طارق شاہ
محفلین
غزل
سیماب اکبر آبادی
ہَمَیں تو یوں بھی نہ جلوے تِرے نظرآئے
نہ تھا حجاب، توآنکھوں میں اشک بھرآئے
ذرا سی دیر میں دُنیا کی سیر کرآئے
کہ لے کے تیری خبر تیرے بے خبرآئے
اسِیر ہونے کے آثار پھر نظرآئے
قفس سے چھوٹ کر آئے تو بال وپرآئے
تجھے ملال ہے ناکامئ نظر کا فضول
نظر میں جو نہ سمائے وہ کیا نظرآئے
وہ جانتا ہے، میں پابندِ رسْم وراہ نہیں
فضول ٹھوکریں کھانے کو راہبرآئے
تمام عمْر یہ ناکامیاں قیامت ہیں
کبھی کبھی تو الٰہی، اُمید بر آئے
جسے تصرفِ تیرِ نظر نہ ہو معلوم
وہ تیرے سامنے لے کے دل و جگرآئے
شریکِ قسمتِ تنہائیِ فراق ہوں میں
اجل بھی کیوں تِرے آنے سے پیشترآئے
بلائے جاں ہے وہ نصفِ شباب کا عالم
کسی حَسِین کی جب زلف تا کمر آئے
نگاہِ جلوہ میں شاید سما گئے سیماب
کہ منتظِر گئے لوٹے تو منتظَر آئے
علامہ سیماب اکبر آبادی
سیماب اکبر آبادی
ہَمَیں تو یوں بھی نہ جلوے تِرے نظرآئے
نہ تھا حجاب، توآنکھوں میں اشک بھرآئے
ذرا سی دیر میں دُنیا کی سیر کرآئے
کہ لے کے تیری خبر تیرے بے خبرآئے
اسِیر ہونے کے آثار پھر نظرآئے
قفس سے چھوٹ کر آئے تو بال وپرآئے
تجھے ملال ہے ناکامئ نظر کا فضول
نظر میں جو نہ سمائے وہ کیا نظرآئے
وہ جانتا ہے، میں پابندِ رسْم وراہ نہیں
فضول ٹھوکریں کھانے کو راہبرآئے
تمام عمْر یہ ناکامیاں قیامت ہیں
کبھی کبھی تو الٰہی، اُمید بر آئے
جسے تصرفِ تیرِ نظر نہ ہو معلوم
وہ تیرے سامنے لے کے دل و جگرآئے
شریکِ قسمتِ تنہائیِ فراق ہوں میں
اجل بھی کیوں تِرے آنے سے پیشترآئے
بلائے جاں ہے وہ نصفِ شباب کا عالم
کسی حَسِین کی جب زلف تا کمر آئے
نگاہِ جلوہ میں شاید سما گئے سیماب
کہ منتظِر گئے لوٹے تو منتظَر آئے
علامہ سیماب اکبر آبادی