شاعر:بھارت بھوشن پنت(منتخب کلام)

تنہائیاں کہتی ہیں اسے گھر سے نکالو
نام شاعر:بھارت بھوشن پنت
تاریخ پیدائش:3جون 1958
بھارت بھوشن سے میرا پہلا تعارف ان کے ایک شعر کے توسط سے ہوا۔ شروع شروع میں جب ان کے شعر پڑھا تو تجسس پیدا ہوا کہ اس شعر کے خالق کے بارے میں کچھ جانا جائے۔ لیکن احباب شعرا سے پوچھا تو جواب ندارد۔ پھر میں نے انٹرنیٹ کی دنیا میں چھلانگ لگائی تو یو ٹیوب پر آپ کی صرف دو ویڈیوز ملیں جس سے مجھ پر یہ راز کھلا کہ آپ کو جاننے والے کم کیوں ہیں!کیونکہ آپ مشاعروں میں بہت کم آتے ہیں۔مجھے آپ کے اشعار کے علاوہ آپ کے تعارف کے لئے جو نثر پارہ میسر آیا وہ بھی آپ ہی کی کتاب 'تنہائیاں کہتی ہیں' کا پیش لفظ ہے جو کہ منور رانانے لکھا ہے۔ بھارت بھوشن پنت ، حضرت والی آسی کے توسط سے داغ اسکول کے ہونہار طالب علم ہیں۔آپ بنک میں نوکری کرتے ہیں اور مشاعروں میں آنا جانا بہت کم ہے۔بھارت بھوشن پنت نے اردو سیکھی ہے لیکن اس کے باوجود آپ کا کلام کسی اہلِ زبان کی شاعری سے ہرگز کم نہیں۔عروضی حوالے سے دیکھا جائے تو آپ نے مشکل بحور میں بالکل لکھا ہی نہیں ااور ان کی کتاب 'تنہائیاں کہتی ہیں' میں مشکل سے 9 بحور میں غزلیں ملتی ہیں۔ کلام آسان اور رواں بحور میں ہونے کی وجہ سے ان کی کتاب کو پڑھتے ہوئے اک لطف سا آتا ہے اور پوری کتاب پڑھے بغیر چین نہیں ملتا۔انتہاپسندی، وہ چاہے مذہبی ہو یا لسانی، آپ کے کلام میں کسی طور موجود نہیں ہے۔ آپ کی شاعری، کبھی تو دشت میں چلتی لو کے جیسے گرم تھپکیاں دیتی ہے تو کبھی صبحِ روشن کی تازہ ہوا کے میٹھے جھونکے کا احساس دامن میں بھر لاتی ہے اور جسم و روح کو معطر کر دیتی ہے۔ آیئے ان کی کتاب 'تنہائیں کہتی ہیں" میں سے کچھ انتخاب پڑھتے ہیں، جس کے بعد آپ کو یقین ہوجائے گا کہ ان کی شاعری ہے ہی ایسی ہے کہ ان کو کسی مشاعرہ یا توصیفی مضمون کی بیساکھی کی ہرگز ضرورت نہیں۔ (نمونہ کلام میں پہلا شعروہی ہے جو ان سے تعارف کی وجہ بنا)
وہ درد بھری چیخ میں بھولا نہیں اب تک
کہتا تھا کوئی بت مجھے پتھر سے نکالو
۔۔۔۔۔
بہت دیکھا ہوا سجھا ہوا جانا ہوا چہرہ
اسے بھی غور سے دیکھو تو کچھ انجان لگتا ہے
کبھی اس راستے پر بھیڑ کم ہوتی نہیں لیکن
نہ جانے کیوں ہمیں یہ راستہ سنسان لگتا ہے
بڑے خودار ہیں ہم سب سے اپنا غم چھپاتے ہیں
کوئی گر حال بھی پوچھے ہمیں احسان لگتا ہے
میں سچ تو بول دوں لیکن برا لگ جائے گا تجھ کو
وہی تو کفر ہے جو اب تجھے ایمان لگتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے محشر میں بھی پہچاننا مشکل نہیں ہوگا
کہ وہ ہر بھیڑ میں اپنی الگ پہچان رکھتا ہے
اسے خاموش بیٹھا دیکھ کر دھوکہ نہ کھا جانا
وہ گردو پیش کی ہر اک صدا پر کان رکھتا ہے
۔۔۔۔
آنکھوں کو کوئی چیز مکمل نہیں لگی
پلکوں کا کوئی بال نظر میں پڑا رہا
نکلا نہیں میں خاطرِ احباب سے کہیں
دشمن بھی میرے خوف سے گھر میں پڑا رہا
۔۔۔۔۔۔
یہی سن کر تو صحرا میں بگولے رقص کرتے ہیں
اٹھی تھیں جو سمندر سے گھٹائیں راستے میں ہیں
بہت نذدیک شاید اب ہے منزل خود شناسی کی
یہاں بکھری ہوئیں ہر سو قبائیں راستے میں ہیں
زمیں سے عرش کا لمبا سفر کچھ وقت تو لے گا
ذرا سا صبر کر تیری دعائیں راستے میں ہیں
۔۔۔۔۔۔
جاؤں تو جاؤں کہاں میں لے کے اپنی وحشتیں
مجھ کو ویرانہ بھی اب گھر کی طرح لگنے لگا
۔۔
یاد بھی آتا نہیں کچھ،بھولتا بھی کچھ نہیں
یا بہت مصروف ہوں میں یا بہت فرصت میں ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کس نے خشک کر ڈالا مری سیراب آنکھوں کو
یہ کس کا ہاتھ ہے دریاؤں کو صحرا بنا نے میں
سفر میں آخرت کے جانے والے یوں نہیں جاتے
گزر جاتی ہے ساری زندگی رستہ بنانے میں
ہمی اک عشق کے کارِ زیاں میں صرف ہیں ورنہ
یہاں ہر آدمی مصروف ہے پیسہ بنا میں
۔۔۔۔۔
ہماری بات کسی کی سمجھ میں کیا آتی
خود اپنی بات کو کتنا سمجھ رہے ہیں ہم
ابھی فضول ہے منزل کی بات بھی کرنا
ابھی تو لوگوں سے رستہ سمجھ رہے ہیں ہم
۔۔۔
سوچتا ہوں حال کیا ہوگا کسی تصویر کا
اک مصور کو اگر رنگوں سے نفرت ہوگئی
ہاں یہی چہرے جو اب تک آئینے کا حسن تھے
آئینے کو اب انہیں چہروں سے نفرت ہو گئی
اب سفر کے ذکر ہی سے دل لرزتا ہے مرا
اس قدر بھٹکا ہوں میں رستوں سے نفرت ہوگئی
۔۔۔۔
وفا کی راہ میں اب کیوں نظر نہیں آتے
وفا کی راہ میں جو ہم سفر بنائے تھے
۔۔۔۔۔۔
ہزار رنگ زمانہ بدل چکا لیکن
ہمارے گھر سے پرانی روایتیں نہیں گئیں
نہ جانے رات کو وہ بستی میں کون آیا تھا
پھر اس کے بعد لبوں سے حکایتیں نہیں گئیں
۔۔۔۔
کشتیاں ڈوب تو سکتی ہیں یہاں بھی لیکن
ساحلوں پر کبھی گرداب نہیں ہو سکتے
۔۔۔
کوئی آساں نہیں ہے زندگی بھر دھوپ میں جلنا
شجر کے کرب کو لیکن کہاں سایہ سمجھتا ہے
ہوا کے ساتھ مل کر لاکھ یہ آوارہ ہوجائیں
مگر ان خوشبؤؤں کو پھول تو اپنا سمجھتا ہے
ترے پندار کی ساری حقیقت کھل چکی لیکن
تو اپنے آپ کو اب بھی نہ جانے کیا سمجھتا ہے
یہ تونے خود کو کیسی مشکلوں میں ڈال رکھا ہے
وہی تو آئینہ ہے تو جسے چہرہ سمجھتا ہے
۔۔۔۔۔۔
میں اپنے ساتھ اسے بھی کہیں نہ لے ڈوبوں
وہ کتنی بار نکالے گا اس بھنور سے مجھے
مرا ہی عکس مجھے آئینہ دکھاتا ہے
بس اب خدا ہی بچائے مری نظر سے مجھے
انہیں سے پوچھ کے پہنچا ہوں اس مقام پہ میں
ملے تھے راہ میں کچھ لوگ بے خبر سے مجھے
۔۔۔
ہر طرف بس وہی ساحل سا نظر آتا ہے
ڈوبتے وقت بھنور یاد کسے رہتا ہے
جس کو بچپن میں بناتے ہیں سبھی ساحل پر
ہاں وہی ریت کا گھر یاد کسے رہتا ہے
بھول جاتے ہیں سبھی آکر کسی منزل پر
زندگی بھر کا سفر یاد کسے رہتا ہے
۔۔۔
تیری ہر دھڑکن تو میری نام سے منسوب ہے
لاکھ تو چاہے کسی نا آشنا کا نام لے
اس بھٹکتے قافلے میں چاہے جس سے پوچھئے
ہر مسافر بس اسی اک رہنما کا نام لے
زہر بھی تجویز کر دے تو برا مت ماننا
چارہ گر کو حق ہے چاہے جس دوا کا نام لے
بے حسی ایسی بھی کیا ہے، سب یہاں خاموش ہیں
کوئی غیرت مند تو اس بے وفا کا نام لے
اپنے بجھنے کا سبب تو جانتا ہے ہر چراغ
کس میں ہمت ہے مگر کھل کر ہوا کا نام لے
۔
کسے دیکھا ہے جو یہ آئینہ حیران لگتا ہے
بظاہر تو یہاں ہر آدمی انسان لگتا ہے
۔۔۔
مجھے آپ اپنی خبر نہیں،میں2وہ شب ہوں جس کی سحر نہیں
مرے ساتھ ساتھ خلاؤں میں،کیوں بھٹک رہی ہے یہ کہکشاں
یہ سمجھ لے موجِ غمِ جہاں کہ گہر نہیں ہوں میں اشک ہوں
مجھے ساحلوں پہ نہ ڈھونڈ تو، میں بھنور کی آنکھ میں ہو عیاں
کہاں ختم ہو مرا سلسلہ، اسی کشمکش میں ہوں مبتلا
کہ قدم قدم پہ زمین سے، مجھے مانگتا ہے یہ آسماں
۔۔۔
بہا کے لے گئےآنسو اسے بھی ایک دن آخر
بہت روکا مگر آنکھوں میں وہ چہرہ نہیں ٹھہرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیواروں کو چھوٹا کرنا مشکل ہے
اپنے قد کو اونچا کر کے دیکھا جائے
راتوں میں بھی اک سورج دِکھ سکتا ہے
ہر منظر کو الٹا کر کے دیکھا جائے
۔۔۔۔۔
دریا نے بھی ترسایا ہے پیاسوں کو
دریا کو بھی پیاسا کر کے دیکھا جائے
گھر سے نکل کر جا تا ہوں میں روز کہاں
اک دن اپنا پیچھا کر کے دیکھا جائے
۔۔۔
پھر یک بیک فضاؤں میں اک چیخ سے اٹھی
پھر دور تک فلک میں پرندے بکھر گئے
سورج غروب ہوتے ہی منظر بدل گیا
دیوار سے اتر کر وہ سائے بکھر گئے
ٹوٹا ہے آج پھر کوئی ماضی کا آئینہ
حدِ نگاہ تک کئی چہرے بکھر گئے
شاید بہت طویل تھا تعبیر کا سفر
آنکھوں کے آس پاس ہی سپنے بکھر گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھوں میں میری کس نے نئے رنگ بھر دئے
یہ کون آسمان کی چادر بدل گیا
آساں نہیں ہے دھوپ کی شدت کو جھیلنا
پکے سے پکا رنگ بھی اکثر بدل گیا
اب کے سفر سے لوٹ کے آیا تو یہ ہوا
دیوارودر وہی تھے مگر گھر بدل گیا
۔۔۔۔۔۔
یہ دیکھ کر کہ پھول کو رنگوں سے پیار ہے
خوشبو نے بھی ہواؤں سے رشتے بنا لئے
اب دیکھئے کہ رنگ کیا بھرتی ہے زندگی
ہم نے تو اپنے ذہن میں خاکے بنا لئے
پہچاننے لگا تھا بہت آئینہ ہمیں
ہم نے بھی اس لئے کئی چہرے بنا لئے
۔۔۔۔۔۔۔۔
آئے تھے جس کے واسطے گھر بار چھوڑ کر
دیکھا تو دشت میں بھی وہ وحشت نہیں رہی
چھوٹا سا لگ رہا ہے وہی آسمان اب
سمتیں سمٹ گئی ہیں کہ وسعت نہیں رہی
۔۔۔۔۔
اندھیرا مٹتا نہیں مٹانا پڑتا ہے
بجھے چراغ کو پھر سے جلانا پڑتا ہے
وگرنہ گفتگو کرتی نہیں یہ خاموشی
ہر اک صدا کو ہمیں چپ کرانا پڑتا ہے
ہمارے حال پہ اب چھوڑ دے ہمیں دنیا
یہ بار بار ہمیں کیوں بتانا پڑتا ہے
۔۔۔
آساں ہیں ہے رات کے جنگل کو کاٹنا
مانا کہ اس کے بعد اجالوں کا سفر ہے
۔۔۔۔
کل تک تو یہ گلہ تھا کہ بہت بولتا ہوں میں
خاموش ہوں تو سب کو برا لگ رہا ہے آج
دِکھتی نہیں ہیں دور تلک کشتیاں یہاں
ساحل بھی کتنا خوف زدہ لگ رہا ہے آج
احساسِ کمتری کی کڑی دھوپ میں مجھے
سایہ بھی اپنے قد سے بڑا لگ رہا ہے آج
۔۔۔
سوچوں تو سب نقش ہیں کتنے صاف یہاں
دیکھوں تو سب دھندلا دھندلا دکھتا ہے
میں تو تجھ کو دریا جان کے آیا تھا
توُ تو مجھ سے زیادہ پیاسا لگتا ہے
۔۔۔
میں اگر ڈوب نہ جاتا تو وہاں کیا کرتا
اک سمندر تھا جو قطرے میں ملا تھا مجھ کو
سچ تو یہ ہے کہ یہاں تو کوئی بھی منزل ہی نہ تھی
وہ رستہ تھا جو رستے میں ملا تھا مجھ کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ تو بیزار ہے سوکھے ہوئے پتوں سے شجر
کچھ بدلتے ہوئے موسم کا تقاضا بھی ہے
مجھ کو اس کارِ جہاں سے ہی کہاں فرصت ہے
لوگ کہتے ہیں کہ اک دوسری دنیا بھی ہے
قربتیں میری زمینوں سے بہت ہیں لیکن
آسمانوں سے مرا دور کا رشتہ بھی ہے
۔۔۔۔۔۔
کبھی اس آئینے میں سینکڑوں شکلیں ابھرتی ہیں
کبھی اس آئینے میں ایک بھی چہرہ نہیں ہوتا
جو اپنے دل میں ہوتا ہے وہی پڑھتی ہیں آنکھیں بھی
کسی بھی شخص کے چہرے پہ کچھ لکھا نہیں ہوتا
کسی کا رنگ پھیکا ہے کسی کی تاب جھوٹی ہے
سخن کے موتیوں میں ہر کوئی سچّا نہیں ہوتا
۔۔۔۔۔۔۔
جس کا کوئی جواب نہیں ہے کسی کے پاس
خود سے وہی سوال کئے جا رہا ہوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔
نکل جاتا ہوں خود اپنے حصارِ ذات سے باہر
میں اکثر پاؤں پھیلانے میں چادر بھول جاتا ہوں
۔۔۔۔
آج برسوں بعد توڑا کس نے موجوں کا سکوت
آنسؤؤں کی جھیل میں کنکر کہاں سے آگیا
دور تک صحرا میں اب دِکھتا نہیں اک بھی شجر
پھر کوئی پتہ یہاں اڑ کر کہاں سے آگیا
میں قدوقامت پہ اپنے کس قدر مسرور تھا
آئینے میں یہ مرا ہمسر کہاں سے آگیا
یاں سے تو باہر نکلنے کا کوئی رستہ نہیں تھا
اب فصیلِ ذات میں یہ در کہاں سے آگیا
کیا کوئی رستہ بھی میرے ساتھ ہے محوِ سفر
دشت میں یہ میل کا پتھر کہاں سے آگیا
یہ سلگتی سوچ یہ احساس کا دہکا الاؤ
پھر یہاں پر موم کا پیکر کہاں سے آگیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی کو عیب نظر میں نظر نہیں آتا
سبھی کو چاند میں دھبہ دکھائی دیتا ہے
۔۔۔۔
کچھ ایسے خواب ہیں جن کے بنا نیندیں نہیں آتیں
کچھ ایسے خواب ہیں جو رتگجوں میں کام آتے ہیں
یہی وہ اشک ہیں جن کےلئے آنکھیں ترستی ہیں
یہی وہ اشک ہیں جو قہقہوں میں کام آتے ہیں
یہ پتھر راستے سے کیوں ہٹاتے جارہے ہو تم
یہ پتھر راستے کی ٹھوکروں میں کام آتے ہیں
۔۔۔۔۔۔
اس قدر بھی رنج کا خوگر نہیں ہوں میں ابھی
راستے میں دھوپ ہو تو اک شجر بھی چاہئے
صرف سانسوں کا تسسل ہی نہیں ہے زندگی
اپنے ہونے کی ہمیں کوئی خبر بھی چاہئے
مطمئن صحرا میں بھی آکر نہیں تنہائیاں
شام ہوتے ہی انہیں دیوار و در بھی چاہئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دن میں سورج سے رہا کرتی ہے رنجش اپنی
رات کو چاند ستاروں سے الجھ پڑتے ہیں
اپنی قامت کی بلندی پرپہنچ کر اکثر
پیڑ خود اپنے ہی شانوں سے الجھ پڑتے ہیں
۔۔۔۔
آگہی کی راہ میں جتنے بھی دانشور ملے
زندگی کی گھتیوں کو اور بھی الجھا گئے
۔۔۔۔
یہ داستاں کہیں مختصر نہ کرنی پڑے
کسی ورق پہ کوئی حاشیہ نہ رکھا جائے
ہمیں پہ ختم کیا جائے اس کہانی کو
ہمارے بعد کوئی سلسلہ نہ رکھا جائے
۔۔۔۔۔۔۔
تم بھی سمجھانا چاہو تو سمجھاؤ
ویسے تومیں سمجھ چکا ہوں کون ہوں میں
وہ بھی کب سے پوچھ رہا ہے کون ہو تم
میں بھی کب سے سوچ رہا ہوں کون ہوں میں
۔۔۔۔
سارے بادل لپٹ کے رونے لگے
مل گیا جب وہ گمشدہ بادل
چاردن کی یہ زندگی جیسے
بارشیں، بجلیاں ،ہوا،بادل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ جانے آئینے میں یہ کون ہے
بہت دیکھا سا چہرہ لگ رہا ہے
ڈھلے گی دھوپ تو بس ریت ہوگی
ابھی ساحل سنہرا لگ رہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔
کچھ تو ان آنکھوں کی بھی مجبوریاں ہیں کیا کریں
جو بھی یہ دکھائیں منظر،دیکھ لینا چاہئے
صرف آنکھوں کی گواہی معتبر ہوتی نہیں
ہاں کبھی خود کو بھی چھو کر دیکھ لینا چاہئے
اس سے پہلے ان نشیبوں میں اتر جائے یہ دھوپ
سائے کوبھی اپنا پیکر دیکھ لینا چاہئے
اپنے اندر دیکھنا آساں نہیں ہوتا مگر
ہوسکے تو اپنے اندر دیکھ لینا چاہئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک بھیڑ سی ہر وقت خیالوں کی لگی ہے
یہ دل بھی کسی شہرِ تمنا کی طرح ہے
۔۔۔۔
کوئی یہ بوجھ اٹھانے کو تیار بھی تو ہو
دستار کس کو دیجئے،حقدار بھی تو ہو
مشکل نہیں ہے مجھ کو ڈرانا میرے حریف
لیکن تری نیام میں تلوار بھی تو ہو
یہ جانتا ہوں نرغئہ دشمن میں ہوں مگر
مجھ پر کسی طرف سے کوئی وار بھی تو ہو
ہم کافروں نے شوق میں روزہ تو رکھ لیا
اب حوصلہ بڑھانے کو افطار بھی تو ہو
کہنے کو چند شعر تو ہم نے بھی کہہ لئے
لیکن سخن سرائی کا معیار بھی تو ہو
۔۔۔۔۔۔۔
اب مرے دل سے نکل جانے دو یہ پانی کا ڈر
اب مجھے دریا کنارے بس اکیلا چھوڑ دو
بستیوں کو لوٹ جاؤ، زندگی کی اے صداؤ
آگیا شہرِ خموشاں۔۔ اب تو پیچھا چھوڑ دو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ انتشار شجر کا کسے دِکھائی دیا
نظر نے تو یہی دیکھا بکھر گئے پتے
ابھی تو جھوم رہے تھے ہو ا کی باہوں میں
شجر یہ سوچ رہا ہے کدھر گئے پتے
۔۔۔۔۔
رنگوں کا تال میل بہت خوب تھا مگر
پھر بھی کوئی کمی تری تصویرمیں رہی
قاتل نے سارے داغ تو پانی سے دھو دیے
تازہ لہو کی بو جو تھی، تلوار میں رہی
شعلہ بیانی گو مرا طرزِ سخن نہیں
اک آنچ سی مگر مری تحریر میں رہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مختلف ہے آئینے کا عکس میری ذات سے
فرق ہے خاموش رہنا بے زبانی اور ہے
سچ تو یہ ہے ہم جسے سمجھے تھے سچ،وہ بھی نہیں
لفظ کی دنیا الگ،شہرِ معانی اور ہے
موت کی ساعت سے پہلے راز یہ کھلتا نہیں
سانس لینا مختلف ہے، زندگانی اور ہے
۔۔۔۔۔۔۔
وقتِ تنہائی بھی یوں پاسِ وفا رکھتے تھے
ہم ترے غم کو ہر اک سے جدا رکھتے تھے
بے خبر ،یوں بھی نہیں تھے ہواکے جھونکے
گل سے نکلی ہوئی خوشبو کا پتہ رکھتے تھے
روشنی میں کوئی سایہ سا ڈراتا تھا ہمیں
رات بھر گھر کے چراغوں کو بجھا رکھتے تھے
۔۔۔۔
جو یہاں آیا نہ باہر جا سکا
دل دروازہ کہ بس اندر کھلا
سوگئے اک عمر کے جاگے ہوئے
سامنے جب خاک کا بستر کھلا
یاد آیا دشت میں آکر مجھے
چھوڑ آیا تھا میں اپنا گھر کھلا
۔۔۔۔
پائی نجات جسم سے اور پاک ہوگئے
دنیا سمجھ رہی ہے کہ ہم خاک ہوگئے
جب ہم کو روک پائی نہ وسعت زمین کی
حائل ہماری راہ میں افلاک ہوگئے
رہنے دیا نہ ہم کو زمانے نے باادب
چھیڑے گئے ہم اتنا کہ بے باک ہوگئے
۔۔۔
کب تلک سنتے رہیں گے دھڑکنوں کا شور ہم
دل دھڑکتا ہی رہا تو ٹوکنا پڑجائے گا
تو بھی اوروں کی طرح ملتا ہے مجھ سے آج کل
تیرے بارے میں بھی مجھ کو سوچنا پڑجائے گا
کیا پتہ تھا یک بیک آجائے گی لب پر ہنسی
پیچ میں ہی آنسوؤں کو روکنا پڑجائے گا
۔۔۔
کھویا ہوا ہوں اس قدر اپنی تلاش میں
موجود ہوں جہاں وہیں اکثر نہیں ہوں میں
۔۔۔۔۔۔
خوف کے مارے ہوائیں خود بخود ہی رک گئیں
جب چراغوں کی لوؤں سے شب کا چہرہ جل گیا
رت جگوں سے جل رہی تھیں کس قدر آنکھیں مری
بس ذرا جھپکی تھیں پلکیں، خواب سارا جل گیا
لفظ ومعانی نے پناہیں ڈھونڈ لیں اشعار میں
فکر کے آتش کدے میں، میں اکیلا جل گیا
شوق تھا کتنا مجھے بھی کھیلنے کا آگ سے
سب شرر تو بجھ گئے پر میں سراپا جل گیا
آئے دن جلتی ہوئی ان بستیوں کو دیکھ کر
وحشتیں غالب ہوئیں ایسی کہ صحرا جل گیا
۔۔۔۔
ایک دن تو بھی اسی بازار میں بک جائے گا
اور کوئی شے نہ ہوگی تجھ سے سستی ایک دن
۔۔۔۔
پھر سے کوئی منظر پسِ منظر سے نکالو
ڈوبے ہوئے سورج کو سمندر سے نکالو
لفظوں کا تماشا تو بہت دیکھ چکے ہم
اب شعر کوئی فکر کے محور سے نکالو
گر عشق سمجھتے ہوتو رکھ لو مجھے دل میں
سودا ہوں اگر میں تو مجھے سر سے نکالو
میں کب سے صدا بن کے یہاں گونج رہاہوں
اب تو مجھے اس گنبدِ بے در سے نکالو
وہ درد بھری چیخ میں بھولا نہیں اب تک
کہتا تھا کوئی بت مجھے پتھر سے نکالو
یہ شخص ہمیں چین سے رہنے نہیں دے گا
تنہائیاں کہتی ہیں اسے گھر سے نکالو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نورالحسن جوئیہ
 
آخری تدوین:
Top