نیرنگ خیال
لائبریرین
مجھے اس حقیقت کا اچھے سے احساس ہے کہ گزشتہ برسوں سے میرا قلم جمود کا شکار ہے۔ اور باوجود کوشش کے میں کچھ اچھا برا لکھنے سے قاصر ہی رہا ہوں۔ چند برس قبل نئے سال پر ایک تحریر لکھنے کا کام شروع کیا تھا۔ گزشتہ برس وہ بھی نہ لکھ سکا۔ خیر اس برس کے آغاز پر ایک تحریر کسی طرح لکھنے میں کامیاب رہا ہوں۔ بقول ظہیر بھائی! گر قبول افتد زہے عزوشرف
اماں کا اصل کمال یہ تھا کہ گھر بھر سنبھالنے کے باوجود وہ ہماری تربیت کی طرف سے ایک لمحہ نہ چوکتی تھیں، ہمیں مصروف رکھنے کو طرح طرح کے کھیل اور کام تراشتی رہتی تھیں، سونے سے پہلے ہمیں انبیاء و صحابہ کرام کے قصے اور واقعات سنائے جاتے تھے۔ مجھے یہ ماننے میں عار نہیں کہ ابھی تک میرا اسلامی علم میری ماں کےدیے علم سے نہیں بڑھ سکا۔ جب ہم تھوڑے سے بڑے ہوئے یعنی پہلی دوسری جماعت میں داخل ہوئے تو اماں نے ہمارے لیے ایک کھیل تراشا۔ کھیل کا نام تھا سیکرٹ فرینڈ۔
کھیل کے آغاز میں ہم بہن بھائیوں کے نام لکھ کر پرچیاں ڈالی جاتی۔ جس کے پاس دوسرے بہن بھائی کا نام آتا۔ وہ اس کا سیکرٹ فرینڈ ہوتا تھا۔ سیکرٹ فرینڈ کو درج ذیل فرائض سرانجام دینے ہوتے تھے۔
جس کا وہ سیکرٹ فرینڈ ہے، اس کی ہر حال میں مدد کرے۔ لیکن مدد ایسے کی جائے کہ کسی کو یہ پتا نہ چلے کہ یہ اس کا سیکرٹ فرینڈ ہے۔
اگر وہ نماز بھول رہا ہے تو اس کو نماز کی یاد دہانی کروائے، لیکن ایسے کہ کسی کو طنز کا احساس نہ ہو۔ اس کا طریقہ ہم نے یہ نکالا تھا کہ جب پتا چلتا کہ جس کے ہم سیکرٹ فرینڈ ہیں، اس نے نماز نہیں پڑھی، تو ایسے ہی بلندآواز میں نعرہ مستانہ لگاتے، "بھئی! ہم تو نماز پڑھے بیٹھےہیں۔۔۔ آہاا۔۔۔ ہمارے لیے فرصت ہی فرصت ہے۔" یا اس سے ملتے جلتے اور جملے۔
اسکول کے کام میں کسی کو پینسل ، شاپنر یا ربر کی ضرورت ہے تو ہر ایک بھاگ بھاگ کر اس بہن بھائی کی مدد کی کوشش کرتا۔
جس کے آپ سیکرٹ فرینڈ ہیں، اس کے روز مرہ کے معمولات سرانجام دینے میں اس کی مدد کریں، جیسے یونیفارم کا استری کرنا، جوتوں کا پالش کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اس کا سلسلہ ہم یہ کرتے کہ کوئی ایک سب کے یونیفارم استری کر دیتا۔۔۔ اور کوئی سب کے جوتے پالش کر دیتا۔۔ تاکہ یہ نہ پتا چلے کہ اصل میں وہ کس کا سیکرٹ فرینڈ ہے۔
حاضری نماز پر تمام تفصیلات آپ کی ذاتی ایمانداری پر ہی منحصر تھیں، اور اگر آپ نے نماز پڑھے بغیر بھی کہہ دیا کہ نماز پڑھ لی ہے، تو کوئی آپ سے اس معاملے میں بحث نہیں کر سکتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ہم ایمانداری سے اپنی نماز کی غیر حاضریاں بھی خود ہی لگا دیا کرتے تھے۔
نیکیوں، نمازوں اور بھلائیو ں کے اس مقابلے میں صرف مدد ہی سب کچھ نہ تھی۔ درج ذیل افعال سے اجتناب لازم تھا، ورنہ نمبر کٹ جاتے تھے۔
آپ کسی کی شکایت نہیں کر سکتے۔
آپ کسی سے جھگڑا یا غصہ نہیں کر سکتے۔
آپ کے ساتھ اگرکوئی زیادتی ہوئی ہے تو آپ اس معاملے کو نرم مزاجی اور معاملہ فہمی سے ازخود حل کرنے کی کوشش کریں، اور والدین کو معاملے میں شامل کرنے سے حتی الوسع گریز کریں۔
اماں کا فیصلہ آخری اور حتمی ہے۔ اس کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
انعامات کا لالچ ہمیں یہ سب کھیل کھیلنے پر مجبور کرتا رہا۔ پھر انعام بھی ایسے نہ تھے کہ کوئی کھلونے آگئے۔ بلکہ ہمارے انعامات بھی ضرورت کی چیزیں ہوتی تھیں۔ جیسے کسی کو قلم کی ضرورت ہے یا کسی کا بستہ پھٹا ہے۔ تو اس کو وہ مل جاتے۔ امتحانات میں پیپر رکھنے کے لیے جو بورڈ ہوتا ہے۔ وہ نیا مل جاتا۔ تیسرے نمبر پر آنے والے کا انعام پہلے نمبر پر آنے والے سے زیادہ قیمتی ہو سکتا تھا۔ اور کسی کو بھی اس پر اعتراض نہ ہوتا تھا۔ کیوں کہ وہ اس کی ضرورت کی چیز ہوتی تھی۔ ہماری ضروریات کی چیزوں کا ہی انعام مل جانا ہمارے لیے باعث اطمئنان تھا۔چند برس اس کھیل کو کھیلنے کے بعد اماں نے یہ کھیل متروک کر دیا۔ ہمارے لیے اور کھیل ڈھونڈ لیے۔ میں نے کھیل کود کی بجائے سبزیوں اور پودوں کی کاشت کو اپنا مشغلہ بنا لیا۔
لیکن اس کھیل کے اصل ثمرات آج میری زندگی کا حصہ ہیں۔۔ ہمیں معلوم ہی نہ تھا کہ اس کھیل میں اماں ہماری شخصیت کی بنیادیں اٹھا رہی ہے۔ وہ مضبوط بنیادیں، جن پر چل کر ہم اپنے آپ سے مطمئن رہیں گے۔چاہ کر بھی حسد ہمارے اندر نہ اتر سکے گا۔ ہمارے در و دیوار اس قدر مضبوط ہوں گے کہ باہر کی ہر یلغار روکنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے۔ صرف وہ چیزیں ہمارے اندر سرایت کریں گے جن کو پرکھ کر ہم خود شامل کرنا چاہیں گے۔ میں پہلے نمبر پر آکر بھی تیسرے نمبر پر آنے والے کے قیمتی انعام سے جلتا نہیں ہوں۔ کیوں کہ دل کے اندر یہ یقین ہے کہ ہر شخص اپنی ضرورت کا صلہ پاتا ہے۔ میں کسی کی شکایت نہیں کرنا چاہتا۔ میں کسی کے کام آسکوں تو آنا چاہتا ہوں، لیکن اس کا ڈھنڈورا نہیں پیٹنا چاہتا۔ آج بھی جتنے ہی مشکل حالات میں ہوں، میری کوشش ہوتی ہے کہ معاملات کو اپنی فہم سے ہی سلجھاؤں اور حتی الوسع کسی اور کو اس معاملے میں شامل کرنے کی کوشش نہ کروں۔ فیصلہ لینے کی عادت ہے مجھے۔ اچھا یا برا۔۔۔۔ وہ تو تجربات سے انسان سیکھتا ہے
لیکن اس سب کے ساتھ جس چیز کی کمی مجھے شدت سے محسوس ہوتی ہے وہ یہ کہ سیکرٹ فرینڈز اب میرے معاشرے میں ناپید ہو چکے ہیں۔ کہیں کوئی چہرہ نظر نہیں آتا۔ پہلے کوئی بچہ گرنے لگتا تھا، تو کہیں سے ایک بازو ایکا ایکی گرتے بچے کو تھام لیتا تھا، اور پھر اس کے یا اس کے ماں باپ کے شکریہ ادا کرنے سے پہلے ہی وہ چہرہ بھیڑ میں گم ہوتا چلا جاتا تھا۔ کسی سے ٹکرا جاؤ، تو وہ بنا کچھ کہے کمر تھپک کر آگے نکل جاتا تھا۔ رک کر آپ کی آنکھوں کی شان میں قصیدہ نہیں پڑھنے لگتا تھا۔ سردیوں کی ٹھٹھرتی شاموں میں کسی کانپتے فقیر یا فٹ پاتھ پر بیٹھے بےگھر شخص پرکوئی اپنی چادر یا جیکٹ ڈال دیتا تھا۔ اور اس کے شکریہ ادا کرنے سے پہلے وہ سیکرٹ فرینڈ دور جا چکا ہوتا تھا۔ وہ سیکرٹ فرینڈز عورتیں جو ہمسائیوں کے حال جانتی تھیں، اور شام کو بہانے سے ضرورت مند کے گھر کھانا دے آیا کرتی تھیں۔ کسی کے گھر اگر کوئی وفات ہوتی تھی، تو ہمسائے بنا کہے، اس کے گھر کا تین دن کے لیے خرچہ اٹھا لیا کرتے تھے کہ پسماندگان سوگ میں ہیں۔ کبھی راہ چلتے لڑکوں کےگروہ کو قہقہے لگاتے دیکھ کر اب کوئی شخص ساتھ گزرتے کسی دوسرے سے یہ نہیں کہتا۔۔۔ میچ جیت کر آئے لگتے ہیں۔ جنازے کو جاتا دیکھ کر رکتے ہوئےقدم اور دعا کے لیے ہلتے لب کہیں نظر نہیں آتے۔ قبرستان کے باہر سے گزرتے ہوئے گاڑی میں چلتا ہوا میوزک آہستہ نہیں ہوتا۔ اذان کی آواز سن کر بےنمازیوں کےبھی رکتے قدم ناپید ہوگئے ہیں۔ کسی امیر کا تذکرہ کسی غریب کی زبان سے فخر سے بیان ہوتا اب نظر نہیں آتا۔ کسی کم حثیت رشتے دار کی آمد پر اس کے سامنے بچھتے ہوئے خاندان کے افراد نظر آنا بند ہوگئے ہیں۔مجھے اب خفیہ ویڈیوز میں لوگوں کی مدد کرتے لوگ تو نظر آتے ہیں، جن کے پیچھے پیچھے خفیہ کیمرہ مین ان کی نیکیوں کو ریکارڈ کرنے میں مصروف ہوتا ہے لیکن بہت کوشش بسیار کے باوجود سیکرٹ فرینڈز ڈھونڈنے میں ناکام ہوتا جا رہا ہوں۔ لگتا ہے اب سب واقعی سیکرٹ ہو چکے ہیں۔
از قلم نیرنگ خیال
۱ جنوری ۲۰۲٣
گزشتہ برسوں کے آغاز و اختتام پر لکھی گئی تحاریر
یکم جنوری ۲۰۲۱ کو لکھی گئی تحریر "یہ ہو تم"
یکم جنوری ۲۰۲۰ کو لکھی گئی تحریر "دو باتیں"
یکم جنوری 2019 کو لکھی گئی تحریر "کچھ آگہی کی سبیلیں بھی ہیں انتشار میں"
یکم جنوری 2018 کو لکھی گئی تحریر "تتلیاں"
یکم جنوری 2017 کو لکھی گئی تحریر "عجب تعلق"
یکم جنوری 2016 کو لکھی گئی تحریر "اوستھا"
2 جنوری 2015 کو لکھی گئی تحریر "سال رفتہ"
31 دسمبر 2013 کو لکھی گئی تحریر" کہروا"
سیکرٹ فرینڈ
ہمارے گھر میں اماں مصروف ترین ہستی تھیں اور ہیں۔ آج تک اماں کو فارغ نہیں دیکھا۔ کچھ نہ کچھ کیے جا رہی ہوتی ہیں۔پہلے اور اب بھی صبح فجر سے پہلے اٹھتی ہیں۔ ہمارے بچپنے میں اٹھتے ہی بھینسوں کا دودھ دوہ کر ان کو چارہ ڈال دیتی تھیں۔ دودھ ابلنا رکھ کر صحن میں جھاڑو لگاتی تھیں۔ اتنی دیر میں فجر کی اذان شروع ہوجاتی تھی۔ اماں نماز پڑھتی تھیں۔ چائے چڑھانے کے بعد ہم سب کو اٹھایا جاتا تھا۔ ہم طوہا و کرہا اٹھتے تھے۔ نماز پڑھ کر قرآن لیکر بابا کے پاس بیٹھ جاتے تھے۔ لیکن آنکھیں چولہے پر چڑھی چائے کی کیتلی میں دھنسی رہتی تھیں۔ قرآں میں لفظ "ما" آجاتا تو بابا کڑک کر کہتےہیں یہ ماں نہیں ہے۔ اس کو "ما" پڑھو۔ پھر پڑھو۔ یہ منظر ہرروز دہرایا جاتا تھا سوائے اس دن کے، جس دن بابا زمینوں پر گئے ہوئے ہوتے تھے اور ہماری قرآن پڑھنے سے چھٹی ہوتی تھی۔ بابا نے ہمیں قرآن پڑھایا نہیں۔ ہمارے اندر اتار دیا۔لفظوں کی ہئیت بنت اور معانی۔۔۔ ایسے دل و دماغ میں اترے کہ اکثر ترجمہ پڑھے بغیر ہی پتا ہوتا ہے کہ اس آیت کے کیا معانی ہیں۔ اور اماں نے اپنی پسند و ناپسند ہمارے اندر اتار دی۔ بابا ہمیں کم کم میسر ہوتے تھے۔ لیکن اماں ہمہ وقت۔ ہماری تربیت گاہ، ہماری درس گاہ، ہماری جائے پناہ۔۔۔ سب کچھ اماں ہی تھی ، اماں ہی ہے۔
اماں کا اصل کمال یہ تھا کہ گھر بھر سنبھالنے کے باوجود وہ ہماری تربیت کی طرف سے ایک لمحہ نہ چوکتی تھیں، ہمیں مصروف رکھنے کو طرح طرح کے کھیل اور کام تراشتی رہتی تھیں، سونے سے پہلے ہمیں انبیاء و صحابہ کرام کے قصے اور واقعات سنائے جاتے تھے۔ مجھے یہ ماننے میں عار نہیں کہ ابھی تک میرا اسلامی علم میری ماں کےدیے علم سے نہیں بڑھ سکا۔ جب ہم تھوڑے سے بڑے ہوئے یعنی پہلی دوسری جماعت میں داخل ہوئے تو اماں نے ہمارے لیے ایک کھیل تراشا۔ کھیل کا نام تھا سیکرٹ فرینڈ۔
کھیل کے آغاز میں ہم بہن بھائیوں کے نام لکھ کر پرچیاں ڈالی جاتی۔ جس کے پاس دوسرے بہن بھائی کا نام آتا۔ وہ اس کا سیکرٹ فرینڈ ہوتا تھا۔ سیکرٹ فرینڈ کو درج ذیل فرائض سرانجام دینے ہوتے تھے۔
جس کا وہ سیکرٹ فرینڈ ہے، اس کی ہر حال میں مدد کرے۔ لیکن مدد ایسے کی جائے کہ کسی کو یہ پتا نہ چلے کہ یہ اس کا سیکرٹ فرینڈ ہے۔
اگر وہ نماز بھول رہا ہے تو اس کو نماز کی یاد دہانی کروائے، لیکن ایسے کہ کسی کو طنز کا احساس نہ ہو۔ اس کا طریقہ ہم نے یہ نکالا تھا کہ جب پتا چلتا کہ جس کے ہم سیکرٹ فرینڈ ہیں، اس نے نماز نہیں پڑھی، تو ایسے ہی بلندآواز میں نعرہ مستانہ لگاتے، "بھئی! ہم تو نماز پڑھے بیٹھےہیں۔۔۔ آہاا۔۔۔ ہمارے لیے فرصت ہی فرصت ہے۔" یا اس سے ملتے جلتے اور جملے۔
اسکول کے کام میں کسی کو پینسل ، شاپنر یا ربر کی ضرورت ہے تو ہر ایک بھاگ بھاگ کر اس بہن بھائی کی مدد کی کوشش کرتا۔
جس کے آپ سیکرٹ فرینڈ ہیں، اس کے روز مرہ کے معمولات سرانجام دینے میں اس کی مدد کریں، جیسے یونیفارم کا استری کرنا، جوتوں کا پالش کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اس کا سلسلہ ہم یہ کرتے کہ کوئی ایک سب کے یونیفارم استری کر دیتا۔۔۔ اور کوئی سب کے جوتے پالش کر دیتا۔۔ تاکہ یہ نہ پتا چلے کہ اصل میں وہ کس کا سیکرٹ فرینڈ ہے۔
حاضری نماز پر تمام تفصیلات آپ کی ذاتی ایمانداری پر ہی منحصر تھیں، اور اگر آپ نے نماز پڑھے بغیر بھی کہہ دیا کہ نماز پڑھ لی ہے، تو کوئی آپ سے اس معاملے میں بحث نہیں کر سکتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ہم ایمانداری سے اپنی نماز کی غیر حاضریاں بھی خود ہی لگا دیا کرتے تھے۔
نیکیوں، نمازوں اور بھلائیو ں کے اس مقابلے میں صرف مدد ہی سب کچھ نہ تھی۔ درج ذیل افعال سے اجتناب لازم تھا، ورنہ نمبر کٹ جاتے تھے۔
آپ کسی کی شکایت نہیں کر سکتے۔
آپ کسی سے جھگڑا یا غصہ نہیں کر سکتے۔
آپ کے ساتھ اگرکوئی زیادتی ہوئی ہے تو آپ اس معاملے کو نرم مزاجی اور معاملہ فہمی سے ازخود حل کرنے کی کوشش کریں، اور والدین کو معاملے میں شامل کرنے سے حتی الوسع گریز کریں۔
اماں کا فیصلہ آخری اور حتمی ہے۔ اس کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
انعامات کا لالچ ہمیں یہ سب کھیل کھیلنے پر مجبور کرتا رہا۔ پھر انعام بھی ایسے نہ تھے کہ کوئی کھلونے آگئے۔ بلکہ ہمارے انعامات بھی ضرورت کی چیزیں ہوتی تھیں۔ جیسے کسی کو قلم کی ضرورت ہے یا کسی کا بستہ پھٹا ہے۔ تو اس کو وہ مل جاتے۔ امتحانات میں پیپر رکھنے کے لیے جو بورڈ ہوتا ہے۔ وہ نیا مل جاتا۔ تیسرے نمبر پر آنے والے کا انعام پہلے نمبر پر آنے والے سے زیادہ قیمتی ہو سکتا تھا۔ اور کسی کو بھی اس پر اعتراض نہ ہوتا تھا۔ کیوں کہ وہ اس کی ضرورت کی چیز ہوتی تھی۔ ہماری ضروریات کی چیزوں کا ہی انعام مل جانا ہمارے لیے باعث اطمئنان تھا۔چند برس اس کھیل کو کھیلنے کے بعد اماں نے یہ کھیل متروک کر دیا۔ ہمارے لیے اور کھیل ڈھونڈ لیے۔ میں نے کھیل کود کی بجائے سبزیوں اور پودوں کی کاشت کو اپنا مشغلہ بنا لیا۔
لیکن اس کھیل کے اصل ثمرات آج میری زندگی کا حصہ ہیں۔۔ ہمیں معلوم ہی نہ تھا کہ اس کھیل میں اماں ہماری شخصیت کی بنیادیں اٹھا رہی ہے۔ وہ مضبوط بنیادیں، جن پر چل کر ہم اپنے آپ سے مطمئن رہیں گے۔چاہ کر بھی حسد ہمارے اندر نہ اتر سکے گا۔ ہمارے در و دیوار اس قدر مضبوط ہوں گے کہ باہر کی ہر یلغار روکنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے۔ صرف وہ چیزیں ہمارے اندر سرایت کریں گے جن کو پرکھ کر ہم خود شامل کرنا چاہیں گے۔ میں پہلے نمبر پر آکر بھی تیسرے نمبر پر آنے والے کے قیمتی انعام سے جلتا نہیں ہوں۔ کیوں کہ دل کے اندر یہ یقین ہے کہ ہر شخص اپنی ضرورت کا صلہ پاتا ہے۔ میں کسی کی شکایت نہیں کرنا چاہتا۔ میں کسی کے کام آسکوں تو آنا چاہتا ہوں، لیکن اس کا ڈھنڈورا نہیں پیٹنا چاہتا۔ آج بھی جتنے ہی مشکل حالات میں ہوں، میری کوشش ہوتی ہے کہ معاملات کو اپنی فہم سے ہی سلجھاؤں اور حتی الوسع کسی اور کو اس معاملے میں شامل کرنے کی کوشش نہ کروں۔ فیصلہ لینے کی عادت ہے مجھے۔ اچھا یا برا۔۔۔۔ وہ تو تجربات سے انسان سیکھتا ہے
لیکن اس سب کے ساتھ جس چیز کی کمی مجھے شدت سے محسوس ہوتی ہے وہ یہ کہ سیکرٹ فرینڈز اب میرے معاشرے میں ناپید ہو چکے ہیں۔ کہیں کوئی چہرہ نظر نہیں آتا۔ پہلے کوئی بچہ گرنے لگتا تھا، تو کہیں سے ایک بازو ایکا ایکی گرتے بچے کو تھام لیتا تھا، اور پھر اس کے یا اس کے ماں باپ کے شکریہ ادا کرنے سے پہلے ہی وہ چہرہ بھیڑ میں گم ہوتا چلا جاتا تھا۔ کسی سے ٹکرا جاؤ، تو وہ بنا کچھ کہے کمر تھپک کر آگے نکل جاتا تھا۔ رک کر آپ کی آنکھوں کی شان میں قصیدہ نہیں پڑھنے لگتا تھا۔ سردیوں کی ٹھٹھرتی شاموں میں کسی کانپتے فقیر یا فٹ پاتھ پر بیٹھے بےگھر شخص پرکوئی اپنی چادر یا جیکٹ ڈال دیتا تھا۔ اور اس کے شکریہ ادا کرنے سے پہلے وہ سیکرٹ فرینڈ دور جا چکا ہوتا تھا۔ وہ سیکرٹ فرینڈز عورتیں جو ہمسائیوں کے حال جانتی تھیں، اور شام کو بہانے سے ضرورت مند کے گھر کھانا دے آیا کرتی تھیں۔ کسی کے گھر اگر کوئی وفات ہوتی تھی، تو ہمسائے بنا کہے، اس کے گھر کا تین دن کے لیے خرچہ اٹھا لیا کرتے تھے کہ پسماندگان سوگ میں ہیں۔ کبھی راہ چلتے لڑکوں کےگروہ کو قہقہے لگاتے دیکھ کر اب کوئی شخص ساتھ گزرتے کسی دوسرے سے یہ نہیں کہتا۔۔۔ میچ جیت کر آئے لگتے ہیں۔ جنازے کو جاتا دیکھ کر رکتے ہوئےقدم اور دعا کے لیے ہلتے لب کہیں نظر نہیں آتے۔ قبرستان کے باہر سے گزرتے ہوئے گاڑی میں چلتا ہوا میوزک آہستہ نہیں ہوتا۔ اذان کی آواز سن کر بےنمازیوں کےبھی رکتے قدم ناپید ہوگئے ہیں۔ کسی امیر کا تذکرہ کسی غریب کی زبان سے فخر سے بیان ہوتا اب نظر نہیں آتا۔ کسی کم حثیت رشتے دار کی آمد پر اس کے سامنے بچھتے ہوئے خاندان کے افراد نظر آنا بند ہوگئے ہیں۔مجھے اب خفیہ ویڈیوز میں لوگوں کی مدد کرتے لوگ تو نظر آتے ہیں، جن کے پیچھے پیچھے خفیہ کیمرہ مین ان کی نیکیوں کو ریکارڈ کرنے میں مصروف ہوتا ہے لیکن بہت کوشش بسیار کے باوجود سیکرٹ فرینڈز ڈھونڈنے میں ناکام ہوتا جا رہا ہوں۔ لگتا ہے اب سب واقعی سیکرٹ ہو چکے ہیں۔
از قلم نیرنگ خیال
۱ جنوری ۲۰۲٣
گزشتہ برسوں کے آغاز و اختتام پر لکھی گئی تحاریر
یکم جنوری ۲۰۲۱ کو لکھی گئی تحریر "یہ ہو تم"
یکم جنوری ۲۰۲۰ کو لکھی گئی تحریر "دو باتیں"
یکم جنوری 2019 کو لکھی گئی تحریر "کچھ آگہی کی سبیلیں بھی ہیں انتشار میں"
یکم جنوری 2018 کو لکھی گئی تحریر "تتلیاں"
یکم جنوری 2017 کو لکھی گئی تحریر "عجب تعلق"
یکم جنوری 2016 کو لکھی گئی تحریر "اوستھا"
2 جنوری 2015 کو لکھی گئی تحریر "سال رفتہ"
31 دسمبر 2013 کو لکھی گئی تحریر" کہروا"
آخری تدوین: