طارق شاہ
محفلین
غزلِ
سیماب اکبرآبادی
رہیں گے چل کے کہیں اوراگر یہاں نہ رہے
بَلا سے اپنی جو آباد گُلِستاں نہ رہے
ہم ایک لمحہ بھی خوش زیرِ آسماں نہ رہے
غنیمت اِس کوسَمَجْھیے کہ جاوِداں نہ رہے
ہمیں تو خود چَمن آرائی کا سلیقہ ہے
جو ہم رہے توگُلِسْتاں میں باغباں نہ رہے
شباب نام ہے دل کی شگفتہ کاری کا
وہ کیا جوان رہے جس کا دل جواں نہ رہے
حرم میں، دَیروکلیسا میں، خانقاہوں میں
ہمارے عشق کے چرچے کہاں کہاں نہ رہے
کبھی کبھی، رہی وابستگی قفس سے بھی
رہے چمن میں تو پابندِ آشیاں نہ رہے
فضائے گل ہے نظرکش و مَن ہے دامن کش
کہاں رہے تِرا آوارہ سر، کہاں نہ رہے
بہار جن کے تبسّم میں مُسکراتی تھی
وہ گُلِسْتاں وہ جوانانِ گُلِسْتاں نہ رہے
خدا کے جاننے والے تو خیر کچھ تھے بھی
خدا کے ماننے والے بھی اب یہاں نہ رہے
ہمیں قفس سے کریں یاد پھر چمن والے
جب اور کوئی ہوا خواہِ آشیاں نہ رہے
کِیا بھی سجدہ تو دل سے کِیا نظر سے کِیا
خدا کا شُکر کہ ہم بارِ آستاں نہ رہے
ہےعصرِنَو سے یہ اِک شرط انقلاب کے بعد
ہم اب رہیں جو زمیں پر تو آسماں نہ رہے
براہِ راست تعلّق تھا جن کا منزل سے
وہ راستے نہ رہے اب وہ کارواں نہ رہے
ہَمِیں خرابِ ضعیفی نہیں ہوئے سیماب
ہمارے وقت کے اکثر حَسِیں جواں نہ رہے