سیرت النبی صلی الله علیہ و السلم

عائش گل

محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
(عالمی سطح پر پہلی پوزیشن لینے والی تحریر جس کے انعام میں عمرے کا ٹکٹ ملا ہے)

موضوع سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم

قلم ہے كہ لكھنے كیلئے بے تاب
حروف ہیں کہ لفظ بننے کیلئے بے چین
اور الفاظ ہیں کہ جملوں میں ڈھلنے کیلئے بے قرار
کہ موضوع ہی ایسا معطر اور منور کردینے والا ہےکہ جو بھی اس عنوان سے منسوب ہو اوہ مہک گیا،وہ دمک گیا ، وہ چمک گیا اسی کیفیت کی ترجمانی آج سے 1400 سال قبل دربار رسالت کے شاعر حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے یوں کی اور کیا ہی حق ادا کیا ۔
ما ان مدحت محمدا بمقالتی ولکن مدحت مقالتی بمحمد
میں نے اپنے مقالےکے ذریعہ محمدﷺ کی تعریف نہیں کی بلکہ محمدﷺ کے توسط سے اپنے الفاظ کو چمکایا ہے۔
شروع کریں تو کہاں سے اور لکھیں تو کیسے ؟؟
کہ موضوع کا ہر پہلو مصر ہے کہ پہلے مجھے لکھا جائے ،پہلے مجھے رکھا جائے۔
صدق وراستی کا اصرار ہے کہ صاحب موضوع سے ہم سب سے زیادہ متصف ہیں ہمیں مقدم رکھا جائے۔
جبکہ صبر وشکر کا کہنا ہے کہ ہم تو اس کے سفر وحضر کے ساتھی تھے۔ہم ہی آگے ہو نگے ۔
ایثاروقربا نی کی آواز ہے کہ ہم تو اس کی فطرت میں تھے،اورکرم وسخاوت کا نعرہ ہے کہ ہم تو اس کی سرشت میں تھے۔
زہدو تقویٰ لب خنداں ہیں کہ بھلا ہم کبھی اس سے جدا ہوئے؟؟
محبت وشفقت کا اصرار ہے کہ وہ ہمارے لئے بنا تھا۔عفو ودرگزر کا اقرار ہے کہ ہم اس کیلئے بنے تھے۔
ولولہ حق اور جوش توحید شکوہ کناں ہیں کہ کیا ہماری کوئی کمی تھی اس میں ؟؟
تحمل و برداشت بھی پر احتجاج ہیں کہ ہمیں بھلا کر یہ کہا ں کا انصاف ہے۔
اب اس کشمکش اور جھگڑے میں ہم جیسا انسان کرے تو کیا کرے کہ یہاں تو حرا کی جمادی چٹانیں چلّارہی ہیں ھلمّ الیّ یا رسول اللہ اے اللہ کے رسول ہماری طرف آئیے۔مدینے کی سر سبز وادیاں پکار رہی ہیں اے اللہ کے رسول ہمیں شرف بخشئے۔
جبل احد کہ رہاہے احبک یارسول اللہ اے اللہ کے رسول مجھے آپ سے محبت ہے،مجھے چھوڑ کر مت جائیے۔ثور پہاڑ منتیں کررہاہے اے اللہ کے رسول ہماری آغوش میں آئیے کہ آپ کے بنا رہ نہیں سکتے۔
حجۃ الوداع کے موقع پر حضور کے ہاتھوں ذبح شدہ 63 اونٹوں میں سے ہر ایک اونٹ آگے بڑھ رہاہے کہ پہلے مجھے ذبح فرمایئے۔

وہ جو پتھروں کے بدلے پھول دے گیا، خون کے بدلے دودھ دے گیا۔
نفرتوں کے بدلے محبتیں پھیلا گیا، گالیوں کے بدلے دعائیں بانٹ گیا۔
اس پر لکھیں بھی تو کیا لکھیں کہ یہ الفاظ اسکی بلندوبرتر شان کے سامنے بہت چھوٹے پڑرہے ہیں۔وہ تو وہاں پہنچا جہاں جبرئیل نہ پہنچا تو یہ رسمی القاب اس تک کیسے پہنچیں گے؟
وہ کہ جس کے گھر کا مہمان کبھی خالی ہاتھ نہ گیا، جس کے دامن دولت کے نیچھے یتیموں کو پناہ ملی، جو بیروزگار کو روزگار دلانے کا کاروبار کرتا تھا، بے ہنروں کو ہنر سکھاتاتھا ، بھاری بوجھ والوں کا باراٹھاتا تھا، اور آڑے وقتوں کی آڑ بنتا تھا، وہ ہمارے لفظوں کے سہارے اور بیساکھی سے مبرہ ہے۔
وہ کہ جس کی سیرت رب السیر بیان کرے، وہاں ہماری سیرت ہمارے بیان کی کیا اوقات ہوگی۔
وہ جو اصابت فکر دور بینی اور حق پسندی کا بلند مینار تھا، جسے حسن فراست و پختگی فکر اور وسیلہ و مقصد کی درستگی سے حظ وافر عطا ہوا تھا۔
جس نے اپنی طویل خاموشی سے مسلسل غوروخوض دائمی تفکیراور حق کی کرید میں مدد لیا۔ جس نے اپنی شاداب عقل اور روشن فطرت سے زندگی کے صحیفے، لوگوں کے معاملات، اور جماعتوں کے احوال کا مطالعہ کیا اور جن خرافات میں یہ لت پت تھیں ان سے سخت بیزاری کا اظہار کیا۔
وہ جو اپنی قو م میں شیریں کردار، فاضلانہ اخلاق اور کریمانہ عادات کے لحاظ سے ممتاز تھا۔
اور جو سب سے زیادہ با مروت تھا، خوش اخلاق اور صلہ رحمی میں بے مثال تھا دور اندیشی اور راست گوئی میں بے نظیر تھا، امانت و دیانت میں فردِ فرید تھا۔خصالِ حمیدہ کا پیکر اور اوصاف جمیلہ میں وحدِ وحید تھا۔فارسی کا شعر
حسن یوسف دم عیسیٰ یدبیضاءداری
آنچہ خوباں ہمہ دراند تو تنہاداری
الغرض وہ کہ جس کا تن تنہا وجود ان تمام خوبیوں اور کمالات کا جامع تھا جو متفرق طور پر متعدد اوقات مختلف طبقات میں پائے جاتے ہیں، اسکی سیرت کے سمندر کے بارے میں ہمیں حکم ہے کہ اسے 3000 الفاظ کے کوزے میں بند کریں۔۔۔؟
وہ کہ جس کی مجلس میں کسی کی توہین کی جاتی نہ تذلیل، کسی کی تحقیر ہوئی نہ تنکیر، کسی کو جھڑکا جاتا نہ کسی کو ٹوکا جاتا۔
امیر ہویا غریب، اپنا ہو یاپرایا، ہر شریکِ محفل اپنے آپ کو صاحب محفل کے سب سے قریب، سب سے معزز،اور سب سے محبوب سمجھتا تھا۔
اور صاحبِ محفل کے جب پھول جیسے لب کھلتے تو فصاحت و بلاغت کے شگوفوں جیسے شہ پارے جھڑتے۔
طبیعت کی روانی، لفظوں کی نکھار، فقروں کی جزالت اور معانی کی صحت سے سامعین کے دل دہل جاتے۔
کلام ایسا خوبصورت جیسے چودھویں رات کا تاج محل، جملے ایسے دلکش جیسے قوس قزح سے رنگ مستعار
لیا گیا ہو، اور معانی ایسے معطر جیسے الفاظ کو مشک عنبر سے غسل دیا گیا ہو۔
کوئی ساحر کہتا تو کوئی شاعر لیکن وہ ساحر تھا نہ شاعر وہ تو بس دل کا درد تھا جو دل سے نکل کر دلوں میں اترتا جارہا تھا۔
لبوں سے لفظ نہیں جیسے موتی ہوں بکھرتے ہوئے
کمال کرتے ہیں جب وہ کلام کرتے ہیں
وہ آیا تو اُمی تھا لیکن عالم بنا گیا۔ فقیر بن کے آیا غنی بنا گیا۔ یتیم پیدا ہوا تھا یتیموں کا والی بن گیا۔
اکیلا اُٹھا تھا زمانوں کو کھڑا کرگیا۔ بے نام کا الزام دیا گیا قیامت تک نشان چھوڑ گیا۔
وہ تو آیا ہی جیتنے کیلئے تھا اور جیتا گیا۔ وہ ایسا سورج جو کبھی غروب نہ ہوا۔ ایسا چاند جس کی روشنی کبھی مانند نہیں پڑی۔ایسا پھول جو کبھی مرجھایا نہیں۔ ایسا چراغ جو کبھی بجھا نہیں۔
وہ تو زندہ ہے، آج بھی زندہ ہے اپنے کردار کے ساتھ زندہ ہے، اپنی سیرت کے ساتھ زندہ ہے، دلوں میں سوچوں میں، لفظوں میں، باتوں میں، تبصروں میں، تذکروں میں، دعاؤں میں اور آہوں میں۔
اس کی سیرت کے کس پہلو کو آشکارا کریں کہ تشنہ لبی کا شکوہ کبھی سیر نہیں ہوا۔
وہ جو خدائی معیار پر ایسا اترا کہ رب نے اسے لقد کان لکم فی رسول الله اسوة حسنة قرار دیا۔
امت کے غم اور فکر میں ایسا جاگا کہ لعلک باخع نفسک کی تسلی آمیز تھپکی سے سُلایا گیا۔
امت پر رحمت وشفقت کا ایسا نمونہ دکھایا کہ ذاتِ اقدس پر لقد جاءکم فیکم رسول من انفسکم عزیز علیه ما عنتّم حریص علیکم بالمؤمنین رءوف رحیم. کی مہر لگائی گئی۔
بھلا اس سے بڑھ کر بھی کسی کی اعلیٰ وافضل سیرت ہوسکتی ہے؟
کہ دنیا والوں کے معیاروں کسوٹیوں اور سانچوں میں اسے ڈال کر پرکھا اور تولا جائے تو یقیناً تمام آلائشوں اور عیوب سے پاک ہوگا کہ قدرت کے ہاتھوں سے وہ خالص اور مصفّی بن کر نکلا ہے۔
ڈاکٹر آرتھر کا بیان ہے ’’محمد صاحبﷺ گہرے سے گہرے معنوں میں ہر زمانہ کے لئے ہر حیثیت سے سچے سے سچے اور زیادہ سے زیادہ صداقت رکھنے والی روحوں میں سے تھے۔
وہ کہ جس کی ہر ادا نِرالی تھی، ہر آنکھ کو بھانے والی تھی
وہ جو تمام انسانی صفاتِ حمیدہ کا بیک وقت بیک مشت ایک بے نظیر اور بے مثال مرقّع ومجموعہ تھا۔تواضع اور عاجزی میں کوئی ثانی نہ تھا تو شجاعت اور بہادری میں بھی بےمثال تھا۔عدالت ودیانت میں سب سے اعلیٰ تھاتو
امانت وصداقت میں بھی سب سے بڑھ کرتھا۔
حلم وبردباری میں یکتائے روزگار تھاتو صبر وقناعت میں بھی لا شریک تھا۔
وہ حیا دار اور پست نگاہ والا،مسکینوں کی عیادت اور غریبوں سے محبت کرنے والا،فقراء کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والااور غلاموں کی دعوت قبول کرنے والا۔
حتی کہ جوتے اور کپڑے خود سینے والا ،وہ امام الانبیاءوالمرسلین ،فخر الاولین الآخرین ہمارے لئے عابدیت اور بندگی کی ایسی مثال اور نمونہ چھوڑ گیا کہ جس کے تصور سے ہی ہمیں جھر جھری آتی ہے۔
ان کی زندگی کا ایک اہم خصوصی اور امتیازی پہلو کہ دنیا کا کوئی قائد ، لیڈر یا امام جس کی مثال تو درکنار نقل تک پیش نہیں کرسکتااور رحمت ،شفقت،عفو و درگزر،تحمل،برداشت ،للٰہیت اور اخلاص جیسے عنوانات سے دمک رہا ہے۔
عزت پر آبرو پر ،جسم پر ،جان پر حملوں کی کون سی قسم تھی جسے انہوں نے باقی چھوڑا ہو۔یقیناً ان کے ترکش میں کوئی ایسا تیر نہ تھاجو چلنے سے رہ گیا ہو۔
لیکن جواب میں ہمیشہ ہدایت کی دعائیں ،محبتوں بھرا لہجہ اور اصلاح آمیز رویہ ملا۔
سر پر خاک ڈالی گئی ،چہرہ مبارک پر بلغم تھوکا گیا،گردن میں پھندا لگایا گیا،بیٹیوں کو طلاقیں دلوائی گئی، لیکن کبھی ذات کے لئے انتقام لیا نہ ہی کوئی جوابی کاروائی کی۔
جس سے ملتے وہی پھٹتا،جس سے چمٹتے وہی سمٹتا،جس کو بلاتے وہی درداتا،جس کو جوڑتے وہی توڑتا۔
لیکن طائف کے موقع جب فرشتے نے آکر عرض کیا یامحمد ذلک لک اے محمدﷺتھجے پورا اختیا رہے حکم کروتوان کو کچل دوں۔
تو جواب کیا ملا؟طاقت کا استعمال یا ذاتی انتقام؟یا پھر جانی دشمن کو بھی معاف کرنے کا تاریخی سلوک؟
فتح مکہ کے موقع پر جب مکہ کی فضا میں ان لوگوں کے سر اڑانے کا موقع ملا جنہوں نے مکہ کی سرزمین سے پاؤں اکھیڑے تھے تو الیوم یوم المرحمہ لاتثریب علیکم الیوم اور من دخل دار ابی سفیان فھو اٰمن جیسے روح پرور مژدے سنائے۔
میں اب تک نہ سمجھ سکا کہ کہ اپنے رسمی الفاظ کے ذریعے اس کی توہین کررہا ہوں یا اس کی بلند شان سے اپنے مضمون کی تکریم۔وہ جو اخلاق عالیہ کا منبع تھا،اوصاف کریمہ کا مرجع تھا،اعمال شریفہ کا مجمع تھا۔
جس کی گفتگو اور بیان صاف واضح اور دوٹوک ہوتا تھا۔
وہ جو نرم مزاج نرم خو نرم گفتار تھا ،درشت رو تھا نہ تندخو تھا،تعریف اور حوصلہ افزائی کا پاسبان تھا،وہ جو عفو
درگزر کا والی تھا،جودوسخا کا حامی تھا۔
کبھی کسی پر دست درازی نہیں کی،عورت پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا،اپنوں کی دلداری اس کا شیوہ تھاغیروں کی عزت داری اس کا پیشہ تھا۔
کسی قوم یا برادری کا کوئی معزز شخص آتھا تو اس کے ساتھ اعزاز واکرام کرتےاسے اچھے اور اعلیٰ عہدے پر مقرر کرتھے وہ جو اعتدال و میانہ روی کا متعدل ترازو تھا۔جس کی ذات میں افراط تھی نہ تفریط،کمی تھی نہ زیادتی،غلو تھا نہ تقصیر،وہ جو دولت کی چھن چھن سے بہت دور اپنی فقیری میں بادشاہ تھاجس کے ہاں قرب و نزدیکی کا معیار تقوی تھا ایسی ذات کی بھلا کیا سیرت بیان کی جائے جو سراپا سیرت تھی۔
میری بار بار سیرت بیان نہ کی جاسکنے کی بات سے کوئی یہ نہ سمجھےکہ میں اس موضوع سے خوش نہیں یا پھر اس موضوع کا قائل نہیں کہ واللہ آج تک ہمیں کسی موضوع پر لکھتے ہوئے کبھی اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی ایک محسنِ امت کے احسانات تلے دبے ایک قلم کو جنبش دینے سے ہوئی۔اللہ تعالیٰ تمام منتظمین کو جزائے خیر عطا فرمائےاور یہ عمل ان کے لئے شفاعت کا باعث بنائے۔
جاتے جاتے میرے دو چار مچلتے الفاظ بھی صاحبِ موضوعﷺکو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہتے ہیں۔
وہ علم وعمل کا گہوارہ،دین ویقین کا شہ پارہ،فہم وذکاء کامہکارہ،حق وبیان کا نقارہ،نوروضیاء کا فوارہ،رشدو ہدی کا مینارہ اور اخلاق و رضاکا وہ امنگ پارہ ہمیشہ صاحبِ تحریر کے دل میں بستا رہے گا۔ﷺ
ماٰخذومراجع حوالہ جات
مذکورہ مضمون کے لکھنے میں تحقیق وتصحیح کے حوالےسے مندرجہ ذیل کتابوں سے مدد لی گئی ہے۔
٭ قرآن شریف،بخاری شریف،مسلم شریف،ابن ماجہ ،موطا امام مالک،شفاء،شمائل ترمذی، زادالمعاد، سیرتِ حلبیہ، سیرت النبی ابنِ ہشام، سیرت النبی، آئینۂ جمالِ نبوت، اسوۂ رسولِ اکرم، الرحیق المختوم، المرتضی، النبی الخاتم، جمالِ حبیب، حضور علیہ السلام کی سیرت وصورت، خاتم النبیین، ذکرِ حبیب، رحمتِ عالم،رحمت للعالمین، رسولِ اکرم بحیثیتِ تاجر، سیرت خاتم الانبیاء، سیرت مصطفیٰ، سیرت النبی شبلی نعمانی، سیرت النبی قدم بہ قدم، ملّا کی نبی کی کتاب ، حسن الماٰب، عرفان السنہ۔
گل طارق کراچی 0344-1333193
انتخاب ۔۔عائشہ گل
 
Top