Fawad - Digital Outreach Team - US State Department
پچھلے کچھ دنوں سے پاکستان ميں ہونے والے خودکش حملوں کے حوالے سے ميڈيا پر بہت سے آراء پيش کی جا رہی ہيں۔ کچھ حلقوں کی جانب سے ان انتہا پسندوں اور دہشت گردوں سے مذاکرات اور امن معاہدوں کی ضرورت پر زور ديا جا رہا ہے۔ کچھ تبصرہ نگاروں کے نزديک يہ مقامی لوگ نہيں بلکہ سرحد پار سے آنے والے دہشت گرد ہيں اور کچھ کے نزديک ان دہشت گردوں کے خلاف کاروائ کی بجائے ان عوامل کا خاتمہ ضروری ہے جو يہ خودکش حملہ آور پيدا کر رہے ہيں حالانکہ خودکشی ہر حال ميں حرام ہے۔ ليکن سب سے اہم بيان کچھ سينير سياست دانوں کی جانب سے آيا جس ميں انھوں نے بغير کوئ ثبوت فراہم کيے امريکہ کو براہراست ان خودکش حملوں کا ذمہ دار قرار ديا۔
ايک لحاظ سے ان بيانات پر مجھے کوئ خاص حيرت نہيں ہوئ۔ بدقسمتی سے پچھلی دو دہاہيوں سے پاکستان کا سياسی کلچر يہی ہے کہ ہر ملکی مسلئے کو باہمی مشورے، مضبوط ليڈرشپ اور موثر رائے عامہ کے ذريعے حل کرنے کی بجائے "بيرونی عناصر" اور "غير ملکی سازش" جيسے نعرے لگا کر اپنی تمام ذمہ داريوں سے ہاتھ صاف کر ليے جاتے ہيں۔
ايک طرف تو دہشت گردی کے خاتمے کے ليے 10 بلين ڈالرز کی امداد امريکہ سے وصول کی جاتی ہے اور اس ضمن ميں مزيد امداد کی درخواست بھی کی جاتی ہے اور دوسری جانب امريکہ ہی کو دہشت گردی کا ذمہ دار بھی قرار ديا جاتا ہے۔ يہ کيسی منطق ہے کہ امريکہ دہشت گردی کے خاتمے کے ليے امداد بھی دے رہا ہے اور دہشت گردی کا مرتکب بھی ہو رہا ہے۔ مگر پاکستان کے سياسی کلچر ميں بغير ثبوت کے بےبنياد الزام تراشی معمول کی بات ہے کيونکہ بدقسمتی سے پاکستان ميں جذباتی نعرے بازی کے ذريعے رائے عامہ کا رخ موڑنا باقاعدہ ايک سائنس کی شکل اختيار کر چکا ہے۔
مجھے ياد ہے کہ ايک مرتبہ اپنے ايک دور کے رشتہ دار کے سياسی جلسے ميں شرکت کا موقع ملا جس ميں انھوں نے امريکہ کے خلاف بڑی دھواں دار تقرير کی۔ يہاں يہ بھی بتاتا چلوں کہ ان موصوف کا سارا کاروبار امريکہ ميں ہے۔ جلسے کے بعد ميں نے ان سے استفسار کيا کہ آپ تو سال کا بيشتر حصہ امريکہ ميں گزارتے ہيں اور اس کے باوجود آپ امريکہ کو اتنا برا بھلا کہ رہے تھے۔ اس پر ان کا جواب تھا
"لوگ يہی سننا چاہتے ہيں"۔
حاليہ انتخابات ميں يہی صاحب عوام کا بھاری مينڈيٹ لے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہيں۔
جہاں تک خودکش حملوں کا سوال ہے تو نہ ہی امريکہ کے پاس ايسے"تربيت يافتہ مجاہد" ہيں جو پاکستانی کے عام لوگوں کو قتل کرنے کے ليے اپنی جان کا نذرانہ دينے کے ليے تيار ہوں اور نہ ہی پاکستانی افواج اپنے ہی لوگوں کے خلاف خودکش حملوں کے ليے کسی کو تربيت دينے کی صلاحيت رکھتی ہيں۔ خودکش حملہ آور ايک دن ميں تيار نہيں ہوتا۔ اس کے ليے مہينوں کی تربيت اور برين واشنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی ايک واضح مثال سوات کے کچھ نام نہاد مولوی ہيں جو کئ ماہ سے کھلے عام اپنے ريڈيو کے ذريعے لوگوں کو حکومت پاکستان کے خلاف اکساتے رہے مگر لوگوں کی بارہا نشاندہی کے باوجود اس ضمن ميں حکومت پاکستان نے موثر اقدامات نہيں کيے۔ 3 نومبر 2007 کی ايمرجنسی کے بعد حکومت نے تمام ميڈيا پر پابندی لگا دی مگر ان حالات ميں بھی يہ متنازعہ ريڈيو اسٹيشن بغير کسی رکاوٹ کے حکومت پاکستان کے خلاف لوگوں کو اکسانے کا کام کرتا رہا۔ کيا ان ريڈيو اسٹيشن اور ان سے منسلک لوگوں کو روکنا حکومت پاکستان کی ذمہ داری تھی يا امريکہ کی ؟ يہ صرف ايک مثال ہے، ايسی کئ مثاليں موجود ہيں جس ميں بڑے پيمانے پر لوگوں کو حکومت کے خلاف تيار کيا جا رہا تھا مگر ان کی روک تھام کے ليے فوری اقدامات نہيں کيےگيے اور اب سارا الزام امريکہ پر لگايا جا رہا ہے۔ کيا سوات کے نام نہاد مولوی صاحب کے تربيت يافتہ انتہا پسندوں کی کاروائيوں پر امريکہ کو الزام دينا حقيقت سے روگردانی نہيں ہے؟
انتہا پسند اور دہشت گرد تنظيميں اور انکے پيرو کار جو صرف "مارو اور مارتے چلے جاؤ" کی پاليسی پر عمل پيرا ہيں وہ نہ امريکہ کے دوست ہيں اور نہ ہی پاکستانی عوام کے۔ يہ بھی ياد رہے کہ دہشت گردی کی يہ واقعات صرف پاکستان ميں نہيں ہو رہے، يہ گروپ برطانيہ، عراق، الجزائر اور بالی سميت دنيا کے کئ ممالک ميں بے گناہ انسانوں کا خون بہا رہے ہيں۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov