انگریزی میںشاعری کا سافٹ وئر تو میں نے کہیں دیکھا تھا، لیکن آج فیس بک میں ثمینہ راجا نے اطلاع دی ہے، انہیں کے الفاظ میں
آپ حضرات کو یہ جان کرافسوس ہوگا کہ مقتدرہ قومی زبان کے عطش درانی صاحب ایک ایسا ''شاعر'' سوفٹ ویر اردو میں بھی بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں ۔ جس کے اشعار وزن سے خارج ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ نہ وہ زبان کی کوئی غلطی کر سکتا ہے ۔
ایک روز انہوں نے مجھے چیلنج کیا کہ جب یہ سوفٹ ویر مارکیٹ میں آ جائے گا تو آپ کو شاعری سے ریٹائر ہونا پڑے گا ۔ میں نے جواب دیا ” مجھے اس سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ میں تو اب بھی شاعری سے ریٹائرڈ ہی ہوں ۔ البتہ آپ نے ان لوگوں کے ساتھ بہت دشمنی کی ہے جن کا چولہا ہی شاعری کی فروخت سے جلتا ہے ۔ اب تمام ”مشہورشاعرات“ یہ سوفٹ ویر خرید کر اپنے اپنے تاجروں کو جھنڈی دکھا دیں گی ۔ کیا بنے گا بیچاروں کا ؟
حضور یہ کوئی 2006 کی بات ہے۔ ہم نے موصوف کی خدمت میں یہ خیال پہلی مرتبہ پیش کیا کہ ہمارے ذہن میں ایسا کچھ سودا سمایا ہے کہ ایسا سافت وئیر بنایا جائے جو فعلن فعولن از خود ہی شعر میں سے نکال سامنے رکھے۔ مزید خاکسار نے یہ بھی عرض کیا یونیورسٹیوں میں طلبا کے کام آسکتا ہے، فن پاروں کے تجزیاجات ہو سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ، موصوف چونکے تھوڑی بہت بحث ہوئی ہماری خواہش تھی کہ ہم کو اجازت دی جاتی چلیے اور نہیں اسی بابت کام ہو جاتا۔ جو کلرکوں کی فوج پل رہی تھی چلیے کوئي نیک کام بھی وہ جاتا۔ مگر موصوف نے اغماض برتا جس کا سبب ہم آج تک سمجھنے سے قاصر ہیں۔
مزید یہاں پر اردو کے لیے کیا ترقیاتی کام ہوئے ہیں، محض چند کی جھلک دیکھيے:
1۔ پاک نستعلیق کو بی ٹا سے آگے بڑھنے ہی نہیں دیاگيا سولنگي صاحب کو میں اپنے تجربات کی روشنی میں باکل سرے سے فونٹ بنوا رہا تھا جس کی شکل کہیں بہتر تھی تاہم وہ بند کروا دیا گیا۔
2۔ php میں ایک ڈکشنری بلڈنگ سافٹوئیر میں نے اپنی نگرانی میں تیار کروایا۔ پروفیسر فتح محمد ملک صاحب کی خواہش تھی کہ مقتدرہ کی لغت آن لائن دستیاب ہو۔ سو اس ایپلیکشن میں ڈیٹا اینٹری آپریٹرز کے لیے انٹرفیس موجود تھا کہ صاحب الفاظ کا اندراج کیجئے اور چونکہ سرکاری ادراہ تھا، شام کو اعداد و شمار سے معلوم بھی ہو جاتا کہ کس نواب نے کتنے الفاظ درج کیے وغیرہ وغیرہ۔ ان دنوں موصوف بدعنوانی کے الزامات میں گو اندر تو نہیں تھے مگر باہر ضرور تھے۔ جب واپسی ہوئی تو آتے ہی وہ کام بھی بند کروایا۔ سو محض ساڑھے تین ہزار الفاظ ہی درج ہو سکے۔وہ اب بھی ہمارے پاس موجود ہیں۔
3۔ ترسیمہ جات پر مبنی فونٹ سب سے پہلے میرا آئیڈیا تھا۔ وہ محض اس واسطے بن پایا کہ موصوف کے ذاتی کاروبار میں جو سب کا سب سرکاری اخراجات پر ہی ہوتا ہے، نستعلیق فونٹ کی ضرورت تھی۔ اس کے لیے ٹیم کیسے اکٹھی کی وغیرہ وغیرہ وہ سب نوٹس اور احکامات میرے پاس آج بھی محفوظ ہیں کہ کس طرح تسلی دلا کر کام کرنا پڑا کہ جناب والا! آپ کی کرسی کو قطعی کوئی خطرہ لاحق نہیں۔مگر اس میں بھی مزید تجربات کی اجازت نہیں تھی۔
تو یہ اردو کے لیے چیدہ چیدہ خدمات کا خلاصہ ہے طوالت کی گنجائش ندارد وگرنہ ہم جو آپ کو کلرک بادشاہوں کی فوج ظفر موج سمیت ديگر قصے سنائیں تو وہ بھی لمبی داستان ہے۔ اس قسم کا کوئي سافٹوئیر نہیں آرہا نہ آئے گا۔ فقط ایک فونٹ اس لیے سامنے آگیا کہ خاکسار وہاں موجود تھا اس کے علاوہ کوئی بھی چیز 5 سال میں لگ بھگ قومی خزانے کا 3 کروڑ روپیہ اڑانے کے بعد سامنے نہیں آ سکی اب وہاں یہ کہنا کہ الو بولتے ہیں مناسب نہیں ہوگا کیوں کہ اس نسل کے الو بھی موجود ہیں جو بولتے ہی نہیں۔
قصہ مختصر، ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا میرے پاس مکمل اطلاع ہے کہ ہو کیا رہا ہے آخر میں وہاں ڈھائي سال رہا ہوں۔ میں سولنگی صاحب کہا کرتے ہیں کہ جیسے یہ ادارہ چل رہا ہے اسے دیکھ کر سمجھ آ جاتی ہے کہ یہ ملک کیسے چل رہا ہے۔