محمود احمد غزنوی
محفلین
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے پولیس نے تاحال وزیرِ اعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب سمیت حکومت میں شامل 21 افراد کے خلاف قتل کا وہ مقدمہ درج نہیں کیا جس کا حکم سیشن عدالت نے سنیچر کو جاری کیا تھا۔
دوسری جانب حکومتی قانونی ماہرین کی ٹیم مسلسل اس بات پر مشاورت کر رہی ہے کہ سیشن کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنا ہے یا نہیں۔
اسی بارے میںماڈل ٹاؤن کیس: وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکمماڈل ٹاؤن : گلو بٹ کا پانچ روزہ جسمانی ریمانڈطاہر القادری کا ’ڈرامائی‘ سفر لاہور میں ختممتعلقہ عنواناتپاکستان, پنجاب, لاہور, پاکستان مسلم لیگ (ن)لاہور کی عدالت نے 17 جون کے پولیس ایکشن کے دوران عوامی تحریک کے 14 افرادکی ہلاکت پر عوامی تحریک کی درخواست پر فیصل ٹاؤن پولیس کو ہدایت کی تھی کہ وہ قانون کے مطابق کارروائی کرتے ہوئے مدعی کی درخواست پر مقدمہ درج کرے۔
تحریکِ انصاف کے وکلا کا ایک گروپ پیر کو فیصلے کی نقل کے ہمراہ تھانہ فیصل ٹاؤن جا پہنچا لیکن سٹیشن ہاؤس آفیسر موقع پر موجود نہ تھے۔ وکلا نے محرر سے مقدمہ درج کرنے کا کہا لیکن محرر نے ایس ایچ او کے نوٹس میں لائے بغیر مقدمہ درج کرنے سے انکار کردیا۔
محرر اور وکلا کے درمیان کوئی دوگھنٹے تکرار جاری رہے جس کے بعد محرر نے درخواست وصول کر لی البتہ رات گئے تک مقدمہ درج کرنے کی کوئی اطلاع نہیں ملی تھی۔
قانونی ماہرین کا کہناہے کہ اس سیشن کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کے لیے تھانے کی پولیس کو پہلے لیگل برانچ سے قانونی رائے لینا لازمی ہے۔
قریبی تعلقاتنئے سی سی پی او کیپٹن امین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے شریف خاندان سے قریبی تعلقات ہیں اور شہباز شریف کےدور میں وہ اہم عہدوں پر تعینات رہے ہیں۔ مقدمہ کا اندراج کا فیصلہ اب انہی کے ہاتھ میں ہے۔
ماہرین کےمطابق سیشن کورٹ کا فیصلہ جن حالات میں سنایا گیا اس نے حالات کو حکومت کے لیے مزید نازک بنا دیا۔سنیچر کو فیصلے کی صورت میں حکومت کے پاس اتوار کو اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا وقت باقی نہیں رہا تھا دوسری جانب اسلام آباد میں احتجاجی دھرنے بھی جاری رہے۔
سیشن کورٹ کے فیصلے کے بعد افواہوں کا ایک بازار گرم ہوگیا تھا اور عمران خان نے بھی کہا تھا کہ پہلی وکٹ گر گئی ہے البتہ پیر کو مزید کوئی کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے بظاہر مقدمے کی حد تک سنگینی نسبتاً کم ہوئی ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہناہے کہ اگر اس تمام معاملے میں کوئی تیسرا ہاتھ یعنی اسٹیبلشمنٹ ملوث ہے تو وہ نادیدہ ہاتھ کسی بھی وقت مقدمہ درج کروا سکتا ہے۔
حکومتِ پنجاب نے پیر کو کیپٹل سٹی پولیس چیف کے عہدے پر نئی تعیناتی کی ہے۔ نئے سی سی پی او کیپٹن امین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے شریف خاندان سے قریبی تعلقات ہیں اور شہباز شریف کےدور میں وہ اہم عہدوں پر تعینات رہے ہیں۔ مقدمہ کا اندراج کا فیصلہ اب انہی کے ہاتھ میں ہے۔
دوسری جانب حکومتی قانونی ماہرین کی ٹیم مسلسل اس بات پر مشاورت کر رہی ہے کہ سیشن کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنا ہے یا نہیں۔
اسی بارے میںماڈل ٹاؤن کیس: وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکمماڈل ٹاؤن : گلو بٹ کا پانچ روزہ جسمانی ریمانڈطاہر القادری کا ’ڈرامائی‘ سفر لاہور میں ختممتعلقہ عنواناتپاکستان, پنجاب, لاہور, پاکستان مسلم لیگ (ن)لاہور کی عدالت نے 17 جون کے پولیس ایکشن کے دوران عوامی تحریک کے 14 افرادکی ہلاکت پر عوامی تحریک کی درخواست پر فیصل ٹاؤن پولیس کو ہدایت کی تھی کہ وہ قانون کے مطابق کارروائی کرتے ہوئے مدعی کی درخواست پر مقدمہ درج کرے۔
تحریکِ انصاف کے وکلا کا ایک گروپ پیر کو فیصلے کی نقل کے ہمراہ تھانہ فیصل ٹاؤن جا پہنچا لیکن سٹیشن ہاؤس آفیسر موقع پر موجود نہ تھے۔ وکلا نے محرر سے مقدمہ درج کرنے کا کہا لیکن محرر نے ایس ایچ او کے نوٹس میں لائے بغیر مقدمہ درج کرنے سے انکار کردیا۔
محرر اور وکلا کے درمیان کوئی دوگھنٹے تکرار جاری رہے جس کے بعد محرر نے درخواست وصول کر لی البتہ رات گئے تک مقدمہ درج کرنے کی کوئی اطلاع نہیں ملی تھی۔
قانونی ماہرین کا کہناہے کہ اس سیشن کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کے لیے تھانے کی پولیس کو پہلے لیگل برانچ سے قانونی رائے لینا لازمی ہے۔
قریبی تعلقاتنئے سی سی پی او کیپٹن امین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے شریف خاندان سے قریبی تعلقات ہیں اور شہباز شریف کےدور میں وہ اہم عہدوں پر تعینات رہے ہیں۔ مقدمہ کا اندراج کا فیصلہ اب انہی کے ہاتھ میں ہے۔
ماہرین کےمطابق سیشن کورٹ کا فیصلہ جن حالات میں سنایا گیا اس نے حالات کو حکومت کے لیے مزید نازک بنا دیا۔سنیچر کو فیصلے کی صورت میں حکومت کے پاس اتوار کو اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا وقت باقی نہیں رہا تھا دوسری جانب اسلام آباد میں احتجاجی دھرنے بھی جاری رہے۔
سیشن کورٹ کے فیصلے کے بعد افواہوں کا ایک بازار گرم ہوگیا تھا اور عمران خان نے بھی کہا تھا کہ پہلی وکٹ گر گئی ہے البتہ پیر کو مزید کوئی کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے بظاہر مقدمے کی حد تک سنگینی نسبتاً کم ہوئی ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہناہے کہ اگر اس تمام معاملے میں کوئی تیسرا ہاتھ یعنی اسٹیبلشمنٹ ملوث ہے تو وہ نادیدہ ہاتھ کسی بھی وقت مقدمہ درج کروا سکتا ہے۔
حکومتِ پنجاب نے پیر کو کیپٹل سٹی پولیس چیف کے عہدے پر نئی تعیناتی کی ہے۔ نئے سی سی پی او کیپٹن امین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے شریف خاندان سے قریبی تعلقات ہیں اور شہباز شریف کےدور میں وہ اہم عہدوں پر تعینات رہے ہیں۔ مقدمہ کا اندراج کا فیصلہ اب انہی کے ہاتھ میں ہے۔