شاخِ ہستی پہ ہوں مرجھائے ہوئے گُل کی طرح - --- غزل اصلاح کے لئے

السلام علیکم
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔
بحر ہے : بحر رمل مثمن مخبون محذوف
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعِلن‎
اساتذہء کِرام
محترم جناب الف عین صاحب
محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب
اور احباب محفل توجہ دے کر ممنون فرمائیں۔
--------------------------------------
علم ایسا دے ہنر ایسا خدا دے مجھ کو
کر دے معمور جو مکتب وہ ضیا دے مجھ کو

شاخِ ہستی پہ ہوں مرجھائے ہوئے گُل کی طرح
پھر نمو بخش مجھے، پھر سے جِلا دے مجھ کو

منکشف مجھ پہ تو کر رمزِ نظامِ گردوں
اک کرن نور کی سینے میں، خدا دے مجھ کو

روحِ بے جان کو دے نغمہءِ سازِ ہستی
دل کو دے سوزِ دروں، لب پہ نوا دے مجھ کو

بے زباں کی کرے محسوس جو دکھ اور تکلیف
ایسا احساس بھی اے میرے خدا دے مجھ کو

فیض اک دنیا اٹھائے مرے گھر سے مالک
علم کے نور سے روشن وہ دِیا دے مجھ کو

بہتے دریا کی طرح راہ بنا لوں کاشف
مشکلوں پہ رہوں غالب یہ دعا دے مجھ کو

سید کاشف
--------------------------------------
شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
میری رائے
علم ایسا دے ہنر ایسا خدا دے مجھ کو
کر دے معمور جو مکتب وہ ضیا دے مجھ کو
÷÷ دوسرا مصرع رواں نہیں۔ مکتب ہی ضیا سے معمور ہوتا ہے؟ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔

شاخِ ہستی پہ ہوں مرجھائے ہوئے گُل کی طرح
پھر نمو بخش مجھے، پھر سے جِلا دے مجھ کو
÷÷درست

منکشف مجھ پہ تو کر رمزِ نظامِ گردوں
اک کرن نور کی سینے میں، خدا دے مجھ کو
÷÷’کر رمز’ میں ’ر‘ کی تکرار کی وجہ سے تنافر کا عیب پیدا ہو رہا ہے، اس کو تبدیل کر نے کی گنجائش ہے۔ جیسے
مجھ پہ سب کھول دے تو رازِ نظام گردوں

روحِ بے جان کو دے نغمہءِ سازِ ہستی
دل کو دے سوزِ دروں، لب پہ نوا دے مجھ کو
÷÷درست

بے زباں کی کرے محسوس جو دکھ اور تکلیف
ایسا احساس بھی اے میرے خدا دے مجھ کو
÷÷احساس کا محسوس کرنا عجیب لگ رہا ہے۔ اگر اسے قبول کیا بھی جائے تو پہلا مصرع روانی طلب ہے، دکھ اور تکلیف میں سے ایک ہی لفظ رکھا جائے یا پھر ’دکھ درد‘ محاورہ ہے
جیسے
بے زبانوں کے بھی دکھ درد جو محسوس کرے

فیض اک دنیا اٹھائے مرے گھر سے مالک
علم کے نور سے روشن وہ دِیا دے مجھ کو
÷÷دیے سے یا گھر سے؟؟؟
بہتے دریا کی طرح راہ بنا لوں کاشف
مشکلوں پہ رہوں غالب یہ دعا دے مجھ کو
÷÷یہاں بھی مکمل ’پر‘ آ سکتا ہے۔ اگرچہ مصرع کی روانی مجروح ہے۔ الفاظ بدل کر دیکھیں دوسرے مصرعے میں
 
بہت بہت شکریہ عبید سر
میں آپ کے مشوروں کو ذہن میں رکھ کر تبدیلیاں کرتا ہوں۔
اصلاح کے بعد حاضر ہوتا ہوں۔ ان شا اللہ
جزاک اللہ سر ۔۔
 
الف عین سر اصلاح کے بعد حاضر ہوں.

-----------------------------------------

علم دے، فہم و فراست بھی خدا دے مجھ کو
جس پہ مکتب بھی ہوں نازاں وہ ذکا دے مجھ کو

شاخِ ہستی پہ ہوں مرجھائے ہوئے گُل کی طرح
پھر نمو بخش مجھے، پھر سے جِلا دے مجھ کو

مجھ پہ تُو کھول دے سب رازِ نظامِ گردوں
اک کرن نور کی سینے میں، خدا دے مجھ کو

روحِ بے جان کو دے نغمہءِ سازِ ہستی
دل کو دے سوزِ دروں، لب پہ نوا دے مجھ کو

بے زبانوں کے بھی دکھ درد جو محسوس کرے
ایسا ہمدرد سا اک دل بھی خدا دے مجھ کو

جہل کی شب میں بھی چمکے جو ستارا بن کر
علم کے نور سے روشن وہ دِیا دے مجھ کو

بہتے دریا کی طرح راہ بنا لوں کاشف
مشکلیں دیکھتی رہ جائیں دعا دے مجھ کو


بہت بہت شکریہ سر
 
استاد محترم ۔۔ الف عین سر۔۔۔

کچھ اضافے اور ایک تبدیلی کے ساتھ حاضر ہوں. آپ کی شفقت بھری اصلاح کا منتظر رہونگا۔۔۔۔

×××××××××××××××××××××××

کہکشاؤں میں مری فکر بنائے رستے
اس طبیعت کا خدا ذہنِ رسا دے مجھ کو

بہتے دریا کی طرح راہ بنا لوں اپنی
مشکلیں دیکھتی رہ جائیں دعا دے مجھ کو

ہاتھ میں ہاتھ لے اور پاس بٹھا کر کاشف
حال پوچھے تو کوئی، غم سے شِفا دے مجھ کو

جزاک اللّہ
 
آخری تدوین:
غالباً پوری غزل میں مخاطَب اللہ تعالیٰ ہیں۔ گویا کہ یہ ایک دُعا ہے۔
اس بنا پر "دعا دے مجھ کو" یہاں درست نہیں۔
ویسےایسا میں نے سوچا تو نہیں تھا۔۔۔ لیکن آپ کی بات پر غور کرتا ہوں۔ آپ کے ذہن میں کوئی تجویز؟
 
غالباً پوری غزل میں مخاطَب اللہ تعالیٰ ہیں۔ گویا کہ یہ ایک دُعا ہے۔
اس بنا پر "دعا دے مجھ کو" یہاں درست نہیں۔
ویسے پرویز بھائی غزل کا ہر شعر اپنے آپ میں مکمل ہوتا ہے۔ سو شاید یہ اتنا غلط بھی نہیں ہے۔
 
Top