نیرنگ خیال
لائبریرین
جتنے عرصہ بعد تم نے جواب دیا ہے اب تک تو برگد کا درخت بن گئے ہوگے۔نہال ہو گیا ہوں نین بھیا
بہت شکریہ
جتنے عرصہ بعد تم نے جواب دیا ہے اب تک تو برگد کا درخت بن گئے ہوگے۔نہال ہو گیا ہوں نین بھیا
بہت شکریہ
شکر ہے ریڈ ووڈ ٹری نہیں کہاجتنے عرصہ بعد تم نے جواب دیا ہے اب تک تو برگد کا درخت بن گئے ہوگے۔
وہ اگلے جواب کے لیے بچا چھوڑا تھا۔۔۔شکر ہے ریڈ ووڈ ٹری نہیں کہا
دور اندیشی کا جواب نہیںوہ اگلے جواب کے لیے بچا چھوڑا تھا۔۔۔
اور یقیناً اب تو پورا روز گارڈن ہو گیا ہوں گاجتنے عرصہ بعد تم نے جواب دیا ہے اب تک تو برگد کا درخت بن گئے ہوگے۔
ہاہاہا۔۔۔۔ "افسوس" کی بھی خوب کہیہائے افسوس!یہ شاہکار بھی میری کوتاہی کا شکار ہوا
محمد بلال اعظم ، سرکار ، اعلیٰ ترین۔ کیا کہوں کہ کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ ملک صاحب سے اتفاق رکھتا ہوں۔کہ ظالم یہ کیا لکھ دیا ہے۔
بہت شکریہ آپیواہ چھوٹے بھيا واہ
کیا کہنے !
اسقدر لطف آمیز !
ثم آمینبہت ہی اعلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ زور قلم مزید دوچند کرے۔آمین
ان کی "قریب اندیشی" کا بھی کوئی جواب نہیں ہےدور اندیشی کا جواب نہیں
اس بند میں غزل کا رنگ نمایاں ہے روانی ترنم بہاؤ خوب ہےشامِ وحشت مرے آنگن میں اتر آئی ہے
مونسِ غم ہے میسر، نہ ہی تنہائی ہے
پھر وہی رات کا عالم ہے مری آنکھوں میں
اور رگِ جاں میں بھٹکتی ہوئی بینائی ہے
اس بند میں لہجہ نظم کا محسوس ہوا پہلے بند میں چلے آئے ہیں کی جگہ اگر چلے آتے ہیں کر دیا جائے تو کیسا رہے گا؟
یہ بند بہت خوب ہےمیں نے دنیائے محبت سے کنارہ کر کے
آگ اور خون کے دریا میں قدم رکھا ہے
اس قدر حبس کے عالم میں بھی دل کہتا ہے
چار سو دشتِ عدم، دشتِ عدم پھیلا ہے
یہ بند بلاشبہ حاصلِ نظم ہے کیا کہنے واہآج صدیوں کی مسافت پہ کھڑا سوچتا ہوں
میرے احباب تو منزل کے قدم چوم بھی آئے
اور میں گنتا رہا پاؤں کے چھالے اپنے
میں کہ گفتار سراپا تھا مگر کیا معلوم
عمر باتوں کے سہارے نہیں گزرا کرتی
راکھ کی تہہ میں شرارہ بھی تو ہو سکتا ہے
آگ بجھ جائے بھی تو ہاتھ جلا دیتی ہے
پہلا مصرعہ کمال کا ہے مگر دوسرا مصرعہ متاثر نہ کر سکامیرے کاسے کی طلب تھی مرے پندار سے کم
میں نے سمجھا تجھے دنیا مرے معیار سے کم
بہت خوب کیا کہنے لطف آ گیاشامِ وحشت کہ جو آنگن میں اتر آئی ہے
لوگ کہتے ہیں کہ آنکھوں میں اتر سکتی ہے
لیکن آنکھوں میں اتر آئے بھی تو کیا ہو گا
کمال ہو گیا بھائی کمال ہو گیاشامِ وحشت کو خبر تک ہی نہیں ہے شاید
کرب کی خاک سے خلوت میں تراشیدہ جسم
اپنی آنکھوں میں سمیٹے ہوئے خوابوں کا دھواں
مثلِ آشفتہ سراں، نوحہ بہ لب، گریہ کناں
اور صفِ چارہ گراں میں ہے وہ شعلہ بجاں
اپنی تنہائی کے زنداں میں پڑا ہے کب سے
اور تنہائی کے زنداں میں پڑا مانگتا ہے
شامِ وحشت سے وہ گزرے ہوئے لمحوں کا حساب
شامِ وحشت کو خبر تک ہی نہیں ہے شاید
ہے کئی اور خرابے مری آنکھوں سے پرے
جن میں اب راکھ ہے باقی نہ دھواں ماضی کا
اُن میں مدفون ہے صدیوں کے تحیر کا غبار
اُن میں باقی ہے بس اب خاکِ رہِ ہم سفراں
اُن میں باقی ہے تو بس آہِ رہِ لیل و نہار
یہ بند بھی خوب ہے مگر سرخ کشیدہ سطر میں کچ الجھاؤ محسوس ہواآج وحشت نے مری باندھا ہے کیسا یہ خیال
جس کا ہر شعر لہو رنگ ہے لیکن پھر بھی
حرفِ تاثیر سے خالی ہیں یہ باتیں ساری
حرفِ احساس سے عاری ہیں یہ قصے سارے
شامِ وحشت نے کہاں دینا ہے لمحوں کا حساب
منے میاں کمال کر دیا
اس بند میں غزل کا رنگ نمایاں ہے روانی ترنم بہاؤ خوب ہے
اس بند میں لہجہ نظم کا محسوس ہوا پہلے بند میں چلے آئے ہیں کی جگہ اگر چلے آتے ہیں کر دیا جائے تو کیسا رہے گا؟
سرخ کشیدہ سطر میں کچھ بکھراؤ اور الجھاؤ محسوس ہوا
یہ بند بہت خوب ہے
مگر میاں ایک بات تو بتاؤ
اس عمر میں یہ بن باس لینے کی کیا سوجھی
یہ بند بلاشبہ حاصلِ نظم ہے کیا کہنے واہ
پہلا مصرعہ کمال کا ہے مگر دوسرا مصرعہ متاثر نہ کر سکا
اپنا اپنا خیال ہے
بہت خوب کیا کہنے لطف آ گیا
کمال ہو گیا بھائی کمال ہو گیا
یہ بند بھی خوب ہے مگر سرخ کشیدہ سطر میں کچ الجھاؤ محسوس ہوا
آخری کی دو سطریں بلاوجہ کی تکرار ہیں
بلاشبہ یہ نظم بہت اعلیٰ معار کی ہے مگر میں سید عاطف علی کی بات سے اتفاق کروں گا کہ کہیں کہیں الجھن محسوس ہو رہی ہے
اسی طرح لکھتے رہو
اللہ کرے زور قلم زیادہ