نیرنگ خیال
لائبریرین
یہ سفر نامہ تو نہیں ہے۔۔۔ مگر چونکہ اس زمرے میں میری کوئی لڑی نہیں، اس لیے ادھر پوسٹ کر رہا ہوں۔۔۔۔ ہوہوہوہوہوہو۔۔۔ اور تصاویر بھی پوسٹ کروں گا۔
ایک مدت سے میرے اس راگ نے باسط اور خرم کے سر میں درد کر رکھا تھا کہ تمہارا کیا فائدہ ہے؟ یہ نہیں کہ دوست کو اندرون لاہور کی سیر کروا دو۔ سارے زمانے کے لیے وقت ہے تمہارے پاس، لیکن جوں ہی میں کوئی فرمائش کر دوں، یہ رہ گیا، وہ ہوگیا، ایسا ہوجائے گا، اب یہ نہ ہوا تو یہ کر لیں گے ۔ جیسے بےمعنی بہانوں کا راگ الاپنے لگتے ہو کہ مجھے خود میں شرمندگی ہونے لگتی ہے۔ یہ باتیں سننا تھا کہ خرم غصے سے کانپنے لگا۔ اور پھر اس نے باسط کا ٹہوکا دیا۔ اور وہ بھی کانپنے لگا۔ دونوں نے حاتم طائی کی قبر پر بلڈوزر چلاتے ہوئے کمال سخاوت سے مجھے پیشکش کی کہ اگر تم اس ہفتے، اس وقت سے پہلے اور اس وقت کے بعد یعنی نہ دو سیکنڈ اوپر اور نہ تین سیکنڈ نیچے پہنچ گئے تو ہم اکھٹے پیدل پیدل گیٹوں کے اندر سڑکوں سے باہر سیر کریں گے۔ وگرنہ پھر کار جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر والا معاملہ ہوگا۔ دھمکی کھلی تھی اور دعوت ملفوف۔۔۔ سو وقت پر پہنچتے ہی بنی۔
باسط نے جو گوگلی نقشہ اپنے مکان کا مجھے بھیجا تو مجھے اپنا ہی ایک پیروڈی کیا شعر یاد آگیا کہ
نئے عشاق کی یہ سہل پسندی !کہ سدا
گوگلی نقشے سے لیلیٰ کے مکاں تک پہنچے
اور گوگل نے میرے ساتھ بالکل وہی سلوک کیا جو زمانہ عشاق سے کرتا آرہا ہے۔ ایسی ایسی گلیوں میں مجھے گھمایا کہ مجھے لگا اگر سامنے سے بھی کوئی گاڑی آگئی تو بقول یوسفی صرف نکاح کی گنجائش بچے گی۔ اللہ اللہ کر کے باسط کے گھر پہنچے تو خرم اور باسط دونوں ہی منتظر تھے اور باہم مشورے سے مجھے کار جہاں دراز والے کسی افسانے پر ٹالنے کی گٹھ جوڑ میں مصروف تھے۔ میری عین وقت پر مداخلت نے یہ اندرونی سازش ناکام بنا دی۔ اور تب ہی مجھے احساس ہوا کہ بیرونی مداخلت کی ضرورت کیوں پڑتی ہے۔ جب اندرونی سازشیں ناکام ہوجائیں تو بیرونی امداد ناگزیر ہوجاتی ہے۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ علیک سلیک کے بعد پروگرام (بغیر وڑے) یہ طے پایا کہ یہاں سے ایک آٹو رکشہ میں رنگ محل تک جائیں گے۔ اور پھر اس سے آگے پیدل پیدل۔۔۔ کیونکہ آگے کھوے سے کھوا چِھلتا ہے۔رکشے والے نے ہمیں تاج ہوٹل کے قریب لا اتارا۔ جہاں ہم نے پوری اور حلوے کا ناشتہ کیا۔ تاج ہوٹل کا سپیشل حلوہ بہت معروف ہے اور لذت و ذائقے میں اپنی مثال آپ ہے۔ وہاں سے سیری حاصل کرنے کے بعدباسط کی زری کی دکان پر گئے اور باسط کے والد صاحب سے ملاقات کی۔ وہاں سے نکل کر ہم پیدل بازار کے درمیان سے ہوتے ہوئے سنہری مسجد (مسجد بند تھی اس لیے اندر نہیں جا سکے) سے گزر کر مسجد وزیر خان تک آپہنچے۔ مسجد کے اندرون و بیرون کا طواف کیا۔ بہت سے مقامی و غیر مقامی سیاح جوڑوں اور گروہوں کی شکل میں مسجد کے دیدار سے فیضیاب ہوتے نظر آرہے تھے۔ مسجد میں داخل ہوتے ہی باسط نے نماز کا وقت ہے کا نعرہ بلند کر دیا۔ ہم نے کہا، ارے اوہ ظالم۔۔۔ اس وقت تو وہابی بھی نماز نہیں پڑھتے۔ مگر وہ اپنی ہٹ پر اڑا رہا۔ مجبورا ہم نے اس کی امامت کا شوق پورا کیا۔ دو اور مولوی سیاح پکڑ کر شامل کیے تاکہ باسط کی امامت کا شوق آج اتر ہی جائے۔ وہ ملوانے سیاح حاجی باسط کے پیچھے نماز پڑھنے سے ہچکچا رہے تھے تاہم ہمارے اکسانے پر(آپ نے نماز نہیں پڑھنی تو نہ پڑھیں!) غصہ کر گئے اور جماعت میں شامل ہوگئے۔ حاجی کی اقتداء میں نماز سے فارغ ہو کر ہم نےمسجد میں موجود مزار پر حاضری دی او ردعائے خیر کی۔ مسجد سے نکلنے کے بعد ایک تھڑے پر بیٹھ کر تھڑا کلچر کی اہمیت اور ضرورت پر سیرحاصل گفتگو کی۔ اس تھڑے کے ساتھ ہی ایک صدیوں پرانے کنویں کا دیدار کیا۔ دیدار کنواں سے فارغ ہو کر اسی تھڑے پر بیٹھ کر چائے نوش کی۔ چائے سے فارغ ہو کرخرم کی فرمائش پر شاہی حمام آپہنچے۔ شاہی حمام بلاشبہ طرز تعمیر کا ایک کمال ہے۔ بادشاہوں کے نہانے کے عادات و خصائل، گرم اور ٹھنڈے پانی کے حمام، اور ان میں پانی کی آمدورفت سے متعلق میری معلومات میں گراں قدر اضافہ ہوا۔ شاہی حمام سے نکل کر ہم اکبری منڈی سے گزر کر دہلی گیٹ آگئے۔ بازار کی رونق اپنے عروج پر تھی۔ ہم نے سبیل والی گلی میں چند تصاویر کھینچنے کی کوشش کی، لیکن بھلا ہو ان ٹک ٹوکرز کا جو حیرت انگیز طور پر بنا ناچے اپنی ٹک ٹوک ویڈیوز بنا رہے تھے، تاہم انہوں نے ہمیں کوئی ڈھنگ کی جگہ نہ دی، مجبورا ہم وہاں سے نکل کر پنساری مارکیٹ سے گزر کر اندرون موچی گیٹ خلیفہ کی دکان پر آموجود ہوئے۔ وہاں جا کر میں نے انہیں بتایا کہ اگر تم لوگ میرے لیے کچھ لینا چاہتے ہو تو خلیفہ کے نان خطائی ہی لے لینا۔ ویسے نہ لو تو بہتر ہے۔ میری ڈھٹائی پر انہوں نے مجھے خلیفہ خطائیوں کا تحفہ دان کیا۔ وہاں اندرون کی گلیوں سے گزرتے گزرتے صرافہ بازار سے ہوتے ہم واپس رنگ محل آن پہنچے۔یہاں ہم نے فائر بریگیڈ کے سامنے موجود مچھلی والے سےمچھلی کھائی۔ ساتھ ہی ایک دکان پر ایک آدمی چاول کی روٹیاں بنا رہا تھا۔ اس نے بنا کہے ایک چھوٹی سی چاول کی روٹی ہمارے سامنے لا کر رکھ دی اور کہنے لگا یہ آپ لوگوں کے نصیب کی ہے۔ بہت ہی مزیدار روٹی تھی۔ دوبارہ جائیں گے تو پیسے دے کر کھائیں گے۔ وہاں سے نکل کر ہم باسط کے گھر آگئے جہاں ہمارے لیے چائے کے ساتھ طرح طرح کے لوازمات موجود تھے۔ میں نے احتجاج کیا کہ اگر اتنا تکلف کرنا تھا تو کھانا کم کھا لیتے۔
دونوں احباب کی بےانتہا محبت ہے کہ انہوں نے اپنی چھٹی کا پورا دن میرے ساتھ گزارا اور ان گلیوں کی سیر کروائی جن کی ایک مدت سے آرزو تھی۔ ان گلیوں اور بازاروں کے متعلق احساسات پھر کبھی قلم زد کروں گا۔
2 دسمبر 2023
از قلم نیرنگ خیال
سیر اندرون لہور کی۔۔۔
ایک مدت سے میرے اس راگ نے باسط اور خرم کے سر میں درد کر رکھا تھا کہ تمہارا کیا فائدہ ہے؟ یہ نہیں کہ دوست کو اندرون لاہور کی سیر کروا دو۔ سارے زمانے کے لیے وقت ہے تمہارے پاس، لیکن جوں ہی میں کوئی فرمائش کر دوں، یہ رہ گیا، وہ ہوگیا، ایسا ہوجائے گا، اب یہ نہ ہوا تو یہ کر لیں گے ۔ جیسے بےمعنی بہانوں کا راگ الاپنے لگتے ہو کہ مجھے خود میں شرمندگی ہونے لگتی ہے۔ یہ باتیں سننا تھا کہ خرم غصے سے کانپنے لگا۔ اور پھر اس نے باسط کا ٹہوکا دیا۔ اور وہ بھی کانپنے لگا۔ دونوں نے حاتم طائی کی قبر پر بلڈوزر چلاتے ہوئے کمال سخاوت سے مجھے پیشکش کی کہ اگر تم اس ہفتے، اس وقت سے پہلے اور اس وقت کے بعد یعنی نہ دو سیکنڈ اوپر اور نہ تین سیکنڈ نیچے پہنچ گئے تو ہم اکھٹے پیدل پیدل گیٹوں کے اندر سڑکوں سے باہر سیر کریں گے۔ وگرنہ پھر کار جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر والا معاملہ ہوگا۔ دھمکی کھلی تھی اور دعوت ملفوف۔۔۔ سو وقت پر پہنچتے ہی بنی۔
باسط نے جو گوگلی نقشہ اپنے مکان کا مجھے بھیجا تو مجھے اپنا ہی ایک پیروڈی کیا شعر یاد آگیا کہ
نئے عشاق کی یہ سہل پسندی !کہ سدا
گوگلی نقشے سے لیلیٰ کے مکاں تک پہنچے
اور گوگل نے میرے ساتھ بالکل وہی سلوک کیا جو زمانہ عشاق سے کرتا آرہا ہے۔ ایسی ایسی گلیوں میں مجھے گھمایا کہ مجھے لگا اگر سامنے سے بھی کوئی گاڑی آگئی تو بقول یوسفی صرف نکاح کی گنجائش بچے گی۔ اللہ اللہ کر کے باسط کے گھر پہنچے تو خرم اور باسط دونوں ہی منتظر تھے اور باہم مشورے سے مجھے کار جہاں دراز والے کسی افسانے پر ٹالنے کی گٹھ جوڑ میں مصروف تھے۔ میری عین وقت پر مداخلت نے یہ اندرونی سازش ناکام بنا دی۔ اور تب ہی مجھے احساس ہوا کہ بیرونی مداخلت کی ضرورت کیوں پڑتی ہے۔ جب اندرونی سازشیں ناکام ہوجائیں تو بیرونی امداد ناگزیر ہوجاتی ہے۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ علیک سلیک کے بعد پروگرام (بغیر وڑے) یہ طے پایا کہ یہاں سے ایک آٹو رکشہ میں رنگ محل تک جائیں گے۔ اور پھر اس سے آگے پیدل پیدل۔۔۔ کیونکہ آگے کھوے سے کھوا چِھلتا ہے۔رکشے والے نے ہمیں تاج ہوٹل کے قریب لا اتارا۔ جہاں ہم نے پوری اور حلوے کا ناشتہ کیا۔ تاج ہوٹل کا سپیشل حلوہ بہت معروف ہے اور لذت و ذائقے میں اپنی مثال آپ ہے۔ وہاں سے سیری حاصل کرنے کے بعدباسط کی زری کی دکان پر گئے اور باسط کے والد صاحب سے ملاقات کی۔ وہاں سے نکل کر ہم پیدل بازار کے درمیان سے ہوتے ہوئے سنہری مسجد (مسجد بند تھی اس لیے اندر نہیں جا سکے) سے گزر کر مسجد وزیر خان تک آپہنچے۔ مسجد کے اندرون و بیرون کا طواف کیا۔ بہت سے مقامی و غیر مقامی سیاح جوڑوں اور گروہوں کی شکل میں مسجد کے دیدار سے فیضیاب ہوتے نظر آرہے تھے۔ مسجد میں داخل ہوتے ہی باسط نے نماز کا وقت ہے کا نعرہ بلند کر دیا۔ ہم نے کہا، ارے اوہ ظالم۔۔۔ اس وقت تو وہابی بھی نماز نہیں پڑھتے۔ مگر وہ اپنی ہٹ پر اڑا رہا۔ مجبورا ہم نے اس کی امامت کا شوق پورا کیا۔ دو اور مولوی سیاح پکڑ کر شامل کیے تاکہ باسط کی امامت کا شوق آج اتر ہی جائے۔ وہ ملوانے سیاح حاجی باسط کے پیچھے نماز پڑھنے سے ہچکچا رہے تھے تاہم ہمارے اکسانے پر(آپ نے نماز نہیں پڑھنی تو نہ پڑھیں!) غصہ کر گئے اور جماعت میں شامل ہوگئے۔ حاجی کی اقتداء میں نماز سے فارغ ہو کر ہم نےمسجد میں موجود مزار پر حاضری دی او ردعائے خیر کی۔ مسجد سے نکلنے کے بعد ایک تھڑے پر بیٹھ کر تھڑا کلچر کی اہمیت اور ضرورت پر سیرحاصل گفتگو کی۔ اس تھڑے کے ساتھ ہی ایک صدیوں پرانے کنویں کا دیدار کیا۔ دیدار کنواں سے فارغ ہو کر اسی تھڑے پر بیٹھ کر چائے نوش کی۔ چائے سے فارغ ہو کرخرم کی فرمائش پر شاہی حمام آپہنچے۔ شاہی حمام بلاشبہ طرز تعمیر کا ایک کمال ہے۔ بادشاہوں کے نہانے کے عادات و خصائل، گرم اور ٹھنڈے پانی کے حمام، اور ان میں پانی کی آمدورفت سے متعلق میری معلومات میں گراں قدر اضافہ ہوا۔ شاہی حمام سے نکل کر ہم اکبری منڈی سے گزر کر دہلی گیٹ آگئے۔ بازار کی رونق اپنے عروج پر تھی۔ ہم نے سبیل والی گلی میں چند تصاویر کھینچنے کی کوشش کی، لیکن بھلا ہو ان ٹک ٹوکرز کا جو حیرت انگیز طور پر بنا ناچے اپنی ٹک ٹوک ویڈیوز بنا رہے تھے، تاہم انہوں نے ہمیں کوئی ڈھنگ کی جگہ نہ دی، مجبورا ہم وہاں سے نکل کر پنساری مارکیٹ سے گزر کر اندرون موچی گیٹ خلیفہ کی دکان پر آموجود ہوئے۔ وہاں جا کر میں نے انہیں بتایا کہ اگر تم لوگ میرے لیے کچھ لینا چاہتے ہو تو خلیفہ کے نان خطائی ہی لے لینا۔ ویسے نہ لو تو بہتر ہے۔ میری ڈھٹائی پر انہوں نے مجھے خلیفہ خطائیوں کا تحفہ دان کیا۔ وہاں اندرون کی گلیوں سے گزرتے گزرتے صرافہ بازار سے ہوتے ہم واپس رنگ محل آن پہنچے۔یہاں ہم نے فائر بریگیڈ کے سامنے موجود مچھلی والے سےمچھلی کھائی۔ ساتھ ہی ایک دکان پر ایک آدمی چاول کی روٹیاں بنا رہا تھا۔ اس نے بنا کہے ایک چھوٹی سی چاول کی روٹی ہمارے سامنے لا کر رکھ دی اور کہنے لگا یہ آپ لوگوں کے نصیب کی ہے۔ بہت ہی مزیدار روٹی تھی۔ دوبارہ جائیں گے تو پیسے دے کر کھائیں گے۔ وہاں سے نکل کر ہم باسط کے گھر آگئے جہاں ہمارے لیے چائے کے ساتھ طرح طرح کے لوازمات موجود تھے۔ میں نے احتجاج کیا کہ اگر اتنا تکلف کرنا تھا تو کھانا کم کھا لیتے۔
دونوں احباب کی بےانتہا محبت ہے کہ انہوں نے اپنی چھٹی کا پورا دن میرے ساتھ گزارا اور ان گلیوں کی سیر کروائی جن کی ایک مدت سے آرزو تھی۔ ان گلیوں اور بازاروں کے متعلق احساسات پھر کبھی قلم زد کروں گا۔
دہلی گیٹ لاہور کی ایک تصویر
2 دسمبر 2023
از قلم نیرنگ خیال