شہریار احمد
محفلین
جاہلی تعلیمی اداروں میں
”سیرت“ اور ”تاریخ اسلام“ کا مضمون!
سکولوں سے لے کر کالجوں تک ”سیرت“ اور ”اسلامی تاریخ“ وغیرہ ایسے مضامین کا آغاز بالعموم ”زمانہ¿ جاہلیت“ کے مطالعہ سے ہوتا ہے۔ جس کے بعد طالبعلم کو ”زمانہ¿ نبوت“ اور ”قرونِ اولیٰ“ کے مطالعہ کی طرف بڑھنا ہوتا ہے۔ اب یہ پہلا سبق جو ”جاہلیت“ کے مطالعہ سے متعلق ہوتا ہے، کس طرح پڑھایا جاتا ہے؟ سرکاری ادارے ہوں، یا پرائیویٹ یا کوئی اور قسم، بالعموم یہ سبق یہاں پر کچھ اِس طریقے سے شروع ہوتا ہے:
”عرب، جاہلیت میں بتوں کی پرستش کیا کرتے تھے۔ لڑکیوں کو درگور کر دیتے۔ شراب پیتے۔ جوا کھیلتے۔ لوٹ مار کرتے۔ قبائل ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے۔ اسلام نے آ کر لوگوں کو اِن سب برائیوں سے روکا“۔
”جاہلیت“ یا ”زمانہ¿ جاہلیت“ کا یہ جو وصف بیان ہوا، میں چاہوںگا ذرا میرے ساتھ آپ بھی اِس کا ایک تجزیہ کریں....
اِس عبارت میں بظاہر کوئی غلط بیانی نہیں۔ مگر اِس کی تہہ میں جائیں تو یہ خباثت سے لب ریز ہے....
ظاہر ہے اِس عبارت میں کوئی غلط بیانی نہیں۔ زمانہ¿ جاہلیت میں عرب یقینا ایسے ہی تھے جیسے جاہلی مدارس میں پڑھائے جانے والے اِس سبق میں ذکر ہوا ہے۔ اور یقینا اسلام نے آ کر اِس صورتحال کو تبدیل بھی کیا۔
اِس عبارت میں خباثت کہاں پر ہے؟ خباثت یہ ہے کہ اِس میں جاہلیت کا وہ ”اصل جوہر“ بیان نہیں ہوا جس کو مٹانے اور تبدیل کرنے کیلئے اسلام دنیا میں آیا ہے۔ یہ عبارت محض اور محض جاہلیت کے چند ”مظاہر“ سے بحث کرتی ہے اور وہ بھی اُس جاہلیت کے مظاہر جو عربوں کی تاریخ کے ایک خاص حصے کے اندر پائی گئی اور جبکہ عین ممکن ہے ویسے ”مظاہر“ دوسری جاہلیتوں کے اندر نہ پائے جائیں۔ کیونکہ جاہلیت کا ”اصل جوہر“ ایک ہے جو کبھی نہیں بدلتا۔ ہاں ہر جاہلیت کے ”مظاہر“ اپنے اپنے ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے اسلام اِس لئے نہیں آیا تھا کہ یہ ”عرب جاہلیت کے مظاہر“ کو ختم کرے۔ اسلام اِس لئے آیا ہے کہ یہ جاہلیت کے ”اصل جوہر“ ہی کو نیست و نابود کرے۔ اسلام کسی ایک جاہلیت کو ختم کرنے بھی نہیں آیا۔ یہ ہر جاہلیت کو ختم کرنے آیا ہے اور اس کی جگہ خدا کی فرماں برداری پر قائم زندگی کا پورا ایک تصور دینے آیا ہے۔
دوسرے لفظوں میں .. جب ہم طالبعلم کے ذہن میں اسلام کا کردار اِسی ایک بات کے اندر محصور کر دیں گے کہ اِسلام کو جاہلیت کے یہ خاص ”مظاہر“ ختم کرنا تھے، تو پھر اس طالبعلم کے اپنے زمانہ میں اسلام کاکیا کردار باقی رہ جاتا ہے اور وہ کونسی مہمات ہیں جو اسلام کو خود اِس کے دور میں سر کرنا ہیں؟
طالبعلم اب یہ سبق پڑھ کر باہر معاشرے میں آتا ہے تو اُس کو ”بتوں“ کی پرستش کہیں نظر نہیں آتی۔ اچھا تو اسلام دنیا میں جو مہات کو سر کرانے آیا ہے ان میں سے پہلا بند تو ساقط ہوا، ”بت“ تو یہاں دور دور تک کہیں نہیں پوجے جا رہے!!!
پھر وہ دیکھتا ہے، یہاں تو لڑکیاں بھی کہیں درگور نہیں ہوتیں! بلکہ معاملہ سراسر الٹا ہو چکا ہے۔ لڑکیاں تو یہاں ’دندناتی‘ پھر رہی ہیں!اِن لڑکیوں کو تو وہ ’آزادی‘ حاصل ہے کہ الامان والحفیظ!!! اچھا تو پھر اسلام کو جو مہمات سر کرنا تھیں، اُس کا دوسرا بند بھی ساقط ہوا!!!
ہاں کچھ لوگ، اور وہ بھی ظاہر ہے کچھ ہی ہیں، کہیں کہیں شراب پی لیتے ہوں گے۔ بعض جگہوں پر جوا بھی کھیل لیا جاتا ہے۔ بہر حال اسلام نے اِن لوگوں کو یہ بتا کر کہ شراب حرام ہے اورجوا کھیلنا کتنی بری بات ہے، اپنا ”اخلاقی فرض“ تو ادا کر ہی دیا ہے۔ اتنے سارے لوگ ہیں جو معاشرے میں شراب نہیں پیتے اور جوا کھیلنے ایسے واقعات بھی ان کی زندگی میں پیش نہیں آتے۔ آخر یہ بھی تو اسلام کی اِن ہدایات کو مانتے ہی ہیں۔ اب کچھ لوگ برائیوں میں پڑے ہوئے ہیں اور اسلام کی بات ان پر بے اثر ہو رہی ہے تو کیا کیا جا سکتا ہے؟ ’گناہگار‘ تو بہرحال دنیا میں ہوتے ہی ہیں۔ زیادہ لوگ تو بہرحال ایسے ہیں جو اِن دونوں برائیوں میں نہیں پڑتے!.... یعنی یہ بند بھی سمجھو ختم ہی ہوا!
رہ گئی لوٹ مار اور قبائل میں آپس کی خونریزی.... تو مار دھاڑ اور قتل و خونریزی کی روک تھام کیلئے آج کے دور کے اندر ’سسٹم‘ وجود میں آ گئے ہیں۔ یہاں پولیس ہے۔ امن عامہ کے ادارے ہیں۔ سول حکومتیں ہیں۔ امن خراب کرنے والے عناصر کو پکڑنے کا پورا پورا بندوبست ہے۔ ان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے انتظامات بھی خوب ہیں۔ کوئی بے قاعدگی ہو جاتی ہو گی تو یہ ’مس مینج منٹ‘ کا مسئلہ ہے، جوکہ لا ینحل نہیں....!
اچھا تو پھر اسلام کو اب دنیا میں کیا کرنا ہے؟؟؟ آج کے اِس دور میں وہ کونسا کردار ہے جو اسلام کو ہر حال میں ادا کرنا ہے اور وہ کونسی مہمات رہ جاتی ہیں جنہیں از روئے اسلام یہاں سر کرایا جانا ہے؟؟؟
سچ پوچھئے تو کچھ بھی نہیں!!!
یعنی اسلام کو جو کرنا تھا وہ صدیوںپہلے انجام پا چکا....!!! اب کیا باقی ہے جسے اسلام اِن معاشروں کے اندر انجام دے؟!!!
یہ وہ پیغام ہے جو ”اسلامی تاریخ“ اور حتی کہ ”سیرت“ ایسے مضمون کے پہلے ہی سبق سے یہاںکے ایک نونہال کو دینا مقصود ہوتا ہے۔ اب یہ طالبعلم خود ہی سمجھ لے گا کہ اسلام ایک خاص زمانے کیلئے آیا تھا جب اسلام کی دنیا میں ’بہت ضرورت‘ تھی! اسلام کی ”ضرورت“ بھی تب بہت زیادہ تھی اور اسلام کیلئے ”کرنے کے کام“ بھی بہت زیادہ تھے! ہاں البتہ آج معاملہ مختلف ہے! کام بہرحال چل رہا ہے! مختصریہ کہ اسلام جس زمانے کیلئے آیا تھا وہ تاریخ کا ایک خاص دور تھا، یعنی قدیم کا ایک زمانہ، اور بس....!
ظاہر ہے معاملہ اِس سے بالکل مختلف ہوتا اگر یہاں جاہلیت کے ”اصل جوہر“ کا تعارف کرانے پر زوردیا جاتا اور اسلام کے دنیا میں آنے کی ”اصل وجہ“ پر بھی اِس نونہال کی توجہ مرکوز کرا دی جاتی۔ اگر اس کو یہ بتایا جاتا کہ ”دین“ آدم علیہ السلام سے لے کر محمد ﷺ کی نبوت تک یہی تھا اور یہی ہے کہ انسانوں کو خدائے واحد کی عبادت پر لے کر آیا جائے۔ مخلوق کے آگے بجا لائی جانے والی بندگی اور عبادت کی ہر ہر صورت سے نکال کر انسان کو اللہ کی بندگی اور عبادت میں دیا جائے۔ یہاں تک کہ انسانی معاشروں میں صرف اور صرف اللہ کی عبادت ہو اور اُس کے ماسوا کسی کی عبادت نہ ہو۔ اور ”عبادت“ بھی اپنے جامع ترین معنی میں، یعنی ”اعتقاد“ کے اندربھی اللہ کی تنہا و بلا شرکت غیرے عبادت، ”شعائر عبادت“ پیش کرنے میں بھی اللہ کی تنہا وبلا شرکت غیرے عبادت، زندگی کے ہر ہر معاملہ میں اُس کی ”شریعت کی تحکیم“ کے حوالہ سے بھی اُس کی تنہا وبلا شرکت غیرے عبادت۔ ان سب پہلو¶ں سے زمین میں کسی کو اللہ کا شریک نہ ٹھہرانے دینا اور اِن سب پہلو¶ں سے اللہ کے ماسوا کسی کی ہدایت پر نہ چلنا (جبکہ ان میں سے کسی بھی پہلو سے اللہ کا شریک کھڑا کرنا اور اُس کے ماسوا کسی کی ہدایت پہ چلنا ہی جاہلیت کا ”اصل جوہر“ ہے)۔ یہ وہ ”دین“ ہے جو آدمؑ تا محمد مشروع ٹھہرا رکھا گیا ہے۔ علاوہ اِس خصوصی اضافہ کے کہ یہ آخری رسالت، جوکہ خاتم النبیین ﷺ کی رسالت ہے، پچھلی تمام رسالتوں کے برعکس، پوری انسانیت کیلئے ہے، ہر دور، ہر زمانے اور ہر معاشرے کیلئے ہے، اور قیامت تک کیلئے ہے۔
کتنا فرق ہوتا اگر اِس نونہال کو اسلام اور جاہلیت کی یہ تصویر اِس انداز سے دکھائی جاتی! وہ ”جوہری حقیقت“ جس کیلئے ”دین“ آیا ہے اُس پر یوں عیاں کی جاتی اور وہ خصوصیت جو اِس آخری آسمانی رسالت کو حاصل ہے اِس انداز سے اُس پر واضح کی جاتی!
یقینا یہ ایک زمین آسمان ایسا فرق ہوتا!
اِس دین کا کام نہ ماضی میں کبھی ختم ہوا تھا۔ نہ آج ختم ہوا ہے اور نہ مستقبل میں کبھی ختم ہوگا۔ اِس دین کا کام کبھی ختم نہیں ہو گا۔ جب تک دنیا کے اندر ایک بھی شخص ایسا ہے جو رب العالمین کے ساتھ شرک کرتا ہے، اِس دین کا کام باقی ہے۔ جب تک دنیا کے کسی ایک بھی گوشے میں اللہ کے سوا الٰہ کھڑے کئے جاتے ہیں، جب تک دنیا میں اللہ کے ما سوا ہستیوں کے آگے شعائر عبادت پیش کئے جاتے ہیں، اللہ کے ماسوا کسی کی شریعت اور کسی کے قانون کو حَکَم ٹھہرایا جاتا ہے، تب تک اِس دین کی مہم باقی ہے۔
یہی نہیں، اگر یہ بھی تصور کر لیا جائے کہ بفرض محال سب کے سب اہل زمین ایمان لے آئے ہیں (اور جوکہ ممکن نہیں، کیونکہ یہ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی قدر کے خلاف ہے) تب بھی اِس دین کا کام ختم نہیں ہو جاتا۔ کیونکہ اُس صورت میں اِس دین کا کردار یہ ہوگا کہ لوگ اپنے اُس ایمان پر اور اللہ کے ساتھ بندگی کے خاص اس رشتے پر دلجمعی کے ساتھ باقی رہیں۔ تب بھی یہ دین اُن کو اُن کا فرض بتانے اور یاد دہانی کرانے کیلئے باقی رہے گا، کہ خدائی حکم ہے کہ لوگوں کو اپنے مالک کی بابت اُن کے فرائض اور ذمہ داریاں یاد دلائی جاتی رہیں:
وَذَکِّر´ فَÊِنَّ الذِّک´ریٰ تَن´فَعُ ال´مُ¶´مِنِی´نَ (الذاریات: ۵۵)
یہ ہم اُس مفروضہ صورت کی بات کر رہے ہیں جب پوری دینا ایمان لا چکی ہو۔ اب اِس حالیہ صورت میں کیا خیال ہے جب دنیا شرک سے بھری پڑی ہے! شرک کی کوئی نوع نہ ہوگی جو آج پائی نہ جاتی ہو! چاہے وہ بت پرست قوموںاور تہذیبوں کا شرک ہو، چاہے وہ تحریف زدہ آسمانی رسالتوں کے حاملین مانند یہود ونصاریٰ کا شرک ہو، یا وہ شرک ہو جو غیر اللہ کی اتباع کے معاملہ میں ہو اور جس کی رو سے اللہ کی شریعت کو چھوڑ کر جاہلی شرائع و قوانین کی تحکیم ہوتی ہے۔
باقی دنیا کا معاملہ تو رہا ایک طرف، خود عالم اسلام ہی کے بارے میں کیا خیال ہے جہاں آسمان سے اتری ہوئی شریعت بے دخل ٹھہرائی جا چکی ہے اور اُس کی جگہ جاہلی قوانین کو حَکَم ٹھہرایا جا چکا ہے؟!
کتنی بڑی مہم ہے جو دین اسلام کو دنیا کے اندر آج درپیش ہے۔ اِس سے بڑھ کر آخر کیا مہم ہو سکتی ہے کہ انسانیت کو آج اِس شرک سے نکال کر توحید کی روشنی میں لایا جائے۔
مگر یہی تو وہ بات ہے جس کو اِن نونہالوں کے اذہان سے دور رکھا جانا مقصود ہے! اِسی بات کا تو خیال رکھا جانا ہے کہ مسلم بچوں کا ذہن کہیں اِس طرف کو نہ چلا جائے....!!!
امت کے بچوں کا ذہن کہیں اِس طرف کو نہ چلا جائے کہ مصر میں، پاکستان میں، بلکہ عالم اسلام کے قریب قریب ہر گوشے میں اسلام کی شریعت کو دیس نکالا دے رکھا گیا ہے۔ اندازہ کیجئے، ”عالم اسلام“، جس سے ”اسلام“ بے دخل ہے!!! ”اسلام“ کی سرزمین، جس پر ”جاہلی قوانین“ کی فرماں روائی ہے!!! کیونکہ امت کے بچے اگر یہ سبق پڑھنے لگے تو اِس سے لازم آئے گا کہ مصر میں، پاکستان میں، بلکہ عالم اسلام کے قریب قریب ہر گوشے میں، امت پر یہ فرض ہو کہ وہ اسلام کی سرزمین کو جاہلی قوانین کی فرماںروائی سے چھڑانے کیلئے برسر جہاد ہو جائے اور صلیبیوں کو ان کے قانون اور ان کی تہذیب سمیت عالم اسلام سے نکال باہر کیا جائے!
انگریز یہاں تھے تو بھی ان کے پروردہ نظام تعلیم میں ”سیرت“ اور ”تاریخ اسلام“ کے حوالے سے پہلا سبق یہی پڑھایا جاتا تھا اور آج بھی یہ سبق ویسے کا ویسے پڑھایا جاتا ہے! یعنی ”جاہلیت“ جس کو ”اسلام“ ختم کرنے آیا تھا وہی تھی جو بڑی دیر ہوئی دنیا سے ناپید ہو چکی! اب اِس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ یہاں انگریز ہو یا انگریز کا قانون ہو۔ جاہلی تہذیب، جاہلی آئین، جاہلی شریعت، جو مرضی ہو، ”جاہلیت“ ایک دور کا نام تھا سو ختم ہوا، اب ”اسلام“ کو کسی بات، کسی آئین، کسی شریعت، کسی رسم اور کسی دستور سے کیا پرخاش؟!!!
ایک نہایت سوچے سمجھے مقصد کے تحت فکر و نظر کا یہ مسخ عمل میں لایا جاتا ہے۔ کفر کے اِن مدارس سے ہر سال ہزاروں دماغ جو فارغ التحصیل ہو کر نکلتے ہیں، کہیں یہ سبق نہ پڑھ لیں کہ ”اسلام“ کا کام دنیا میں ابھی باقی ہے اور وہ خود اِن کے اپنے عہد کے اندر بھی انجام دیا جانا ہے!!!
٭٭٭٭٭
”سیرت“ اور ”تاریخ اسلام“ کا مضمون!
سکولوں سے لے کر کالجوں تک ”سیرت“ اور ”اسلامی تاریخ“ وغیرہ ایسے مضامین کا آغاز بالعموم ”زمانہ¿ جاہلیت“ کے مطالعہ سے ہوتا ہے۔ جس کے بعد طالبعلم کو ”زمانہ¿ نبوت“ اور ”قرونِ اولیٰ“ کے مطالعہ کی طرف بڑھنا ہوتا ہے۔ اب یہ پہلا سبق جو ”جاہلیت“ کے مطالعہ سے متعلق ہوتا ہے، کس طرح پڑھایا جاتا ہے؟ سرکاری ادارے ہوں، یا پرائیویٹ یا کوئی اور قسم، بالعموم یہ سبق یہاں پر کچھ اِس طریقے سے شروع ہوتا ہے:
”عرب، جاہلیت میں بتوں کی پرستش کیا کرتے تھے۔ لڑکیوں کو درگور کر دیتے۔ شراب پیتے۔ جوا کھیلتے۔ لوٹ مار کرتے۔ قبائل ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے۔ اسلام نے آ کر لوگوں کو اِن سب برائیوں سے روکا“۔
”جاہلیت“ یا ”زمانہ¿ جاہلیت“ کا یہ جو وصف بیان ہوا، میں چاہوںگا ذرا میرے ساتھ آپ بھی اِس کا ایک تجزیہ کریں....
اِس عبارت میں بظاہر کوئی غلط بیانی نہیں۔ مگر اِس کی تہہ میں جائیں تو یہ خباثت سے لب ریز ہے....
ظاہر ہے اِس عبارت میں کوئی غلط بیانی نہیں۔ زمانہ¿ جاہلیت میں عرب یقینا ایسے ہی تھے جیسے جاہلی مدارس میں پڑھائے جانے والے اِس سبق میں ذکر ہوا ہے۔ اور یقینا اسلام نے آ کر اِس صورتحال کو تبدیل بھی کیا۔
اِس عبارت میں خباثت کہاں پر ہے؟ خباثت یہ ہے کہ اِس میں جاہلیت کا وہ ”اصل جوہر“ بیان نہیں ہوا جس کو مٹانے اور تبدیل کرنے کیلئے اسلام دنیا میں آیا ہے۔ یہ عبارت محض اور محض جاہلیت کے چند ”مظاہر“ سے بحث کرتی ہے اور وہ بھی اُس جاہلیت کے مظاہر جو عربوں کی تاریخ کے ایک خاص حصے کے اندر پائی گئی اور جبکہ عین ممکن ہے ویسے ”مظاہر“ دوسری جاہلیتوں کے اندر نہ پائے جائیں۔ کیونکہ جاہلیت کا ”اصل جوہر“ ایک ہے جو کبھی نہیں بدلتا۔ ہاں ہر جاہلیت کے ”مظاہر“ اپنے اپنے ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے اسلام اِس لئے نہیں آیا تھا کہ یہ ”عرب جاہلیت کے مظاہر“ کو ختم کرے۔ اسلام اِس لئے آیا ہے کہ یہ جاہلیت کے ”اصل جوہر“ ہی کو نیست و نابود کرے۔ اسلام کسی ایک جاہلیت کو ختم کرنے بھی نہیں آیا۔ یہ ہر جاہلیت کو ختم کرنے آیا ہے اور اس کی جگہ خدا کی فرماں برداری پر قائم زندگی کا پورا ایک تصور دینے آیا ہے۔
دوسرے لفظوں میں .. جب ہم طالبعلم کے ذہن میں اسلام کا کردار اِسی ایک بات کے اندر محصور کر دیں گے کہ اِسلام کو جاہلیت کے یہ خاص ”مظاہر“ ختم کرنا تھے، تو پھر اس طالبعلم کے اپنے زمانہ میں اسلام کاکیا کردار باقی رہ جاتا ہے اور وہ کونسی مہمات ہیں جو اسلام کو خود اِس کے دور میں سر کرنا ہیں؟
طالبعلم اب یہ سبق پڑھ کر باہر معاشرے میں آتا ہے تو اُس کو ”بتوں“ کی پرستش کہیں نظر نہیں آتی۔ اچھا تو اسلام دنیا میں جو مہات کو سر کرانے آیا ہے ان میں سے پہلا بند تو ساقط ہوا، ”بت“ تو یہاں دور دور تک کہیں نہیں پوجے جا رہے!!!
پھر وہ دیکھتا ہے، یہاں تو لڑکیاں بھی کہیں درگور نہیں ہوتیں! بلکہ معاملہ سراسر الٹا ہو چکا ہے۔ لڑکیاں تو یہاں ’دندناتی‘ پھر رہی ہیں!اِن لڑکیوں کو تو وہ ’آزادی‘ حاصل ہے کہ الامان والحفیظ!!! اچھا تو پھر اسلام کو جو مہمات سر کرنا تھیں، اُس کا دوسرا بند بھی ساقط ہوا!!!
ہاں کچھ لوگ، اور وہ بھی ظاہر ہے کچھ ہی ہیں، کہیں کہیں شراب پی لیتے ہوں گے۔ بعض جگہوں پر جوا بھی کھیل لیا جاتا ہے۔ بہر حال اسلام نے اِن لوگوں کو یہ بتا کر کہ شراب حرام ہے اورجوا کھیلنا کتنی بری بات ہے، اپنا ”اخلاقی فرض“ تو ادا کر ہی دیا ہے۔ اتنے سارے لوگ ہیں جو معاشرے میں شراب نہیں پیتے اور جوا کھیلنے ایسے واقعات بھی ان کی زندگی میں پیش نہیں آتے۔ آخر یہ بھی تو اسلام کی اِن ہدایات کو مانتے ہی ہیں۔ اب کچھ لوگ برائیوں میں پڑے ہوئے ہیں اور اسلام کی بات ان پر بے اثر ہو رہی ہے تو کیا کیا جا سکتا ہے؟ ’گناہگار‘ تو بہرحال دنیا میں ہوتے ہی ہیں۔ زیادہ لوگ تو بہرحال ایسے ہیں جو اِن دونوں برائیوں میں نہیں پڑتے!.... یعنی یہ بند بھی سمجھو ختم ہی ہوا!
رہ گئی لوٹ مار اور قبائل میں آپس کی خونریزی.... تو مار دھاڑ اور قتل و خونریزی کی روک تھام کیلئے آج کے دور کے اندر ’سسٹم‘ وجود میں آ گئے ہیں۔ یہاں پولیس ہے۔ امن عامہ کے ادارے ہیں۔ سول حکومتیں ہیں۔ امن خراب کرنے والے عناصر کو پکڑنے کا پورا پورا بندوبست ہے۔ ان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے انتظامات بھی خوب ہیں۔ کوئی بے قاعدگی ہو جاتی ہو گی تو یہ ’مس مینج منٹ‘ کا مسئلہ ہے، جوکہ لا ینحل نہیں....!
اچھا تو پھر اسلام کو اب دنیا میں کیا کرنا ہے؟؟؟ آج کے اِس دور میں وہ کونسا کردار ہے جو اسلام کو ہر حال میں ادا کرنا ہے اور وہ کونسی مہمات رہ جاتی ہیں جنہیں از روئے اسلام یہاں سر کرایا جانا ہے؟؟؟
سچ پوچھئے تو کچھ بھی نہیں!!!
یعنی اسلام کو جو کرنا تھا وہ صدیوںپہلے انجام پا چکا....!!! اب کیا باقی ہے جسے اسلام اِن معاشروں کے اندر انجام دے؟!!!
یہ وہ پیغام ہے جو ”اسلامی تاریخ“ اور حتی کہ ”سیرت“ ایسے مضمون کے پہلے ہی سبق سے یہاںکے ایک نونہال کو دینا مقصود ہوتا ہے۔ اب یہ طالبعلم خود ہی سمجھ لے گا کہ اسلام ایک خاص زمانے کیلئے آیا تھا جب اسلام کی دنیا میں ’بہت ضرورت‘ تھی! اسلام کی ”ضرورت“ بھی تب بہت زیادہ تھی اور اسلام کیلئے ”کرنے کے کام“ بھی بہت زیادہ تھے! ہاں البتہ آج معاملہ مختلف ہے! کام بہرحال چل رہا ہے! مختصریہ کہ اسلام جس زمانے کیلئے آیا تھا وہ تاریخ کا ایک خاص دور تھا، یعنی قدیم کا ایک زمانہ، اور بس....!
ظاہر ہے معاملہ اِس سے بالکل مختلف ہوتا اگر یہاں جاہلیت کے ”اصل جوہر“ کا تعارف کرانے پر زوردیا جاتا اور اسلام کے دنیا میں آنے کی ”اصل وجہ“ پر بھی اِس نونہال کی توجہ مرکوز کرا دی جاتی۔ اگر اس کو یہ بتایا جاتا کہ ”دین“ آدم علیہ السلام سے لے کر محمد ﷺ کی نبوت تک یہی تھا اور یہی ہے کہ انسانوں کو خدائے واحد کی عبادت پر لے کر آیا جائے۔ مخلوق کے آگے بجا لائی جانے والی بندگی اور عبادت کی ہر ہر صورت سے نکال کر انسان کو اللہ کی بندگی اور عبادت میں دیا جائے۔ یہاں تک کہ انسانی معاشروں میں صرف اور صرف اللہ کی عبادت ہو اور اُس کے ماسوا کسی کی عبادت نہ ہو۔ اور ”عبادت“ بھی اپنے جامع ترین معنی میں، یعنی ”اعتقاد“ کے اندربھی اللہ کی تنہا و بلا شرکت غیرے عبادت، ”شعائر عبادت“ پیش کرنے میں بھی اللہ کی تنہا وبلا شرکت غیرے عبادت، زندگی کے ہر ہر معاملہ میں اُس کی ”شریعت کی تحکیم“ کے حوالہ سے بھی اُس کی تنہا وبلا شرکت غیرے عبادت۔ ان سب پہلو¶ں سے زمین میں کسی کو اللہ کا شریک نہ ٹھہرانے دینا اور اِن سب پہلو¶ں سے اللہ کے ماسوا کسی کی ہدایت پر نہ چلنا (جبکہ ان میں سے کسی بھی پہلو سے اللہ کا شریک کھڑا کرنا اور اُس کے ماسوا کسی کی ہدایت پہ چلنا ہی جاہلیت کا ”اصل جوہر“ ہے)۔ یہ وہ ”دین“ ہے جو آدمؑ تا محمد مشروع ٹھہرا رکھا گیا ہے۔ علاوہ اِس خصوصی اضافہ کے کہ یہ آخری رسالت، جوکہ خاتم النبیین ﷺ کی رسالت ہے، پچھلی تمام رسالتوں کے برعکس، پوری انسانیت کیلئے ہے، ہر دور، ہر زمانے اور ہر معاشرے کیلئے ہے، اور قیامت تک کیلئے ہے۔
کتنا فرق ہوتا اگر اِس نونہال کو اسلام اور جاہلیت کی یہ تصویر اِس انداز سے دکھائی جاتی! وہ ”جوہری حقیقت“ جس کیلئے ”دین“ آیا ہے اُس پر یوں عیاں کی جاتی اور وہ خصوصیت جو اِس آخری آسمانی رسالت کو حاصل ہے اِس انداز سے اُس پر واضح کی جاتی!
یقینا یہ ایک زمین آسمان ایسا فرق ہوتا!
اِس دین کا کام نہ ماضی میں کبھی ختم ہوا تھا۔ نہ آج ختم ہوا ہے اور نہ مستقبل میں کبھی ختم ہوگا۔ اِس دین کا کام کبھی ختم نہیں ہو گا۔ جب تک دنیا کے اندر ایک بھی شخص ایسا ہے جو رب العالمین کے ساتھ شرک کرتا ہے، اِس دین کا کام باقی ہے۔ جب تک دنیا کے کسی ایک بھی گوشے میں اللہ کے سوا الٰہ کھڑے کئے جاتے ہیں، جب تک دنیا میں اللہ کے ما سوا ہستیوں کے آگے شعائر عبادت پیش کئے جاتے ہیں، اللہ کے ماسوا کسی کی شریعت اور کسی کے قانون کو حَکَم ٹھہرایا جاتا ہے، تب تک اِس دین کی مہم باقی ہے۔
یہی نہیں، اگر یہ بھی تصور کر لیا جائے کہ بفرض محال سب کے سب اہل زمین ایمان لے آئے ہیں (اور جوکہ ممکن نہیں، کیونکہ یہ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی قدر کے خلاف ہے) تب بھی اِس دین کا کام ختم نہیں ہو جاتا۔ کیونکہ اُس صورت میں اِس دین کا کردار یہ ہوگا کہ لوگ اپنے اُس ایمان پر اور اللہ کے ساتھ بندگی کے خاص اس رشتے پر دلجمعی کے ساتھ باقی رہیں۔ تب بھی یہ دین اُن کو اُن کا فرض بتانے اور یاد دہانی کرانے کیلئے باقی رہے گا، کہ خدائی حکم ہے کہ لوگوں کو اپنے مالک کی بابت اُن کے فرائض اور ذمہ داریاں یاد دلائی جاتی رہیں:
وَذَکِّر´ فَÊِنَّ الذِّک´ریٰ تَن´فَعُ ال´مُ¶´مِنِی´نَ (الذاریات: ۵۵)
یہ ہم اُس مفروضہ صورت کی بات کر رہے ہیں جب پوری دینا ایمان لا چکی ہو۔ اب اِس حالیہ صورت میں کیا خیال ہے جب دنیا شرک سے بھری پڑی ہے! شرک کی کوئی نوع نہ ہوگی جو آج پائی نہ جاتی ہو! چاہے وہ بت پرست قوموںاور تہذیبوں کا شرک ہو، چاہے وہ تحریف زدہ آسمانی رسالتوں کے حاملین مانند یہود ونصاریٰ کا شرک ہو، یا وہ شرک ہو جو غیر اللہ کی اتباع کے معاملہ میں ہو اور جس کی رو سے اللہ کی شریعت کو چھوڑ کر جاہلی شرائع و قوانین کی تحکیم ہوتی ہے۔
باقی دنیا کا معاملہ تو رہا ایک طرف، خود عالم اسلام ہی کے بارے میں کیا خیال ہے جہاں آسمان سے اتری ہوئی شریعت بے دخل ٹھہرائی جا چکی ہے اور اُس کی جگہ جاہلی قوانین کو حَکَم ٹھہرایا جا چکا ہے؟!
کتنی بڑی مہم ہے جو دین اسلام کو دنیا کے اندر آج درپیش ہے۔ اِس سے بڑھ کر آخر کیا مہم ہو سکتی ہے کہ انسانیت کو آج اِس شرک سے نکال کر توحید کی روشنی میں لایا جائے۔
مگر یہی تو وہ بات ہے جس کو اِن نونہالوں کے اذہان سے دور رکھا جانا مقصود ہے! اِسی بات کا تو خیال رکھا جانا ہے کہ مسلم بچوں کا ذہن کہیں اِس طرف کو نہ چلا جائے....!!!
امت کے بچوں کا ذہن کہیں اِس طرف کو نہ چلا جائے کہ مصر میں، پاکستان میں، بلکہ عالم اسلام کے قریب قریب ہر گوشے میں اسلام کی شریعت کو دیس نکالا دے رکھا گیا ہے۔ اندازہ کیجئے، ”عالم اسلام“، جس سے ”اسلام“ بے دخل ہے!!! ”اسلام“ کی سرزمین، جس پر ”جاہلی قوانین“ کی فرماں روائی ہے!!! کیونکہ امت کے بچے اگر یہ سبق پڑھنے لگے تو اِس سے لازم آئے گا کہ مصر میں، پاکستان میں، بلکہ عالم اسلام کے قریب قریب ہر گوشے میں، امت پر یہ فرض ہو کہ وہ اسلام کی سرزمین کو جاہلی قوانین کی فرماںروائی سے چھڑانے کیلئے برسر جہاد ہو جائے اور صلیبیوں کو ان کے قانون اور ان کی تہذیب سمیت عالم اسلام سے نکال باہر کیا جائے!
انگریز یہاں تھے تو بھی ان کے پروردہ نظام تعلیم میں ”سیرت“ اور ”تاریخ اسلام“ کے حوالے سے پہلا سبق یہی پڑھایا جاتا تھا اور آج بھی یہ سبق ویسے کا ویسے پڑھایا جاتا ہے! یعنی ”جاہلیت“ جس کو ”اسلام“ ختم کرنے آیا تھا وہی تھی جو بڑی دیر ہوئی دنیا سے ناپید ہو چکی! اب اِس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ یہاں انگریز ہو یا انگریز کا قانون ہو۔ جاہلی تہذیب، جاہلی آئین، جاہلی شریعت، جو مرضی ہو، ”جاہلیت“ ایک دور کا نام تھا سو ختم ہوا، اب ”اسلام“ کو کسی بات، کسی آئین، کسی شریعت، کسی رسم اور کسی دستور سے کیا پرخاش؟!!!
ایک نہایت سوچے سمجھے مقصد کے تحت فکر و نظر کا یہ مسخ عمل میں لایا جاتا ہے۔ کفر کے اِن مدارس سے ہر سال ہزاروں دماغ جو فارغ التحصیل ہو کر نکلتے ہیں، کہیں یہ سبق نہ پڑھ لیں کہ ”اسلام“ کا کام دنیا میں ابھی باقی ہے اور وہ خود اِن کے اپنے عہد کے اندر بھی انجام دیا جانا ہے!!!
٭٭٭٭٭