محمداحمد
لائبریرین
احمد بھائی کا کام چائے کی پیالی سے ہی چل جاتا ہے۔
آپ تو جانتے ہی ہیں۔
احمد بھائی کا کام چائے کی پیالی سے ہی چل جاتا ہے۔
بہت عمدہ خیال ہے. اس پر فی الفور عمل ہوناچاہیے. بلکہ اس کے علاوہ بھی بہت سارے ٹیسٹ ہونے چاہئیں شاعروں کے. اچھی خاصی نارمل چیز کو عجوبہ روزگار بنا دیتے ہیں ، بیسیوں نئی اصطلاحات لے آئیں گے بیان کرنے کو اور ایک سے ایک محیر العقول شے سے تشبیہہ دے دیں گے، لیکن مجال ہے کہ اس کا سادہ سیدھا نام لے لیں. رات کو رات نہیں کہیں گے بلکہ زلف کی سیاہی یاد آئے گی حالانکہ دوات کی سیاہی زیادہ کالی ہوتی ہے اور زلف کو زلف کی بجائے رات کا نام دے دیں گے. کوئی ٹیسٹ ہونا چاہیے جس سے اس ذہنی کیفیت کا تجزیہ ہو سکے.
تو آج ہم شعراء پر جاری ہونے والے ممکنہ ٹیسٹ کاذکر کرتے ہیں.
خون میں الکحل کی مقدار
خون میں میریجوانہ کی مقدار
آنکھوں کا ٹیسٹ، کیونکہ انہیں مجنوں نظر آتی ہے لیلی' نظر آتا ہے
ناک کا ٹیسٹ کیونکہ انہیں رنگوں کی خوشبو اور خوشبو کے رنگ دکھائی دیتے ہیں
دماغ کا مکمل معائنہ بشمول مرگی کی ان اقسام کے جن میں جو نہ ہو وہ بھی نظر آتا ہے اور سنگھائی دیتا ہے
باقی بعض کا شاید ایچ آئی وی بھی کرانا پڑے، ان کی ہسٹری اور اجازت کے بعد
ہا ہا ہا ہا ہاہا!
احمد بھائی ، آپ جب لاتے ہیں لاجواب موضوع لاتے ہیں !! عنوان پڑھتے ہی ساری بات سمجھ گیا تھا ۔ بالکل یہی بات میں ( اور یقیناََ دیگر "نان الکحلک" شعرا بھی ) ہمیشہ سے سوچتے آئے ہیں لیکن اس پر قلم اٹھانے کا سہرا آپ ہی کے سرجاتا ہے ۔
بھائی ہم تو ساری عمر اپنی روکھی پھیکی اور بے مزہ شاعری کو اسی "پرہیزگاری" کی تسلی دیتے آئے ہیں ۔ جب بھی کبھی اوروں کی اچھی شاعری پڑھ کر اپنی کم مائیگی کا احساس ہوتا ہے تو فوراََ یہ کہہ کر خود اپنی ڈھارس بندھاتے ہیں کہ ہماری شاعری اچھی نہیں تو کیا ہوا کم ازکم چال چلن تو اچھا ہے ۔
احمد بھائی آپ کی شاعری پر چونکہ پہلے ہی اعتراض اٹھ چکا ہے
حفظِ ماتقدم کے طور پر میں عرض کردوں کہ خاکسار کی شاعری مین ایک آدھ غزل اگر غلطی سے کیف و سرور کے کسی درجے پر فائز نظر آتی ہے تو اس کی وجہ ’’ڈوپ گرفتنی‘‘ نہیں بلکہ ناگفتنی ہے ۔ وہ جو اقبال اشعر نے کچھ اس طرح کہا ہے نا کہ : تو جو پیش کرے تو تیرے ہاتھ کی پھیکی چائے بھی میٹھی لگتی ہے
تو بس ان دوچار غزلوں کو اسی قسم کی صورتحال کا شاخسانہ سمجھا جائے ۔ ہم نے تو ساری عمر چائے اور کافی پی پی کر فکر سخن کی ہے۔ اسی لئے ہمارے ایک دوست کے بقول ہماری شاعری میں خمار کی کیفیت سے زیادہ بخار کی کیفیت بلکہ سرسام کی حالت نظر آتی ہے ۔ خیر ، لوگ کچھ بھی کہتے رہیں ۔ کم از کم ہمارا چال چلن تو ٹھیک ہے ۔
ہمارا خیال ہے جتنا الٹا آپ نے غالبؔ کو کر دیا ہے، یاس یگانہؔ چنگیزی کی روح کئی راتیں آپ کے بستر کا طواف کرتی رہے گی!بعد میں غالب نے اسی شعر کو اُلٹا کرکے بھی پیش کیا۔
احمد بھائی
لطف آ گیا!
بہت عمدہ تحریر
منفرد موضوع
سو تو ہے۔گویا یہ عالمی مسئلہ ہے
اور اگر اس ادارے نے شام کی چائے پہ بھی پابندی لگا دی!
اور وہ جو جون نے کہا تھا
ہے اگر واقعی ہی شراب حرام
آپ ہونٹوں سے میرے پیجیے گا
اگر ڈوپنگ کی خلائی مخلوق نے اسے شاعر اور شاعری کے لئے مضر قرار دے دیا تو کیا ہو گا!
احمد بھائی ۔ ریاض خیر آبادی کا کیا بنے گا ۔ اُن کا دوپ ٹیسٹ تو منفی آئے گا ۔ جبکہ اُنہوں نے ساری زندگی شراب پر شاعری کی ۔ مزے کی بات یہ کہ شاعرِ خمریات کہلانے والے اِس شاعر نے زندگی میں شراب کا ایک قطرہ بھی نہیں چکھا ۔ جہاں تک ساغر صدیقی کا تعلق ھے ہم اُنہیں یوں معاف کر سکتے ہیں کہ اُن کے ساتھ نفسیاتی معاملہ بھی تھا ۔ وہ شدید احساسِ تنہائی کا شکار رہے ۔ ماں باپ کا ساتھ بھی نہ رہا اور کوئی بہن بھائی بھی نہ تھا ۔ اُنہیں زندگی بھر اپنے خالق سے یہ شکوہ رہا کہ مجھے ایک بھائی ہی دے دیتا ۔
ہمارا خیال ہے جتنا الٹا آپ نے غالبؔ کو کر دیا ہے، یاس یگانہؔ چنگیزی کی روح کئی راتیں آپ کے بستر کا طواف کرتی رہے گی!
تحریر نہایت عمدہ ہے۔ داد قبول فرمائیے۔
مگر آئندہ احتیاط فرمائیے تو بہتر ہے۔ ایک شاعر طبقہ رہ گیا ہے جو خودکش بمبار نہیں بنا۔ باقی آپ کی مرضی!
احمد بھائی! آپ کی شاعری کا راز کیا ہے؟ شراب کی بجائے جدیدیت کو اپناتے ہوئے بئیر وغیرہ سے تو گزارہ نہیں کر رہے۔
لاجواب تحریر ہے۔۔۔ مزا آگیا۔
ورنہ ہم نے تو کبھی شاعری میں پانی کی صراحی کا بھی ذکر نہیں کیا۔
یعنی پرانی وہسکی۔۔۔۔ہم تو جدت سے زیادہ روایت کے دلدادہ ہیں۔
چائے کی بھی سرحد مقرر کر دی۔۔۔ ظالمو۔۔۔تاہم یہ روایت وادیء مہران والی ہے۔
یعنی چائے سے کام چل رہا ہے۔
بڑے والا لگوائیں۔۔۔۔ یوں بھی اردو محفل پر سگریٹی شعراء ہیں۔ اگر کوئی پیتا پلاتا بھی ہے تو ماننے سے ہی انکاری ہے۔۔۔بہت شکریہ!
آپ کے تبصرے کے بغیر ہماری تحریریں ادھوری رہتی ہیں سو اب اس کو بھی تالا لگوایا جا سکتا ہے۔
شراب پینا اور شاعری کرنا دونوں ہی دکھ دینے والی باتیں ہیں۔ اس لیے میں تو یہ سمجھوں گا کہ بقول شخصے: یاغم آسرا تیرا، ایسے شعراء جو شراب پیتے ہیں انہیں واقعی کوئی غم ہوتا ہے۔ شعر کو شراب سے زیادہ اس غم سے طاقت مل جاتی ہے جو شراب کا سبب بنا ہو۔ مضمون اچھا ہے اور شگفتہ و شائستہ انداز میں تحریر کیا گیا ۔۔
حضور دہائی ہے ، دہائی ہے ! کچھ رحم کیجئے ہم گنہگاروں پر!!
آپ پارسائی اور پرہیزگاری کا معیار اب اس حد تک اونچا کردیں گے تو ہم تو آب آب کہتے مرجائیں گے اور کوئی سمجھنے والا بھی نہ ہوگا ۔
اب تو ہم یہ بہانہ بھی نہیں کر سکتے کہ:
میں شرابی نہیں ہوں ، شاعر ہوں
اصطلاحاً شراب پیتا ہوں
پیر و مرشد قبلہ وکعبہ ! آپ کی اتباع میں ہم بھی آج سے اپنی شاعری میں ذکرِ مٹکا و ناند و صراحی سے توبہ کرتے ہیں ۔
قارئین سے گزارش ہے کہ اب جہاں کہیں ہمارے شعروں میں جام کا لفظ نظر آئے اُس سے امرود مراد لیا جائے ۔
یعنی پرانی وہسکی۔۔۔۔
چائے کی بھی سرحد مقرر کر دی۔۔۔ ظالمو۔۔۔
بڑے والا لگوائیں۔۔۔۔ یوں بھی اردو محفل پر سگریٹی شعراء ہیں۔ اگر کوئی پیتا پلاتا بھی ہے تو ماننے سے ہی انکاری ہے۔۔۔
اور گٹارنہیں پرانی جینز
چائے کی سرحد۔۔۔۔۔ سرحد کی چائے۔۔۔۔سرحدِ ادراک سے ہے ماورا
چائے کی سرحد اگر ہے دوستو!
ہاہاہاہہااااا۔۔۔۔جس قسم کی باتیں یہاں ہوئی ہیں تالا تو اب تک لگ جانا چاہیے تھا تاہم ادبی انداز میں بے ادبی عموماً درگزر کر دی جاتی ہے۔
آپ بھی غضب کرتے ہیں، متبادل بھی تجویز کیا تو ایسا کہ لفظی اور معنوی دونوں اعتبار سے اشعار کی ٹانگ ٹوٹ جائے۔ امرود کے بجائے جام کا کوئی ہم وزن مترادف پیش کرتے تو آج یہ نوبت تو نہ آتی:قارئین سے گزارش ہے کہ اب جہاں کہیں ہمارے شعروں میں جام کا لفظ نظر آئے اُس سے امرود مراد لیا جائے ۔