کیا خطا تھی مری محبوبہ کی؟
ہم نے اس بار خزاں میں دیکھا
مل گئے خاک میں ارماں کتنے
دیکھتے دیکھتے اس دل کی طرح
ہو گئے خالی گلستاں کتنے
کل تک اس گھر میں خوشی کا تھا سماں
مدتوں بعد خبر آئی تھی
دولہا بننے کو تھا نوشاہ کوئی
آخری ساعتِ تنہائی تھی
دوسرے گھر میں دلہن تھی تیار
دوست اک آئی تھی، اور گاتی تھی
تیرے محبوب نے رشتہ بھیجا
اور وہ کچھ سوچ کہ شرماتی تھی
دونوں خوشحال تھے اور ہنستے تھے
خوب دیتے تھے مبارک بادیں
دیکھو ہم ملنے کو ہیں آخر کار!
کتنی ہی خوب ہیں یہ تقدیریں
لیکن اے کاتب تقدیر، بتا!
کیا خطا تھی مری محبوبہ کی؟
زندگی دی تھی تو پھر چھینی کیوں؟
کیا اسی میں تھی تری بیباکی؟
اور یہ دو دن جو خوشی کے دیے تھے
کیا ضرورت تھی بھلا ان سب کی؟
تو مجھے پہلے ہی اٹھوا لیتا
"ہاں!" کو جنبش ہی نہ ہوتی لب کی
وہ جو ہنستی تھی سو وہ سو ہی گئی
اب میں بے خواب ہوں اور روتا ہوں
غسل دے آیا ہوں اشکوں سے اسے
قبر کی تختی کو اب دھوتا ہوں
ہائے! جاناں یہ تمہاری قسمت
وصل کا تجھ کو بڑا ارماں تھا
روز کہتی تھی کہ رشتہ بھیجو
پر میں بے بس تھا، میں بے ساماں تھا
پھر وہ دن جبکہ کہا تھا میں نے
آج رشتہ مرا آجائے گا
کتنا خوش ہو کہ کہا تھا تم نے
دیکھو! اب کتنا مزہ آئے گا
وائے ہو گردشِ دوراں تجھ پر
رحم آیا نہ تجھے ہم پہ ذرا!
اس کے ہاتھوں پہ لگی تھی مہندی
سر پہ سجنے کو تھا میرے سہرا
جاڑے سے قبل اسے سرد کیا
ہائے کیوں بادِ خزاں ایسی چلی؟
اب کبھی مڑ کے نہیں دیکھے گی
اب مری جان جہاں ایسی چلی
مہدی نقوی حجازؔ
صد حیف!