آن کی آن سینکڑوں افراد جہاں تھے، وہیں مر گئے اورہزارہا اس طرح تڑپ رہے تھے جیسے وہ جانور جسے پوری طرح ذبح کئے بغیرادھ کٹی گردن کے ساتھ چھوڑ دیا جائے ۔پھر مرنے والوں کی تعداد بڑھتی ہی گئی۔ قیامت کا یہ منظر دمشق کی مشرقی آبادیوں کا ہے جہاں شامی فوج نے سارین گیس کا حملہ کرکے ’’نسلی صفائی‘‘ کا ایک اور باب رقم کر دیا اور یہ سفّاک واردات اس نے اس وقت کی جب اقوام متحدہ کے معائنہ کار کیمیائی حملوں کی تحقیقات کے لئے پہنچے ہوئے ہیں۔ شام نے یہ پیغام دیا کہ ہم تو یہ کریں گے، تم جو کر سکتے ہو کرو۔ شام جانتا ہے، کوئی کچھ نہیں کرے گا۔ امریکہ کی جنگ مصر میں جس ’’اسلام‘‘ سے ہے اورجس ’’اسلام‘‘ کے خلاف وہ افغانستان میں لڑتا رہا، کیمیائی ہتھیار شام میں بھی اسی اسلام کا صفایا کر رہے ہیں۔ امریکہ تو ان کیمیائی ہتھیاروں کا شکر گزار ہوگا۔ واضح رہے کہ امریکہ ’’اوباما‘‘ کانہیں اس سر زمین کا نامہے جہاں گزشتہ صدی کے پہلے نصف میں دجّال کا نظر آئے بغیر ظہور ہوا۔ امریکہ کو پچھلے دنوں بتایا گیا تھا کہ عراق کے پڑوسی ملک کے طیارے عراق کی فضاؤں سے گزرتے ہوئے کیمیائی بم شام پہنچا رہے ہیں، عراق کے پڑوسی ملک نے شامی حکومت کو یہ کار آمد مشورہ چند ماہ پہلے دیا تھا کہ ساری آبادی صاف کر دو، امن ہو جائے گا۔ یہی ہو رہا ہے۔ 25لاکھ سے زیادہ شامی ملک چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں پناہ گزین ہیں، تین لاکھ ہلاک اور پچاس لاکھ زخمی کئے جا چکے ہیں۔ ایک کروڑ کے قریب وطن کے اندر بے وطن ہیں ’’صاف‘‘ ہونے میں دیر ہی کتنی رہ گئی۔ امریکہ کو پریشانی بس یہ ہے کہ اس کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اس طرح کی انسانی تباہیوں پر مشتعل ہو جاتا ہے، اسے مطمئن کرنے کے لئے کچھ دکھاوا کرنا پڑتا ہے۔ دو سال سے یہ دکھاوا کیا جا رہا ہے، اس مجمع باز کی طرح جو لوگوں کو یقین دلائے رکھتا ہے کہ وہ سانپ کے فن کا مظاہرہ اگلے ہی لمحے کرنے والا ہے۔ لیکن یہ تماشا کبھی نہیں ہوتا، وہ اپنی ’’دوا‘‘ بیچ کر رخصت ہو جاتا ہے۔ شو کے آخر میں مجمع ویسے ہی بھول چکا ہوتا ہے کہ وہ کیا دیکھنے آیا تھا۔ ہو سکتا ہے یورپی یونین کے دباؤ پر امریکہ کو دکھا وے سے کچھ آگے بڑھنا پڑ جائے اس لئے کہ یورپی یونین کے خدشات اور مفادات کئی جگہ پر امریکہ سے ہٹ کر ہیں۔ مشرق وسطیٰ امریکہ سے بہت دور ہے لیکن یورپ کی تو دیوار اس سے ملی ہوئی ہے۔ یہاں دوزخ کے جوالاؤ بھڑک رہے ہیں،ان کی چنگاریاں یورپی یونین پر بھی گریں گی۔
________________________
یہ کیمیائی ہتھیار چھوٹے ایٹم بم سے کم نہیں۔ بڑے ایٹم بم تو کروڑوں افراد مار دیں گے لیکن انہیں تو کسی آخری جنگ کیلئے بچا کر رکھا گیا ہے۔ فی الحال چھوٹے ایٹمی ہتھیار چلتے ہیں جیسے عراق اور افغانستان میں امریکہ نے چلائے۔ ان حملوں میں فوراً ہی سینکڑوں یا ہزاروں افراد مارے جاتے ہیں اور ان سے زیادہ زخمی ہوتے ہیں اور ان ہتھیاروں کی تباہ کاری معذور بچوں کی پیدائش اور زہریلی سبزیوں اور اناج کی شکل میں برسوں جاری رہتی ہے ۔
________________________
’’وہی زندگی قابل قدر ہے جو دوسروں کے کام آئے‘‘ کتنا سنہری قول ہے۔پڑھنے والا سمجھے گا کہ کسی فرشتہ سیرت،سوشل ریفارمر نے یہ بات کی ہوگی لیکن نہیں۔ یہ سنہری مقولہ پچھلی صدی کے سب سے بڑے شیطان آئن سٹائن کا ہے۔ وہی، جس نے ایٹمی توانائی سے تباہ کاری کا طریقہ نکالا ۔ یہ شیطان جرمنی کا یہودی تھا اور اتفاق دیکھئے، کیمیائی ہتھیار وں کا موجد بھی جرمن یہودی فرٹزھابر تھا۔ اس شیطان کوبھی نوبل انعام ملا اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ نوبل انعام شیطانوں کے لئے خاص ہے۔ نوبل انعام کا بانی الفرڈ نوبل خود ایک شیطان تھا جس نے ڈائنا مائٹ اور بارود کی رنگا رنگ قسمیں ایجاد کیں۔ اس شیطان کا تعلق سویڈن سے تھا ۔ فرٹزہاربر نے کیمیائی ہتھیاروں کا دفاع جن الفاظ میں کیا ، وہ بجائے خود سنہری مقولہ ہیں، کہا، موت تو موت ہے ، چاہے کیمیائی ہتھیاروں سے ہو یا کسی اور سبب سے۔
شیطانوں کا ذکر آیا ہے تو میخائل کلاشنکوف کو ’’خراج تحسین ‘‘ پیش کرنالازم ہے۔ روس کے اس شیطان نے اے کے رائفل بنائی۔ یعنی اے کے47، اے کے74 اور اے کے ایم۔ اس بندوق کو موجد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ ایک سیکنڈ میں درجنوں افراد ہلاک کر سکتی ہے اور1946ء میں اپنی ایجاد کے بعد سے کروڑوں جانیں لے چکی ہے۔ تباہ کاری کے حجم کے لحاظ سے کلاشنکوف اسی صف میں شامل ہے جس میں ایٹم بم اور کیمیائی ہتھیار ہیں۔ اتفاق دیکھئے، یہ تینوں موجد آگے پیچھے آئے ۔ فرٹز1868ء میں، البرٹ آئن سٹائن1879ء میں اور میخائل کلاشنکوف1919ء میں پیدا ہوا۔ ان کا پیشروالفریڈ نوبل 1832ء میں ہی نازل ہو چکا تھا۔ ان چار شیطانوں کی بدولت مرنے والوں کی گنتی 50کروڑ سے زیادہ ہی رہی ہوگی۔
________________________
ان چاروں کو شیطان لکھا جو شاید ٹھیک نہیں۔ شیطان کا زمانہ تو دنیا آباد ہونے کے پہلے دن سے چلا آرہا ہے، اب جو آیا ہے، وہ دجال کا ہے۔ ہو سکتا ہے، یہ چاروں دجّال کی سنتان ہوں۔
دجّال کا زمانہ آچکا، اس میں کیا شک ہے۔ بائبل سے قران تک دجّالی زمانے کی جتنی پیش گوئیاں آئی ہیں، کچھ کو چھوڑ کر سب پوری ہو چکیں۔ اور تازہ نشانی جو پوری ہوئی یہ ہے کہ عراق و شام سے لے کر مصر اور ترکی تک خون کے دریا بہیں گے۔ مردہ کو زندہ کرنے (کلوننگ) کا عجوبہ بھی دیکھ لیا، زمین کے ایک سرے سے ہتھیار خود ہی اڑے گا اور دوسرے سرے پر گرے گا، یہ بھی ہوگیا۔ مافوق الفطرت ذہنی صلاحیتوں والے شاعر ولیم بی ییٹسYeats کی1920ء کی پیش بینی 1948ء میں پوری ہوگئی کہ سرزمین مقدس میں درندہ(اسرائیل) پیدا ہونے والا ہے:
And what rough beast, its hour come round at last,
Slouches towards Bethlehem to be born?
علمائے دجّالیات سے پوچھنے والی بات یہ ہے کہ شیطان بڑا ہے یا دجّال؟۔ یعنی شیطان دجّال کا باس ہے یا اب شیطان ریٹائر ہو چکا، اور زمانے کی حکمرانی اکیلے دجّال کے پاس ہے؟
یہ سوال پوچھنے کی ضرورت یوں بھی ہے کہ دیکھئے، یہودی جب تک شیطان کے چیلے تھے، مار کھاتے رہے۔ جرمنی سے لے کر انگلینڈ تک ،ان کی وہ درگت بنی کہ کچھ نہ پوچھئے۔ (یہودی کہیں سکون سے رہے تو وہ ترکی اور اس کے زیر حکومت دوسرے مسلم علاقے تھے) لیکن جونہی انہوں نے دجّال سے ناطہ جوڑا ، دنیا کے حاکم ہوگئے۔ شیطان نے تو انہیں محض غیب کی خبریں دی تھیں (مثلاً وہ نبی ؐ عبداللہ کے گھر پیدا ہوگا ) لیکن دجّال نے انہیں قدرت کے راز اور بڑی تباہی کے گُربتائے اور آئی ایم ایف، عالمی بینک، اقوام متحدہ، فری میسن ، الومی ناٹی آرڈر بنانے کی راہ دکھائی جن سے ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کا راج ہوا۔
اور الومی ناٹی Illuminatiہی وہ دجّالی پولٹ اینڈ میجک بیورو ہے جو ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ چلا رہاہے۔ کہا جاتا ہے کہ مصنوعی زلزلوں اور سیلابوں سے لے کر خانہ جنگیوں تک کی ساری انجینئرنگ یہی کرتا ہے اور یہ فیصلے بھی کہ فلمساز کیسی فلمیں بنائیں گے اور ٹی وی پر کیا چلے گا اور فصلوں کے نئے بیج کی جنیٹکس کیا ہوگی اور تعلیمی اداروں کے نصاب میں کیا شے نکالنی ،کیا ڈالنی ہے اور کنزیومر مارکیٹ میں کون سی شے بیچنی ہے اور کون سا پاپ راک سٹار ،میوزک بینڈ آگے بڑھے گااورکیٹ واک کے گالے کیسے ہوں گے۔ حتیٰ کہ مس ورلڈ ، مس انڈیاکاانتخاب کرنے والی جیوری کے پیچھے بھی الومی ناٹی ہے اور پھر والٹ ڈزنی کی نئی کارٹون فلموں کی کہانی کیسی اور کردار کون ہوں گے، یہ بھی الومی ناٹی کا ’’اختیار‘‘ہے۔
________
از عبداللہ طارق سہیل، نئی بات 23 اگست 2013