عبد الرحمٰن
محفلین
شادی بیاہ کو آسان بنائیے
ہمارا معاشرہ پچھلی چند دہائیوں سے ایک گمبھیر اور پیچیدہ مسئلے میں الجھا ہوا نظر آتا ہے اور وہ مسئلہ ہے بچوں کی بروقت شادیاں اور ان کے گھر بار بسانے کا۔ اگرچہ آج سے چند دہائیوں پہلے بھی یہ مسئلہ کسی نہ کسی انداز میں اس معاشرے کا حصہ تھا لیکن اس وقت اس کی گمبھیرتا نے اس قدر سنگین صورت حال اختیار نہیں کی تھی، جتنی آج کے دور میں اختیار کرچکی ہے۔
آج کل تقریباً ہر دوسرے گھرانے میں والدین اس مسئلے کو لے کر نہ صرف پریشان دکھائی دیتے ہیں بل کہ ان کی بے بسی بھی واضح محسوس کی جاسکتی ہے۔ اگرچہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ مسئلہ بھی خود اس معاشرے کے لوگوں کا اپنا پیدا کردہ ہے، اس کا حل بھی خود ان ہی کے پاس موجود ہے اور پریشانی بھی خود کو ہی لاحق ہے اور تدارک ہے کہ ہو نہیں پا رہا۔ جب کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں دیکھا جائے تو اسلام نے چودہ سو سال پہلے نہ صرف اس طرح کے چھوٹے بڑے تمام معاشرتی مسائل کا بہترین حل اور واضح انداز میں بتادیا تھا بل کہ اس پر عمل کرنے کی واضح تلقین بھی فرمائی تھی۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ جو ایک اسلامی معاشرہ ہونے کا دعوے دار بھی ہے، کے باوجود اس طرح کے معاشرتی مسائل کے حل میں آج بھی بھٹکا ہوا اور مختلف خانوں میں بٹ کر پریشان حال دکھائی دیتا ہے۔
اس مسئلے کے بہت سے پہلو ہیں جن پر روشنی ڈالنا ازحد ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو بچوں کے نکاح میں تاخیر کی ایک بڑی اور اہم وجہ آج کل شادیوں کی تقریبات میں نمود و نمائش کا بے پناہ اضافہ ہے۔ موجودہ دور میں نوّے سے پچانوے فی صد لوگ نمائش کے بے حد پروردہ دکھائی دیتے ہیں۔ وہ سادگی جس کی اسلام اور قرآن و سنت میں تلقین کی گئی ہے، ڈھونڈنے سے بھی شاذ ہی کہیں دکھائی دیتی ہے۔ ورنہ تو یہ ہر کوئی نمود و نمائش کو ضروری سمجھ کر اسے بہ خوشی اپنائے ہوئے ہے۔ ہفتوں بل کہ مہینوں چلنے والی نمود و نمائش سے بھرپور شادی کی تقریبات اسلامی تعلیمات کے بالکل منافی ہیں اور نکاح جیسی سادہ رسم سے ان کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس کے بعد دوسری اہم وجہ بھاری بھرکم جہیز کی خواہش اور مانگ ہے۔ ہمارے معاشرے کے تقریباً ہر گھرانے میں بچوں کی شادیوں کے وقت نہ صرف بھاری بھرکم سامان کی خواہش رکھی جاتی ہے بل کہ بہت سے لوگ تو مانگنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔ حالاں کہ دین اسلام میں جہیز کا تصور بالکل ہی مختلف شکل میں ملتا ہے۔ نبی کریم ؐ کی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ اور حضرت علیؓ کی شادی اس کی ایک بہت بڑی مثال ہے، جس میں نکاح سے پہلے نئے جوڑے کی ضروریات زندگی کا سامان حضرت علیؓ کی زرہ بیچ کر خریدا گیا تھا جوکہ نہایت ہی مختصر اشیا پر مشتمل تھا۔
تیسری اہم وجہ لڑکے اور لڑکیوں کی شکل و صورت کو پرکھنا اور ان میں دیو مالائی حسن تلاش کرتے ہوئے انھیں رد کرتے چلے جانا بھی شامل ہے۔ اور چو تھی وجہ رشتے کرتے ہوئے کاروباری نقطہ مدنظر رکھنا اور لڑکے یا لڑکی کے والدین یا خاندان سے کاروباری یا دیگر فوائد حاصلِ کرنا بھی اس معاشرے میں رشتے کرتے ہوئے اہمیت اختیار کرتا جارہا ہے۔
اب اس سب کا حل کیا ہے۔۔۔۔ ؟
قرآن و حدیث میں واضح طور پر اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ لڑکے اور لڑکی کے بالغ ہوتے ہی انہیں نکاح کے بندھن میں باندھ دیا جائے تاکہ وہ ایک حلال رشتے میں بندھ کر مطمئن اور صحت مند زندگی گزار سکیں اور گناہوں سے بچے رہیں۔ جب کہ ہمارے معاشرے میں اسلامی احکامات کے برعکس مذکورہ بالا سطور میں درج کی گئی اہم وجوہات اس معاملے کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں اور معاشرے نے انہیں لازمی قرار دے کر شرائط میں شامل کر رکھا ہے۔
آنحضرتؐ نے فرمایا ’’ النکاح من سُنّتی‘‘ نکاح میری سنت ہے۔ ایک اور حدیث میں صاف صاف واضح کردیا گیا ہے کہ نکاح کرتے ہوئے دین دار ہونا ہی پہلی ترجیح ہونی چاہیے اور دیگر معاملات اتنے اہم تصور نہیں کیے جانے چاہییں۔ جب کہ ہمارے یہاں معاملہ اب اس کے بالکل برعکس ہو چلا ہے اب اگر غور کیا جائے تو اس مسئلے اور مشکل کا حل بھی خود اسی میں پوشیدہ ہے۔
بیٹے یا بیٹی کا نکاح کرتے ہوئے سادگی کو ملحوظ خاطر رکھا جائے اور بے جا اسراف سے حتی الامکان اجتناب کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ بھاری بھرکم جہیز جیسی فرسودہ رسموں کا خاتمہ کرتے ہوئے نکاح کے وقت صرف لڑکی والوں پر بے جا اور اضافی بوجھ ڈالنے کی بجائے دونوں خاندان مل کر اشیائے ضرورت خرید کر نئے نکاح شدہ جوڑے کو دعائوں کے ساتھ زندگی کے نئے سفر پر روانہ کردیں۔ اس کے علاوہ پوری کوشش کی جائے کہ لڑکی اور لڑکے کی شکل و صورت سے زیادہ سیرت اور دین داری کو پرکھا جائے اور پھر اس معیار پر ان کے انتخاب کا فیصلہ کیا جائے اور دولت سے زیادہ شرافت اور دین داری کو اہمیت دی جائے تو یقینا یہ گمبھیر مسئلہ دھیرے دھیرے اپنے حل کی جانب گام زن ہوجائے گا۔ شرط صرف اس پر عمل کرنے کی ہے۔
عبدالرحمن ،ناصر احمد
ہمارا معاشرہ پچھلی چند دہائیوں سے ایک گمبھیر اور پیچیدہ مسئلے میں الجھا ہوا نظر آتا ہے اور وہ مسئلہ ہے بچوں کی بروقت شادیاں اور ان کے گھر بار بسانے کا۔ اگرچہ آج سے چند دہائیوں پہلے بھی یہ مسئلہ کسی نہ کسی انداز میں اس معاشرے کا حصہ تھا لیکن اس وقت اس کی گمبھیرتا نے اس قدر سنگین صورت حال اختیار نہیں کی تھی، جتنی آج کے دور میں اختیار کرچکی ہے۔
آج کل تقریباً ہر دوسرے گھرانے میں والدین اس مسئلے کو لے کر نہ صرف پریشان دکھائی دیتے ہیں بل کہ ان کی بے بسی بھی واضح محسوس کی جاسکتی ہے۔ اگرچہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ مسئلہ بھی خود اس معاشرے کے لوگوں کا اپنا پیدا کردہ ہے، اس کا حل بھی خود ان ہی کے پاس موجود ہے اور پریشانی بھی خود کو ہی لاحق ہے اور تدارک ہے کہ ہو نہیں پا رہا۔ جب کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں دیکھا جائے تو اسلام نے چودہ سو سال پہلے نہ صرف اس طرح کے چھوٹے بڑے تمام معاشرتی مسائل کا بہترین حل اور واضح انداز میں بتادیا تھا بل کہ اس پر عمل کرنے کی واضح تلقین بھی فرمائی تھی۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ جو ایک اسلامی معاشرہ ہونے کا دعوے دار بھی ہے، کے باوجود اس طرح کے معاشرتی مسائل کے حل میں آج بھی بھٹکا ہوا اور مختلف خانوں میں بٹ کر پریشان حال دکھائی دیتا ہے۔
اس مسئلے کے بہت سے پہلو ہیں جن پر روشنی ڈالنا ازحد ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو بچوں کے نکاح میں تاخیر کی ایک بڑی اور اہم وجہ آج کل شادیوں کی تقریبات میں نمود و نمائش کا بے پناہ اضافہ ہے۔ موجودہ دور میں نوّے سے پچانوے فی صد لوگ نمائش کے بے حد پروردہ دکھائی دیتے ہیں۔ وہ سادگی جس کی اسلام اور قرآن و سنت میں تلقین کی گئی ہے، ڈھونڈنے سے بھی شاذ ہی کہیں دکھائی دیتی ہے۔ ورنہ تو یہ ہر کوئی نمود و نمائش کو ضروری سمجھ کر اسے بہ خوشی اپنائے ہوئے ہے۔ ہفتوں بل کہ مہینوں چلنے والی نمود و نمائش سے بھرپور شادی کی تقریبات اسلامی تعلیمات کے بالکل منافی ہیں اور نکاح جیسی سادہ رسم سے ان کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس کے بعد دوسری اہم وجہ بھاری بھرکم جہیز کی خواہش اور مانگ ہے۔ ہمارے معاشرے کے تقریباً ہر گھرانے میں بچوں کی شادیوں کے وقت نہ صرف بھاری بھرکم سامان کی خواہش رکھی جاتی ہے بل کہ بہت سے لوگ تو مانگنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔ حالاں کہ دین اسلام میں جہیز کا تصور بالکل ہی مختلف شکل میں ملتا ہے۔ نبی کریم ؐ کی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ اور حضرت علیؓ کی شادی اس کی ایک بہت بڑی مثال ہے، جس میں نکاح سے پہلے نئے جوڑے کی ضروریات زندگی کا سامان حضرت علیؓ کی زرہ بیچ کر خریدا گیا تھا جوکہ نہایت ہی مختصر اشیا پر مشتمل تھا۔
تیسری اہم وجہ لڑکے اور لڑکیوں کی شکل و صورت کو پرکھنا اور ان میں دیو مالائی حسن تلاش کرتے ہوئے انھیں رد کرتے چلے جانا بھی شامل ہے۔ اور چو تھی وجہ رشتے کرتے ہوئے کاروباری نقطہ مدنظر رکھنا اور لڑکے یا لڑکی کے والدین یا خاندان سے کاروباری یا دیگر فوائد حاصلِ کرنا بھی اس معاشرے میں رشتے کرتے ہوئے اہمیت اختیار کرتا جارہا ہے۔
اب اس سب کا حل کیا ہے۔۔۔۔ ؟
قرآن و حدیث میں واضح طور پر اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ لڑکے اور لڑکی کے بالغ ہوتے ہی انہیں نکاح کے بندھن میں باندھ دیا جائے تاکہ وہ ایک حلال رشتے میں بندھ کر مطمئن اور صحت مند زندگی گزار سکیں اور گناہوں سے بچے رہیں۔ جب کہ ہمارے معاشرے میں اسلامی احکامات کے برعکس مذکورہ بالا سطور میں درج کی گئی اہم وجوہات اس معاملے کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں اور معاشرے نے انہیں لازمی قرار دے کر شرائط میں شامل کر رکھا ہے۔
آنحضرتؐ نے فرمایا ’’ النکاح من سُنّتی‘‘ نکاح میری سنت ہے۔ ایک اور حدیث میں صاف صاف واضح کردیا گیا ہے کہ نکاح کرتے ہوئے دین دار ہونا ہی پہلی ترجیح ہونی چاہیے اور دیگر معاملات اتنے اہم تصور نہیں کیے جانے چاہییں۔ جب کہ ہمارے یہاں معاملہ اب اس کے بالکل برعکس ہو چلا ہے اب اگر غور کیا جائے تو اس مسئلے اور مشکل کا حل بھی خود اسی میں پوشیدہ ہے۔
بیٹے یا بیٹی کا نکاح کرتے ہوئے سادگی کو ملحوظ خاطر رکھا جائے اور بے جا اسراف سے حتی الامکان اجتناب کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ بھاری بھرکم جہیز جیسی فرسودہ رسموں کا خاتمہ کرتے ہوئے نکاح کے وقت صرف لڑکی والوں پر بے جا اور اضافی بوجھ ڈالنے کی بجائے دونوں خاندان مل کر اشیائے ضرورت خرید کر نئے نکاح شدہ جوڑے کو دعائوں کے ساتھ زندگی کے نئے سفر پر روانہ کردیں۔ اس کے علاوہ پوری کوشش کی جائے کہ لڑکی اور لڑکے کی شکل و صورت سے زیادہ سیرت اور دین داری کو پرکھا جائے اور پھر اس معیار پر ان کے انتخاب کا فیصلہ کیا جائے اور دولت سے زیادہ شرافت اور دین داری کو اہمیت دی جائے تو یقینا یہ گمبھیر مسئلہ دھیرے دھیرے اپنے حل کی جانب گام زن ہوجائے گا۔ شرط صرف اس پر عمل کرنے کی ہے۔
عبدالرحمن ،ناصر احمد