السلام عليكم ورحمت اللہ بركاتہ
مہوش علی بہن ايك مضمون پر تبصرہ كرتے وقت صاحب مضمون كے متعلق اتنا جارحانہ رویہ ميرى سمجھ سے بالاتر ہے۔ تنقيد اور اختلاف ذرا مختلف انداز ميں بھی ممكن ہے ۔
اچھی نصیحت کا شکریہ بنت حوا بہن۔
بہرحال ایک درخواست پھر بھی ہے کہ دوسری طرف کا بھی انداز بھی آپ نظر میں رکھئیے جہاں وہ اس مسئلے پر اتنے پُرجوش اور پُر تشدد ہیں کہ اس توہین آرڈیننس کے خلاف کچھ سننے کے لیے تیار نہیں، کوئی سچا جھوٹا الزام لگائے تو فوراً مرنے مارنے پر تُل جاتے ہیں، "فتنہ غامدیت" اور "فتنہ مودودیت" جیسے اصطلاحات اختلاف رائے پر انہیں علمائے کرام نے استعمال کی ہیں (خاص طور پر غامدی صاحب پر اس آرڈیننس کی مخالفت پر انکے خلاف آپ کو بہت شور نظر آ جائے گا)۔
ا
آپ كى باقى رائے كےے متعلق بھی ان شاء اللہ كچھ عرض كرنا ہے۔ في الوقت مصروفيت كے باعث صرف ايك بات كى جانب توجہ دلانا چاہتی ہوں۔
آپ اطمنان سے اپنا وقت لیں اور آپ کو جو کچھ کہنا ہے وہ تفصیل سے بیان فرمائیں۔ اللہ نے چاہا تو اسی طرح اس مسئلے پر پائے جانے والے شکوک و شبہات دونوں طرف سے ختم ہو سکیں گے۔ انشاء اللہ۔
ا
میری بہن حديث كے الفاظ كو دوبارہ ديكھیے۔
وعن أبي هريرة قال كنت أدعو أمي إلى الإسلام وهي مشركة فدعوتها يوما فأسمعتني في رسول الله صلى الله عليه و سلم
ما أكره ۔۔۔۔۔
حضرت ابوھریرہ رضي اللہ عنہ فرماتے ہیں ميں اپنی والدہ كو اسلام كى طرف بلاتا تھا _ جب كہ وہ مشركہ تھیں، تو ايك روزجب ميں نے ان كو دعوت دى تو انہوں نے مجھے رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كے متعلق ايك ايسى بات كہی جو مجھے
ناگوار گزری۔۔۔۔
جب كہ آپ نے جو ترجمہ كيا ہے :
1- ما أكرہ كا ترجمہ ناگوار بات ہے۔۔۔ اس بات كو سب ، شتم يا گالى نہیں کہیں گے۔
2- آپ کے ان الفاظ: میں "سخت" زائد ہے، اصل حديث ميںں صرف : " مجھے ناگوار گزری" ۔ كے الفاظ ہیں۔
3- آپ کے ترجمہ كردہ يہ الفاظ اصل عربى متن ميں موجود نہیں ۔
صحيح مسلم كى اس حديث كا
آن لائن متن یہاں دیکھ ليجیے اور مكتبہ شاملہ ميں موجود متن ملاحظہ فرمائيے:
[ARABIC]6551 - حدثنا عمرو الناقد حدثنا عمر بن يونس اليمامى حدثنا عكرمة بن عمار عن أبى كثير يزيد بن عبد الرحمن حدثنى أبو هريرة قال كنت أدعو أمى إلى الإسلام وهى مشركة فدعوتها يوما فأسمعتنى فى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ما أكره فأتيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وأنا أبكى قلت يا رسول الله إنى كنت أدعو أمى إلى الإسلام فتأبى على فدعوتها اليوم
فأسمعتنى فيك ما أكره فادع الله أن يهدى أم أبى هريرة فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- « اللهم اهد أم أبى هريرة » ۔۔۔۔۔ [/ARABIC]
ان سب جگہ آپ کے يہ الفاظ مذكور نہیں ہیں۔
اس طرح اس حديث مبارك سے يہ مفہوم اخذ كرنا غلط ہے کہ
1- حضرت ابوھریرہ رضي اللہ عنه كى والدہ كريمہ رضي اللہ عنہا نے نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى شان ميں ایسی بات كہی جو سب وشتم يا اہانت كے زمرے ميں آتى ہو۔
2- اور جب سب وشتم ثابت ہی نہیں تو بے چارے علماء كرام کو اس حديث مبارك كو نظر انداز كرنے كا الزام دينا بھی غلط ہے۔
3- صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين كے متعلق قرآن كريم كى گواہی موجود ہے کہ وہ دينى غيرت وحميت ميں اپنے قريبى عزيزوں كى بھی پرواہ نہیں کرتے تھے ۔
غزوة بنى المصطلق يا مريسيع كے بعد كا واقعہ تو بہت مشہور مثال ہے ۔
رئيس المنافقين عبد اللہ بن ابي نے ڈینگ ماری: مدينہ پہنچ كر عزت والا ذليل كو باہر نكال دے گا۔ اس كے اپنے بيٹے حضرت عبد اللہ (رضي اللہ عنه) بن عبد اللہ بن ابي ،بات سمجھ گئے۔ تلوار سونت كر اس كى راہ روك كر مدينہ کے داخلى راستے ميں کھڑے ہو گئے۔اپنے منافق باپ كو كہا جب تك نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم اجازت نہیں دیتے تم یہاں سے گزر نہیں سکتے!
ابھی اس منافق نے كنايتا بات كى تھی مگر باسعادت بیٹے نے كنايہ بھی برداشت نہیں کیا!
سورة المنافقون كى آٹھویں آيت اسى كے متعلق ہے۔
قرآن كريم میں صحابہ كرام رضي اللہ عنہم كى اسى صفت كو یوں بيان کیا گیا ہے:
:لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (22) , آیت:
اللہ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت کا تعلق رکھتے ہوئے ہرگز نہ پائیں گے گو وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے کنبہ (قبیلے) کے عزیز ہی کیوں نہ ہوں یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالٰی نے ایمان کو لکھ دیا ہے اور جن کی تائید اپنی روح سے کی ہے اور جنہیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہے اور یہ اللہ سے خوش ہیں، یہ خدائی لشکر ہے آگاہ رہو بیشک اللہ کے گروہ والے ہی کامیاب لوگ ہیں۔سورت المجادلہ، آيت 22 ۔
اس ليے صحابہ كرام رضي اللہ عنہم كے متعلق يہ تصور بھی نہیں كيا جا سكتا کہ وہ نبي اكرم حضرت محمد مصطفى صلى اللہ عليہ وسلم كى اہانت كو گوارا كريں يا اس پر خاموش رہیں۔
اب سوال يہ پیداہوتا ہے كہ وہ كس قسم كا كلمہ تھا جو حضرت ابوھریرہ رضي اللہ عنہ كو ناگوار گزرا؟؟ يہ كوئى معمولى كلمہ تھا مگر نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے شدید محبت كى بنا پر حضرت أبو هریرہ رضي اللہ عنہ كو تڑپا گیا اور وہ فورا دربار رسالت (عليہ ازكى الصلاہ) ميں حاضر ہوئے۔
باقى گزارشات ان شاء اللہ فرصت ملنے پر ۔
بنت حوا بہن،
پہلی بات یہ ہے کہ یہ میرا ترجمہ نہیں تھا، بلکہ جامعہ اشرفیہ کے طلباء نے کتب حدیث کو ڈیجیٹلائز کیا تھا اور یہ اُن کے علماء کی طرف سے کیا ہوا ترجمہ تھا۔ (امید ہے کہ آپ کے پاس بھی وہ سی ڈی ہو گی اور آپ اُس میں یہ ترجمہ دیکھ سکتی ہیں)۔ اور لگتا ہے کہ انہوں نے مشکوۃ مصابیح عربی (
لنک) موجود اسکی شرح کو دیکھتے ہوئے بات کو واضح کرنے کے لیے یہ ترجمہ کیا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ لفظ بہ لفظ ترجمے کے اعتبار سے آپ کا ترجمہ بالکل صحیح ہے اور اس سے مجھے کوئی اختلاف نہیں ہے۔
تیسرا یہ کہ گستاخیِ رسول کے ضمن میں صرف "سب و شتم (گالیاں دینا) ہی نہیں آتا۔ بلکہ نقلیں اتارنا (جیسا حکم بن العاص کرتا تھا) یا پھر ایسی گستاخی کرنا جیسا کہ عبداللہ ابن ابی نے رسول ﷺ کی شان میں کی تھی، یا پھر ہجو کرنے جیسے افعال بھی گستاخی رسول میں آتے ہیں۔ آج کے علمائے کرام کے موجودہ آرڈیننس میں اسکی سزا "فورا" اور "بغیر کسی توبہ کے" سزائے موت ہے۔ اس مرحلے سے آگے بڑھنے سے قبل آپ کو یا تو اس آرڈیننس کو سنت نبوی کے خلاف ماننا پڑے گا، یا پھر ان چیزوں کا انکار کرنا پڑے گا۔
چوتھا کہ یہ کوئی پکا ثبوت Hard Evidence نہیں ہے کہ سب و شتم نہیں کیا ہو گا کیونکہ آپکی پیش کردہ روایت کے مقابلے میں سنن ابو داؤد کی اندھے صحابی والی روایت بھی موجود ہے جس میں انکی کنیز "عادتا" اور "مستقلاً" رسول اللہ ﷺ پر (معاذ اللہ) سب و شتم کرتی تھی اور صحابہ شاید اسکو پہلے اس لیے برداشت کرتے رہے کیونکہ یہ غیر مسلم کفار و یہود کی عام پریکٹس تھی اور اس پر انہیں "فوراً" پہلی دفعہ میں ہی قتل کر دینے کا کوئی براہ راست حکم رسول اللہ ﷺ سے موجود نہیں تھا۔ یہاں بھی آپ کو آگے بڑھنے سے پہلے یا تو اس اندھے صحابی والی روایت کا انکار کرنا پڑے گا، ورنہ آپ کا حضرت ابو ہریرہ کی والدہ کے متعلق آپ نے جو استدلال پیش کیا ہے، اُس کی نفی کرنا پڑے گی۔
خلاصہ یہ ہے کہ کان کو سیدھی طرح پکڑیں یا پھر ہاتھ گھما کر پکڑیں، مگر یہ بات ثابت شدہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ کی والدہ نے ایسی بات کہی تھی جو کہ توہین رسالت کے ضمن میں آتی تھی اور اسی کی کراہت اور ناگواری کی وجہ سے حضرت ابو ہریرہ روتے ہوئے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس بات کو دہرانے سے انکار کر دیا۔
حکم بن العاص کے واقعہ کی تفصیل
حکم بن العاص کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو فتح مکہ کے بعد اسلام لائے اور انہیں طلقاء کہا جاتا ہے۔
جب رسول اللہ ﷺ اپنی کسی صحابی سے رازداری سے کوئی بات کرتے تھے تو یہ شخص انہیں چھپ کر سن لیتا تھا اور پھر آگے جا کر پھیلا دیتا تھا جس سے منافقین کو پہلے سے بہت سی باتوں کا علم ہو جاتا تھا۔
حکم بن العاص رسول اللہ ﷺ کے پیچھے چلتے ہوئے انکی چال ڈھال کی اور چہرہ مبارک کی نقلیں اتارا کرتا تھا۔ اور نماز کے دوران بھی ہاتھ اور انگلیوں سے بُرے بُرے انداز بناتا تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اس کو یہ حرکتیں ہوئے پکڑا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایسے ہی رہو۔ اس لعنت کے نتیجے میں وہ اُسی حالت میں ویسا کا ویسا ہی رہ گیا اور تامرگ ایسا ہی رہا کہ اسکا منہ، چہرہ اور ہاتھ ہر وقت اس بری حالت میں ہلتے ہی رہتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ کی اس لعنت کے متعلق ایک اور صحیح روایت مسند احمد بن حنبل ان الفاظ میں موجود ہے۔
حدثنا عبد الله حدثني أبي حدثنا ابن نمير حدثنا عثمان بن حكيم عن أبي أمامة بن سهل بن حنيف عن عبد الله بن عمرو قال
-كنا جلوسا عند النبي صلى الله عليه وسلم وقد ذهب عمرو بن العاص يلبس ثيابه ليلحقني فقال ونحن عنده ليدخلن عليكم رجل لعين فوالله ما زلت وجلا أتشوف داخلا وخارجا حتى دخل فلان يعني الحكم
بہرحال، حکم بن العاص اس لعنت کے باوجود اپنی حرکتوں سے باز نہیں آیا۔ ایک دن رسول اللہ ﷺ اپنی ایک زوجہ کے گھر میں تھے کہ یہ خاموشی سے آ کر دروازے کے سوراخ سے جھانکنے لگا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسکو پہچان لیا ۔ آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ کون ہے جو مجھے اس گندے شخص سے بچائے گا؟ پھر آپ ﷺ نے مزید فرمایا کہ یہ شخص اور اسکی آل اولاد ہرگز اس شہر میں نہیں رہ سکتی جس میں میں موجود ہوں، اور اسکے بعد آپ نے اسکو بمع اسکے بیٹے مروان بن الحکم کے طائف شہر بدر کر دیا۔
اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کو قتل نہیں کروایا بلکہ اسے طائف کی طرف شہر بدر کر دیا۔ اور صرف یہ ہی نہیں بلکہ بستر مرگ پر اسے معاف بھی کر دیا (چنانچہ جو لوگ سورۃ توبہ کی آیت 12 سے استدلال کرتے ہیں، وہ صحیح نہیں بلکہ فقط ایسی رائے ہے جو غلط ثابت ہو رہی ہے)۔
فتح مکہ پر قتل کرنے کے واقعہ سے احتجاج کرنا درست نہیں
علمائے کرام جو فتح مکہ کے وقت 5 افراد کے قتل کے واقعہ کو گستاخی رسول آرڈیننس کے لیے استعمال کرتے ہیں، تو یہ غلط ہے۔
اہل مکہ کے معاملہ میں بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ اگر کوئی قبیلہ یا شہر والے اپنا معاہدہ توڑ دیتے اور مخالفین کی مدد کرتے تھے، تو پھر انکی شرارت کے بعد جب وہ مفتوح ہوتے تھے تو اس بدعہدی اور شرارت کے نتیجے میں حق بن جاتا تھا کہ انہیں تہہ تیغ کیا جائے۔
بنو قینقاع کا قتل
انہوں نے ایک مسلمان کو قتل کر دیا تھا اور معاہدہ شکنی کی۔ جواب میں ان پر حملہ کیا گیا اور انکی ابتدائی سزا قتل پائی، مگر انکے چونکہ انصار کے قبیلے خزرج سے بہترین تعلقات تھے لہذا حالات کے تحت انہیں انکے علاقے سے علاقہ بدر کر دیا گیا۔
بنو قریظۃ کو شہر بدر کرنا
پہلے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ معاہدہ کیا۔ مگر جب جنگ خندق جاری تھی تو انہوں نے کفار مکہ سے بات چیت شروع کر دی اور یوں معاہدہ شکنی کی۔ جواب میں جنگ خندق کے بعد انکو عہد شکنی کی سزا دینے کے لیے رسول اللہ ﷺ نے فوج کشی کی اور انہوں نے محاصرے کے بعد ہتھیار ڈال دیے۔ انکی سزا قتل پائی۔
اہل مکہ کی بدعہدی
اہل مکہ سے صلح حدیبیہ ہوئی تھی۔ مگر انہوں نے بدعہدی کی۔
ابن کثیر الدمشقی سورۃ توبہ کی آیت 7 کی تفسیر میں لکھتے ہیں:"صلح حدیبیہ دس سال کے لیے ہوئی تھی۔ ماہ ذی القعدہ سنہ ٦ ہجری سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاہدہ کو نبھایا یہاں تک کے قریشیوں کی طرف سے معاہدہ توڑا گیا ان کے حلیف بنو بکر نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے حلیف خزاعہ پر چڑھائی کی بلکہ حرم میں بھی انہیں قتل کیا"
چنانچہ مکہ کو فتح کرنے کے بعد وہاں کے واقعات سے توہین رسالت آرڈیننس کے واقعات تلاش کرنا ہرگز درست نہیں کیونکہ وہاں صرف ان 5 افراد ہی نہیں بلکہ پوری آبادی کا قتل حلال ہو چکا تھا کیونکہ یہ قصاص تھا خزاعہ کے بہائے جانے والے خون کا۔ اگر توہین رسالت کے جرم میں ہی قتل کرنا ہوتا تو مکہ، طائف و خیبر وغیرہ میں ان 5 افراد سے کہیں زیادہ لوگ توہینِ رسالت کرتے تھے، آپ ﷺ کو ایذا دیتے رہے تھے اور آپ ﷺ کو خون تک میں لہولہان کر چکے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی ریاست میں کتنے لوگوں کو توہین رسالت کے جرم میں قتل کیا گیا؟
کعب بن اشرف، ابو رافع یہودی اور اہل مکہ کے 5 افراد کے قتل کی وجوہات صرف توہینِ رسالت ہی نہ تھی بلکہ اس سے بڑھ کر کچھ اور تھیں۔
اب باقی رہ جاتے ہیں صرف دو واقعات جہاں اسلامی ریاست میں توہین رسالت پر سزا دی گئی۔
پہلا: نابینا صحابی کی باندی کا واقعہ
مگر اس سے بھی موجودہ توہین رسالت آرڈیننس ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اس میں صاف طور پر موجود ہے کہ اُس باندی نے عادت ہی بنا لی تھی کہ وہ مستقل رسول ﷺ کو بُرا بھلا کہتی تھی، اور وہ صحابی پہلی ہی مرتبہ میں فوراً قتل کر دینے کی بجائے مستقل اُسے ہدایت کی نصیحت کرتے رہے، اور آخر میں جا کر انہوں نے اسے قتل کیا۔
سند کے حوالے سے شاید اختلاف ہے اور کوئی شاید اسے صحیح روایت قرار بھی دے دے۔ مگر بہرحال دو چیزیں پھر بھی ہیں۔
پہلی یہ کہ یہ روایت "خبر واحد" ہے۔
دوسرا یہ کہ درایت کے اصول پر یہ روایت پوری نہیں اترتی۔ اسلام کوئی بے لگام ضابطہ حیات نہیں، بلکہ ایک مکمل صابطہ حیات ہے۔ اس میں "گواہوں" اور "شہادتوں" کا ایک مکمل نظام موجود ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اگر ان نابینا صحابی کے واقعے پر ایمان لے آیا جائے تو پھر یہاں سے اس فتنے کی راہ کھل جائے گی کہ جس کا جی چاہے گا وہ قتل کر کے بعد میں کہہ دے گا کہ مقتول نے رسول ﷺ کی شان میں گستاخی کی تھی اس لیے میں نے اِسے قتل کر دیا۔
شہادتوں کے نظام کے تحت واقعہ افک پر ایک نظر
شہادتوں کا یہ نظام کتنا اہم ہے، اسکا اندازہ ہمیں واقعہ افک سے بہت بہترین طور پر ہو سکتا ہے۔ یہ واقعہ ہمارے لیے بہترین سبق ہے کہ "غلط گواہیاں" فقط دشمنی یا جہالت کی وجہ سے ہی نہیں سامنے آتیں، بلکہ کبھی کبھار اچھے اچھے انسانوں کے دماغوں میں ایسے فتور پیدا ہو جاتے ہیں کہ وہ بلاجواز اور بلا وجہ ہی دوسروں پر غلط الزام لگا جاتے ہیں۔ چنانچہ اسی لیے نہ صرف گواہ ضروری ہیں، بلکہ انکی گواہیوں میں بھی کوئی تضاد نہیں ہونا چاہیے۔
واقعہ افک میں حضرت عائشہ پر الزام لگانے والے کوئی کفارِ مکہ نہیں تھے بلکہ رسول اللہ ﷺ کےشاعر صحابی حسان بن ثابت، صحابی مسطح اور صحابیہ حمنہ بنت جحش (جو ام المومنین حضرت زینب کی بہن تھیں) شامل تھے۔
آج تک یہ معمعہ حل نہیں ہو سکا کہ انہوں نے حضرت عائشہ پر جھوٹا الزام کیوں لگایا۔۔۔ واحد وجہ یہ ہی نظر آتی ہے کہ اچھے اچھے انسانوں میں کبھی کبھار کچھ ذہنی بیماری پیدا ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے دوسروں پر غلط الزام لگا جاتے ہیں۔ اسکے علاوہ اس واقعہ کی کوئی اور توجیہ سامنے نہیں آئی ہے۔
چنانچہ جب ان دو صحابہ اور ایک صحابیہ کی گواہی کافی نہیں تو ایک اکیلے نابینا صحابی کی گواہی کیسے کافی ہو سکتی ہے جبکہ اس قصے میں کسی منصف کی عدالت میں مقدمہ پیش ہوا اور نہ ملزمہ کو اپنی صفائی میں کچھ بولنے کا موقع دیا گیا؟ (واقعہ افک میں مقدمہ رسول ﷺ کے پاس آیا، حضرت عائشہ نے اپنے بے گناہی کا دعوی کیا اور پھر گواہ بھی سامنے آئے، مگر نابینا صحابی کے کیس میں یہ سب کچھ نہیں ہو رہا)۔
دوسرا اور آخری: یہودی عورت کا قصہ
سنن ابو داؤد میں ہی ایک اور واقعہ علی ابن ابی طالب سے منسوب کیا گیا ہے:
Sunnan Abu Dawud, Book 38, Number 4349: Narrated Ali ibn AbuTalib:
A Jewess used to abuse the Prophet (peace_be_upon_him) and disparage him. A man strangled her till she died. The Apostle of Allah (peace_be_upon_him) declared that no recompense was payable for her blood.
اس دوسری اور آخری روایت ہے، مگر اس سے بھی علماء کا بنایا ہوا موجودہ توہین رسالت آرڈیننس ثابت نہیں ہوتا۔
پہلا یہ کہ یہ بھی خبر واحد ہے جو اور کسی طریقے نقل نہیں ہوئی۔ اس لحاظ سے یہ غریب حدیث ہے۔ اوپر والی روایت میں اُس نابینا صحابی کا نام نامعلوم تھا۔ اس روایت میں اس یہودیہ عورت کو قتل کرنے والے صحابی کا نام نامعلوم ہے۔
دوسرا اس روایت سے بھی موجودہ توہین رسالت آرڈیننس ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اس سے بھی پتا چلتا ہے کہ اُس یہودیہ عورت نے "عادت" بنا لی تھی اور وہ مستقل رسول اللہ ﷺ پر سب و شتم کرتی تھی اور ایسا نہیں ہوا کہ پہلی مرتبہ میں ہی فورا اسے قتل کر دیا گیا ہو۔
تیسرا یہ کہ یہ روایت بھی درایت کے اصولوں پر پوری نہیں اتر پا رہی ہے۔ اس میں بھی منصف ہے، نہ عدالت ہے، نہ مجرمہ کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع، نہ گواہان اور نہ انکی شہادتیں۔ کچھ علم نہیں کہ کسی شخص نے ذاتی عناد میں آ کر اُسے قتل کر دیا ہو اور بعد میں الزام لگا دیا ہو کہ وہ رسول اللہ ﷺ پر سب و شتم کرتی تھی۔ واقعہ افک ہمارے سامنے ہے کہ ایسے غلط الزامات کا لگایا جانا کچھ بعید نہیں ہوتا۔
خلاصہ:
1۔ سینیٹر پروفیسر ساجد میر صاحب نے بس یہی دو روایات پیش کی ہیں۔ اگر ان دو روایات کے علاوہ اگر کوئی تیسری روایت صحیح اسناد کے ساتھ موجود ہے تو پیش فرمائیے۔
2۔ ان دو روایات کو مان بھی لیا جائے تب بھی اس سے علمائے کرام کا بنایا ہوا موجودہ آرڈیننس ثابت نہیں ہوتا بلکہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرے تو اسے ہدایت کی جائے، نصیحت کی جائے اور اللہ سے دعا کی جائے۔ لیکن اگر ان تمام باتوں کے باوجود وہ اپنی اس عادت سے باز نہ آئے تو پھر اس پر سزا جاری کی جائے۔
3۔ حکم بن العاص کے واقعے سےثابت ہوتا ہے کہ یہ شریعت میں یہ کوئی فکس سزا نہیں ہے اور اسلامی حکومت وقت اور حالات کے تحت سزا تجویز کر سکتی ہے۔
فقہائے احناف کا فتوی: صرف "عادی" گستاخی کرنے والے کو سزا دی جائے
ابن عابدین، رسائل ابن عابدین ١/٣٥٤
فقہاے احناف کے نزدیک اس جرم کے مرتکب کو قتل کرنا لازم نہیں اور عام حالات میں کسی کم تر تعزیری سزا پر ہی اکتفا کی جائے گی، البتہ اگر کوئی غیر مسلم اس عمل کو ایک عادت اور معمول کے طور پر اختیار کر لے تو اسے موت کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔
اگر اوپر کی دو روایات کی درست تسلیم کیا جائے تو فقہائے احناف کا یہ فتوی کچھ سمجھ آتا ہے کہ صرف "عادی" اور معمول کے طور پر اس قبیح فعل کو اختیار کرنے والے کو سزا دی جائے۔
مگر جو بات بالکل سمجھ میں نہیں آتی وہ یہ ہے کہ آج ہمارے پاکستان کے فقہائے احناف اس کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے انتہائی رویے کو کیوں اپنائے ہوئے ہے اور آج جو توہین رسالت کے نام پر اقلیتیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے اور ذاتی دشمنیاں نکالنے کے لیے اس آرڈیننس کا غلط استعمال کیا جاتا ہے، اس پر انہیں اتنا سکون کیوں ہے؟