سینکڑوں کتّے یا ایک چودھری

nazar haffi

محفلین



بسم اللہ الرّحمٰنِ الرّ حیم


سینکڑوں کتّے یا ایک چودھری


نذر حافی



جرائم پر کیسے قابو پایاجائے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر پاکستانی کے ذہن میں ہر روز کئی مرتبہ اٹھتاہے۔مجرموں کو پکڑنے کے کئی طریقے ہیں ان میں سے ایک طریقہ کتّوں کے ذریعے مجرموں کی تلاش بھی ہے۔ہمارے ایک عزیز دوست سید قمر رضوی کے نے گزشتہ دنوں اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ کتے کا تعلق بھیڑیئے کے خاندان سے ہے یہ تو اچھا ہو اکہ انہوں نے صرف کتّے کا خاندان بتانے پر اکتفا کرلیا اگر وہ اس کا شجرہ نسب بھی بتانے لگتے تو پھر نجانے بات کتنی جلدوں تک پہنچ جاتی۔انہوں نے نہایت ہی اختصار کے ساتھ انتہائی گہرے جملوں میں حقِ قلم ادا کیا ہے ۔یہانتک کہ ایک مقام پر یہ بھی لکھ گئے ہیں کہ کتااس حد تک لالچی ہوتا ہے کہ معمولی اجرت کے عوض اس کا استعمال اسی کے قبیلے کے خلاف کیا جاسکتا ہے۔ برادر قمر رضوی سے پہلے پطرس بخاری، مولوی نظیر احمد اور فیض جیسے ادیب بھی سماج کو سدھارنے کے لئے اپنی تحریروں میں کتّوں کا بے دریغ استعمال کرچکے ہیں۔ یاد رہے کہ میرا تعلق ان لوگوں سے ہے جن کے نزدیک کتا ایک بھولا بھالا،سیدھا سادھا اور وفادار جانور ہےالبتہ اس کی حماقتوں نے اسے بدنام کر رکھا ہے۔ ہمارے ہاں کتّے کی مقبولیّت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ ہمارے ملک کی اہم ترین شخصیات میں سے بعض کتوں کے ساتھ تصویریں بنوا نے میں فخر محسوس کرتی ہیں اور بعض کتوں کو شہید کا درجہ دیتی ہیں۔اگر اس کے باوجود آپ کا دل کتوں کی طرف سے صاف نہ ہو تو پھر آپ کسی گاوں کے "چودھری صاحب" کی داستان پڑھنی شروع کردیں۔آپ کو اس داستان سے کتّے کی بہت ساری ایسی خوبیاں پتہ چلیں گی کہ آپ دنگ رہ جائیں گے۔ داستانوں میں کتّا کبھی چودھری کو مایوس نہیں کرتا ،جب بھی چودھری آواز دیتا ہےکتا بجلی کی طرح پہنچتا ہے،جدھر اشارہ کرتا ہے یہ دوڑ کر جاتا ہے۔صرف اسے کاٹتا ہے جسے کاٹنے کا چودھری نے حکم دیا ہو ورنہ دور سے صرف دھمکاتا رہتاہے۔


داستان میں سنسنی خیز لمحہ وہ ہوتا ہے کہ جب کتّے سے بچنے کے لئے کوئی شخص بھاگتا ہوا"چودھری صاحب" کے ہاں پہنچتا ہے اور پھر چودھری صاحب مظلوم کی مدد کا نعرہ لگاتے ہوئے مار مار کربیچارے کتے کے بخیئے ادھیڑ دیتے ہیں۔۔۔اس وقت کتا واقعی بیچارہ لگتاہے اگر یہ چودھری صاحب کے اشارے کے مطابق حملہ نہ کرے تونمک حرامی کے الزام میں چودھری صاحب اس پر پابندیاں لگا کر اس کا کھانا پینا بند کر دیتے ہیں اور اگر حملہ کرتا ہے تو مظلوم کی امداد کے نام پر چودھری صاحب کے ہاتھوں کتے کی پٹائی ہوتی ہے۔ لوگ کتے کی پٹائی ہوتے دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ چودھری صاحب تو بہت اچھے آدمی ہیں بلکہ عام انسانوں یعنی انسانیت کے ہمدرد ہیں ۔اگرچودھری صاحب نہ ہوں تو کتا سب کو چیر پھاڑ ڈالے۔چنانچہ وہ اپنی زمینوں کی رگوں سے ذخائر نچوڑ نچوڑ کر چودھری صاحب کے قدموں میں ڈھیر کرتے جاتے ہیں اور ساتھ ساتھ کتے سے حفاظت کرنے پر چودھری صاحب کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں۔


چودھری اور کتے کا کھیل ہمارے ملک میں کئی سالوں سے جاری ہے ۔آپ جب بھی ریڈیوآن کریں یا ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھیں تو آپ کووطن عزیز کے کونے کونے سے آہ وفغاں کی صدائیں سنائی دیں گی۔کہیں پولیس مقابلے،کہیں مختلف قبائل پرلشکر کشی ،کہیں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن ،کہیں باغی مظاہرین پرلاٹھی چارج ،کہیں فرقہ وارانہ دہشت گردی، کہیں ٹرانسپورٹروں کی ہڑتال،کہیں طالب علموں کے نعرے،کہیں تاجروں کا احتجاج اورکہیں ڈرون حملے دیکھنے کو ملیں گے۔لیکن یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے اور کون کروا رہا ہے اس کا کچھ پتا نہیں ۔ہماری عوام ہمیشہ کی طرح بے خبر ہے۔


ہمیں سمجھ آنی بھی نہیں چاہیے چونکہ ہم لوگ بنی بنائی فلمیں دیکھ رہے ہیں،ہمیں میڈیا وہی کچھ دکھاتاہے جو ہمارے سرکاری چودھری باقاعدہ منصوبہ بندی سے تیار کرواتے ہیں۔حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہمیں پسِ سکرین جانا ہوگا تاکہ اصل چہرے نظر آئیں اور پتہ چلے کہ پردے کے پیچھے بیٹھ کر کہانی کو ن لکھ رہا ہے؟پروڈیوسر کون ہے؟ ڈائر یکٹرکون ہے؟ اداکار کون کون سے ہیں؟جب اصل چہرے ہم نے دیکھ لیے تو پھر ہمیں اپنے ملک میں آگ اور خون کے ڈرامے کی حقیقت سمجھ میں آجائے گی۔


سوچنے کی بات ہے کہ کیا خود کش دھماکے کرنے والے آسمان سے نازل ہوتے ہیں؟ کیا شدت پسند گھاس پھوس کی طرح خود بخود اُگتے ہیں؟کیا فوجی آپریشن میں مارے جانے والے ماں کی کوکھ سے ہی دہشت گرد پیدا ہوئے تھے؟


ہم یہ مانتے ہیں کہ خود کش دھماکے کرنے والے عوام کے دشمن ہیں ۔۔۔یہ بھی ٹھیک ہے کہ فرقہ واریت کا پر چار کرنے والے مذہب و ملت کے دشمن ہیں ۔۔۔ یہ بات بھی معقول ہےکہ کہ منشیات فروش کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔


لیکن دینی مدارس کو دہشت گردی کے کیمپوں میں تبدیل کرنے والے،دہشت گردوں کو ٹریننگ دینے والے اورجہاد جیسے مقدس فریضے کو امریکہ کی خوشنودی کے لئے استعمال کرنے والے سرکاری و غیر سرکاری ادارے،مولوی اور جرنیل بھی تو ان جرائم میں برابر کے شریک ہیں۔دہشت گرد اور دھماکے تو سکرین پر چلنے والی کہانی کا حصہ ہیں اصلی ہاتھ تو پس سکرین ہیں۔جو پیسے لے کر کسی کو قتل کرتا ہے یا کہیں پر دھماکہ کرتاہے اگر وہ سزائے موت کا حقدار ہے تو پھر وہ جو ٹریننگ،ڈالر اور ریّال دے کر یہ سب کچھ کرواتے ہیں وہ بھی تو موت کے حقدار ہیں۔اگر کتا موت کا مستحق ہے تو چودھری بھی تو موت کا ہی حقدار ہے۔چونکہ کتاسب کچھ چودھری کے کہنے پر ہی کرتاہے۔


کہتے ہیں کہ ایران والوں کو بھی ایک چودھری نے اپنے کتوں کی مددسے دبا رکھا تھا لیکن ۱۹۷۹ء میں ۱۱فروری کو جب ایران والے اپنے اپنے گھروں سے لاٹھیاں لیکر نکلے تو چودھری کو اپنے کتوں سمیت ایران سے بھاگنا پڑا۔اگر ہم بھی ان جرائم اور مسائل سے نجات چاہتے ہیں تو ہمیں اچھی طرح سے جان لینا چاہیے کہ کتوں کو مارنے سے جرائم نہیں رُکتے ۔لہذا ضروری ہے کہ "چودھری کو کتے کی موت مارا جائے"۔ہماری اپنی عوام سے گزارش ہے کہ سینکڑوں کتوں کو مارنے کے بجائے اپنی وحدت ،اجتماعی شعوراور بیداری کے ساتھ صرف ایک چودھری کو کتے کی موت مارئیے اور پھر دیکھئے کہ جرائم رکتے ہیں یا نہیں۔



 

nazar haffi

محفلین
عرفی تو میندیش ز غوغائے رقیباں
آوازِ سگاں کم نہ کند رزقِ گدارا
 
آخری تدوین:
Top