عبدالقیوم چوہدری
محفلین
یہ موسم سرما کی ایک خُنک رات تھی۔ دُھند نے چاروں اطراف کو یوں گھیرے میں لیا ہوا تھا جیسے عاشق، محبوب کو بانہوں میں بھر لیتا ہے۔۔۔ جپھّی اک واری کُٹ کے توں پاء گُجرا۔۔۔۔ یہ ایک رومانٹک اور اداس کردینے والی کیفیت تھی۔ میں نے کتاب سے نظر ہٹائی اور سٹڈی کی کھڑکی کے دھندلے شیشے سے باہر دیکھا۔ ایک مطمئن سی اداسی میرے رگ و پے میں دوڑ گئی۔ چیبانگا موزونگو کی بھیجی ہوئی زمبابوین کافی کا گھونٹ بھر کے میں نے سر کو راکنگ چئیر کی پشت سے ٹکایا۔ ایک طویل ڈکار لیا۔ حیدر آبادی بریانی، بیف کباب اور کوک کی خوشبو سے ساری سٹڈی مہک اٹھی۔ میں نے آئی فون سکس (کسٹم میڈ) ٹیبل سے اٹھایا۔ اداس اور رومانٹک چہرے کی ایک سیلفی لے کر فیس بک پیج پر اپ لوڈ کی اور دوبارہ کتاب پر جھک گیا۔
اچانک فون کی بیل بجی۔ سکرین پر "میاں صاحب" کا نام جگمگا رہا تھا۔ میں حیران رہ گیا۔ یہ ایک خلاف معمول بات تھی۔ یہ کبھی گیارہ بجے کے بعد فون نہیں کرتے۔ یہ جانتے ہیں کہ میں ایک جوان جہان آدمی ہوں۔ میری ازدواجی ذمہ داریاں بھی ہیں۔ یہ اس بات کو سمجھتے ہیں اس لیے کبھی مجھے ڈسٹرب نہیں کرتے۔ میں نے کال ریسیو کی۔ یہ بوجھل آواز میں بولے ۔۔۔ "یار جیدے ۔۔ کِی کرئیے۔۔۔ دوویں لڑ پئے نیں؟"۔۔ یہ ایک نازک مرحلہ تھا۔ یہ دنیا کی تاریخ میں میک آر بریک والا معاملہ تھا۔ ایک غلط فیصلہ اس دنیا سے انسانوں کا وجود ہمیشہ کے لیے ختم کر سکتا تھا۔ میں نے فون ٹیبل پر رکھا۔ ایک طویل سانس لی۔ گلاسز اتار کے شیشے صاف کیے۔ کافی کا گھونٹ بھرا۔ فون دوبارہ اٹھایا تو میاں صاحب بولے۔۔" دانشوراں آلی ایکٹنگ بعد اچ کر لئیں۔۔ پہلے میں جو پُچھیا او دس"۔ میں کچّا ہوگیا۔ مجھے شرم آگئی۔ میں نے فورا بات بدل لی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آج آپ نے ڈنر میں کیا کھایا۔ میاں صاحب نے پھر مجھے جگت کرادی کہنے لگے۔۔ چوہدری ای رہ، کلاسرہ نہ بن۔۔۔ میں فورا سنجیدہ ہوگیا۔ میں نے بادشاہ والی کہانی کی آواز بنالی اور یوں گویا ہوا۔۔۔۔ میاں صاحب، تاریخ آپ کی راہ دیکھ رہی ہے۔ عظمت آپ کا انتظار کر رہی ہے۔ عزّت آپ کے لیے نظریں بچھائے کھڑی ہے۔ ہسٹری آپ کو ویلکم کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ مؤرخ سنہری انک والا پین لے کر آپ کا منتظر ہے۔ میاں صاحب نے ایک طویل ہمممممم کیا اور فون بند کردیا۔
یہ ایک سرد صبح تھی۔ بیدار ہونے پر ایسا فِیل ہورہا تھا جیسے سب کچھ فریز ہے۔ اس لیے فریش ہونے کے لیے دو دفعہ کافی پینی پڑی۔ واک کے لیے جوگرز پہنے ہی تھے کہ میاں صاحب کا فون آگیا۔ انہوں نے دس منٹ کے اندر ائیرپورٹ پہنچنے کی ریکویسٹ کی۔ میرا ٹریول بیگ ہمیشہ ریڈی رہتا ہے۔ میں نے بیگ اٹھایا۔ جلدی میں بیگم کا پرپل کوٹ پہنا۔ یہ ایک آنسٹ مسٹیک تھی لیکن اس مسٹیک نے ہسٹری کا دھارا بدل دیا۔ اس کا ذکر آگے آئے گا۔
فلائٹ ٹیک آف کرتے ہی میاں صاحب اور جنرل صاحب میرے پاس تشریف لے آئے۔ یہ ایک اچھی جوڑی ہے۔ دلیپ کمار/مدھو بالا، امیتابھ/ریکھا، انیل کپور/مادھوری، شاہ رخ/کاجل، بدرمنیر/مسرت شاہین، سلطان راہی/انجمن کے بعد شریف/شریف ایسی جوڑی ہے جو سُپر ہٹ ہونے کا پوٹینشل رکھتی ہے۔ یہ ایک دوسرے کو انڈرسٹینڈ اور رسپیکٹ کرتے ہیں۔ یہ سمارٹ بھی ہیں اور ہینڈسم بھی۔ یہ انٹیلیجنٹ بھی ہیں اور انٹلکچوئل بھی۔ یہ ناٹی بھی ہیں اور جولی بھی۔ میاں صاحب نے ادھر ادھر دیکھا اور آہستگی سے اپنی واسکٹ کی جیب سے ایک شاپر نکال کے میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ میں نے شاپر کھولا تو ہر طرف قیمے والے نان کی خوشبو پھیل گئی۔ میاں صاحب جانتے تھے کہ میں نے بریک فاسٹ نہیں کیا۔ آپ ان کے مینرز دیکھیے۔ آپ ان کی کرٹسی ملاحظہ کیجیے۔ ائیرپورٹ آتے ہوئے رستے میں انہوں نے گاڑی رکوا کر چار قیمے والے نان لیے۔ ایک نان جنرل صاحب کو دیا، ایک خود کھایا جبکہ دو نان میرے لیے رکھ لیے۔ یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔ یہ پہلے کسی کو نان کی ہوا نہیں لگواتے تھے۔ یہ کسی کو نان کی ایک بُرکی دینے کے روادار نہیں تھے۔ اب یہ خود ایک نان کھاتے ہیں۔ یہ دو نان دوسروں کو دے دیتے ہیں۔ یہ جان چکے ہیں کہ مل جل کر کھانا برکت کا باعث ہوتا ہے۔
پلین لینڈ کرنے کے بیس منٹ کے اندر ہم پیلس میں پہنچ چکے تھے۔ یہ ایک شاندار عمارت ہے۔ یہ رومن، گوتھک، اٹالین، سپینش اور عربک آرکیٹکچر کا شاہکار ہے۔ اس میں فوارے بھی ہیں اور باغ بھی۔ سوئمنگ پول بھی ہے اور مسجد بھی۔ ہم اس کے مرکزی ہال میں داخل ہوئے تو میزبان نے ہمارا استقبال کیا۔ یہ بہت تپاک سے ملے۔ انہوں نے میری چُمیاں بھی لیں۔ یہ پرپل کوٹ پر بار بار ہاتھ پھیرتے رہے۔ یہ مجھ سے پوچھتے رہے ۔۔ ہذا کوٹ جمیل جدا۔۔ من وین انت حصل ہذا؟۔۔۔ میں ایک دفعہ پھر کچّا ہوگیا۔ یہ ایک نازک صورتحال تھی۔ اگر میں سچ بول دیتا۔ اگر میں بتا دیتا کہ یہ زوجہ کا کوٹ ہے۔یہ میں بائی مسٹیک پہن کے آگیا ہوں تو سوچیے کتنا بڑا بحران پیدا ہوجاتا ہے۔ میزبان غصے میں آجاتا۔ یہ ہم سب کو پیلس سے نکال دیتا۔ دنیا تباہی کے کنارے پر پہنچ جاتی۔ میں نے حواس قائم رکھے۔ میں نے فون نکالا۔ سب کو ریڈی کہا اور ایک سیلفی لے لی۔ سب کا دھیان بٹ گیا۔ میں نے میاں صاحب کو آنکھ ماری۔ انہوں نے میزبان کو باتوں میں لگا لیا۔ یہ ہیومن ریس کے لیے ایک تاریخ ساز لمحہ تھا۔ اگر میں گھبرا جاتا۔ اگر میاں صاحب آنکھ مارنے کا اشارہ نہ سمجھتے تو آج میں یہ سب بتانے کے لیے یہاں نہ ہوتا۔
آپ دیکھیے۔ لوگوں نے میرا مذاق بنا لیا۔ یہ مجھے شوخا پرپل کوٹ والا کہنے لگے۔ یہ میری سیلفیوں پر اعتراض کرنے لگے۔ یہ جانتے نہیں تھے۔ ان کو معلوم نہیں تھا۔ آل ہیومن کائنڈ کو میرا تھینک فل ہونا چاہیے۔
یہ ایک ورلڈ سیونگ سیلفی تھی۔
۔۔۔۔
جعفر حسین
اچانک فون کی بیل بجی۔ سکرین پر "میاں صاحب" کا نام جگمگا رہا تھا۔ میں حیران رہ گیا۔ یہ ایک خلاف معمول بات تھی۔ یہ کبھی گیارہ بجے کے بعد فون نہیں کرتے۔ یہ جانتے ہیں کہ میں ایک جوان جہان آدمی ہوں۔ میری ازدواجی ذمہ داریاں بھی ہیں۔ یہ اس بات کو سمجھتے ہیں اس لیے کبھی مجھے ڈسٹرب نہیں کرتے۔ میں نے کال ریسیو کی۔ یہ بوجھل آواز میں بولے ۔۔۔ "یار جیدے ۔۔ کِی کرئیے۔۔۔ دوویں لڑ پئے نیں؟"۔۔ یہ ایک نازک مرحلہ تھا۔ یہ دنیا کی تاریخ میں میک آر بریک والا معاملہ تھا۔ ایک غلط فیصلہ اس دنیا سے انسانوں کا وجود ہمیشہ کے لیے ختم کر سکتا تھا۔ میں نے فون ٹیبل پر رکھا۔ ایک طویل سانس لی۔ گلاسز اتار کے شیشے صاف کیے۔ کافی کا گھونٹ بھرا۔ فون دوبارہ اٹھایا تو میاں صاحب بولے۔۔" دانشوراں آلی ایکٹنگ بعد اچ کر لئیں۔۔ پہلے میں جو پُچھیا او دس"۔ میں کچّا ہوگیا۔ مجھے شرم آگئی۔ میں نے فورا بات بدل لی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آج آپ نے ڈنر میں کیا کھایا۔ میاں صاحب نے پھر مجھے جگت کرادی کہنے لگے۔۔ چوہدری ای رہ، کلاسرہ نہ بن۔۔۔ میں فورا سنجیدہ ہوگیا۔ میں نے بادشاہ والی کہانی کی آواز بنالی اور یوں گویا ہوا۔۔۔۔ میاں صاحب، تاریخ آپ کی راہ دیکھ رہی ہے۔ عظمت آپ کا انتظار کر رہی ہے۔ عزّت آپ کے لیے نظریں بچھائے کھڑی ہے۔ ہسٹری آپ کو ویلکم کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ مؤرخ سنہری انک والا پین لے کر آپ کا منتظر ہے۔ میاں صاحب نے ایک طویل ہمممممم کیا اور فون بند کردیا۔
یہ ایک سرد صبح تھی۔ بیدار ہونے پر ایسا فِیل ہورہا تھا جیسے سب کچھ فریز ہے۔ اس لیے فریش ہونے کے لیے دو دفعہ کافی پینی پڑی۔ واک کے لیے جوگرز پہنے ہی تھے کہ میاں صاحب کا فون آگیا۔ انہوں نے دس منٹ کے اندر ائیرپورٹ پہنچنے کی ریکویسٹ کی۔ میرا ٹریول بیگ ہمیشہ ریڈی رہتا ہے۔ میں نے بیگ اٹھایا۔ جلدی میں بیگم کا پرپل کوٹ پہنا۔ یہ ایک آنسٹ مسٹیک تھی لیکن اس مسٹیک نے ہسٹری کا دھارا بدل دیا۔ اس کا ذکر آگے آئے گا۔
فلائٹ ٹیک آف کرتے ہی میاں صاحب اور جنرل صاحب میرے پاس تشریف لے آئے۔ یہ ایک اچھی جوڑی ہے۔ دلیپ کمار/مدھو بالا، امیتابھ/ریکھا، انیل کپور/مادھوری، شاہ رخ/کاجل، بدرمنیر/مسرت شاہین، سلطان راہی/انجمن کے بعد شریف/شریف ایسی جوڑی ہے جو سُپر ہٹ ہونے کا پوٹینشل رکھتی ہے۔ یہ ایک دوسرے کو انڈرسٹینڈ اور رسپیکٹ کرتے ہیں۔ یہ سمارٹ بھی ہیں اور ہینڈسم بھی۔ یہ انٹیلیجنٹ بھی ہیں اور انٹلکچوئل بھی۔ یہ ناٹی بھی ہیں اور جولی بھی۔ میاں صاحب نے ادھر ادھر دیکھا اور آہستگی سے اپنی واسکٹ کی جیب سے ایک شاپر نکال کے میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ میں نے شاپر کھولا تو ہر طرف قیمے والے نان کی خوشبو پھیل گئی۔ میاں صاحب جانتے تھے کہ میں نے بریک فاسٹ نہیں کیا۔ آپ ان کے مینرز دیکھیے۔ آپ ان کی کرٹسی ملاحظہ کیجیے۔ ائیرپورٹ آتے ہوئے رستے میں انہوں نے گاڑی رکوا کر چار قیمے والے نان لیے۔ ایک نان جنرل صاحب کو دیا، ایک خود کھایا جبکہ دو نان میرے لیے رکھ لیے۔ یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔ یہ پہلے کسی کو نان کی ہوا نہیں لگواتے تھے۔ یہ کسی کو نان کی ایک بُرکی دینے کے روادار نہیں تھے۔ اب یہ خود ایک نان کھاتے ہیں۔ یہ دو نان دوسروں کو دے دیتے ہیں۔ یہ جان چکے ہیں کہ مل جل کر کھانا برکت کا باعث ہوتا ہے۔
پلین لینڈ کرنے کے بیس منٹ کے اندر ہم پیلس میں پہنچ چکے تھے۔ یہ ایک شاندار عمارت ہے۔ یہ رومن، گوتھک، اٹالین، سپینش اور عربک آرکیٹکچر کا شاہکار ہے۔ اس میں فوارے بھی ہیں اور باغ بھی۔ سوئمنگ پول بھی ہے اور مسجد بھی۔ ہم اس کے مرکزی ہال میں داخل ہوئے تو میزبان نے ہمارا استقبال کیا۔ یہ بہت تپاک سے ملے۔ انہوں نے میری چُمیاں بھی لیں۔ یہ پرپل کوٹ پر بار بار ہاتھ پھیرتے رہے۔ یہ مجھ سے پوچھتے رہے ۔۔ ہذا کوٹ جمیل جدا۔۔ من وین انت حصل ہذا؟۔۔۔ میں ایک دفعہ پھر کچّا ہوگیا۔ یہ ایک نازک صورتحال تھی۔ اگر میں سچ بول دیتا۔ اگر میں بتا دیتا کہ یہ زوجہ کا کوٹ ہے۔یہ میں بائی مسٹیک پہن کے آگیا ہوں تو سوچیے کتنا بڑا بحران پیدا ہوجاتا ہے۔ میزبان غصے میں آجاتا۔ یہ ہم سب کو پیلس سے نکال دیتا۔ دنیا تباہی کے کنارے پر پہنچ جاتی۔ میں نے حواس قائم رکھے۔ میں نے فون نکالا۔ سب کو ریڈی کہا اور ایک سیلفی لے لی۔ سب کا دھیان بٹ گیا۔ میں نے میاں صاحب کو آنکھ ماری۔ انہوں نے میزبان کو باتوں میں لگا لیا۔ یہ ہیومن ریس کے لیے ایک تاریخ ساز لمحہ تھا۔ اگر میں گھبرا جاتا۔ اگر میاں صاحب آنکھ مارنے کا اشارہ نہ سمجھتے تو آج میں یہ سب بتانے کے لیے یہاں نہ ہوتا۔
آپ دیکھیے۔ لوگوں نے میرا مذاق بنا لیا۔ یہ مجھے شوخا پرپل کوٹ والا کہنے لگے۔ یہ میری سیلفیوں پر اعتراض کرنے لگے۔ یہ جانتے نہیں تھے۔ ان کو معلوم نہیں تھا۔ آل ہیومن کائنڈ کو میرا تھینک فل ہونا چاہیے۔
یہ ایک ورلڈ سیونگ سیلفی تھی۔
۔۔۔۔
جعفر حسین