مہ جبین
محفلین
سیرِ گلشن کون دیکھے دشتِ طیبہ چھوڑ کر
سوئے جنت کون جائے در تمہارا چھوڑ کر
سرگزشتِ غم کہوں کس سے تیرے ہوتے ہوئے
کس کے در پر جاؤں تیرا آستانہ چھوڑ کر
بے لقائے یار اُن کو چین آجاتا اگر
بار بار آتے نہ یوں جبریل سدرہ چھوڑ کر
کون کہتا ہے دلِ بے مدعا ہے خوب چیز
میں تو کوڑی کو نہ لوں اُن کی تمنا چھوڑ کر
مَر ہی جاؤں میں اگر اس در سے جاؤں دوقدم
کیا بچے بیمارِ غم قربِ مسیحا چھوڑ کر
کس تمنا پر جئیں یارب اسیرانِ قفس
آچکی بادِ صبا باغِ مدینہ چھوڑ کر
بخشوانا مجھ سے عاصی کا روا ہوگا کسے
کس کے دامن میں چھپوں دامن تمہارا چھوڑ کر
خلد کیسا نفسِ سرکش جاؤں گا طیبہ کو میں
بد چلن ہٹ کر کھڑا ہو مجھ سے رستہ چھوڑ کر
ایسے جلوے پر کروں میں لاکھ حوروں کو نثار
کیا غرض کیوں جاؤں جنت کو مدینہ چھوڑ کر
حشر میں ایک ایک کا منھ تکتے پھرتے ہیں عدو
آفتوں میں پھنس گئے اُن کا سہارا چھوڑ کر
مَر کے جیتے ہیں جو اُن کے در پہ جاتے ہیں حسن
جی کے مَرتے ہیں جو آتے ہیں مدینہ چھوڑ کر
حضرت مولانا حسن رضا خان بریلوی رحمۃاللہ علیہ