزِ آرزو پیدا نہیں ہوتا
کہ پیدائی تری اب تک حجاب آمیز ہے ساقی
نہ اُٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گلِ ایراں وہی تبریز ہے ساقی
اور پھر ساقی کی طرف نہایت عجز و انکسار سے اپنا ہاتھ بڑھایا

؎ لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
ہاتھ آجائے مجھے میرا مقام اے ساقی
تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند
اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی

دیکھا آپ نے بزمِ حسن و عشق نے کتنے چولے بدلے یہ ہیں زمانہ اور اس کی ضروریات کے تقاضے اگر ادب زمانے کے تقاضوں کو پورا نہ کرے تو کس کام کا ، ایسے ادیب کم ہیں جو اپنے اجتہاد سے ادب اور اس کے کرداروں کو بدل دیں "
 

عاطف بٹ

محفلین
سر، بہت خوب شراکت ہے لیکن اگر کتاب سامنے رکھ کر ایک بار اس اقتباس کا پروف پڑھ لیا جائے اور شعروں کے مصرعے الگ الگ کردئیے جائیں تو اس کا رنگ مزید نکھر جائے گا۔
 

سید زبیر

محفلین
سر، بہت خوب شراکت ہے لیکن اگر کتاب سامنے رکھ کر ایک بار اس اقتباس کا پروف پڑھ لیا جائے اور شعروں کے مصرعے الگ الگ کردئیے جائیں تو اس کا رنگ مزید نکھر جائے گا۔
پسندیدگی کا بہت شکریہ ، آپ نے صحیح نکتہ اُٹھایا ، تدوین کی میں نے بہت کوشش کی ، ٹھیک کر کرے جب بھی پوسٹ کرتا تھا ، یہی صورت نکلتی تھی ،
 
پسندیدگی کا بہت شکریہ ، آپ نے صحیح نکتہ اُٹھایا ، تدوین کی میں نے بہت کوشش کی ، ٹھیک کر کرے جب بھی پوسٹ کرتا تھا ، یہی صورت نکلتی تھی ،
یہ کام اب مدیر اعلی چاچو محترم خلیل الرحمان علیہ الرحمہ (اس کو کوئی مزاق نہ سمجھے ،میں سچ مچ رحمت کی دعا کر رہا ہوں اور لوگ پتہ نہیں کیوں اس کو مردوں کے لئے خاص کئے ہوئے ہیں کیا زندوں کے لئے یوز نہیں ہو سکتا ؟)کے سپرد کر دیجئے نا انکل ۔
 

باباجی

محفلین
زبردست شیئرنگ شاہ جی
خاص طور اس جملے نے بہت محظوظ کیا
"کبھی شامت کے مارے حضرت ناصح اور جناب ِ شیخ بھی آ نکلتے ہیں مگر چوری چھپے"

بہت شکریہ ٹیگ کرنے کا
 
Top