زنیرہ عقیل
محفلین
سیرتِ طیبہ کااجمالی خاکہ
یَا صَاحِبَ الجَمَالِ وَ یَا سَیِّدَ البَشَرْ
مِنْ وَجْہِکَ الْمُنِیْرِ لَقَدْ نُوِّرَ الْقَمَرْ
لَا یُمْکِنُ الثَّنَاءُ کَمَا کَانَ حَقَّہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
-----------------
اے صاحب جمال کل اے سرورِ بشر
رُوئے منیر سے ترے روشن ہوا قمر
ممکن نہیں کہ تیری ثنا کا ہو حق اَدا
بعد از خدا بزرگ توہے قصہ مختصر
اِبتدائی حالات
نسب شریف: سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم۔
کنیت: ابو القاسم۔ وَالدہ کا نام: آمنہ بنت وہب۔ وِلادت: بروز دوشنبہ ۱۲/ ربیع الاوّل عام الفیل۔ وَالد ماجد کا اِنتقال وِلادت سے قبل ہی بحالتِ سفر مدینہ منورَہ میں ہوچکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت آپ کے دادا عبد المطلب نے کی اور حلیمہ سعدیہ نے دودھ پلایا۔ پھر آپ کی عمر مبارک چھ سال کی ہوئی تو آپ کی والدہ ماجدہ آپ کو مدینہ آپ کے ننہال لے گئیں، واپسی میں بمقامِ ابوا اُن کا انتقال ہوا اور آپ کی پرورش اُمّ ایمن کے سپرد ہوئی۔ آٹھ سال کے ہوئے تو دادا کا سایہ بھی سر سے اُٹھ گیا، کفالت کا ذمہ آپ کے چچا ابو طالب نے لیا۔ نو سال کی عمر میں چچا کے ساتھ شام کا سفر فرمایا اور ۲۵ سال کی عمر میں شام کا دوسرا سفر حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی تجارت کے سلسلہ میں فرمایا اور اس سفر سے واپسی کے دو ماہ بعد حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے عقد ہوا۔ ۳۵ سال کی عمر میں قریش کے ساتھ تعمیرِ کعبہ میں حصہ لیا اور پتھر ڈھوئے، حجرِ اسود کے بارے میں قریش کے اُلجھے ہوئے جھگڑے کا حکیمانہ فیصلہ فرمایا جس پر سبھی خوش ہوگئے۔
تعلیم و تربیت
آپ صلی اللہ علیہ وسلم یتیم پیدا ہوئے تھے اور ماحول و معاشرہ سارا بت پرست تھا؛ مگر آپ بغیر کسی ظاہری تعلیم و تربیت کے نہ صرف ان تمام آلائشوں سے پاک صاف رہے؛ بلکہ جسمانی ترقی کے ساتھ ساتھ عقل و فہم اور فضل و کمال میں بھی ترقی ہوتی گئی؛ یہاں تک کہ سب نے یکساں و یک زبان ہوکر آپ کو صادق و امین کا خطاب دیا۔
مری مشّاطگی کی کیا ضرورت حسنِ معنی کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالہ کی حنا بندی
خلوت و عبادت
بچپن میں چند قیراط پر اہلِ مکہ کی بکریاں بھی چرائیں؛ مگر بعد میں آپ کو خلوت پسند آئی؛ چناں چہ غارِ حرا میں کئی کئی راتیں عبادت میں گزر جاتیں۔ نبوت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے خواب دیکھنے لگے، خواب میں جو دیکھتے ہو بہو وہی ہوجاتا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستورِ تعلیم
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا ہر پہلو نرالا اور اُمت کے لیے مینارِ ہدایت ہے؛ اگرچہ آپ کا تشریعی دور، نبوت کے بعد شروع ہوتا ہے لیکن اس سے پہلے کا دور بھی چاہے بچپن کا دور ہو یا جوانی کا اُمت کے لیے اس میں ہدایت موجود ہے۔
آپ کے دودھ پینے کا زمانہ ہے؛ لیکن اتنی چھوٹی عمر میں بھی آپ کو عدل و انصاف پسند ہے اور آپ دوسروں کا خیال فرماتے ہیں، حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا ایک طرف کا دودھ پلاکر دوسری طرف پیش فرماتی ہیں؛ لیکن آپ اسے قبول نہیں فرماتے؛ کیوں کہ وہ آپ کے دودھ شریک بھائی کا حق ہے۔
بچپن سے اجتماعی کاموں میں اتنا لگاؤ اور دلچسپی ہے کہ جب بیت اللہ شریف کی تعمیر ہورہی تھی تو آپ بھی قریشِ مکہ کے ساتھ پتھر اٹھاکر لا رہے ہیں۔
اور شرم وحیاء اتنی غالب ہے کہ جب آپ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ دیکھتے ہیں کہ آپ ننگے کندھے پر پتھر اُٹھاکر لارہے ہیں تو ترس کھاتے ہوئے آپ کا تہ بند کھول کر کندھے پر رکھ دیا۔ آپ شرم کے مارے بے ہوش ہوکر گر پڑے، یہ فرماتے ہوئے کہ میری چادر مجھ پر ڈال دو۔
کسب حلال کی یہ اہمیت کہ قریش کی بکریاں چراتے اور اس کی مزدوری سے اپنی ضروریات پوری فرماتے اور جب اور بڑے ہوئے تو تجارت جیسا اہم پیشہ اختیار فرمایا اور التاجر الصدوق الأمین (امانت دار سچے تاجر) کی صورت میں سامنے آئے۔
معاملہ فہمی اور معاشرے کے اختلافات کو ختم کرنے اور اس میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی وہ صلاحیت ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر کے وقت حجرِ اسود کو اپنی جگہ رکھنے پر قریش کی مختلف جماعتوں میں اختلاف پیدا ہوا اور قریب تھا کہ ناحق خون کی ندیاں بہہ جاتیں؛ لیکن آپ نے ایسا فیصلہ فرمایا جس کی سب نے تحسین کی اور اس پر راضی ہوگئے۔
صداقت و امانت کے ایسے گرویدہ کہ بچپن سے آپ الصادق الأمین کے لقب سے یاد کیے جانے لگے اور دوست تو دوست دشمن بھی آپ کے اس وصف کا اقرار کرتے تھے؛ چناں چہ قبائل قریش نے ایک موقع پر بیک زبان کہا: ”ہم نے بارہا تجربہ کیا؛ مگر آپ کو ہمیشہ سچا پایا“۔ یہ سب قدرت کی جانب سے ایک غیبی تربیت تھی؛ کیوں کہ آپ کو آگے چل کر نبوت و رسالت کے عظیم مقام پر فائز کرنا تھا اور تمام عالم کے لیے مقتدیٰ بنانا تھا اور امت کے لیے آپ کی زندگی کو بہ طورِ اُسوہٴ حسنہ پیش کرنا تھا۔
”لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَاللّٰہَ کَثِیْرًا“․
(الاحزاب:۲۱)
”بلاشہ اے مسلمانو! تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں عمدہ نمونہ ہے اُس شخص کے لیے جو اللہ کی ملاقات کا اور قیامت کے دن کا خوف رکھتا ہے اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہے۔“
نبوت:
جب سنِ مبارک چالیس کو پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت سے سرفراز فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا میں تھے کہ جبرئیل علیہ السلام سورة اقرأ کی ابتدائی آیتیں لے کر نازل ہوئے، اس کے بعد کچھ مدت تک وحی کی آمد بند رہی، پھر لگاتار آنے لگی۔
وحی آسمانی آپ تک پہنچانے کے لیے جبریلِ امین علیہ السلام کا انتخاب ہوا جن کو ہمیشہ سے انبیاء علیہم السلام اور باری تعالیٰ کے درمیان واسطہ بننے کا شرف حاصل تھا اور جن کی شرافت، قوت، عظمت، بلند منزلت اور امانت کی خود اللہ نے گواہی دی ہے۔
”اِنَّہ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ، ذِیْ قُوَّةٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍ، مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ“․
(التکویر۱۹ تا ۲۱)
”بے شک یہ قرآن ایک معزز فرشتے کا لایا ہوا کلام ہے جو بڑی قوت والا صاحبِ عرش کے نزدیک ذی مرتبہ ہے، وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے اور وہ امانت دار ہے۔“
اس وحی اِلٰہی کی روشنی میں آپ کی ایسی تربیت ہوئی کہ آپ ہر اعتبار سے کامل بن گئے اور آپ کی زندگی کا ہر پہلو اُمت کے لیے ایک بہترین اُسوہٴ حسنہ بن کر سامنے آگیا۔ امت کے ہر فرد کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک اعلیٰ مثال ہے، جسے وہ سامنے رکھ کر زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی کرسکتاہے۔
دعوت و تبلیغ
اِبتداء ً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوشیدہ طور پر دعوت و تبلیغ کا سلسلہ شروع فرمایا، ابتدائی دعوت پر عورتوں میں حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا، مردوں میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، بچوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ، آزاد شدہ غلاموں میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور غلاموں میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ سب سے پہلے اِیمان لائے، ان کے بعد بہت سے آزاد اور غلام اس دولت سے بہرہ مند ہوئے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علانیہ دعوت و تبلیغ کا حکم ہوا؛ چناں چہ آپ نے تمام قوم کو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور بت پرستی چھوڑنے کی دعوت پوری قوت سے شروع کی، بعض نے مانا اور بعض اپنی گم راہی پر قائم رہے۔
ہجرتِ حبشہ
قوم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو طرح طرح سے ستانا شروع کیا، چناں چہ ۵ ء نبوی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو حبشہ ہجرت کرجانے کا حکم فرمایا، یہ سب سے پہلی ہجرت تھی، اسی سال حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ مشرف بہ اسلام ہوئے۔
۷ ء نبوی میں قریش نے بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب کے خلاف ایک معاہدہ پر دستخط کیے کہ جب تک یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے حوالے نہیں کرتے اُس وقت تک ان سے ہر قسم کا مقاطعہ کیا جائے۔ اس کے نتیجے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ شعب ابی طالب میں نظر بند کردیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو ہجرتِ حبشہ کا حکم فرمایا، یہ دوسری ہجرت کہلاتی ہے۔
۱۰ ء نبوت میں قریش کے بعض افراد کی کوشش سے یہ معاہدہ ختم ہوا اور آپ کو آزادی ملی، اسی سال نصاریٰ نجران کا ایک وفد مسلمان ہوا، اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب اور آپ کی غم گسار زوجہٴ مطہرہ حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی۔ قریش کی اِیذا رسانی اور بڑھ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل طائف کی تبلیغ کے لیے تشریف لے گئے۔ اُنہوں نے ایک نہ سنی؛ بلکہ اُلٹا درپے ایذاء ہوئے۔ یہ سال عام الحزن (غم کا سال) کہلاتا ہے۔
۱۱ ء نبوت اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوئی، پنج گانہ نماز فرض ہوئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقع پر عرب کے مختلف قبائل کو دعوت دی؛ چناں چہ مدینہ کے قبیلہ خزرج کے چھ آدمی مسلمان ہوئے۔
۱۲ ء نبوت اس سال اوس و خزرج کے بارہ افراد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ یہ بیعت عقبہٴ اولیٰ کہلاتی ہے۔
۱۳ ء نبوت اس سال مدینہ کے ستر مردوں اور بیس عورتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی، یہ بیعت عقبہٴ ثانیہ کہلاتی ہے۔
ہجرتِ مدینہ
مدینہ میں اسلام کی روشنی گھر گھر پھیل چکی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو ہجرتِ مدینہ کا حکم فرمایا، قریش کو پتہ چلا تو اُنہوں نے دار الندوة میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا ناپاک منصوبہ بنایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کرلیا، اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ منصوبہ خاک میں ملادیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کا حکم ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کے گھیرے سے باطمینان نکلے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے، ان کو ساتھ لے کر غارِ ثور تشریف لے گئے، یہاں تین دن رہے، پھر ہجرت فرمائی اور مدینہ کی نواحی بستی قُبا پہنچے۔
یَا صَاحِبَ الجَمَالِ وَ یَا سَیِّدَ البَشَرْ
مِنْ وَجْہِکَ الْمُنِیْرِ لَقَدْ نُوِّرَ الْقَمَرْ
لَا یُمْکِنُ الثَّنَاءُ کَمَا کَانَ حَقَّہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
-----------------
اے صاحب جمال کل اے سرورِ بشر
رُوئے منیر سے ترے روشن ہوا قمر
ممکن نہیں کہ تیری ثنا کا ہو حق اَدا
بعد از خدا بزرگ توہے قصہ مختصر
اِبتدائی حالات
نسب شریف: سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم۔
کنیت: ابو القاسم۔ وَالدہ کا نام: آمنہ بنت وہب۔ وِلادت: بروز دوشنبہ ۱۲/ ربیع الاوّل عام الفیل۔ وَالد ماجد کا اِنتقال وِلادت سے قبل ہی بحالتِ سفر مدینہ منورَہ میں ہوچکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت آپ کے دادا عبد المطلب نے کی اور حلیمہ سعدیہ نے دودھ پلایا۔ پھر آپ کی عمر مبارک چھ سال کی ہوئی تو آپ کی والدہ ماجدہ آپ کو مدینہ آپ کے ننہال لے گئیں، واپسی میں بمقامِ ابوا اُن کا انتقال ہوا اور آپ کی پرورش اُمّ ایمن کے سپرد ہوئی۔ آٹھ سال کے ہوئے تو دادا کا سایہ بھی سر سے اُٹھ گیا، کفالت کا ذمہ آپ کے چچا ابو طالب نے لیا۔ نو سال کی عمر میں چچا کے ساتھ شام کا سفر فرمایا اور ۲۵ سال کی عمر میں شام کا دوسرا سفر حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی تجارت کے سلسلہ میں فرمایا اور اس سفر سے واپسی کے دو ماہ بعد حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے عقد ہوا۔ ۳۵ سال کی عمر میں قریش کے ساتھ تعمیرِ کعبہ میں حصہ لیا اور پتھر ڈھوئے، حجرِ اسود کے بارے میں قریش کے اُلجھے ہوئے جھگڑے کا حکیمانہ فیصلہ فرمایا جس پر سبھی خوش ہوگئے۔
تعلیم و تربیت
آپ صلی اللہ علیہ وسلم یتیم پیدا ہوئے تھے اور ماحول و معاشرہ سارا بت پرست تھا؛ مگر آپ بغیر کسی ظاہری تعلیم و تربیت کے نہ صرف ان تمام آلائشوں سے پاک صاف رہے؛ بلکہ جسمانی ترقی کے ساتھ ساتھ عقل و فہم اور فضل و کمال میں بھی ترقی ہوتی گئی؛ یہاں تک کہ سب نے یکساں و یک زبان ہوکر آپ کو صادق و امین کا خطاب دیا۔
مری مشّاطگی کی کیا ضرورت حسنِ معنی کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالہ کی حنا بندی
خلوت و عبادت
بچپن میں چند قیراط پر اہلِ مکہ کی بکریاں بھی چرائیں؛ مگر بعد میں آپ کو خلوت پسند آئی؛ چناں چہ غارِ حرا میں کئی کئی راتیں عبادت میں گزر جاتیں۔ نبوت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے خواب دیکھنے لگے، خواب میں جو دیکھتے ہو بہو وہی ہوجاتا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستورِ تعلیم
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا ہر پہلو نرالا اور اُمت کے لیے مینارِ ہدایت ہے؛ اگرچہ آپ کا تشریعی دور، نبوت کے بعد شروع ہوتا ہے لیکن اس سے پہلے کا دور بھی چاہے بچپن کا دور ہو یا جوانی کا اُمت کے لیے اس میں ہدایت موجود ہے۔
آپ کے دودھ پینے کا زمانہ ہے؛ لیکن اتنی چھوٹی عمر میں بھی آپ کو عدل و انصاف پسند ہے اور آپ دوسروں کا خیال فرماتے ہیں، حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا ایک طرف کا دودھ پلاکر دوسری طرف پیش فرماتی ہیں؛ لیکن آپ اسے قبول نہیں فرماتے؛ کیوں کہ وہ آپ کے دودھ شریک بھائی کا حق ہے۔
بچپن سے اجتماعی کاموں میں اتنا لگاؤ اور دلچسپی ہے کہ جب بیت اللہ شریف کی تعمیر ہورہی تھی تو آپ بھی قریشِ مکہ کے ساتھ پتھر اٹھاکر لا رہے ہیں۔
اور شرم وحیاء اتنی غالب ہے کہ جب آپ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ دیکھتے ہیں کہ آپ ننگے کندھے پر پتھر اُٹھاکر لارہے ہیں تو ترس کھاتے ہوئے آپ کا تہ بند کھول کر کندھے پر رکھ دیا۔ آپ شرم کے مارے بے ہوش ہوکر گر پڑے، یہ فرماتے ہوئے کہ میری چادر مجھ پر ڈال دو۔
کسب حلال کی یہ اہمیت کہ قریش کی بکریاں چراتے اور اس کی مزدوری سے اپنی ضروریات پوری فرماتے اور جب اور بڑے ہوئے تو تجارت جیسا اہم پیشہ اختیار فرمایا اور التاجر الصدوق الأمین (امانت دار سچے تاجر) کی صورت میں سامنے آئے۔
معاملہ فہمی اور معاشرے کے اختلافات کو ختم کرنے اور اس میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی وہ صلاحیت ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر کے وقت حجرِ اسود کو اپنی جگہ رکھنے پر قریش کی مختلف جماعتوں میں اختلاف پیدا ہوا اور قریب تھا کہ ناحق خون کی ندیاں بہہ جاتیں؛ لیکن آپ نے ایسا فیصلہ فرمایا جس کی سب نے تحسین کی اور اس پر راضی ہوگئے۔
صداقت و امانت کے ایسے گرویدہ کہ بچپن سے آپ الصادق الأمین کے لقب سے یاد کیے جانے لگے اور دوست تو دوست دشمن بھی آپ کے اس وصف کا اقرار کرتے تھے؛ چناں چہ قبائل قریش نے ایک موقع پر بیک زبان کہا: ”ہم نے بارہا تجربہ کیا؛ مگر آپ کو ہمیشہ سچا پایا“۔ یہ سب قدرت کی جانب سے ایک غیبی تربیت تھی؛ کیوں کہ آپ کو آگے چل کر نبوت و رسالت کے عظیم مقام پر فائز کرنا تھا اور تمام عالم کے لیے مقتدیٰ بنانا تھا اور امت کے لیے آپ کی زندگی کو بہ طورِ اُسوہٴ حسنہ پیش کرنا تھا۔
”لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَاللّٰہَ کَثِیْرًا“․
(الاحزاب:۲۱)
”بلاشہ اے مسلمانو! تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں عمدہ نمونہ ہے اُس شخص کے لیے جو اللہ کی ملاقات کا اور قیامت کے دن کا خوف رکھتا ہے اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہے۔“
نبوت:
جب سنِ مبارک چالیس کو پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت سے سرفراز فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا میں تھے کہ جبرئیل علیہ السلام سورة اقرأ کی ابتدائی آیتیں لے کر نازل ہوئے، اس کے بعد کچھ مدت تک وحی کی آمد بند رہی، پھر لگاتار آنے لگی۔
وحی آسمانی آپ تک پہنچانے کے لیے جبریلِ امین علیہ السلام کا انتخاب ہوا جن کو ہمیشہ سے انبیاء علیہم السلام اور باری تعالیٰ کے درمیان واسطہ بننے کا شرف حاصل تھا اور جن کی شرافت، قوت، عظمت، بلند منزلت اور امانت کی خود اللہ نے گواہی دی ہے۔
”اِنَّہ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ، ذِیْ قُوَّةٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍ، مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ“․
(التکویر۱۹ تا ۲۱)
”بے شک یہ قرآن ایک معزز فرشتے کا لایا ہوا کلام ہے جو بڑی قوت والا صاحبِ عرش کے نزدیک ذی مرتبہ ہے، وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے اور وہ امانت دار ہے۔“
اس وحی اِلٰہی کی روشنی میں آپ کی ایسی تربیت ہوئی کہ آپ ہر اعتبار سے کامل بن گئے اور آپ کی زندگی کا ہر پہلو اُمت کے لیے ایک بہترین اُسوہٴ حسنہ بن کر سامنے آگیا۔ امت کے ہر فرد کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک اعلیٰ مثال ہے، جسے وہ سامنے رکھ کر زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی کرسکتاہے۔
دعوت و تبلیغ
اِبتداء ً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوشیدہ طور پر دعوت و تبلیغ کا سلسلہ شروع فرمایا، ابتدائی دعوت پر عورتوں میں حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا، مردوں میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، بچوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ، آزاد شدہ غلاموں میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور غلاموں میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ سب سے پہلے اِیمان لائے، ان کے بعد بہت سے آزاد اور غلام اس دولت سے بہرہ مند ہوئے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علانیہ دعوت و تبلیغ کا حکم ہوا؛ چناں چہ آپ نے تمام قوم کو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور بت پرستی چھوڑنے کی دعوت پوری قوت سے شروع کی، بعض نے مانا اور بعض اپنی گم راہی پر قائم رہے۔
ہجرتِ حبشہ
قوم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو طرح طرح سے ستانا شروع کیا، چناں چہ ۵ ء نبوی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو حبشہ ہجرت کرجانے کا حکم فرمایا، یہ سب سے پہلی ہجرت تھی، اسی سال حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ مشرف بہ اسلام ہوئے۔
۷ ء نبوی میں قریش نے بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب کے خلاف ایک معاہدہ پر دستخط کیے کہ جب تک یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے حوالے نہیں کرتے اُس وقت تک ان سے ہر قسم کا مقاطعہ کیا جائے۔ اس کے نتیجے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ شعب ابی طالب میں نظر بند کردیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو ہجرتِ حبشہ کا حکم فرمایا، یہ دوسری ہجرت کہلاتی ہے۔
۱۰ ء نبوت میں قریش کے بعض افراد کی کوشش سے یہ معاہدہ ختم ہوا اور آپ کو آزادی ملی، اسی سال نصاریٰ نجران کا ایک وفد مسلمان ہوا، اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب اور آپ کی غم گسار زوجہٴ مطہرہ حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی۔ قریش کی اِیذا رسانی اور بڑھ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل طائف کی تبلیغ کے لیے تشریف لے گئے۔ اُنہوں نے ایک نہ سنی؛ بلکہ اُلٹا درپے ایذاء ہوئے۔ یہ سال عام الحزن (غم کا سال) کہلاتا ہے۔
۱۱ ء نبوت اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوئی، پنج گانہ نماز فرض ہوئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقع پر عرب کے مختلف قبائل کو دعوت دی؛ چناں چہ مدینہ کے قبیلہ خزرج کے چھ آدمی مسلمان ہوئے۔
۱۲ ء نبوت اس سال اوس و خزرج کے بارہ افراد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ یہ بیعت عقبہٴ اولیٰ کہلاتی ہے۔
۱۳ ء نبوت اس سال مدینہ کے ستر مردوں اور بیس عورتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی، یہ بیعت عقبہٴ ثانیہ کہلاتی ہے۔
ہجرتِ مدینہ
مدینہ میں اسلام کی روشنی گھر گھر پھیل چکی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو ہجرتِ مدینہ کا حکم فرمایا، قریش کو پتہ چلا تو اُنہوں نے دار الندوة میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا ناپاک منصوبہ بنایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کرلیا، اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ منصوبہ خاک میں ملادیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کا حکم ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کے گھیرے سے باطمینان نکلے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے، ان کو ساتھ لے کر غارِ ثور تشریف لے گئے، یہاں تین دن رہے، پھر ہجرت فرمائی اور مدینہ کی نواحی بستی قُبا پہنچے۔