ایک تھا عباسی خلیفہ ابو جعفر المنصور!
بلا کا حافظہ رکھتا تھا!
کوئی بھی قصیدہ ایک بار سن کر ذہن نشیں کرلیتا، اس کے پاس ایک غلام تھا وہ بھی انتہائی ذہین، کسی بھی قصیدے کو دو بار سن لینے پر اسے یاد ہو جاتا ۔
اسی طرح اس کے پاس ایک لونڈی تھی وہ بھی ذہانت سے مالا مال تھی کسی بھی قصیدے کو تین بار سننے پر اسے ازبر ہو جاتا تھا ۔
المنصور نے اعلان کر رکھا تھا کہ اگر کوئی شاعر اسے ایسا قصیدہ سنائے جو اس نے اس سے پہلے نا سن رکھا ہو تو جس لوح یا ورق پر وہ قصیدہ تحریر ہو اس کے وزن کے برابر سونا اس کا!
بہت سے شعراء اپنے قصیدے لئے دربار کو پہنچتے،بادشاہ کی خدمت میں قصیدہ پڑھ کر سناتے، بادشاہ سلامت فرماتے یہ قصیدہ تو ہم نے عرصہ دراز سے سن رکھا ہے، اور شاعر کے سامنے پڑھ دیتے ۔
شاعر ابھی اس صدمہ سے سنبھل نا پاتا کہ اسے کہتے یہ قصیدہ تو میرے غلام نے بھی سن رکھا ہے، غلام جسے دو بار قصیدہ سن کر یاد ہو چکا ہوتا وہ بھی حکم ملنے پر فرفر سنا دیتا ۔
شاعر دھیمی آواز سے کہنے کی کوشش کرتا کہ عالیجاہ یہ خالصتا میرا کلام ہے تو جواب ملتا یہ قصیدہ تو اتنا عام ہے کہ میری لونڈی کو بھی ازبر ہے، چنانچہ پردے کے پیچھے چھپی لونڈی کو حاضر کیا جاتا جس نے تین بار سن کر یاد کر لیا ہوتااور وہ بھی فرفر قصیدہ پڑھ دیتی اور شاعر اپنا سا منہ لیکر رہ جاتا!
بہت سے شعراء اور ادباء نے یہ معرکہ سر کرنے کی کوشش کی، مختلف النوع قصائد لکھے لیکن منہ کی کھانی پڑی چنانچہ شعراء بہت خجالت اور شرمندگی محسوس کرنے لگے ۔
اس وقت کے مشہور شاعر اور عالم عبدالمالک اصمعی تک جب بادشاہ کے ہاتھوں شاعروں کی اہانت کی خبر پہنچی تو انھوں نے المنصور کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا ۔
انھوں نے نادر ونامانوس الفاظ و تراکیب سے ایک قصیدہ لکھا، اپنا حلیہ بدو اعرابی کی مانند بنایا کیونکہ بادشاہ انھیں جانتا تھا ،اور چل پڑے المنصور کے دربار کو ۔۔۔
امیر المومنین کے سامنے پیش ہوئے اور کہا میرے پاس ایسا قصیدہ ہے جو آپ نے پہلے نہیں سنا ہو گا، المنصور نے کہا سناؤ
انھوں نے پڑھنا شروع کر دیا :
صوت صفير البلبل هيج قلبي الثمل
الماء والزهرمعاً مع زهر لحظ المقل
وأنت يا سيدلي وسيدي وم۔ولى لي
فكم فكم تيمني غزيلل عقيقلي
ق۔طفته من وجنة من لثم ورد الخجل
فقال لالالالالا وقد غدا مهرول
والخوذ مالت طرباً من فعل هذا الرجل۔۔۔۔
بادشاہ اسے یاد نہ کر پایا ۔
غلام کو بلایا گیا اس بے چارے نے خاک یاد کرنا تھا اس نے تو محض ایک بار ہی سنا تھا ۔
لونڈی کو حاضر کیا گیا وہ بھی نامراد ٹھہری ۔
حسب شرط المنصور نے کہا کہ جس لوح پر قصیدہ تحریر ہے وہ پیش کرو ۔
اصمعی نے کہا بادشاہ سلامت مجھے اپنے باپ سے وراثت میں سنگ مرمر کا ایک ٹکڑا ملا تھا اسی پر میں نے یہ قصیدہ نقش کیا ہے ۔اور وہ باہر میرے اونٹ پر لدا ہے تنہا اٹھانے سے میں قاصر ہوں اپنے سپاہی بھیجئے!
اس سنگ مرمر کے ٹکڑے کو چار سپاہی اٹھا کر امیر المومنین کی خدمت میں لائے ۔بادشاہ سلامت حیران پریشان!
بہرحال خزانے سے اس کے برابر سونا ادا کیا گیا، اصمعی جب نکلنے لگے تو ایک وزیر نے کہا
امیر المومنین یہ شاعر اصمعی کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا، بادشاہ نے اسے حکم دیا کہ اپنا رومال ہٹاؤ تو واقعی اصمعی نکلے ۔
المنصور نے کہا :اصمعی امیرالمومنین کے ساتھ یہ حرکت ۔۔۔
اصمعی نے جواب میں کہا امیر المومنین یہ جو آپ نے شعراء کا حقہ پانی بند کر رکھا ہے اس کا جواب ہے ۔
المنصور نے یہ سونا بیت المال میں واپس جمع کروانے کا حکم دیا لیکن اصمعی نے ماننے سے انکار کر دیا ۔
بالآخر اصمعی نے کہا کہ امیر المومنین یہ صرف ایک شرط پر ہی واپس جمع کروا سکتا ہوں ۔
المنصور نے پوچھا کس شرط پر؟
اصمعی نے کہا کہ اگر آپ تمام شعراء کو چاہے ان کا اپنا کلام ہو یا نقل کردہ ان کا انعام ادا کریں ۔
المنصور نے یہ شرط تسلیم کر لی اور اصمعی نے یہ سونا بیت المال میں جمع کروا دیا ۔