سی آئی اے پولیوویکسین مہم کو ’’آلہ کار‘‘ نہیں بنائےگی،مشیراوباما

arifkarim

معطل
واشنگٹن (نمائندہ خصوصی + بی بی سی+ نوائے وقت رپورٹ) پولیو کے خلاف مہم کو سی آئی اے خفیہ آپریشنز کیلئے استعمال نہیں کرے گی، امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ مہم کی آڑ میں کسی کا ڈی این اے حاصل نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان میں امریکہ نے اُسامہ بن لادن کو پکڑنے کیلئے پولیو مہم کا سہارا لیا جس کے بعد پاکستان میں پولیو ورکرز پر حملے بڑھ گئے اور اس طرح پولیو مریضوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ مشیر وائٹ ہائوس لیزا موناکو نے بھی اعتراف کیا ہے کہ اُسامہ بن لادن کے لئے ویکسین پروگرام کے بعد پولیو مہم پرشکوک کے باعث پاکستان میں پولیو کے مریضوں میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ویکسینیشن پروگرامز کو خفیہ آپریشنز کیلئے استعمال نہ کرنے کا فیصلہ اگست 2013ء میں کیا گیا۔ پالیسی کا اطلاق دنیا بھر میں امریکیوں اور غیر امریکیوں پر یکساں ہوگا۔ پاکستان میں ان واقعات سے انسداد پولیو مہم کو کافی نقصان پہنچا۔ اوباما کی مشیرکے مطابق سی آئی اے چیف ویکسین پروگرام کا آپریشنل استعمال نہ کرنے کی ہدایت کر چکے ہیں۔ سی آئی اے ویکسین پروگرام کے ذریعے کسی کا ڈی این اے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرے گی۔ نئی پالیسی جس کا آغاز سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان برینن نے اگست 2013ء میں کیا تھا اس سے قبل بے نقاب نہیں کی گئی تھی۔ لیزامونا کونے گزشتہ ہفتے ہیلتھ سے متعلق 13 اداروں کے سربراہوں کو خطوط لکھ کر بتایا تھا کہ مبینہ پالیسی کا نفاذ کردیا گیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ سی آئی اے ویکسینیشن پروگراموں میں ورکروں کو استعمال کرے گی اور نہ ہی اس قسم کے پروگراموں سے مطلوب جینٹک میٹریل اور ڈی این اے کے حصول یا ایسے مواد کو کسی کے استحصال کیلئے استعمال نہیں کرے گی۔ واضح رہے کہ سی آئی اے نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے گھر پر دھاوا بولنے کیلئے متعلقہ معلومات کے حصول کی غرض سے ایک پولیو ورکر کی حیثیت سے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو استعمال کیا تھا۔ سی آئی اے کا مقصد متعلقہ کمپائونڈ میں رہنے والے بچوں سے حاصل کردہ ڈی این اے کا موازنہ اسامہ کی مرحومہ بہن سے حاصل کردہ ڈی این اے سے کرنا تھا۔
http://www.nawaiwaqt.com.pk/national/21-May-2014/304058

اس دھاگہ میں امریکی پاکستانیوں کو خاص طور پر مدعو کیا جاتا ہے:
زیک
Fawad -
محب علوی
فاروق سرور خان
 
آخری تدوین:

سید ذیشان

محفلین
؏
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

سی آئی اے کے ان جاہلوں کو یہ کام کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا کہ یہاں پر ان سے بھی بڑے جاہل بستے ہیں طالبان کی شکل میں۔
 

arifkarim

معطل
یہ کونسوی امریکی دانستہ "غلطی" ہے جسے اپنے سیاسی ، عسکری ، معاشی اہداف کے حصول کے لئے استعمال کرکے بعد میں ترک کرکے معافی بھی نہیں مانگی گئی ہے؟ :D
 
؏
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

سی آئی اے کے ان جاہلوں کو یہ کام کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا کہ یہاں پر ان سے بھی بڑے جاہل بستے ہیں طالبان کی شکل میں۔
جاہل کیسے کہتے ہیں؟
جاہل کی بین الاقوامی تعریف ؟


mayerautism.jpg
 
آخری تدوین:

حاتم راجپوت

لائبریرین
’’پولیو ویکسینیشن“ کی آڑ میں جاسوسی کا عمل قابلِ مذمت ہے۔ سی آئی اے کی اسی غلط اور غیر اخلاقی گھٹیا حرکت کی وجہ سے پاکستان میں کئی پولیو ورکرز کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


سب سے پہلی بات تو يہ ہے کہ يہ دعوی حقائق کے منافی ہے کہ دہشت گردوں کی پوليو مہم سے متعلق سوچ اور اس ضمن ميں ان کی کاروائياں بشمول پوليو ورکرز پر حملے سال 2011 ميں ايبٹ آباد آپريشن کے بعد شروع ہوئے۔


وہ پراگندہ سوچ اور دقيانوسی خيالات جن کی بدولت تشدد پسند عناصر اس بات پر قائل ہو گئے کہ دانستہ اور جانتے بوجھتے ہوئے مستقبل کی نسلوں کی صحت عامہ کو خطرات سے دوچار کرنا درست ہے، ہيلتھ ورکرز کے خلاف ايسے درجنوں ہولناک حملوں کا موجب بنے ہيں جو برسا برس سے جاری ہيں۔


اس حوالے سے کوئ ابہام نہيں رہنا چاہيے۔ وہ خونی عناصر جو انتہائ بے رحمانہ طريقے سے ہر شعبہ زندگی سے متعلق بے گناہ شہريوں کو باقاعدہ ٹارگٹ کر کے ہلاک کر رہے ہيں، وہ ہميشہ ايسی "کہانی" کی تلاش ميں رہتے ہيں جس کی آڑ ميں وہ اپنی کاروائياں جاری رکھ سکيں۔ کشت وخون پر مبنی اپنی مہمات کو جاری رکھنے اور ان پر پردہ ڈالنے کے ليے يہ عناصر کسی بھی واقعے يا صوت حال کو توڑمروڑ کر اپنے مقصد کے ليے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہيں۔


حقيقت تو يہ ہے کہ ہيلتھ ورکرز کو درپيش خطرات کا معاملہ صرف پاکستان تک ہی محدود نہيں ہے بلکہ يہ ياد دہانی ضروری ہے کہ سال 2003 ميں بھی پوليو سے ويکسينيشن کے لیے اسی نوعيت کی ايک مہم کا آغاز کيا گيا تھا جس کے ردعمل ميں نائيجيريا ميں کچھ امام حضرات کی جانب سے اس مہم کے بائيکاٹ کا اعلان اس بنياد پر کيا گيا تھا کہ يہ مسلمانوں ميں ايڈز پھيلانے يا انھيں بانجھ کرنے کی مغربی سازش ہے۔ اس کے نتيجے ميں اگلے سال پوليو کا شکار ہو کر اپاہج ہونے والے بچوں کی تعداد ميں دگنا اضافہ ہو گيا جس کے بعد يہ خدشہ بھی پيدا ہو گيا کہ يہ بيماری آس پاس کے درجنوں ممالک ميں بھی پھيل جائے گی۔


وہ رائے دہندگان جو بدستور امريکہ کو پوليو ورکرز کے خلاف جاری خونی مہم کے ليے قصوروار سمجھتے ہيں، انھيں يہ ياد رکھنے کی ضرورت ہے کہ سال 2009 ميں اقوام متحدہ کے ادارے ڈبليو-ايچ-او کی جانب سے پوليو کے انسداد کے ضمن ميں حائل رکاوٹوں کے تعين کے ليے ايک آزادانہ تحقيق کا اہتمام کيا گيا جس ميں تمام متاثرہ ممالک ميں تفصيل کے ساتھ ان عوامل کا ذکر کيا گيا جو پوليو کے خاتمے کے عمل کو مکمل نہيں ہونے دے رہے۔ اس وقت بھی پاکستان اور افغانستان ميں اس ضمن ميں سب سے بڑی رکاوٹ سيکورٹی اور پوليو ورکرز کو عدم تحفظ قرار ديا گيا تھا۔


يہ انتہائ لغو الزام ہے کہ کراچی، پشاور اور مختلف قبائلی علاقوں ميں پوليو ورکرز کی ہلاکت کے حاليہ واقعات کا براہراست تعلق ڈاکٹر شکيل آفریدی کيس سے ہے۔ ناقابل ترديد حقيقت تو يہ ہے کہ برسا برس سے دہشت گردوں کی جانب سے اس ايشو کو استعمال کر کے عوامی سطح پر خوف اور دھونس کے ذريعے اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کی گئ ہے۔ دہشت گرد تنظيموں کی جانب سے پوليو ويکسينيشن کے ضمن ميں کی جانے والی کاوشوں کے خلاف اپنے زہريلے پراپيگنڈے کے ذريعے دنيا کے بے شمار ممالک ميں ان گنت معصوم لوگوں کو ہلاک اور بچوں کے ليے تکليف اور اذيت کا سامان ان کی سوچ کا آئينہ دار ہے۔


ملک کے طول و عرض ميں بے گناہ ہيلھ ورکرز کا حالیہ قتل اسی خونی مہم کی تازہ کڑی ہے جو ايک دہائ سے بھی زيادہ پرانی ہے۔

سال 2010 کے دوران پاکستان دنيا کا واحد ملک تھا جہاں پر اس بيماری سے اپاہج ہونے والے افراد کی تعداد ميں پہلے کے مقابلے ميں اضافہ ہوا۔ گزشتہ برس يہ تعداد 89 تھی جو ورلڈ ہيلتھ آرگائنيزيشن کے مطابق اس سال بڑھ کر 138 ہو گئ۔ ان اعدادوشمار کی روشنی ميں پاکستان ميں دنيا بھر کے مقابلے ميں پوليو کے سب سے زيادہ کيسز سامنے آئے ہیں۔

ان ميں سے زيادہ تر کيسز افغان سرحد کے پاس ان علاقوں ميں سامنے آئے ہيں جہاں گزشتہ برس ايک پاکستانی طالبان کمانڈر نے پوليو ويکسين کو غير شرعی قرار ديا تھا۔

مغربی ممالک سے پوليو کا خاتمہ کئ دہائيوں پہلے ہو چکا ہے ليکن پاکستان میں يہ اب بھی ايک وبا کی حیثيت رکھتا ہے۔ ايک مہلک اور اکثر وبائ نوعيت کی اس بيماری کا خاتمہ محض بچے کی زبان پر چند قطرے دوائ کے رکھنے سے کیا جا سکتا ہے۔

يہ حقائق ان افراد کی آنکھيں کھول دينے کے لیے کافی ہيں جو امريکہ کی ہر کوشش پر تنقيد ضروری سمجھتے ہيں چاہے اس کے نتيجے ميں پاکستان ميں پوليو کے خاتمے اور مستقبل کی نسلوں کے بچاؤ کی کوششوں کو ہی نقصان کيوں نہ پہنچے۔


وقت کی ضرورت ہے ايک نفرت انگيز نظريے کے پرچار ميں اندھا ہونے کی بجائے پاکستان کے بچوں کی مدد کو مقدم رکھا جائے


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

Zara_sochiye_b_updated.jpg
 
آخری تدوین:

حاتم راجپوت

لائبریرین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


سب سے پہلی بات تو يہ ہے کہ يہ دعوی حقائق کے منافی ہے کہ دہشت گردوں کی پوليو مہم سے متعلق سوچ اور اس ضمن ميں ان کی کاروائياں بشمول پوليو ورکرز پر حملے سال 2011 ميں ايبٹ آباد آپريشن کے بعد شروع ہوئے۔


وہ پراگندہ سوچ اور دقيانوسی خيالات جن کی بدولت تشدد پسند عناصر اس بات پر قائل ہو گئے کہ دانستہ اور جانتے بوجھتے ہوئے مستقبل کی نسلوں کی صحت عامہ کو خطرات سے دوچار کرنا درست ہے، ہيلتھ ورکرز کے خلاف ايسے درجنوں ہولناک حملوں کا موجب بنے ہيں جو برسا برس سے جاری ہيں۔


اس حوالے سے کوئ ابہام نہيں رہنا چاہيے۔ وہ خونی عناصر جو انتہائ بے رحمانہ طريقے سے ہر شعبہ زندگی سے متعلق بے گناہ شہريوں کو باقاعدہ ٹارگٹ کر کے ہلاک کر رہے ہيں، وہ ہميشہ ايسی "کہانی" کی تلاس ميں رہتے ہيں جس کی آڑ ميں وہ اپنی کاروائياں جاری رکھ سکيں۔ کشت وخون پر مبنی اپنی مہمات کو جاری رکھنے اور ان پر پردہ ڈالنے کے ليے يہ عناصر کسی بھی واقعے يا صوت حال کو توڑمروڑ کر اپنے مقصد کے ليے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہيں۔


حقيقت تو يہ ہے کہ ہيلتھ ورکرز کو درپيش خطرات کا معاملہ صرف پاکستان تک ہی محدود نہيں ہے بلکہ يہ ياد دہانی ضروری ہے کہ سال 2003 ميں بھی پوليو سے ويکسينيشن کے لیے اسی نوعيت کی ايک مہم کا آغاز کيا گيا تھا جس کے ردعمل ميں نائيجيريا ميں کچھ امام حضرات کی جانب سے اس مہم کے بائيکاٹ کا اعلان اس بنياد پر کيا گيا تھا کہ يہ مسلمانوں ميں ايڈز پھيلانے يا انھيں بانجھ کرنے کی مغربی سازش ہے۔ اس کے نتيجے ميں اگلے سال پوليو کا شکار ہو کر اپاہج ہونے والے بچوں کی تعداد ميں دگنا اضافہ ہو گيا جس کے بعد يہ خدشہ بھی پيدا ہو گيا کہ يہ بيماری آس پاس کے درجنوں ممالک ميں بھی پھيل جائے گی۔


وہ رائے دہندگان جو بدستور امريکہ کو پوليو ورکرز کے خلاف جاری خونی مہم کے ليے قصوروار سمجھتے ہيں، انھيں يہ ياد رکھنے کی ضرورت ہے کہ سال 2009 ميں اقوام متحدہ کے ادارے ڈبليو-ايچ-او کی جانب سے پوليو کے انسداد کے ضمن ميں حائل رکاوٹوں کے تعين کے ليے ايک آزادانہ تحقيق کا اہتمام کيا گيا جس ميں تمام متاثرہ ممالک ميں تفصيل کے ساتھ ان عوامل کا ذکر کيا گيا جو پوليو کے خاتمے کے عمل کو مکمل نہيں ہونے دے رہے۔ اس وقت بھی پاکستان اور افغانستان ميں اس ضمن ميں سب سے بڑی رکاوٹ سيکورٹی اور پوليو ورکرز کو عدم تحفظ قرار ديا گيا تھا۔


يہ انتہائ لغو الزام ہے کہ کراچی، پشاور اور مختلف قبائلی علاقوں ميں پوليو ورکرز کی ہلاکت کے حاليہ واقعات کا براہراست تعلق ڈاکٹر شکيل آفریدی کيس سے ہے۔ ناقابل ترديد حقيقت تو يہ ہے کہ برسا برس سے دہشت گردوں کی جانب سے اس ايشو کو استعمال کر کے عوامی سطح پر خوف اور دھونس کے ذريعے اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کی گئ ہے۔ دہشت گرد تنظيموں کی جانب سے پوليو ويکسينيشن کے ضمن ميں کی جانے والی کاوشوں کے خلاف اپنے زہريلے پراپيگنڈے کے ذريعے دنيا کے بے شمار ممالک ميں ان گنت معصوم لوگوں کو ہلاک اور بچوں کے ليے تکليف اور اذيت کا سامان ان کی سوچ کا آئينہ دار ہے۔


ملک کے طول و عرض ميں بے گناہ ہيلھ ورکرز کا حالیہ قتل اسی خونی مہم کی تازہ کڑی ہے جو ايک دہائ سے بھی زيادہ پرانی ہے۔

سال 2010 کے دوران پاکستان دنيا کا واحد ملک تھا جہاں پر اس بيماری سے اپاہج ہونے والے افراد کی تعداد ميں پہلے کے مقابلے ميں اضافہ ہوا۔ گزشتہ برس يہ تعداد 89 تھی جو ورلڈ ہيلتھ آرگائنيزيشن کے مطابق اس سال بڑھ کر 138 ہو گئ۔ ان اعدادوشمار کی روشنی ميں پاکستان ميں دنيا بھر کے مقابلے ميں پوليو کے سب سے زيادہ کيسز سامنے آئے ہیں۔

ان ميں سے زيادہ تر کيسز افغان سرحد کے پاس ان علاقوں ميں سامنے آئے ہيں جہاں گزشتہ برس ايک پاکستانی طالبان کمانڈر نے پوليو ويکسين کو غير شرعی قرار ديا تھا۔

مغربی ممالک سے پوليو کا خاتمہ کئ دہائيوں پہلے ہو چکا ہے ليکن پاکستان میں يہ اب بھی ايک وبا کی حیثيت رکھتا ہے۔ ايک مہلک اور اکثر وبائ نوعيت کی اس بيماری کا خاتمہ محض بچے کی زبان پر چند قطرے دوائ کے رکھنے سے کیا جا سکتا ہے۔

يہ حقائق ان افراد کی آنکھيں کھول دينے کے لیے کافی ہيں جو امريکہ کی ہر کوشش پر تنقيد ضروری سمجھتے ہيں چاہے اس کے نتيجے ميں پاکستان ميں پوليو کے خاتمے اور مستقبل کی نسلوں کے بچاؤ کی کوششوں کو ہی نقصان کيوں نہ پہنچے۔


وقت کی ضرورت ہے ايک نفرت انگيز نظريے کے پرچار ميں اندھا ہونے کی بجائے پاکستان کے بچوں کی مدد کو مقدم رکھا جائے


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

Zara_sochiye_b_updated.jpg
بات کو غلط رنگ مت دیجئے مسٹر فواد۔ اس حقیقت سے کسی نے انکار نہیں کیا کہ بلاشبہ دہشت گرد تنظیموں نے پولیو ویکسینیشن کو غیر شرعی قرار دے کر پولیو ورکرز پر حملے کئے ہیں اور یہ حملے پچھلے کچھ عرصے سے جاری ہیں۔ لیکن کیا امریکہ بہادر یہ نہیں جانتا تھا کہ اس کی پولیو ویکسینیشن کی آڑ میں جاسوسی کی مہم اس علاقے کے عوام کے لئے مزید مشکلات کھڑی کر دے گی۔ یعنی جو دہشت گرد پہلے ہی سے اسے ''سازش'' قرار دے چکے ہیں کیا انہیں جواز فراہم نہیں کیا گیا۔ اور دوسرا یہ کہ امریکہ کی اس قبیح حرکت سے پولیو مہم کو جو از حد نقصان پہنچا ہے، اب اس کے نتیجے میں کتنی بڑی آبادی پولیو ویکسینیشن سے محروم رہنے والی ہے۔ اس بات کا اندازہ بھی یقینا لگا لیا گیا ہو گا لیکن باوجود اس کے اس طرح کی کاروائی کرنا انسانی حقوق کے علمبردار کے منہ پر ایک بہت بڑا طمانچہ ہے۔مجھے تو امریکہ نوازوں کی سرد مہری پر حیرت ہے جو منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
 

arifkarim

معطل
سب سے پہلی بات تو يہ ہے کہ يہ دعوی حقائق کے منافی ہے کہ دہشت گردوں کی پوليو مہم سے متعلق سوچ اور اس ضمن ميں ان کی کاروائياں بشمول پوليو ورکرز پر حملے سال 2011 ميں ايبٹ آباد آپريشن کے بعد شروع ہوئے۔
آپکے باس امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا پراپیگنڈہ یہاں نہیں چلے گا۔ اگر آپکو امریکی ردی ڈالر دیکر اپنی ملازمت پر رکھ سکتے ہیں تو ہمیں پاکستانی آئی ایس آئی ردی روپے دیکر بھی ایسا کر سکتی ہے۔
پولیو ورکرز کیخلاف اسلامی شدت پسندوں کے حملے اسامہ کی موت کے بعد اسوقت شروع ہوئے جب حضرت امریکہ نے خود اسبات کا اقرار کیا کہ اسامہ کے ڈی این اے تک رسائی انہوں نے ایک جعلی ہپی ٹائٹس ویکسین مہم کے بعد حاصل کی۔ اثبوت کیلئے یہ ربط دیکھیں:
http://www.theguardian.com/world/2011/jul/11/cia-fake-vaccinations-osama-bin-ladens-dna
http://www.scientificamerican.com/article/how-cia-fake-vaccination-campaign-endangers-us-all/


ایک مقامی سینئر ڈاکٹر کو پاکستانی آئی ایس آئی نے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کیساتھ اس تعاون کی وجہ سے 2011 میں گرفتار کیا تھا۔
 
جب ہسپتالوں کی بجائے گھروں میں بچے پیدا ہوں گے تو ایسا ہی ہوتا رہے گا۔
بھائی یہ بچے تو پہلے بھی گھروں میں پیدا ہوتے تھے لیکن اب کیا ہو گیا ؟
بس ایک عرض ہیں کہ ایک منصف کی حیثیت سے اس موضع پر نظر رکھو ۔ ہو سکتا ہے میرے سارے شکوک و شبہات غلط ہو ں اور میں چاہتا ہوں کہ یہاں پر وہ میں آپ لوگوں کے ساتھ شریک گفتگو کرو
تنقید اپنی جگہ ۔۔۔ مگر غیر جانبدارنہ ۔
میں بھی چاہتا ہوں کہ یہاں سب کچھ زیر بحث آجائے فری میسنری سے لیکر نیو ورلڈ ارڈر تک مگر ذاتی مفاد سے بالا تر ہوکر

و
 

arifkarim

معطل
بھائی یہ بچے تو پہلے بھی گھروں میں پیدا ہوتے تھے لیکن اب کیا ہو گیا ؟
بس ایک عرض ہیں کہ ایک منصف کی حیثیت سے اس موضع پر نظر رکھو ۔ ہو سکتا ہے میرے سارے شکوک و شبہات غلط ہو ں اور میں چاہتا ہوں کہ یہاں پر وہ میں آپ لوگوں کے ساتھ شریک گفتگو کرو
تنقید اپنی جگہ ۔۔۔ مگر غیر جانبدارنہ ۔
میں بھی چاہتا ہوں کہ یہاں سب کچھ زیر بحث آجائے فری میسنری سے لیکر نیو ورلڈ ارڈر تک مگر ذاتی مفاد سے بالا تر ہوکر

و

بھائی آپکو پہلے بھی یہ کئی بار باور کروایا جا چکا ہے کہ سائنس کو مذہب اور سیاست سے نہ ملائیں۔ ویکسین سے کوئی بانجھ پن پیدا نہیں ہوتا۔ اگر یہ سچ ہوتا تو سب سے زیادہ ویکسین پروگرام افریقہ میں ہوتے ہیں اور وہاں افزائش نسل پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے:
Countriesbyfertilityrate.svg

http://en.wikipedia.org/wiki/Total_fertility_rate
 
بھائی آپکو پہلے بھی یہ کئی بار باور کروایا جا چکا ہے کہ سائنس کو مذہب اور سیاست سے نہ ملائیں۔ ویکسین سے کوئی بانجھ پن پیدا نہیں ہوتا۔ اگر یہ سچ ہوتا تو سب سے زیادہ ویکسین پروگرام افریقہ میں ہوتے ہیں اور وہاں افزائش نسل پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے:
Countriesbyfertilityrate.svg

http://en.wikipedia.org/wiki/Total_fertility_rate

جزاک اللہ خیر
بہت شکریہ جواب دینے کا
بھائی اس ربط کا خلاصہ اور خاص کر نقطہ نمبر 30 کی وضاحت فرمائیں۔
 
Top