سیکس ایجوکیشن

تعمیر

محفلین
انسانوں کے اپنے جبلی تقاضوں اور فطری خواہشات کی تکمیل کیلئے علم و فن کی ضرورت پڑتی ہے ۔ زندگی کے دوسرے تقاضوں کی طرح جنس بھی ایک تقاضہ ہے ۔ ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنانا ایک فن ہے ۔ ایک آرٹ ہے اور یہ جوہر ہر شخص میں موجود ہے لیکن اسے بروئے کار لانا یا نہ لانا اس کا اپنا ذاتی فعل ہے ۔

جہاں تک جنسیات کا تعلق ہے ہم ایک عبوری دور سے گذر رہے ہیں ۔ پرانی قدریں ترک کر دی گئی ہیں لیکن نئی قدریں ابھی تک معلوم نہیں ہوئیں ۔ ہم نے ان مضحکہ خیز تصورات سے بلاشبہ چھٹکارا پالیا ہے کہ جنس لازماً بد اخلاقی ہے اور یہ کہ مباشرت کو ایک فن قراردینا مناسب نہیں ، لیکن ہم نے جو کچھ ترک کیا ہے اس کی جگہ نیا جنسی اخلاق معلوم کرنے میں ہم ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے ۔

جنسیات کے موضوع پر اگرچہ کتابوں کی کمی نہیں لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ زیادہ تر غیر تشفی بخش ہیں ۔ ان میں سے بعض کتابیں غیر ضروری اور ناشائستگی کا شکار ہیں ۔ بعض ایسی ہیجان انگیز ہیں کہ اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے اور زیادہ تر کتابوں میں سستی لذتیت کا چٹ پٹا مسالہ اس خوبی سے بھر دیا جاتا ہے کہ اصل چیز کا پتہ ہی نہیں چلتا۔
جنس ایک وسیع اور دقیع موضوع ہے ۔ اس کی سرحدیں لامحدود ہیں ۔ اس کی کارفرمانیاں زندگی کے ہر شعبے میں اپنی جھلکیاں دکھاتی ہیں ۔
آج دنیا بھر کے ماہرین جنسیات اور نفسیات کی یہ متفقہ رائے ہے کہ عورت اور مرد کو ازدواجی زندگی شروع کرنے سے پہلے جنس کے تعلق سے نظری طورپر ضرور واقفیت حاصل کر لینی چاہئے ۔
جنسیات کا موضوع کوئی نیا نہیں ۔ انگریزی اور اردو میں اس موضوع پر کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور جو کچھ اس کتاب میں پیش کیا گیا ہے وہ دوسری کتابوں میں اس سے بہت بڑھ چڑھ کر بیان کیا گیا ہے ۔ یہ مختصر اور مفید کتاب معمولی پڑھے لکھے جوڑوں کیلئے لکھی گئی ہے ۔ اس لئے اس کتاب میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ زبان کافی حد تک سلیس اور انداز بیاں عام فہم رہے ۔ مشکل اصطلاحات کا ممکنہ حدتک استعمال نہ کیا جائے ۔ جنسیات کی اکثر کتابوں میں جنس کو حیوانی جذبے کے غلط تصور سے آزاد کرانے کی کسی نے اب تک کوشش نہیں کی بلکہ زندگی کے تمام افعال کو جنسی عینک سے دیکھا گیا۔ اس کتاب میں ان تمام باتوں سے پرہیز کر کے اس حقیقت کو بنیاد بنایا گیا ہے کہ جنسی خواہش ایک فطری اور پاک جذبہ ہے ایک مقدس بھوک ہے۔

The Geography of sex - episode:1
 

تعمیر

محفلین
شادی انسانیت کی تکمیل ہے

اکثر لوگ شادی کے اصل مطلب کو سمجھ نہیں پاتے ۔ درحقیقت شادی کے رشتے میں عورت اور مرد اپنی مرضی سے اپنی زندگیوں کو ایک دوسرے کیلئے وقت کر دینا چاہتے ہیں اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو انہیں ایک دوسرے کے بغیر زندگی ادھوری اور ناکارہ معلوم ہونے لگتی ہے ۔ اسی لئے ایک دوسرے کا ہاتھ بڑی محبت اور تپاک سے تھام کر شادی کے بندھن میں ایسے بندھ جاتے ہیں کہ صرف موت ہی انہیں جدا کر سکتی ہے ۔

شادی نہ تو ایک ایسا قلعہ ہے جس کے قیدی باہر آناچاہتے ہیں اور نہ باہر کے آزاد لوگ اندر جانا چاہتے ہیں ۔ اور نہ ہی ایک ایسا گہرا سمندر ہے جس میں آدمی ہر دم غوطے کھانے لگتا ہے اور بلکہ اس دنیا کے بے آب و گیاہ ریگستان میں شادی ایک ایسا نخلستان ہے جہاں دو محبت بھرے دل دنیا و مافیا سے بے خبر، بے پروا، سکون کی چند گھڑیاں گذارنے میں مدد دیتے ہیں ۔ لیکن جب عورت اور مرد شادی کے مقدس بندھن میں بندھ جانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ان دونوں پر بڑی بھاری ذمہ داریاں عائد ہو جاتی ہیں ۔ کیونکہ ایک کا سکھ، دوسرے کا سکھ، ایک کی خوشی دوسرے کی خوشی ہوتی ہے ۔ کچھ چھوٹی بڑی قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں ۔ تب کہیں جا کر زندگی کی اصل خوشی حاصل ہوتی ہے ۔ اگر زندگی میں اونچ نیچ، اتار چڑھاؤ نہ ہوتو زندگی کا لطب ہی ختم ہو جاتا ہے ۔ ایک سپاٹ زندگی جس میں حرکت اور کشاکش نہ ہو بے جان اور بے مزہ زندگی بن جاتی ہے ۔
 

تعمیر

محفلین
آج کل نوجوان مردوں اور عورتوں میں یہ خیال بھی تقویت پاتا جا رہا ہے کہ متاہلانہ زندگی میں داخل ہونے کیلئے ایک خاص مالی سطح کو چھو لینا ضروری ہے اور اگر اس کوشش میں کسی وجہہ سے دیر ہوتی ہے یا ناکامی ہوتی ہے تو وہ شادی کو اس وقت تک ملتوی کرتے رہتے ہیں کہ ایک "پیرکہن" بن جاتا ہے اور دوسرا "سدا سہاگن" دونوں ہی صورتیں چند غلط فہمیوں کا نتیجہ ہیں ۔ انسان پر مصیبتیں تو ہر دور میں آتی ہیں اور آتی رہیں گی۔ مالی دشواریوں سے گھبرا کر شادی سے پہلو تہی جوانمردی کی علامت نہیں ۔ شاید بہت کم لوگ یہ جانتے ہوں گے کہ دامن بچانے سے زیادہ دامن بھگونے میں مزہ ہے ۔ اس خیال سے شادی کو ملتوی کرتے رہنا کہ کل کوئی جادوئی چراغ ہاتھ لگ جائے اور پلک جھپکتے میں مالدار بن جائیں تو یہ "احمقوں کی جنت" کے مکینوں کے اطوار ہیں ۔ اس خواب خرگوش سے جتنا جلد کوئی شخص جاگ جائے اتنا ہی بہتر ہو گا۔

شادی کے ذریعہ جو نوجوان عورت اور مرد ازدواجی بندھن میں بندھ جاتے ہیں یا باندھ دیے جاتے ہیں ان کے مزاج، خیالات، نظریات، اصول اور تعلیم و تربیت میں کافی فرق ہو سکتا ہے اور ہوتا بھی ہے کیونکہ ان کی پرورش الگ الگ حالات اور مختلف ماحول میں ہوتی ہے ۔ اس لئے اگر ان دونوں میں کچھ باتیں مشترک نہ ہوں تو کوئی حیرت کی بات نہیں ۔ سماج تو ان کے بیاہ کی رسم ادا کر کے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاتا ہے ۔ ازدوجی زندگی کے سمندر میں وہ دونوں خواہ ڈوبیں خواہ تیریں چاہے وہ موجوں سے کھیلیں یا طوفان کے تھپیڑے کھائیں ۔ سماج شادی کے بعد کسی مسئلہ کو حل کرنے کے بجائے شوہر اور بیوی کیلئے کئی نئے مسائل پیدا کر دیتا ہے ۔ چونکہ اب دونوں کو ساتھ رہنا ہے اور قدم سے قدم ملا کر زندگی کے مدراج ایک ساتھ طئے کرنا ہے اس لئے سارے مسائل کے حل شوہر اور بیوی کو خود اپنی سمجھ داری، سوجھ بوجھ اور دور اندیشی سے ڈھونڈنے پڑتے ہیں ۔
The Geography of sex -episode:3
 

شمشاد

لائبریرین
تعمیر بھائی انتہائی اہم موضوع اور اس پر انتہائی اچھے طریقے سے لکھی گئی تحریر۔

بہت شکریہ شریک محفل کرنے کا۔
 

لالہ رخ

محفلین
ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم لوگ اس موضوع پر بات کرنا شاید ناشائستگی سمجھتے ہیں یا کچھ اور پتا نہیں ۔ لیکن یہ انسانی زندگی کا ایک اہم پہلو ہے اور انتہائی غور طلب بھی۔ ہمارے معاشرے میں جو بے راہروی اور نوجوان نسل میں اور بھی بہت سے مسائل ہیں جن کی بنیادی وجہ شاید جذباتی طور پہ متوازن رویہ نا ہونا ہے ۔ اصل میں میں سمجھتی ہوں کہ اس بارے میں شناسا کرنے میں والدین کا کردار بہت اہم ہے لیکن ہمارے ہاں جو ایک جھجک پائی جاتی ہے وہ بھی بہت مسائل کو جنم دیتی ہے ۔ شاید اس کی وجہ والدین اور اولاد میں عمروں کا فرق ہونا ہو یا پھر ان میں فرینکنس لیول اتنا نہیں ہوتا کہ وہ کچھ ڈسکس کر سکیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
اس کی کئی ایک وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں، لیکن میری رائے میں ایک بڑی وجہ اپنا خاندان آگے چلانا ہوتا ہے۔
 
جنسی تعلیم بہت زیادہ ضروری ہے لیکن میرے خیال سے شادی سے کم ازکم ایک دن پہلے دینی چاہیئے ہے اور یہ بہت زیادہ ضروری ہے کھل کر لکھنا شائد فواحشات کے زمرے میں نہ آجائے اسی لیئے موڈیٹرز اگر اجازت دیں تو اس پھر لکھونگا۔
نوٹ: یہ بہت زیادہ حساس اور معاشرے کا بہت اہم موضوع ہے اور اس تعلیم کے نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے گھر برباد ہوجاتے ہیں یا پھر بے راہ روی کا راستہ کھلتا ہے۔
 

ساجد

محفلین
میرا خیال ہے کہ ابھی ہم معاشرتی طور پرجنسی تعلیم کے معانی کو ٹھیک نہیں سمجھ پائے۔ کیا ہم سب نے قرآن نہیں پڑھا اگر ہاں تو غور فرمائیں کہ اس میں کس اسلوب سے اس بارے میں ہمیں بتایا گیا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
جنسی تعلیم بہت زیادہ ضروری ہے لیکن میرے خیال سے شادی سے کم ازکم ایک دن پہلے دینی چاہیئے ہے اور یہ بہت زیادہ ضروری ہے کھل کر لکھنا شائد فواحشات کے زمرے میں نہ آجائے اسی لیئے موڈیٹرز اگر اجازت دیں تو اس پھر لکھونگا۔
نوٹ: یہ بہت زیادہ حساس اور معاشرے کا بہت اہم موضوع ہے اور اس تعلیم کے نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے گھر برباد ہوجاتے ہیں یا پھر بے راہ روی کا راستہ کھلتا ہے۔
مہذب الفاظ میں لکھا جائے تو کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔
 

تعمیر

محفلین
عورت نہ تو آقا سے محبت کر سکتی ہے ، نہ غلام سے ، وہ تو ایک ہم سفر سے محبت کر سکتی ہے ۔ جو محبت کی راہ پر اس کے شانہ بشانہ چل سکے اور جو اس کی نسوانیت کا زیادہ سے زیادہ تحفظ کر سکے ۔ مرد جب تک آقا یا غلام رہیں گے وہ عورت کی محبت سے محروم رہیں گے ۔ البتہ جب وہ اپنے اپنے مقام سے ہٹ کر دوست کے مقام پر آ جائیں گے تو عورت اپنی محبت سے ضرور نوازے گی۔ اگر کوئی مرد یہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی، ماں کی طرح اس سے پیار کرے تو اس کو چاہئے کہ وہ کسی ماہر نفسیات سے صلاح و مشورہ کرے ، بصورت دیگر وہ خود بھی پریشان اور ناکام ہو گا اور بیوی کے ارمانوں کا بھی خون کرے گا۔ جنس کا جغرافیہ - قسط:7
اگر کوئی سمجھے تو بے شک عورت، انسان اور فرشتے کے درمیان ایک مخلوق ہے ۔ وہ انسان کے ایک جگمگاتے مستقبل کی پیغامبر ہے ۔ عورت کو قدرت نے مرد کی رفاقت کیلئے بنایا ہے ۔ عورت پُر اسرار ضرور ہے لیکن یہ بھی نہیں کہ مرد اسے سمجھ ہی نہ سکے ۔ بس اتنا ہے کہ عورت ہو یا مرد۔۔۔۔انسان ایک زندہ حقیقت ہے ، کوئی جامد شئے نہیں ۔ جہاں بھی زندگی ہو گی، وہاں حیرت کا عنصر بھی ہو گا۔ عورت کوئی پہیلی ہوتی تو کبھی بوجھی جا چکی ہوتی۔ عورت تو ایک جیتا جاگتا جادو ہے ۔ ایک ایسی کشش ہے جو مرد کو زندگی کے معنی سمجھاتی ہے اور زندہ رکھتی ہے ۔
ہمارے یہاں عورت کو یا تو پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا رہا یا پھر سمجھنے کا نہ سمجھانے کا ایک معمہ! یہ دونوں صورتیں عورت کی حقیقت سے گریز کے مترادف ہیں ۔ ہم نے یہاں عورت کو ایک چلتی پھرتی حقیقت کے طور پر جاننے پہنچاننے کی کوشش کی ہے ۔ نفسیات، انسان کا مطالعہ اشرف المخلوقات سمجھ کر نہیں کرتی، کیونکہ اسے انسان ہی کا مطالعہ کرنا ہے ۔ اس لئے یہ اس ضمن میں کسی قسم کی رو رعایت روا نہیں رکھتی۔ جہاں تک عورت کا تعلق ہے ہمارے یہاں تو اسے شاعرانہ نگاہ سے یا پھر بزرگوں کے اقوال کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے ۔ مگر یہ انداز نظر و فکر انتہا پسند ہونے کی وجہہ سے خام ہے ۔
اگراول الذکر کے نزدیک عورت محض محبوبہ دل نواز اور تصویر کائنات کا رنگ ہے تو موخر الذکر کے بموجب اس کا وجود جہنم کی طرف لے جانے والا ہے ۔ عورت محض پیکر رنگ و بو ہی نہیں بلکہ گوشت پوست کے جسم کی بھی مالک ہے ۔ وہ مونا لیزا بن کر مصور کے تخیل کیلئے محرک کا کام بھی کروا سکتی ہے اور بیٹریس بن کر شاعر سے لازوال نغمات کی تخلیق بھی کرواسکتی ہے لیکن پھر بھی وہ عورت ہی رہتی ہے ۔ جس کا نظام عصبی ہے جس کا ایک ذہن ہے اور جس کے جسم کے مخصوص تقاضے ہیں ۔

عورت شعلہ بھی ہے اور شبنم بھی! پھول کی پتی بھی اور تلوار کی دھار بھی! صاف گو بھی اور کینہ ساز بھی! پیکر رحمت و شفقت بھی مجسم انتقام و حسد بھی! ڈرپوک بھی اور بہادر بھی! اس کے دل میں کچھ ہوتا ہے اور زبان پر کچھ ہوتا ہے ۔ بھولی بھالی بھی اور چالاک بھی! اس لئے مردوں کی اکثریت نے یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ عورت ایک ناقابل فہم پہیلی ہے ۔ بس اپنے کام سے کام رکھنا ہی درست ہے ۔ چکر میں پڑنا حماقت ہے ۔
مردوں کی اس حماقت کا یہ نتیجہ ہوا کہ دونوں صنفوں کے درمیان دوری بڑھتی گئی۔ نہ مرد عورت کی فطرت کو سمجھتا ہے اور نہ عورت مرد کی فطرت کو ۔ اس سے اختلافات اور غلط فہمیوں میں اضافہ ہوا۔ نت نئی ذہنی بیماریوں نے جنم لیا۔ گھٹن بڑھتی گئی۔ کھینچا تانی شروع ہو گئی۔ مرد نے کوشش کی کہ عورت کو بہلا پھسلا کر کام چلاتا رہے اور عورت نے مرد سے انتقام لینے کیلئے جنسی سرد مہری (ٹھنڈے پن) کا لبادہ اوڑھ لیا۔ اس خطرناک مسابقت یا رسہ کشی نے دونوں کو ذہنی سکون اور اطمینان قلب سے محروم کر دیا۔ اس تباہی اور بربادی کی ذمہ داری نہ صرف مرد پر ہے اور نہ صرف عورت پر۔
قصور دونوں کا ہے ، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ مرد کی ذمہ داری زیادہ ہے ۔ اگر عورت محبت کا جواب گرم جوشی سے نہیں دیتی تو اس کی تمام تر ذمہ داری صرف عورت پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ عورت تو یہ چاہتی ہے کہ اس کی شخصیت کا احترام کیا جائے ۔ اس سے بہ حیثیت ایک فرد محبت کی جائے ۔

ہم زندگی کے بنک سے وہی کچھ حاصل کرتے ہیں جو ہم نے جمع کیا ہے ۔ اگر ہم نے پیار نہیں دیا ہے تو پیار کس طرح پا سکتے ہیں ؟ نسوانیت کا احترام نہیں کیا ہے تو مردانگی کا احترام کس لئے کیا جائے ؟

عورت نہ تو آقا سے محبت کر سکتی ہے ، نہ غلام سے ، وہ تو ایک ہم سفر سے محبت کر سکتی ہے ۔ جو محبت کی راہ پر اس کے شانہ بشانہ چل سکے اور جو اس کی نسوانیت کا زیادہ سے زیادہ تحفظ کر سکے ۔ مرد جب تک آقا یا غلام رہیں گے وہ عورت کی محبت سے محروم رہیں گے ۔ البتہ جب وہ اپنے اپنے مقام سے ہٹ کر دوست کے مقام پر آ جائیں گے تو عورت اپنی محبت سے ضرور نوازے گی۔
اگر کوئی مرد یہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی، ماں کی طرح اس سے پیار کرے تو اس کو چاہئے کہ وہ کسی ماہر نفسیات سے صلاح و مشورہ کرے ، بصورت دیگر وہ خود بھی پریشان اور ناکام ہو گا اور بیوی کے ارمانوں کا بھی خون کرے گا۔
جہاں تک عورت اور مرد میں رفاقت کا تعلق ہے نہ کوئی بڑا ہے نہ چھوٹا، نہ کوئی مالک نہ کوئی ملکیت، نہ کوئی غلام بلکہ دونوں ہم سفر ہیں ۔ منزل ایک ہے ۔ لیکن دونوں کی فطرت مختلف ہے ۔ ایک تیزگام ہے ، ایک سست رفتار، ایک تحفظ کرنا چاہتا ہے ایک تحفظ کرانا چاہتا ہے ۔ ایک کے لئے محبت کا مطلب پیش قدمی ہے دوسرے کیلئے خود سپردگی ۔ اگر دونوں ایک دوسرے کا خیال رکھیں تو سفر کے دوران پیش آنے والے مصائب کا مقابلہ آسانی سے کیا جاسکتا ہے اور دشواریوں پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔

یقیناً عشق کا سفر بے حد مشکل ہے لیکن منزل بھی اتنی حسین ہے کہ جان کی بازی بھی ہنستے کھیلتے لگائی جا سکتی ہے ۔ کوئی چیز پیسیوں میں بھی مہنگی ہے اور کوئی شئے لاکھوں روپئے میں بھی سستی ہے ۔ سوال قیمت کا نہیں بلکہ مطلوبہ شئے کی افادیت کا ہے ۔ کسی کیلئے دس قدم چلنا بھی ایک دشوار کام ہے لیکن دو چاہنے والوں کیلئے مئی، جون کی چلچلاتی دھوپ میں میلوں کا فاصلہ طئے کر لینا آسان ہے ۔ فیصلہ بہرحال ہم کو کرنا ہے ۔ انتخاب کی آزادی سے لطف اندوز ہونا ہمارا فطری حق ہے ۔

ہم نے اب تک جو کچھ جاننے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے اس سے عورت کی ایک ایسی تصویر اُبھرتی ہے جو دلچسپ اور عجیب تو ہے لیکن ناقابل فہم نہیں ۔۔۔۔ بے شک عورت پسلی کی طرح ٹیڑھی ہے ۔ اس سے اگر کچھ کام لینا ہے تو اس کے ٹیڑھے پن ہی کیساتھ ہی لیا جا سکتا ہے ۔ اگر اسے سیدھا کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ ٹوٹ جائے گی۔ آسمانی صحائف میں عورت کو کھیتی سے تشبیہ دیتے ہوئے ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ واضح رہے کہ اس کھیتی کی فصل کا محض ہل اور ہل چلانے والے کی طاقت یا مہارت پر ہی انحصار نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ زمین کی ساخت، موسموں کی تبدیلی اور ہواؤں کی بدلتی کیفیات کی پہچان بھی لازم ہے ۔

مرد کی نیرنگئ فطرت کامطالعہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں ۔ مردوں کے طبائع اور کردار میں تضاد ہو سکتا ہے، لیکن ان کے برخلاف، عورتیں ایک دوسرے سے بہت زیادہ مختلف ہوتی ہیں۔ ایک عورت دوسری عورت سے زیادہ پُر کاری لئے ہوئے ہوتی ہے ۔ اس لئے عورتوں کو چند اقسام میں باٹنا ممکن نہیں ۔ البتہ جہاں تک مردوں کا تعلق ہے ان میں اتنا اختلاف نہیں ہوتا اس لئے انہیں بعض اقسام میں محدود کیا جاسکتا ہے ۔
 

یوسف-2

محفلین
میرا خیال ہے کہ ابھی ہم معاشرتی طور پرجنسی تعلیم کے معانی کو ٹھیک نہیں سمجھ پائے۔ کیا ہم سب نے قرآن نہیں پڑھا اگر ہاں تو غور فرمائیں کہ اس میں کس اسلوب سے اس بارے میں ہمیں بتایا گیا ہے۔
زبردست بات کی ہے ساجد بھائی آپ نے۔ مسلم معاشرے میں ”جنس کی تعلیم“ کو قرآن و حدیث سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔ قرآن و حدیث میں جا بجا شائستہ اور بلیغ انداز مین جنس کی ”بنیادی تعلیم“ احسن طریقہ سے دی گئی ہے۔ گویا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اسلام نے سب سے پہلے ”جنس کی باقاعدہ تعلیم“ کا آغاز کیا۔ جنس کے خالق نے جنسی معاملات میں جو رہنمائی کی ہے، اُس مروجہ علوم و فنون کے پس منظر میں مزید تشریح تو کی جاسکتی ہے اور کی جانی بھی چاہئے۔ لیکن اکثر ہوتا یہ ہے کہ اکثر مسلم ماہرین جنسیات بھی قرآن و حدیث کی ان متعلقہ تعلیمات کو یکسر نظر انداز کرکے مغربی ماہرین جنسیات کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ البتہ بعض ماہرین جن میں ڈاکٹر سید مبین اختر نمایاں ہیں، نے ایسی کتب تحریر کی ہیں، جن میں جنسی تعلیم کو طب، نفسیات اوراسلام سے ہم آہنگ کرکے پیش کیا ہے۔ آپ ایک میڈیکل ڈاکٹر اور ماہر نفسیات بھی ہیں۔ اسی طرح نیٹ ورلڈ میں ڈاکٹر رضوان کا بڑا کام ہے۔ انہوں نے مسلمان غیر شادی شدہ لڑکوں لڑکیوں اور شادی شدہ مردوں اور عورتوں کے لئے الگ الگ کتابیں تصنیف کی ہیں جو اردو اور رومن اردو میں بھی noorclinic.com پردستیاب ہیں۔ ایک مسلم اکثریتی معاشرے میں قرآن و حدیث سے ہٹ کر جنسی تعلیم دینے سے جنسی انارکی، کنفیوزن اور فحاشی تو پھیل سکتی ہے، لیکن یہ غیر شادی شدہ اور شادی شدی شدہ لوگوں کو جنسی آسودگی فراہم نہیں کرسکتی۔ جبکہ یہی تعلیم ایک غیر مسلم سوسائٹی میں غیر مسلمانوں کے لئے بہت مفید ہوتی ہے۔ لہٰذا اس بات کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ جنسی تعلیم کا جو ”نصاب“ ایک غیر مسلم معاشرے کے لئے سود مند ہے، بعینہ وہی نصاب مسلمان معاشرے کے لئے بہت خطرناک ہے۔ ہمیں اپنے لئے ایک اسلامی جنسی تعلیمی نصاب مرتب کرنے کی ضرورت ہے، جس کا خاکہ ڈاکٹر مبین اور ڈاکٹر رضوان نے بہت احسن طریقہ سے پیش کیا ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
خاندان کی منصوبہ بندی !​

ہم لوگ ہر قسم کی منصوبہ بندی کرتے ہیں لیکن اگر نہیں کرتے تو ’ حقیقی خاندانی منصوبہ بندی ‘نہیں کرتے۔ اور اگر کرتے بھی ہیں توخاندانی منصوبہ بندی کے نام پر ایک ایسی غلط العام منصوبہ بندی کرتے ہیں جسے عرفِ عام میں’چھوٹا خاندان، زندگی آسان‘ کہتے ہیں۔ ’خاندانی منصوبہ بندی‘ کا مطلب اگر ’چھوٹا خاندان ‘ لیا جائے تو مستقبل کی منصوبہ بندی (فیوچر پلاننگ)، وقت کی منصوبہ بندی (ٹائم مینجمنٹ)، تعلیمی منصوبہ بندی (ایجو کیشن پلاننگ) وغیرہ کا بھلاکیا مطلب ہوگا؟ ایک نئے خاندان کا آغازایک نئی شادی سے ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمیں حقیقی خاندانی منصوبہ بندی کا آغاز بھی شادی ہی سے کرنا ہوگا۔ شادی میں بنیادی طور پر دو فریق یعنی لڑکا اور لڑکی جب کہ سماجی طور پردو خاندان شریک ہوتے ہیں، جو ایک نئے خاندان کو جنم دینے کا سبب بنتے ہیں۔ شادی ایک سماجی ضرورت ہونے کے علاوہ ہر بالغ مرد و زن کی دوسری بنیادی ضرورت بھی ہے۔ انسان کی پہلی بنیادی ضرورت غذا ہے۔ باقی دیگر مادّی ضروریات کی حیثیت یا توثانوی ہے یا پھر انہی دونوں بنیادی ضرورتوں کا ضمیمہ ۔ایک بالغ انسان یہ دونوں بنیادی ضرور یات پوری ہونے تک غیر مطمئن ہی رہتا ہے۔ اور ایک غیر مطمئن انسان نہ تو خود اپنا بھلا کرسکتا ہے اور نہ ہی اپنے خاندان یا معاشرہ کے لئے کوئی مفید کردار ادا کرسکتا ہے۔اسلام انسان کی ان دونوں ضرورتوں کا نہ صرف یہ کہ احترام کرتا ہے بلکہ انہیں پورا کرنے کا فطری راستہ بھی دکھاتا ہے۔ابتدائی ذمہ داری والدین کی ہے کہ وہ اپنے اپنے بچوں کو حلال اور اس قدر وافر خوراک کی فراہمی کو یقینی بنائیں کہ جب ان کا بچہ گھر سے باہر نکلے تو دوسروں کو کھاتا پیتا دیکھ کر اس کا جی نہ للچائے اور نہ ہی آس پاس موجود کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھ کر پہلے بھوک کے ہاتھوں مجبوراَ اور بعد ازاں عادتاَ چوری چکاری کی جانب مائل ہوجائے۔ اسی طرح بالغ ہوتے ہی بچے کی دوسری بنیادی ضرورت کی ایسی منصوبہ بندی کی جائے کہ لڑکا ہو یا لڑکی ، اخلاقی بے راہ روی کی طرف مائل ہی نہ ہو سکیں۔

ایک چینی کہاوت ہے کہ تجربہ ایک ایسی کنگھی ہے، جو انسان کو اس وقت ملتی ہے جب وہ گنجا ہوچکا ہوتا ہے۔شادی بیاہ ہی کے معاملہ کو لے لیجئے۔ والدین جب تک شادی کے نشیب و فراز سے بخوبی آگاہ یعنی تجربہ کار ہوتے ہیں، وہ ذاتی طور پر شادی سے بے نیاز ہوچکے ہوتے ہیں۔ عقلمندی کا تقاضہ یہی ہے کہ وہ تجربہ کی اس کنگھی کو ضائع کرنے کی بجائے اپنے بچوں کی زندگی کے زلفِ پریشاں کو سنوارنے میں استعمال کریں ۔ واضح رہے کہ بچے شادی وغیرہ کے معاملات میں ذاتی طور پر کوئی تجربہ نہیں رکھتے اور اُن کی جملہ معلومات دیکھنے، سننے اور پڑھنے کی حد تک محدود ہوتی ہیں، جو تجربہ کا کبھی بھی نعم البدل نہیں ہوسکتیں۔ بچے اگر والدین کی انگلی پکڑ کر شاہراہِ حیات پر چلنے کا آغاز کریں تو اس دشوار گذار راستے کے نشیب و فراز کی ٹھوکروں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔بچوں کونئی نئی خود مختاری ملتے ہی انہیں والدین کی ضرورت سے بے نیاز ہونے کا احساس دلانے والی معاشرہ کی منفی قوتیں اپنا کام شروع کر دیتی ہیں۔ لہٰذا آپ کو یہ منصوبہ بندی کرنی چاہئے کہ آپ کا بچہ جونہی بالغ ہو جائے، اس کی دوسری بنیادی ضرورت احسن طریقہ سے پوری کر دی جائے اور وہ آپ کے زیر سایہ شاہراہِ حیات پر چلنے کی کچھ مشق بھی کرلے تاکہ وہ خودمختار زندگی کے خطرات و حادثات سے محفوظ رہنا سیکھ لے۔میٹرک کرتے کرتے آپ کے بچے کی عمرسولہ سال کے لگ بھگ ہو چکی ہوتی ہے، جسے سویٹ سکس ٹین بھی کہتے ہیں۔ امنگیں نئی نئی جوان ہوتی ہیں۔ آگے کا منظر صاف نظر آنے لگتا ہے کہ بچے نے کیا کرنا ہے، کیا پڑھنا ہے اور کہاں تک پڑھنا ہے۔ اگر بچے کا محض سادہ گریجویشن کا ارادہ ہو تو لڑکی کی صورت میں انٹر میں ہی رشتے کی تلاش شروع کردیں اور زیادہ سے زیادہ گریجویشن کے فورا بعد لازماً شادی کردیں۔ البتہ شادی کی راہ میں کوئی حقیقی رکاوٹ موجود ہو تو ماسٹرز تک کی تعلیم کو جاری رکھا جاسکتا ہے۔ ویسے تعلیم کو شادی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہئے۔ جب دیگر سارے امورِ اندگی دورانِ تعلیم سر انجام دئے جاسکتے ہیں تو شادی کیوں نہیں۔ شادی کے بعد اعلیٰ تعلیم کی راہ میں کوئی حقیقی رکاوٹ نہیں ہوتی بلکہ اس طرح ایک نوجوان زیادہ سکون کے ساتھ تعلیمی مدارج طے کرتا ہے۔ تعلیم کی تکمیل اورحصولِ روزگار میں خود کفالت کے بعد شادی کا فلسفہ غیر اسلامی معاشرہ سے درآمد کردہ ہے، جہاں انسان کی دوسری بنیادی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے حصار نکاح لازمی نہیں ہے۔ مسلم معاشرہ کو اس فلسفہ پر عمل درآمد کے منفی اثرات سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ آج کل کے حساب سے لڑکی کی شادی زیادہ سے زیادہ 18 سال کی عمر میں اور لڑکے کی شادی زیادہ سے زیادہ 20 سال کی عمر میں کردینی چاہئے، خواہ اس کی تعلیم اپنے آخری مراحل میں ہی کیوں نہ ہو۔ اس عمر میں شادی کے بہت سے سماجی فوائد ہیں۔ اس عمر میں لڑکا مالی طور پر اپنے والدین کے زیر کفالت ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ شادی کے جملہ مراحل میں فطری طور پراپنے والدین کی مرضی کا پابندہوگا۔ ایسی صورت میں والدین کوچونکہ ایک سے زائد بچوں کی شادیاں اپنی ہی آمدنی سے کرنی ہوں گی لہٰذا وہ ہر شادی کو سادگی سے سر انجام دیں گے۔ یہی اسلام کا تقاضہ بھی ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ نکاح بہت بابرکت ہے جس کا خرچ کم سے کم ہو۔ (شعب الایمان للبیہقی)
بیس سال کی عمر میں شادی کرنے کی صورت میں شادی کے چار پانچ سال تک بیٹے اور اس کے بیوی بچوں کے نان نفقہ کی ذمہ داری بھی والدین پر ہوگی۔یوں نوجوان جوڑا یہ عرصہ اپنے والدین کے زیر سایہ، ان ہی کی کفالت میں، بے فکری سے شادی کو انجوئے کرتے ہوئے تعلیم کو مکمل کرے گا اور حصول روزگار کی جانب قدم بڑھائے گا۔سادہ گریجویشن 20 سال میں اور پیشہ ورانہ تعلیم بائیس تئیس سال تک مکمل ہوجاتی ہے۔ سادہ گریجویٹ عام طور سے 5 سال کے اندر اندر اور پروفیشنل گریجویٹ تین سال کے اندر اندر ملازمت یا کاروبار کے ذریعہ معاشی طور پر خودکفیل ہوجاتا ہے۔ معاشی خودکفالت کے حصول کے ایک دو سال کے اندر اندر اس کا پہلا بچہ بھی پانچ چھ سال کا ہوکر اسکول جانے کے قابل ہوجاتا ہے۔ یوں پانچ سال تک اپنے والدین کی سرپرستی ، ہدایات اور نگرانی میں ازدواجی زندگی کی خوشیاں گزارتے ہوئے وہ ایک درست راہ پر گامزن ہوچکا ہوگا۔ 25 سال کی عمر میں وہ ایک فیملی کا ذمہ دار شخص بن چکا ہوگا اور اس کا بڑا بچہ اپنی رسمی تعلیم کا آغازکر چکا ہو گا۔ اور جب وہ خود 40 سال کا کڑیل جوان اور اپنے پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے عروج پر ہوگا، اس کی اولاد 20 برس کی ہوچکی ہوگی۔ آپ اس شخص کا تصور کریں جو ابھی صرف 40 سال کا ہے، اس کی ملازمت میں بشرط زندگی ابھی کم از کم 20 سال باقی ہیں،اس کی پہلوٹھی کی اولاد سادہ گریجویشن کرچکی ہے یا پیشہ ورانہ گریجویشن کے آخری مراحل میں ہے۔ ایسے میں اس کے لئے کیا مشکل ہوگی کہ اپنی اولاد کی شادی باری باری کرنا شروع کردے اور بیٹے کی شادی کی صورت میں اس کے بیوی بچوں کا مالی بار بھی اگلے پانچ سال تک اٹھاتا رہے۔ ابھی یہ شخص ریٹائرمنٹ کی رسمی عمر ساٹھ سال کو پہنچا بھی نہ ہوگا کہ اس کے سارے بچے شادی کرکے اپنا اپنا گھر بار الگ سنبھال چکے ہوں گے اور اس کے پوتوں اور نواسوں کی شادی بھی سر پر آن کھڑی ہوگی۔ اور ایسا شخص مالی اعتبار سے ابھی بھی اپنے بچوں میں سے کسی کا محتاج بھی نہ ہوگا۔ریٹائر منٹ سے قبل تک وہ اپنے چند ایک نواسوں،نواسیوں، پوتوں اور پوتیوں کی شادی بھی اپنی نگرانی میں کروانے کا اہل ہوگا۔ ضرورت پڑنے پر وہ اپنے نسبتاً غریب اولاد کی مالی مدد کا بھی اہل ہوگا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اسے کچھ نہ کچھ جمع پونجی بھی ملے گی۔ تھورا بہت وہ اپنے اور اپنی بیوی کے لئے بھی رکھ سکتا ہے۔ یعنی ساٹھ سال کی عمر میں عضو معطل بننے سے قبل تک اپنی تیسری نسل کی شادیوں میں بھی فعال کردار ادا کرنے کے قابل ہوگا اور یوں تین نسلیں ایک دوسرے سے جڑی رہیں گی۔ جب خاندانی نظام اس قدرمضبوط اور جڑا ہوا ہوگا تو سماجی برائیاں از خود کم سے کم ہوتی چلی جائیں گی۔ جن بستیوں کے مکین خاندانی ہوتے ہیں اور نسل در نسل ایک دوسرے سے جڑے اور مضبوط ہوتے ہیں، ان بستیوں میں جملہ اقسام کے جرائم کی شرح خاصی حد تک کم پائی جاتی ہے۔


ذرا سوچئے کہ اٹھارہ اور بیس سال کی عمر میں بچوں کی شادیاں کرتے رہنے کے فوائد خاندان سے معاشرے کو کس طرح منتقل ہوجاتے ہیں۔ یہی وہ ’حقیقی خاندانی منصوبہ بندی ‘ہے، جسے اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
سورة روم آیت ۔21 میں ارشاد ربانی ہے:اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔ یقینا اس میں بہت سی نشانیاںہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:نکاح میری سنت ہے۔ (ابن ماجہ)
تم میں سے جوبیوی کے حقوق ادا کرنے کی طاقت رکھے تو نکاح کر لے کیوں کہ یہ نظر کو جھکاتا اور شرمگاہ کو محفوظ رکھتا ہے۔( ابو داؤد)

جب بندہ شادی کرتا ہے تو اسکا آدھا دین مکمل ہو جاتا ہے اور شادی کرنے کے بعد بہت سے گناہوں سے بچ جاتا ہے ۔ فقہا کا کہنا ہے کہ غلبہ شہوت کی وجہ سے زنا میں مبتلا ہوجانے کا خوف ہو تو نکاح فرض ہوجاتا ہے۔ البتہ غلبہ شہوت اس قدر نہ ہو اور بیوی کی کفالت کر سکتا ہو تویہ سنت ہے۔ اسی طرح بیوی کے لیے اخراجات نہ ہونے کے سبب بیوی پر ظلم کا اندیشہ ہو تو مکروہ ہے۔ اور اگر کوئی نا مکمل مرد بیوی کے حقوق زوجیت ادا کرنے کے قابل نہ ہو تو اسے نکاح کرنا جائز نہیں۔(بیہقی)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نکلے۔ ہم جوان تھے لیکن نکاح کی استطاعت نہیں رکھتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے جوانو! تمہارے لیے نکاح بہت ضروری ہے۔ کیونکہ یہ آنکھوں کو نیچا رکھتا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شادی کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ روزے رکھے اس لیے کہ روزوں سے شہوت ختم ہو جاتی ہے۔ (ترمذی)

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون کو ترک نکاح کی اجازت نہیں دی ورنہ ہم خصی ہو جاتے۔

دو محبت کرنے والوں کے لیے نکاح سے بہتر کچھ نہیں یعنی جب کوئی لڑکا لڑکی محبت کرتے ہوں تو ان کے والدین کو ان کا نکاح کر دینا چاہیے۔( ابن ماجہ)
مومن اللہ سے ڈرنے کے بعد جو اپنے لیے بہتر تلاش کرتا ہے وہ نیک بیوی ہے۔(ابن ماجہ)
جب تمہیں ایسا شخص تمہاری بہن بیٹی کے لئے نکاح کا پیغام دے جس کا دین اور اخلاق تمہیں پسند ہو تو اس سے نکاح کر دو اگر ایسا نہ کرو گے تو زمیں میں بہت بڑا فتنہ پیدا ہو گا۔ (ترمذی )
عورتوں سے ان کے حسن کی وجہ سے شادی نہ کرو ہو سکتا ہے ان کا حسن تمہیں برباد کر دے، نہ ان سے ان کے مال کی وجہ سے شادی کرو ہوسکتا ہے اس کا مال تمہیں گناہوں میں مبتلا کر دے بلکہ عورت سے اس کی دین داری کی وجہ سے شادی کرو (ابن ماجہ)۔
دنیا کے سامان میں نیک بیوی سے زیادہ کوئی اچھی چیز نہیں ( ابن ماجہ) ۔
کوئی اپنے بھائی کے پیغام ِنکاح پر پیغام نہ بھیجے۔ ( ترمذی)
اگر کسی شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان کے درمیاں انصاف اور عدل نہ کرتا ہو تو قیامت کے دن اس کے بدن کا آدھا حصہ مفلوج ہوگا(ترمذی)۔
کنواری لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر اور بیوہ کا نکاح اس کی منشا کے بغیر نہ کیا جائے۔ (بخاری )
جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو نکاح کا پیغام دے اگر وہ اسے دیکھنا چاہے تو دیکھ لے۔ (ابو داؤد )
کوئی عورت اپنا نکاح خود نہ کرے بلکہ نکاح میں والدین کی مرضی بھی شامل کرے۔ (ابن ماجہ)
ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ (ترمذی )
عورت کو چاہیے مردِ دین دار ،خوش خلق ،کفالت کے قابل مالدار سخی سے نکاح کرے۔ فاسق بدکار سے نکاح نہ کرے اور نہ کسی بوڑھے سے نکاح کرے (ردالمختار)

نوجوانی میں جلد شادی سے آبادی میں اضا فہ اور رزق کی کمی جیسے سوالات اچھے خاصے پڑھے لکھے اور دین دار گھرانوں میں بھی سوچ و فکر کا باعث بنتا ہے۔ حالانکہ قرآن و حدیث کی تعلیمات تو یہ ہے کہ اس دنیا میں آنے والے تمام انسانوں کو ہر حال میں آنا ہی ہے۔ کسی بھی قسم کی منصوبہ بندی تمام انسانی روحوں کو اس دنیا میں آنے سے نہیں روک سکتی کیونکہ وہ عالمِ ارواح میں پہلے سے موجود ہیں۔”اور اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پُشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا ”کیا میں تمہارارب نہیں ہوں“؟ انہوں نے کہا ”ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں“۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ”ہم تو اس بات سے بے خبر تھے“ (الاعراف ۔ 173)۔

ایک زمانہ تھا جب کسی بستی یا قبیلہ میں زیادہ بچوں والا گھرانہ زیادہ طاقتور اور زیادہ خوشحال تصور کیا جاتا تھا کہ ہر آنے والا کھانے کے لئے ایک منہ کے ساتھ حصول ِرزق کے لئے دو ہاتھ بھی لے کر پیداہوتا ہے۔ مگر جب سے نام نہادجدید تہذیب و تعلیم نے ’کم بچے خوشحال گھرانا‘ کے گمراہ کن نعرہ کو فروغ دینا شروع کیا ہے، تب سے اس تعلیم سے بہرہ ور صاحب حیثیت اور مالدار مگرخود غرض انسانوں نے اپنے اپنے گھروں میں بچوں کی آمد کو روکنا شروع کردیا اور یوںسوسائٹی میں آبادی کا تناسب’ غیر متوازن‘ ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان کی غرض سے حاصل شدہ ’خود مختاری‘ کے اس غلط استعمال کے نتیجہ میں صاحب حیثیت اور مالدار گھرانوں اور معاشروں میں بچوں کی تعداد کم اور غریب و کم پڑھے لکھے لوگوں کے گھروں، بستیوں میں بچوں کی تعداد زیادہ ہونے لگی ہے۔ اس عمل کے ارتقاءکے نتیجہ میں زیادہ مالی وسائل والے ملکوں میں آبادی کم سے کم اور غریب ملکوں میں آبادی کا دباو¿ زیادہ ہونا شروع ہوگیا۔ اس بات کو اس مثال سے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی ریلوے پلیٹ فارم پر موجود چند ہزار مسافر وں نے ایک ہی ٹرین پر سوار ہو کر ایک ہی منزل پر جانا ہے اور ٹرین کے آنے پر طاقتور اور صاحب حیثیت لوگ اپنی جسمانی، مالی اور اقتدارکے طاقت کے بل بوتے پر ٹرین کے ڈبوں میں داخل ہوکر ٹرین کے کھڑکی دروازے بند کرنا شروع کردیں تاکہ ان کے ڈبے میں زیادہ لوگ سوارنہ ہوں اور وہ آرام و آسائش کے ساتھ اپنا سفر کر سکیں تو اس کا نتیجہ یہی ہوگا کے نچلے درجوں، غیر بکنگ والی بوگیوں کے اندربلکہ چھتوں پر بھی مسافروں کا رش خطرناک حد تک بڑھ جائے گا۔ لیکن اگر تمام ڈبے مسافروں کی آمد کے لئے یکساں طور پر کھلے رہیں تو تمام مسافر ایک توازن کے ساتھ ہر ڈبے میں سما جائیں گے۔ اسی طرح اگردنیا میں بچوں کی پیدائش کے قدرتی نظام کو مصنوعی طریقوں سے غیر متوازن نہ کیا جائے بلکہ زیادہ وسائل والے انسان زیادہ سے زیادہ بچوں کی پرورش پر آمادہ ہوجائیں تو غریب گھر انوں اور ملکوں میں آبادی کا دباو¿ خود بخودکم ہوجائے گا۔ اسلام ویسے بھی یہ تلقین کرتا ہے کہ زیادہ بچے پیدا کرنے والی عورت سے شادی کی جائے تاکہ دنیا میں بھی امت مسلمہ کی تعداد میں اضافہ ہو اور آخرت میں بھی۔

جہاں تک رزق کی کمی بیشی کا تعلق ہے تو کیا ہمیں یہ معلوم نہیں کہ مال و دولت کی حقیقت چند روزہ سامانِ زندگی سے زیادہ کچھ نہیں۔ اللہ کا فرمان ہے:لوگوں کے لیے مرغوبات نفس_ عورتیں، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر،گھوڑے، مویشی اور زرعی زمینیں بڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں، مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں۔ (آلِ عمران۔14)
ہمیں اس بات سے بھی آگاہ ر ہنا چاہئے کہ ہمیں مفلسی سے ڈرانے والا اصل میں کون ہے؟: شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور شرمناک طرزِ عمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے، مگر اللہ تمہیں اپنی بخشش اور فضل کی اُمید دلاتاہے۔ (البقرة ۔ 26)
چنانچہ نہ تو ہمیں افلاس کے ڈر سے شاد ی میں تاخیر کرنی چاہئے نہ ہی شادی کے بعد کم سے کم بچوں والی ’خاندانی منصوبہ بندی‘ کو اپنانا چاہئے کہ ہمیں بھی اور انہیں بھی رزق دینے والا اللہ ہی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے: اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی۔ ( بنی اسرائیل۔31)
اپنے بچوں کے رازق ہم نہیں بلکہ ہمارا رب ہے:زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسانہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو ۔(سورة ھود ۔ 6)
اسی طرح شادی کی راہ میں غربت یا مال کی کمی کو رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہئے کیونکہ خود اللہ اس بات کی ضمانت د ے رہا ہے کہ اگر غریب اللہ پر بھر وسہ کرتے ہوئے نکاح کرے تو اللہ اسے غنی کر دیتا ہے:تم میںسے جو لوگ مجرد ہوں اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں، ان کے نکاح کردو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا، اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے۔(النور۔32)

ایک مومن کو تو ویسے ہی اپنے رزق کے بارے میں پریشان نہیں ہونا چاہئے کہ اس کی پیدائش سے قبل ہی اس کے رزق اور عمر کا تعین ہوچکا ہوتا ہے:سیدنا عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ ہم سے رسول اﷲصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں تمام کی جاتی ہے۔ پھر اﷲ تعالیٰ فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتو ں کے لکھنے کاحکم دیا جاتا ہے۔ اس کاعمل، اس کا رزق، اس کی عمر اور اس کی خوش بختی یا بدبختی۔ (کتاب بدءالخلق، بخاری)۔
ہمارا یہ بھی ایمان ہونا چاہئے کہ ہم اپنا رزق پورا کئے بغیر مر نہیں کتے: حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے ارشاد فرمایا : کوئی متنفس اس وقت تک نہیں مرتا جب تک کہ اپنا رزق پورا نہ کرلے۔ (شرح السنة، بیہقی)
اللہ نے رزق کے بارے میں قرآن میں بار بار مختلف انداز میں یاد دہانی کروائی ہے جیسے:کتنے ہی جانور ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے، اللہ ان کو رزق دیتا ہے۔ اور تمہارا رازق بھی وہی ہے،وہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے۔(العنکبوت ۔ 60 )۔
اللہ ہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا، پھر تمہیں رزق دیا، پھر وہ تمہیں موت دیتا ہے، پھر وہ تمہیں زندہ کرے گا۔ (الروم ۔ 40)
اور کیا انہیں معلوم نہیں ہے کہ اللہ جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے؟ اس میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔ (سورة الزُمر۔52)
 
اگر کوئی سمجھے تو بے شک عورت، انسان اور فرشتے کے درمیان ایک مخلوق ہے ۔ وہ انسان کے ایک جگمگاتے مستقبل کی پیغامبر ہے ۔ عورت کو قدرت نے مرد کی رفاقت کیلئے بنایا ہے ۔ عورت پُر اسرار ضرور ہے لیکن یہ بھی نہیں کہ مرد اسے سمجھ ہی نہ سکے ۔ بس اتنا ہے کہ عورت ہو یا مرد۔۔۔ ۔انسان ایک زندہ حقیقت ہے ، کوئی جامد شئے نہیں ۔ جہاں بھی زندگی ہو گی، وہاں حیرت کا عنصر بھی ہو گا۔ عورت کوئی پہیلی ہوتی تو کبھی بوجھی جا چکی ہوتی۔ عورت تو ایک جیتا جاگتا جادو ہے ۔ ایک ایسی کشش ہے جو مرد کو زندگی کے معنی سمجھاتی ہے اور زندہ رکھتی ہے ۔
ہمارے یہاں عورت کو یا تو پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا رہا یا پھر سمجھنے کا نہ سمجھانے کا ایک معمہ! یہ دونوں صورتیں عورت کی حقیقت سے گریز کے مترادف ہیں ۔ ہم نے یہاں عورت کو ایک چلتی پھرتی حقیقت کے طور پر جاننے پہنچاننے کی کوشش کی ہے ۔ نفسیات، انسان کا مطالعہ اشرف المخلوقات سمجھ کر نہیں کرتی، کیونکہ اسے انسان ہی کا مطالعہ کرنا ہے ۔ اس لئے یہ اس ضمن میں کسی قسم کی رو رعایت روا نہیں رکھتی۔ جہاں تک عورت کا تعلق ہے ہمارے یہاں تو اسے شاعرانہ نگاہ سے یا پھر بزرگوں کے اقوال کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے ۔ مگر یہ انداز نظر و فکر انتہا پسند ہونے کی وجہہ سے خام ہے ۔
اگراول الذکر کے نزدیک عورت محض محبوبہ دل نواز اور تصویر کائنات کا رنگ ہے تو موخر الذکر کے بموجب اس کا وجود جہنم کی طرف لے جانے والا ہے ۔ عورت محض پیکر رنگ و بو ہی نہیں بلکہ گوشت پوست کے جسم کی بھی مالک ہے ۔ وہ مونا لیزا بن کر مصور کے تخیل کیلئے محرک کا کام بھی کروا سکتی ہے اور بیٹریس بن کر شاعر سے لازوال نغمات کی تخلیق بھی کرواسکتی ہے لیکن پھر بھی وہ عورت ہی رہتی ہے ۔ جس کا نظام عصبی ہے جس کا ایک ذہن ہے اور جس کے جسم کے مخصوص تقاضے ہیں ۔

عورت شعلہ بھی ہے اور شبنم بھی! پھول کی پتی بھی اور تلوار کی دھار بھی! صاف گو بھی اور کینہ ساز بھی! پیکر رحمت و شفقت بھی مجسم انتقام و حسد بھی! ڈرپوک بھی اور بہادر بھی! اس کے دل میں کچھ ہوتا ہے اور زبان پر کچھ ہوتا ہے ۔ بھولی بھالی بھی اور چالاک بھی! اس لئے مردوں کی اکثریت نے یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ عورت ایک ناقابل فہم پہیلی ہے ۔ بس اپنے کام سے کام رکھنا ہی درست ہے ۔ چکر میں پڑنا حماقت ہے ۔
مردوں کی اس حماقت کا یہ نتیجہ ہوا کہ دونوں صنفوں کے درمیان دوری بڑھتی گئی۔ نہ مرد عورت کی فطرت کو سمجھتا ہے اور نہ عورت مرد کی فطرت کو ۔ اس سے اختلافات اور غلط فہمیوں میں اضافہ ہوا۔ نت نئی ذہنی بیماریوں نے جنم لیا۔ گھٹن بڑھتی گئی۔ کھینچا تانی شروع ہو گئی۔ مرد نے کوشش کی کہ عورت کو بہلا پھسلا کر کام چلاتا رہے اور عورت نے مرد سے انتقام لینے کیلئے جنسی سرد مہری (ٹھنڈے پن) کا لبادہ اوڑھ لیا۔ اس خطرناک مسابقت یا رسہ کشی نے دونوں کو ذہنی سکون اور اطمینان قلب سے محروم کر دیا۔ اس تباہی اور بربادی کی ذمہ داری نہ صرف مرد پر ہے اور نہ صرف عورت پر۔
قصور دونوں کا ہے ، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ مرد کی ذمہ داری زیادہ ہے ۔ اگر عورت محبت کا جواب گرم جوشی سے نہیں دیتی تو اس کی تمام تر ذمہ داری صرف عورت پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ عورت تو یہ چاہتی ہے کہ اس کی شخصیت کا احترام کیا جائے ۔ اس سے بہ حیثیت ایک فرد محبت کی جائے ۔

ہم زندگی کے بنک سے وہی کچھ حاصل کرتے ہیں جو ہم نے جمع کیا ہے ۔ اگر ہم نے پیار نہیں دیا ہے تو پیار کس طرح پا سکتے ہیں ؟ نسوانیت کا احترام نہیں کیا ہے تو مردانگی کا احترام کس لئے کیا جائے ؟

عورت نہ تو آقا سے محبت کر سکتی ہے ، نہ غلام سے ، وہ تو ایک ہم سفر سے محبت کر سکتی ہے ۔ جو محبت کی راہ پر اس کے شانہ بشانہ چل سکے اور جو اس کی نسوانیت کا زیادہ سے زیادہ تحفظ کر سکے ۔ مرد جب تک آقا یا غلام رہیں گے وہ عورت کی محبت سے محروم رہیں گے ۔ البتہ جب وہ اپنے اپنے مقام سے ہٹ کر دوست کے مقام پر آ جائیں گے تو عورت اپنی محبت سے ضرور نوازے گی۔
اگر کوئی مرد یہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی، ماں کی طرح اس سے پیار کرے تو اس کو چاہئے کہ وہ کسی ماہر نفسیات سے صلاح و مشورہ کرے ، بصورت دیگر وہ خود بھی پریشان اور ناکام ہو گا اور بیوی کے ارمانوں کا بھی خون کرے گا۔
جہاں تک عورت اور مرد میں رفاقت کا تعلق ہے نہ کوئی بڑا ہے نہ چھوٹا، نہ کوئی مالک نہ کوئی ملکیت، نہ کوئی غلام بلکہ دونوں ہم سفر ہیں ۔ منزل ایک ہے ۔ لیکن دونوں کی فطرت مختلف ہے ۔ ایک تیزگام ہے ، ایک سست رفتار، ایک تحفظ کرنا چاہتا ہے ایک تحفظ کرانا چاہتا ہے ۔ ایک کے لئے محبت کا مطلب پیش قدمی ہے دوسرے کیلئے خود سپردگی ۔ اگر دونوں ایک دوسرے کا خیال رکھیں تو سفر کے دوران پیش آنے والے مصائب کا مقابلہ آسانی سے کیا جاسکتا ہے اور دشواریوں پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔

یقیناً عشق کا سفر بے حد مشکل ہے لیکن منزل بھی اتنی حسین ہے کہ جان کی بازی بھی ہنستے کھیلتے لگائی جا سکتی ہے ۔ کوئی چیز پیسیوں میں بھی مہنگی ہے اور کوئی شئے لاکھوں روپئے میں بھی سستی ہے ۔ سوال قیمت کا نہیں بلکہ مطلوبہ شئے کی افادیت کا ہے ۔ کسی کیلئے دس قدم چلنا بھی ایک دشوار کام ہے لیکن دو چاہنے والوں کیلئے مئی، جون کی چلچلاتی دھوپ میں میلوں کا فاصلہ طئے کر لینا آسان ہے ۔ فیصلہ بہرحال ہم کو کرنا ہے ۔ انتخاب کی آزادی سے لطف اندوز ہونا ہمارا فطری حق ہے ۔

ہم نے اب تک جو کچھ جاننے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے اس سے عورت کی ایک ایسی تصویر اُبھرتی ہے جو دلچسپ اور عجیب تو ہے لیکن ناقابل فہم نہیں ۔۔۔ ۔ بے شک عورت پسلی کی طرح ٹیڑھی ہے ۔ اس سے اگر کچھ کام لینا ہے تو اس کے ٹیڑھے پن ہی کیساتھ ہی لیا جا سکتا ہے ۔ اگر اسے سیدھا کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ ٹوٹ جائے گی۔ آسمانی صحائف میں عورت کو کھیتی سے تشبیہ دیتے ہوئے ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ واضح رہے کہ اس کھیتی کی فصل کا محض ہل اور ہل چلانے والے کی طاقت یا مہارت پر ہی انحصار نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ زمین کی ساخت، موسموں کی تبدیلی اور ہواؤں کی بدلتی کیفیات کی پہچان بھی لازم ہے ۔

مرد کی نیرنگئ فطرت کامطالعہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں ۔ مردوں کے طبائع اور کردار میں تضاد ہو سکتا ہے، لیکن ان کے برخلاف، عورتیں ایک دوسرے سے بہت زیادہ مختلف ہوتی ہیں۔ ایک عورت دوسری عورت سے زیادہ پُر کاری لئے ہوئے ہوتی ہے ۔ اس لئے عورتوں کو چند اقسام میں باٹنا ممکن نہیں ۔ البتہ جہاں تک مردوں کا تعلق ہے ان میں اتنا اختلاف نہیں ہوتا اس لئے انہیں بعض اقسام میں محدود کیا جاسکتا ہے ۔
بہت خوبصورت اور سچی تحریر ہے(y)
 
x417791_60183659.jpg.pagespeed.ic.u_0P88SwTi.jpg
 
Top