محمد بلال اعظم
لائبریرین
شامِ وحشت سے کہو، دے مجھے لمحوں کا حساب
شامِ وحشت مرے آنگن میں اتر آئی ہے
مونسِ غم ہے میسر، نہ ہی تنہائی ہے
پھر وہی رات کا عالم ہے مری آنکھوں میں
اور رگِ جاں میں بھٹکتی ہوئی بینائی ہے
میرے ہمدرد، مرے یار چلے آئے ہیں
ہاتھ میں آگ ہے، پر آگ میں ہیں پھول کھِلے
اے رفیقانِ مَن و تُو، یہ نظر کا دھوکہ
گرچہ سیماب صفت ہے، پہ کسے کیا معلوم
کس کا گھر بار جلائے، یہ کسے راکھ کرے
میں نے دنیائے محبت سے کنارہ کر کے
آگ اور خون کے دریا میں قدم رکھا ہے
اس قدر حبس کے عالم میں بھی دل کہتا ہے
چار سو دشتِ عدم، دشتِ عدم پھیلا ہے
آج صدیوں کی مسافت پہ کھڑا سوچتا ہوں
میرے احباب تو منزل کے قدم چوم بھی آئے
اور میں گنتا رہا پاؤں کے چھالے اپنے
میں کہ گفتار سراپا تھا مگر کیا معلوم
عمر باتوں کے سہارے نہیں گزرا کرتی
راکھ کی تہہ میں شرارہ بھی تو ہو سکتا ہے
آگ بجھ جائے بھی تو ہاتھ جلا دیتی ہے
میرے کاسے کی طلب تھی مرے پندار سے کم
میں نے سمجھا تجھے دنیا مرے معیار سے کم
شامِ وحشت کہ جو آنگن میں اتر آئی ہے
لوگ کہتے ہیں کہ آنکھوں میں اتر سکتی ہے
لیکن آنکھوں میں اتر آئے بھی تو کیا ہو گا
شامِ وحشت کو خبر تک ہی نہیں ہے شاید
کرب کی خاک سے خلوت میں تراشیدہ جسم
اپنی آنکھوں میں سمیٹے ہوئے خوابوں کا دھواں
مثلِ آشفتہ سراں، نوحہ بہ لب، گریہ کناں
اور صفِ چارہ گراں میں ہے وہ شعلہ بجاں
اپنی تنہائی کے زنداں میں پڑا ہے کب سے
اور تنہائی کے زنداں میں پڑا مانگتا ہے
شامِ وحشت سے وہ گزرے ہوئے لمحوں کا حساب
شامِ وحشت کو خبر تک ہی نہیں ہے شاید
ہے کئی اور خرابے مری آنکھوں سے پرے
جن میں اب راکھ ہے باقی نہ دھواں ماضی کا
اُن میں مدفون ہے صدیوں کے تحیر کا غبار
اُن میں باقی ہے بس اب خاکِ رہِ ہم سفراں
اُن میں باقی ہے تو بس آہِ رہِ لیل و نہار
آج وحشت نے مری باندھا ہے کیسا یہ خیال
جس کا ہر شعر لہو رنگ ہے لیکن پھر بھی
حرفِ تاثیر سے خالی ہیں یہ باتیں ساری
حرفِ احساس سے عاری ہیں یہ قصے سارے
شامِ وحشت نے کہاں دینا ہے لمحوں کا حساب
شامِ وحشت سے کہو، دے مجھے لمحوں کا حساب
شامِ وحشت سے کہو، دے مجھے لمحوں کا حساب
(محمد بلال اعظم)
شامِ وحشت مرے آنگن میں اتر آئی ہے
مونسِ غم ہے میسر، نہ ہی تنہائی ہے
پھر وہی رات کا عالم ہے مری آنکھوں میں
اور رگِ جاں میں بھٹکتی ہوئی بینائی ہے
میرے ہمدرد، مرے یار چلے آئے ہیں
ہاتھ میں آگ ہے، پر آگ میں ہیں پھول کھِلے
اے رفیقانِ مَن و تُو، یہ نظر کا دھوکہ
گرچہ سیماب صفت ہے، پہ کسے کیا معلوم
کس کا گھر بار جلائے، یہ کسے راکھ کرے
میں نے دنیائے محبت سے کنارہ کر کے
آگ اور خون کے دریا میں قدم رکھا ہے
اس قدر حبس کے عالم میں بھی دل کہتا ہے
چار سو دشتِ عدم، دشتِ عدم پھیلا ہے
آج صدیوں کی مسافت پہ کھڑا سوچتا ہوں
میرے احباب تو منزل کے قدم چوم بھی آئے
اور میں گنتا رہا پاؤں کے چھالے اپنے
میں کہ گفتار سراپا تھا مگر کیا معلوم
عمر باتوں کے سہارے نہیں گزرا کرتی
راکھ کی تہہ میں شرارہ بھی تو ہو سکتا ہے
آگ بجھ جائے بھی تو ہاتھ جلا دیتی ہے
میرے کاسے کی طلب تھی مرے پندار سے کم
میں نے سمجھا تجھے دنیا مرے معیار سے کم
شامِ وحشت کہ جو آنگن میں اتر آئی ہے
لوگ کہتے ہیں کہ آنکھوں میں اتر سکتی ہے
لیکن آنکھوں میں اتر آئے بھی تو کیا ہو گا
شامِ وحشت کو خبر تک ہی نہیں ہے شاید
کرب کی خاک سے خلوت میں تراشیدہ جسم
اپنی آنکھوں میں سمیٹے ہوئے خوابوں کا دھواں
مثلِ آشفتہ سراں، نوحہ بہ لب، گریہ کناں
اور صفِ چارہ گراں میں ہے وہ شعلہ بجاں
اپنی تنہائی کے زنداں میں پڑا ہے کب سے
اور تنہائی کے زنداں میں پڑا مانگتا ہے
شامِ وحشت سے وہ گزرے ہوئے لمحوں کا حساب
شامِ وحشت کو خبر تک ہی نہیں ہے شاید
ہے کئی اور خرابے مری آنکھوں سے پرے
جن میں اب راکھ ہے باقی نہ دھواں ماضی کا
اُن میں مدفون ہے صدیوں کے تحیر کا غبار
اُن میں باقی ہے بس اب خاکِ رہِ ہم سفراں
اُن میں باقی ہے تو بس آہِ رہِ لیل و نہار
آج وحشت نے مری باندھا ہے کیسا یہ خیال
جس کا ہر شعر لہو رنگ ہے لیکن پھر بھی
حرفِ تاثیر سے خالی ہیں یہ باتیں ساری
حرفِ احساس سے عاری ہیں یہ قصے سارے
شامِ وحشت نے کہاں دینا ہے لمحوں کا حساب
شامِ وحشت سے کہو، دے مجھے لمحوں کا حساب
شامِ وحشت سے کہو، دے مجھے لمحوں کا حساب
(محمد بلال اعظم)