سینئر اسرائیلی جرنیل نے مشرق وسطیٰ میں بھرپور جنگ کا خدشہ ظاہر کردیا

arifkarim

معطل
جدہ (شاہد نعیم،نمائندہ جنگ) اسرائیلی اسٹاف پریذیڈنسی کے ایک بڑے جنرل میجر جنرل ایال آئزنبرگ نے مشرقِ وسطیٰ میں بھر پور جنگ کا خدشہ ظاہر کیا ہے،اسرائیلی جنرل کا کہنا ہے کہ یہ جنگ ایران سے لیکر مصر کے صحرائے سینا اور اردن سے لیکر شام ولبنان سمیت غزہ پٹی تک کے علاقے میں ہوگی۔ یہ پورا علاقہ جنگ کی لپیٹ میں ہوگا۔ اس انتباہ نے 1967ء کی جنگ سے قبل والا ماحول اسرائیل میں بر پا کر دیا ہے ۔سعودی جریدے الشرق الاوسط نے کہا ہے کہ آئزنبرگ نے تل ابیب میں لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ حالیہ دنوں میں غزہ پٹی کی دہشتگرد تنظیموں سے ہمیں خطرناک اسلحہ ملے ہیں۔اس بنیاد پر ہم نے عوام کو چوکس رہنے کی ہدایات دی ہیں، انہیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ میزائل حملے سے بچنے کے لئے کسی ایک عمارت کے نیچے جمع ہونے کا اہتمام کریں۔جنرل ایال آئزنبرگ نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل اور ترکی کے درمیان پیدا ہونے والے بحران نیز عرب ممالک میں برپاشورش نے ایسی تشویشناک صورتحال پیدا کر دی ہے جو بھر پور جنگ کی طرف لے جا رہی ہے۔ انہوں کہا کہ ان دنوں جو عرب اقوام میں موسمِ بہار کی باتیں ہو رہی ہیں یہ بہت ممکن ہے انتہا پسند اسلامی موسم سرما میں تبدیل ہو جائے۔ اس سے جنگ کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جائینگے۔ اس جنگ میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار استعمال ہونگے۔
http://urdunews.net/search_details.asp?nid=556558
 

arifkarim

معطل
ویسے اسرائیل جو خطے میں واحد ایٹمی قوت ہے اور نیز جسکو پورے مغرب کی بلاواسطہ حمایت حاصل ہے کو کسی بھی قسم کے اسلامی خطرے سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے؟ :chatterbox:
 

mfdarvesh

محفلین
اسرائیل تو ڈرانے والی بات کررہا ہے اس خبر سے عرب دنیا مذکرات کے لیے بھاگے گی، اسرائیل کب چپ رہا ہے جب چاہا اور جس پہ چاہا حملہ کر دیا، آج ہی مصر والا واقعہ دیکھ لیں
 

ساجد

محفلین
جو حالات مشرق وسطی کے ہیں وہ اسرائیل کی اس دھمکی کا سبب ہیں اور اسرائیل ایسی بے وقوفی فوری نہیں کرنے والا۔ یہ منحصر ہے مصر کی نئی حکومت کے قیام اور ترکی کے ساتھ اس کے تعلقات کے مستقبل پہ۔ خود ہی سوچئیے کہ مصر اور ترکی کے ساتھ جاری مخاصمت کے ہوتے اسرائیل کی اپنی گھیرا بندی کا خطرہ موجود ہے اور یہ دھمکی اس گھیرے میں شگاف ڈلوانے کا نفسیاتی حربہ ہے۔ سعودی عرب کی خاموشی افسوسناک ہے اگر وہ آج کل کے حالات میں اسرائیل کو تھوڑا ٹف ٹائم دے تو اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکہ ، برطانیہ اور فرانس کو بھی مشرق وسطی کے لالے پڑ سکتے ہیں۔ پھر شاید اسرائیل دھمکیوں سے بھی گریز کرے گا۔ سردست یہ نظر آ رہا ہے کہ مصر اسرائیل کے لئیے ایک بڑی پریشانی پیدا کرنے جا رہا ہے اور حسنی مبارک کی رخصتی کے بعد امریکہ بھی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ اسرائیل کی خاطر مصر کا بازو مروڑ سکے۔
 

arifkarim

معطل
سعودی عرب کی خاموشی افسوسناک ہے اگر وہ آج کل کے حالات میں اسرائیل کو تھوڑا ٹف ٹائم دے تو اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکہ ، برطانیہ اور فرانس کو بھی مشرق وسطی کے لالے پڑ سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ اسرائیل امریکہ اور آسٹریلیا کی طرح ایک مغربی کالونی ہے۔ اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسکو کوئی بھی عالمی طاقت جھٹلانے سے قاصر ہے۔ میری یہاں اکثر نارویجن صیہونیوں سے اسرائیل کے بارہ میں بحث و مباحثہ ہوتا ہے۔ انکے مطابق بنی اسرائیل وہ واحد قوم ہے جسکو تاریخی اور تورات کے حساب سے اسرائیل کی زمین کا حق حاصل ہے۔ اولین بات تو یہ ہے کہ تورات ایک مذہبی کتاب ہے کوئی انسانوں کے مابین سیاسی کانٹریکٹ نہیں۔ دوم تاریخی اعتبار سے حضرت سلیمان علیہلسلم کی وفات کے بعد سے لیکر آج تک بنی اسرائیل کبھی بھی حضرت داؤد علیہلسلم والا اسرائیل دوبارہ آباد نہ کرسکے۔ اسکی بنیادی وجہ اس قوم کا آپس میں مختلف قبیلوں میں بٹے ہونا اور دوسرا کبھی بھی اس علاقہ میں دائمی اکثریت کا نہ ہونا ہے۔ حقیقت تو یہ کہ سنہ ؁۱۸۵۰ء سے پہلے تک اس علاقہ میں چند ہزار یہود کے علاوہ باقی سب کے سب عربی مسلمان یا عیسائی تھے۔ یہ تو صیہونی انقلاب کے بعد ہی ہزاروں لاکھوں یورپین یہودیوں کا فلسطین کی جانب ہجرت کرنا ممکن ہوا ہے۔ اور اسرائیل کی بنیاد کے بعد ہی لاکھوں یہودی عرب ممالک سے اسرائیل کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ الغرض پاکستان کی طرح اسرائیل کی بنیاد ایک سیاسی و مذہبی قومی نظریہ صیہونیت پر رکھی گئی۔ فرق صرف اتنا سا ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت جدی پشتی اسی علاقہ کی پیداوار تھی جبکہ اکثر صیہونی قیام اسرائیل کے وقت یورپ سے آئے تھے، اور 1967ء کی جنگ کے بعد زیادہ تر عرب و مسلمان ممالک سے۔ اور چونکہ مغرب ہمیشہ ہی سے دوسری اقوام کی زمین پر قبضہ کا خواہش مند رہا ہے۔ یوں یہ صیہونی فطرت امغربی لوگ ہر صورت اسرائیل کو بچانے کیلئے اقوام متحدہ میں کوشاں رہیں گے۔
پھر شاید اسرائیل دھمکیوں سے بھی گریز کرے گا۔ سردست یہ نظر آ رہا ہے کہ مصر اسرائیل کے لئیے ایک بڑی پریشانی پیدا کرنے جا رہا ہے اور حسنی مبارک کی رخصتی کے بعد امریکہ بھی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ اسرائیل کی خاطر مصر کا بازو مروڑ سکے۔
امریکہ 90 فیصد یہودی لابی اے پیک کے کنٹرول میں ہے۔ یہ لابی عموماً امریکہ کی دوسری بڑی لابی سمجھی جاتی ہے۔ حیرت کی بات یہ کہ امریکہ بہادر جسکی اکثریت غیر یہودیوں پر مشتمل ہے اس قدر یہودی لابی کے شکنجے میں کیوں جکڑا ہے؟ :)
 
Top