سیلف میڈ یکیشن علاج نہیں یہ خود ایک مرض ہے

محفل پر موجود ( یا کسی بھی ماخذ سے ) صحت کے بارے میں بیان کردہ تراکیب یا ٹوٹکے ، مختلف اقسام کے ہو سکتے ہیں

1-زندگی کے معمولات اور عادات کے حوالے سے حفظان صحت کی تراکیب وغیرہ
2-بیماری لاحق ہونے کے بعد علاجیہ تراکیب جو غذائی، طبیعی ، ایلو پیتھک ، دیسی طب یا ہومیو پیتھک نوعیت کی ہو سکتی ہیں،


میری ذاتی رائے میں بیماری لاحق ہونے کے بعد تو کسی مستند حکیم، ڈاکٹر یا ماہر کے مشورہ سے ہی علاج کرنا چاہے ( ہاں معمولی نوعیت کی بیماری یا ابتدائی طبی امداد یا کسی دیگر ناگزید وجوہات کی بناء ہر اس سے استثناء ہو سکتا ہے )

اس حوالے سے مندرجہ ذیل تحریر

سیلف میڈ یکیشن علاج نہیں یہ خود ایک مرض ہے

کوئی بھی مرض خواہ موسمی نزلہ زکام ہو یا پھر خدانخواستہ کوئی دائمی تکلیف ہو حتی کہ عمومی کمزوری ہی کیوں نہ ہو سب سے پہلے ہمیں اپنے معالج سے رجوع کرنا چاہیئے۔ اگر وہ کوئی ٹیسٹ تجویز کریں تو فوری طور پر ٹیسٹ کرواکر رپورٹ معالج کو دکھانا چاہئے اور بیماری کی تشخیص میں اپنے معالج کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے۔ ممکن ہے یہ مراحل دقت طلب ہوں ، لیکن اس موقع پر مریض اور ان کے اہل خانہ دونوں کو ترجیحی بنیادوں پر ایک دوسرے کے ساتھ بھی اور اپنے معالج سے ذہنی ہم آہنگی کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ صیح تشخیص ، باقاعدگی کے ساتھ مقررہ وقت پر دوائیوں کا استعمال پرہیز اور مظبوط قوت ارادی وہ بنیادہ عوامل ہیں جو کہ چھوٹی بڑی ہر بیماری سے شفا کے حصول میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یقین مانیئے اس طرح زیادہ سے زیادہ صرف مرض کی علامات کو دور کیا جا سکتا ہے اور بس۔

خود علاجی کے نتیجے میں بسا اوقات علامات اس قدر دبا دی جاتی ہیں کہ معمولی امراض بھی برس ہا برس تک مریض کی صحت کو دیمک کی طرح چاٹتے رہتے ہیں اور کسی کو محسوس بھی نہیں ہوتا۔ تا وقتیکہ خدانخواستہ کوئی نقصان دہ صورت حال سامنے آجائے۔ ہمارے معاشرے میں زیادہ تر غریب طبقہ گھریلو ٹوٹکوں کی مدد سے کام چلانے کی کوشش کرتا ہے۔ گھریلو ٹوٹکوں کا کردار بہت ہی ثانوی ہوتا ہے یعنی علاج کے ساتھ ساتھ جزوی قوت اور راحت کا حصول۔ بنیادی حل صرف مستند معالج سے رجوع کرنے میں ہی مضمر ہے۔ یاد رکھئے ڈاکٹر ہماری صحت کے بارے میں بہتر جانتے ہیں۔

مائیں نہ صرف کنبہ بلکہ معاشرے کے اہم ستون کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ماؤں کی جسمانی اور ذہنی صحت ایک صحت مند قوم کی پرورش اور نشو ونما کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ غریب اور متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والی خواتین یا نسبتاً کم تعلیم یافتہ خواتین اس سلسلہ میں زیادہ عدم توجہی کا شکار ہوتی ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ گردونواح پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ مذکورہ طبقات سے تعلق رکھنے والی خواتین کے علاوہ متمول گھرانوں کی اور تعلیم یافتہ اور با شعور خواتین بھی اس سلسلہ میں لا پرواہی برتتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ روایتی طور پر ہمارے ہاں جو سوچ پاچکی ہے وہ یہ ہے کہ ماں ایثار و قربانی کے پیکر کے بھی کچھ بنیادی حقوق ہونے چا ہیں جن میں سب سے اہم ماں کی صحت ہے۔ یوں تو ہمارے ہاں ٹوٹکوں اور گھریلو چٹکلوں پر تو ہم پرستی کی حد تک اعتقاد دیکھنے میں آیا ہے۔ دوسرے درجہ پر (سیلف میڈیکیشن) یعنی خود علاجی جو کہ علاج نہیں بلکہ خود اپنے آپ میں ایک مرض کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ خصوصاً پسماندہ علاقوں میں جہاں صحت کی بنیادی سہولیات کے فقدان کی بین الاقوامی سطع پر اعتراف کیا جاتا ہے ان مسائل کا حل دراصل وسیع پیمانے پر اس شعور اور آگہی کو فروغ دینا ہے کہ کنبہ اور اقوام کی خوشحالی کا دارومدار ان کی صحت پربھی ہوا کرتا ہے۔

سیلف میڈ یکیشن خود علاجی کی ایک اور قسم بھی ہے اور وہ ہے ہومیو پیتھی ، ایلو پیتھی اور طب یونانی وغیرہ کی ہیں۔ دواوں کا معالج کے مشورے کے بغیر استعمال۔ آپ کسی بھی (گیدرنگ) اجتماع میں بیٹھے ہوئےذراہ کسی مرض کا تذکرہ تو کر کے دیکھئے ایسا کم ہی ہوگا کہ کوئی دانشمند آپ کو کسی مستند معالج سے رجوع کرنے کا مشورہ دے اس کے برعکس فوراً کئی لوگ آپ کو اس مرض یا اس سے ملتے جلتے مرض میں استعمال کی گئی تین چار دوائیوں کے نام تجویز کردیں گے اب یہ آپ کی پسند پر منحصر ہے کو خود پر کونسی دوا کا تجربہ کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں آپ کسی بھی فارمیسی یعنی میڈیکل اسٹور پر چلے جائیں بعض جگہوں پر دیکھ گیا ہے کہ لوگ آتے ہیں اپنی یا اہل خانہ کی کسی تکلیف کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات فراہم کرتے ہیں اور جناب وہاں پر موجود اسٹاف سے دوا لے کر استعمال کرنے لگتے ہیں۔ نہ ڈاکٹر کی فیس، نہ اپائنمٹ کا جھنجھٹ نہ کسی لیبارٹری کی زحمت ، ہوگیا مسئلہ حل۔ دیکھا آپ نے بظاہر معمولی نظر آنے والی یہ عادات ہماری صحت اور بسا اوقات زندگی کو بھی بے شمار خطرات کا شکار کرسکتی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری معمولی سے لا پرواہی اور غفلت کس قدر نقصان دہ ہو سکتی ہے۔

تو اس زمن میں میری تمام پڑھنے والو سے گذارش ہے کہ ایک صحتمند زندگی کی جانب قدم بڑھائیں۔ حفظان صحت کے اصولوں پر ہر گز سمجھوتہ نہ کریں۔ جو مرض ہے اُس کے بارے میں مستند معالج سے مشورہ ضرور کریں اور اس کی ہدایت پر باقائدگی سے عمل کریں۔ دیگر مصروفیات جس کا ہم اپنے معیار زندگی بہتر بنانے کے لئے پابند کئے رہتے ہیں ان میں صحت کو اولین ترجیح قرار دیں تب کہیں جا کر ہم ایک خوش و خرم زندگی کا لطف اٹھا سکیں گے۔
 

bilal260

محفلین
شکریہ مفید ترین معلومات کو کاپی پیسٹ کر کے عام عوام تک پہنچانے پراللہ عزوجل اجر عظیم عطا فرمائیں جزاک اللہ خیر۔
 

x boy

محفلین
جزاک اللہ
نزلہ زکام کانسی اور دیگر اسطرح کے مرض سے چھٹکارا پانے کے لئے فورا ڈاکٹر سے نہیں رجوع کریں
انتظار کریں کوئی موسمی بھی ہوسکتا ہے جیسے مجھے نزلہ تھا دودن سے الحمدللہ کچھ دوا نہیں لی
ایکسرسائز زیادہ کیا، ادرگ ہلدی ملاکر گرم دودھ سونے سے پہلے لیا، تیز گرم پانی سے غسل کیا۔
اب بہتر ہے۔
 

bilal260

محفلین
جزاک اللہ
نزلہ زکام کانسی اور دیگر اسطرح کے مرض سے چھٹکارا پانے کے لئے فورا ڈاکٹر سے نہیں رجوع کریں
انتظار کریں کوئی موسمی بھی ہوسکتا ہے جیسے مجھے نزلہ تھا دودن سے الحمدللہ کچھ دوا نہیں لی
ایکسرسائز زیادہ کیا، ادرگ ہلدی ملاکر گرم دودھ سونے سے پہلے لیا، تیز گرم پانی سے غسل کیا۔
اب بہتر ہے۔
ہمارے یہاں دبئی میں اکثر کو نزلہ زکام ہے۔ شکر ہے پاکستان کی نسبت زیادہ سردی نہیں ہے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
سیلف میڈیکیشن پر مجبور بھی کیا جاتا ہے۔ جیسے ہاسپٹل اور ڈاکٹر کی فیس کوئی ادا کرسکتا ہے، کوئی نہیں۔ غربت کو بڑھا کر اس مسئلے کو ہوا دی گئی ہے۔ اگر سب لوگوں کو یہ پیسوں کی کمی کا مسئلہ نہ ہوتا تو شاید سب ہی ڈاکٹر یا طبیب کو ہی اہم سمجھتے۔
 

رحمن ملک

محفلین
آپ کی تحریر بلاشبہ نہایت اچھی اور پرمغز ھے ۔اور ہونا بھی ایسے ہی چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ سے ایک درخواست اور بھی ہے کہ ایسی ہی ایک تحریر آج کل کے ڈاکٹرز کے بارے میں ہونی چاہیے،جو لہ اس مرض(سیلف میڈیکیشن) کا سبب بنتے ہیں۔اور کوئی مریض ان کے ہتھے چڑھ جائے تو اپنی فیس کے ساتھ ساتھ بلاوجہ کے لمبے چوڑے ٹیسٹ لکھ کر دے دئے جاتے ہیں اور ساتھ یہ بھی پابندی لگا دی جاتی ہے کہ ان کی مطلوبہ لیبارٹری سے ہی ٹیسٹ کروایا جائے۔ورنہ ڈاکٹر صاحب کا موڈ بدل جاتا ھے۔اس کا ذاتی تجربہ مجھے بھی ہے ۔2 سال پہلے میری والدہ (اللہ ان کو غریق رحمت کرے)کی بیماری کے سلسلہ میں گوجرنوالہ کے ٹاپ کے ڈاکٹر کے پاس زیرعلاج تھیں۔ان کا لکھا ھوا ٹیسٹ میں نے ایک لیبارٹری سے کروایا ۔جب رزلٹ ڈاکٹر صاحب کے سامنے آیا تو صاحب نے ماننے سے انکار کر دیا ۔جناب مرتے کیا نہ کرتے دوبارہ وہی ٹیسٹ ان کے ہسپتال میں موجود لیبارٹری سے کروایا تو علاج جاری کیا ۔بعد میں معلوم ہوا کہ اس ٹیسٹ میں ڈاکٹر صاحب کا 50٪ حصہ تھا ۔اور لیبارٹری ۔۔۔چغتائی لیب لاھور ۔۔۔۔والے تھے۔جب اتنی اوپر کی سطح پر مریضوں کا استحصال ہو گا تو بتاہیں غریب کہاں جاہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top