طارق شاہ
محفلین
غزلِ
سیّد فخرالدّین بلے
ہے آب آب موج بِپھرنے کے باوجُود
دُنیا سِمٹ رہی ہے بِکھیرنے کے باوجُود
راہِ فنا پہ لوگ سدا گامزن رہے
ہر ہر نفَس پہ موت سے ڈرنے کے باوجُود
اِس بحرِ کائِنات میں ہر کشتیِ انا
غرقاب ہوگئی ہے اُبھرنے کے باوجُود
شاید پڑی ہے رات بھی سارے چمن پہ اوس
بھیگے ہُوئے ہیں پُھول نِکھرنے کے باوجُود
زیرِ قدم ہے چاند، سِتارے ہیں گردِ راہ
دھرتی پہ آسماں سے اُترنے کے باوجُود
طوُفان میں ڈُوب کر یہ ہُوا مجھ پہ مُنکشف
پانی تھی صِرف، موج بِپھرنے کے باوجُود
میں اُس مقام پر تو نہیں آگیا کہِیں
ہوگی نہ صُبح رات گُزرنے کے باوجُود
الفاظ و صوت و رنج و تصوّر کے رُوپ میں
زِندہ ہیں لوگ آج بھی، مرنے کے باوجُود
اِبہامِ آگہی سے میں اپنے وجُود کا
اِقرار کر رہا ہُوں مُکرنے کے باوجُود
سیّد فخرالدّین بلے
سیّد فخرالدّین بلے
ہے آب آب موج بِپھرنے کے باوجُود
دُنیا سِمٹ رہی ہے بِکھیرنے کے باوجُود
راہِ فنا پہ لوگ سدا گامزن رہے
ہر ہر نفَس پہ موت سے ڈرنے کے باوجُود
اِس بحرِ کائِنات میں ہر کشتیِ انا
غرقاب ہوگئی ہے اُبھرنے کے باوجُود
شاید پڑی ہے رات بھی سارے چمن پہ اوس
بھیگے ہُوئے ہیں پُھول نِکھرنے کے باوجُود
زیرِ قدم ہے چاند، سِتارے ہیں گردِ راہ
دھرتی پہ آسماں سے اُترنے کے باوجُود
طوُفان میں ڈُوب کر یہ ہُوا مجھ پہ مُنکشف
پانی تھی صِرف، موج بِپھرنے کے باوجُود
میں اُس مقام پر تو نہیں آگیا کہِیں
ہوگی نہ صُبح رات گُزرنے کے باوجُود
الفاظ و صوت و رنج و تصوّر کے رُوپ میں
زِندہ ہیں لوگ آج بھی، مرنے کے باوجُود
اِبہامِ آگہی سے میں اپنے وجُود کا
اِقرار کر رہا ہُوں مُکرنے کے باوجُود
سیّد فخرالدّین بلے