سیہ نظم: کیا خطا تھی مری محبوبہ کی؟!

مہدی بھیا ! بہت ہی افسوس ہوا ۔ یہ غمناک خبر جان کر۔

انا للہ و انا الیہ راجعون

جمال احسانی یاد آ گئے:

یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
کہ اب تو جاکہ کہیں دن سنورنے والے تھے
اللہ صبر دے آپ سب کو۔
بہت بہترین شعر سنایا ہے حضرت۔ اس سے بہتر اس وقت کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ شکریہ۔
 

جیہ

لائبریرین
کیا خطا تھی مری محبوبہ کی؟
ہم نے اس بار خزاں میں دیکھا
مل گئے خاک میں ارماں کتنے
دیکھتے دیکھتے اس دل کی طرح
ہو گئے خالی گلستاں کتنے

کل تک اس گھر میں خوشی کا تھا سماں
مدتوں بعد خبر آئی تھی
دولہا بننے کو تھا نوشاہ کوئی
آخری ساعتِ تنہائی تھی

دوسرے گھر میں دلہن تھی تیار
دوست اک آئی تھی، اور گاتی تھی
تیرے محبوب نے رشتہ بھیجا
اور وہ کچھ سوچ کہ شرماتی تھی

دونوں خوشحال تھے اور ہنستے تھے
خوب دیتے تھے مبارک بادیں
دیکھو ہم ملنے کو ہیں آخر کار!
کتنی ہی خوب ہیں یہ تقدیریں

لیکن اے کاتب تقدیر، بتا!
کیا خطا تھی مری محبوبہ کی؟
زندگی دی تھی تو پھر چھینی کیوں؟
کیا اسی میں تھی تری بیباکی؟

اور یہ دو دن جو خوشی کے دیے تھے
کیا ضرورت تھی بھلا ان سب کی؟
تو مجھے پہلے ہی اٹھوا لیتا
"ہاں!" کو جنبش ہی نہ ہوتی لب کی

وہ جو ہنستی تھی سو وہ سو ہی گئی
اب میں بے خواب ہوں اور روتا ہوں
غسل دے آیا ہوں اشکوں سے اسے
قبر کی تختی کو اب دھوتا ہوں

ہائے! جاناں یہ تمہاری قسمت
وصل کا تجھ کو بڑا ارماں تھا
روز کہتی تھی کہ رشتہ بھیجو
پر میں بے بس تھا، میں بے ساماں تھا

پھر وہ دن جبکہ کہا تھا میں نے
آج رشتہ مرا آجائے گا
کتنا خوش ہو کہ کہا تھا تم نے
دیکھو! اب کتنا مزہ آئے گا

وائے ہو گردشِ دوراں تجھ پر
رحم آیا نہ تجھے ہم پہ ذرا!
اس کے ہاتھوں پہ لگی تھی مہندی
سر پہ سجنے کو تھا میرے سہرا

جاڑے سے قبل اسے سرد کیا
ہائے کیوں بادِ خزاں ایسی چلی؟
اب کبھی مڑ کے نہیں دیکھے گی
اب مری جان جہاں ایسی چلی

مہدی نقوی حجازؔ
صد حیف!
اچھی نظم ہے۔ سب کچھ بے دھڑک بتا دیا
 
انسان کی قسمت میں اللہ تعالی نے اس کے حصے کا غم بھی پہلے دن ہی لکھ دیا تھا اور خوشیاں بھی کتاب محکم میں درج فرما دی تھیں کب کس کو کیا دینا ہے اور کتنا دینا ہے یہ اس کے اپنے علم غیب میں محفوظ ہے۔کبھی بوڑھے والدین جوان اولاد بیٹے سے محروم ہو جاتے ہیں اور کبھی شيرخوار بلکہ کبھی کبھی جنم سے پہلے اپنے والدین کے سائے سے محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں تو کبھی معصوم بچوں سے ان کے والدین کا سایہ شفقت ہمیشہ کے لئے اٹھ جاتا ہے ،پھر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم سے ہماری سب سے عزیز ترین متاع جسے ہم کبھی کھونا نہیں چاہتے چھین لی جاتی ہے ۔
ابھی دیکھئے نا کچھ دن ہی پہلے استاد محترم اور محفل کے معزز رکن جناب محمد یعقوب آسیصاحب کی اہلیہ اس دنیا سے چل بسیں۔اس سے پہلے جیہ اپیا کے شوہر نامدار نے بھی ہمیشہ ہمیش کے لئے آنکھیں موند لیں ۔پھر عمار ابن ضیا بھائی کے یہاں ایک ننھی پری کی آمد ہوئی اور چند ہی دنوں کے بعد وہ واپس چلی گئی۔
ہم کیا کر سکتے ہیں ۔انسان تو مجبور بے محض ہیں۔ہمارے پاس سوائے اسے اس کی مرضی پر محمول کر لینے کے کوئی چارہ کار نہیں ۔وہ خود کہتا ہے ایسے موقع پر صبر کرنے کو۔۔۔۔۔ ان اللہ مع الصابرین ۔
اگر انسان اسے بھی کھو دے گا تو اس کے پاس کچھ بھی نہیں بچے گا پھر نہ تو وہ دنیا کا ہوگا اور نہ آخرت کا ۔ایک مسلمان کے لئے یہ سب سے بڑا سرمایہ ہے ۔ خالق کائنات کی کا یہ جہان ازل سے اسی طرح چلتی آ رہی ہے اور ہمیشہ یوں ہی چلتی رہے گی۔ سو میں آپ کو اور دیگر متعلقین کو صبر کی تلقین کرتا ہوں ۔اللہ ہم سب کے ساتھ معاملہ آسان فرمائے ۔
 
آخری تدوین:

غدیر زھرا

لائبریرین
اچھی نظم ہے--
حقیقی واقعہ ہونے کی وجہ سے دل پر زیادہ اثر کر رہی ہے---
انا للہ و انا الیہ راجعون--
اللہ لواحقین کو صبر عطا فرمائے -آمین--
 
کیا خطا تھی مری محبوبہ کی؟
ہم نے اس بار خزاں میں دیکھا
مل گئے خاک میں ارماں کتنے
دیکھتے دیکھتے اس دل کی طرح
ہو گئے خالی گلستاں کتنے

کل تک اس گھر میں خوشی کا تھا سماں
مدتوں بعد خبر آئی تھی
دولہا بننے کو تھا نوشاہ کوئی
آخری ساعتِ تنہائی تھی

دوسرے گھر میں دلہن تھی تیار
دوست اک آئی تھی، اور گاتی تھی
تیرے محبوب نے رشتہ بھیجا
اور وہ کچھ سوچ کہ شرماتی تھی

دونوں خوشحال تھے اور ہنستے تھے
خوب دیتے تھے مبارک بادیں
دیکھو ہم ملنے کو ہیں آخر کار!
کتنی ہی خوب ہیں یہ تقدیریں

لیکن اے کاتب تقدیر، بتا!
کیا خطا تھی مری محبوبہ کی؟
زندگی دی تھی تو پھر چھینی کیوں؟
کیا اسی میں تھی تری بیباکی؟

اور یہ دو دن جو خوشی کے دیے تھے
کیا ضرورت تھی بھلا ان سب کی؟
تو مجھے پہلے ہی اٹھوا لیتا
"ہاں!" کو جنبش ہی نہ ہوتی لب کی

وہ جو ہنستی تھی سو وہ سو ہی گئی
اب میں بے خواب ہوں اور روتا ہوں
غسل دے آیا ہوں اشکوں سے اسے
قبر کی تختی کو اب دھوتا ہوں

ہائے! جاناں یہ تمہاری قسمت
وصل کا تجھ کو بڑا ارماں تھا
روز کہتی تھی کہ رشتہ بھیجو
پر میں بے بس تھا، میں بے ساماں تھا

پھر وہ دن جبکہ کہا تھا میں نے
آج رشتہ مرا آجائے گا
کتنا خوش ہو کہ کہا تھا تم نے
دیکھو! اب کتنا مزہ آئے گا

وائے ہو گردشِ دوراں تجھ پر
رحم آیا نہ تجھے ہم پہ ذرا!
اس کے ہاتھوں پہ لگی تھی مہندی
سر پہ سجنے کو تھا میرے سہرا

جاڑے سے قبل اسے سرد کیا
ہائے کیوں بادِ خزاں ایسی چلی؟
اب کبھی مڑ کے نہیں دیکھے گی
اب مری جان جہاں ایسی چلی

مہدی نقوی حجازؔ
صد حیف!
بہت عمدہ اور غمگین ۔۔۔
 
اچھی نظم ہے--
حقیقی واقعہ ہونے کی وجہ سے دل پر زیادہ اثر کر رہی ہے---
انا للہ و انا الیہ راجعون--
اللہ لواحقین کو صبر عطا فرمائے -آمین--
تعزیت فرمانے کا شکریہ اور پسندیدگی اور اثر اندازی کے بارے تو آپ کے ذوق کی تحسین ہونی چاہیے۔
 

عبدالحسیب

محفلین
انا للہ و انا الیہ راجعون

ہر نفس کو موت کا مزہ چکنا ہے۔ اب اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اللہ صبر کی توفیق دے ۔
 
بہت خوب نظم کیا ہے اپنے احساسات کو!

اور آپ کے غم پر نہایت افسوس ہو رہا ہے۔
تعریف کا شکریہ۔ افسوس کی ایک ہی رہی۔ اب نہ ہم میں تاب رہی ہے دوبارہ عشق کرنے کی نہ جگر لخت لخت کو جمع کرنے کی۔ تھک گئے ہیں۔ بہت تھک گئے ہیں۔ سو اپنے آپ کو رنجور نہ فرمائیے۔
 
Top