مکمل شام شہر یاراں ۔ فیض احمد فیض

فرخ منظور

لائبریرین
اشعار
جو پیرہن میں کوئی تار محتسب سے بچا
دراز دستیِ پیرِ مغاں کی نذر ہوا
اگر جراحتِ قاتل سے بخشوا لائے
تو دل سیاستِ چارہ گراں کی نذر ہوا
 

فرخ منظور

لائبریرین
جس روز قضا آئے گی
کس طرح آئے گی جس روز قضا آئے گی
شاید اس طرح کہ جس طور کبھی اوّلِ شب
بے طلَب پہلے پہَل مرحمتِ بوسۂ لب
جس سے کھُلنے لگیں ہر سَمت طلسمات کے در
اور کہیں دور سے انجان گلابوں کی بہار
یک بیک سینۂ مہتاب کو تڑپانے لگے​
شاید اس طرح کہ جس طور کبھی آخرِ شب
نیم وا کلیوں سے سر سبز سحر
یک بیک حجرۂ محبوب میں لہرانے لگے
اور خاموش دریچوں سے بہ ہنگامِ رحیل
جھنجھناتے ہوئے تاروں کی صدا آنے لگے​
کس طرح آئے گی جس روز قضا آئے گی
شاید اس طرح کہ جس طور تہِ نوکِ سناں
کوئی رگ واہمۂ درد سے چِلّانے لگے
اور قزّاقِ سناں دست کا دھندلا سایہ
از کراں تا بہ کراں دہر پہ مَنڈلانے لگے​
کس طرح آئے گی جس روز قضا آئے گی
خواہ قاتل کی طرح آئے کہ محبوب صفَت
دل سے بس ہو گی یہی حرفِ ودع کی صورت
لِلّٰہِ الحَمد بانجامِ دلِ دل زدَگاں
کلمۂ شکر بنامِ لبِ شیریں دہناں​
(1972ء)
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے
ہم سے جتنے سخن تمہارے تھے

رنگ و خوشبو کے، حسن و خوبی کے
تم سے تھے جتنے استعارے تھے

تیرے قول و قرار سے پہلے
اپنے کچھ اور بھی سہارے تھے

جب وہ لعل و گہر حساب کیے
جو ترے غم نے دل پہ وارے تھے

میرے دامن میں آ گرے سارے
جتنے طشتِ فلک میں تارے تھے

عمرِ جاوید کی دعا کرتے
فیضؔ اتنے وہ کب ہمارے تھے

1972ء
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
قطعہ
ہزار درد شبِ آرزو کی راہ میں ہے
کوئی ٹھکانہ بتاؤ کہ قافلہ اترے
قریب اور بھی آؤ کہ شوق دید مٹے
شراب اور پلاؤ کہ کچھ نشہ اترے
1972ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
اشک آباد٭ کی شام

جب سورج نے جاتے جاتے
اشک آباد کے نیلے افق سے
اپنے سنہری جام
میں ڈھالی
سرخیِ اوّل شام
اور یہ جام
تمہارے سامنے رکھ کر
تم سے کیا کلام
کہا پرنام
اٹھو
اور اپنے تن کی سیج سے اٹھ کر
اک شیریں پیغام
ثبت کرو اس شام
کسی کے نام
کنارِ جام
شاید تم یہ مان گئیں اور تم نے
اپنے لبِ گلفام
کیے انعام
کسی کے نام
کنارِ جام
یا شاید
تم اپنے تن کی سیج پہ سج کر
تھیں یوں محوِ آرام
کہ رستہ تکتے تکتے
بجھ گئی شمعِ شام
اشک آباد کے نیلے افق پر
غارت ہوگئی شام
1972ء
----------------------
٭ اشک آباد ترکمان جمہوریہ کا صدر مقام ہے
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
مرے درد کو جو زباں ملے
مرا درد نغمۂ بے صدا
مری ذات ذرۂ بے نشاں
مرے درد کو جو زباں ملے
مجھے اپنا نام و نشاں ملے
مری ذات کا جو نشاں ملے
مجھے رازِنظمِ جہاں ملے
جو مجھے یہ رازِ نہاں ملے
مری خامشی کو بیاں ملے
مجھے کائنات کی سروری
مجھے دولتِ دو جہاں ملے
1973ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
پاؤں سے لہو کو دھو ڈالو
ہم کیا کرتے کس رہ چلتے
ہر راہ میں کانٹے بکھرے تھے
اُن رشتوں کے جو چھوٹ گئے
اُن صدیوں کے یارانوں کے
جو اِک اِک کر کے ٹوٹ گئے
جس راہ چلے، جس سمت گئے
یوں پاؤں لہولہان ہوئے
سب دیکھنے والے کہتے تھے
یہ کیسی رِیت رچائی ہے
یہ مہندی کیوں لگائی ہے
وہ کہتے تھے، کیوں قحطِ وفا
کا ناحق چرچا کرتے ہو
پاؤں سے لہو کو دھو ڈالو!
یہ راہیں جب اٹ جائیں گی
سو رستے اِن سے پھوٹیں گے
تم دل کو سنبھالو جس میں ابھی
سو طرح کے نشتر ٹوٹیں گے
1973ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
سجاد ظہیر کے نام

نہ اب ہم ساتھ سیرِ گُل کریں گے

نہ اب مل کر سرِ مقتل چلیں گے
حدیثِ دلبراں باہم کریں گے
نہ خونِ دل سے شرحِ غم کریں گے
نہ لیلائے سخن کی دوست داری
نہ غم ہائے وطن پر اشکباری
سنیں گے نغمۂ زنجیر مل کر
نہ شب بھر مل کے چھلکائیں گے ساغر​

بنامِ شاہدِ نازک خیالاں
بیادِ مستیِ چشمِ غزالاں
بنامِ انبساطِ بزمِ رنداں
بیادِ کلفتِ ایّامِ زنداں

صبا اور اُس کا اندازِ تکلّم
سحر اور اُس کا آغازِ تبسّم
فضا میں ایک ہالہ سا جہاں ہے
یہی تو مسندِ پیرِ مغاں ہے
سحر گہ اب اُسی کے نام ساقی
کریں اتمامِ دورِ جام ساقی
بساطِ بادہ و مینا اُٹھا لو
بڑھا دو شمعِ محفل بزم والو
پیو اب ایک جامِ الوداعی
پیو اور پی کے ساغر توڑ ڈالو

دہلی، ستمبر 1973ء
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
اے شام مہرباں ہو!

اے شام مہرباں ہو
اے شامِ شہرِ یاراں
ہم پہ مہرباں ہو
دوزخی دوپہر ستم کی
بے سبب ستم کی
دوپہر درد و غیظ و غم کی
بے زباں درد و غیظ و غم کی
اس دوزخی دوپہر کے تازیانے
آج تن پر دھنک کی صورت
قوس در قوس بٹ گئے ہیں
زخم سب کھُل گئے ہیں
داغ جانا تھا چھٹ گئے ہیں
ترے توشے میں کچھ تو ہو گا
مرہمِ درد کا دوشالہ
تن کے اُس انگ پر اُڑھا دے
درد سب سے سوا جہاں ہو
اے شام مہرباں ہو
اے شامِ شہرِ یاراں
ہم پہ مہرباں ہو

دوزخی دشت نفرتوں کے
بے درد نفرتوں کے
کرچیاں دیدۂ حسد کی
خس و خاشاک رنجشوں کے
اتنی سنسان شاہراہیں
اتنی گنجان قتل گاہیں
جن سے آئے ہیں ہم گزر کر
آبلہ بن کے ہر قدم پر
یوں پاؤں کٹ گئے ہیں
رستے سمٹ گئے ہیں
مخملیں اپنے بادلوں کی
آج پاؤں تلے بچھا دے
شافیِ کربِ رہرواں ہو
اے شام مہرباں ہو
اے مہِ شبِ نگاراں
اے رفیقِ دلفگاراں
اس شام ہم زباں ہو
اے شام مہرباں ہو
اے شام مہرباں ہو
اے شامِ شہریاراں
ہم پہ مہرباں ہو
1974ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
گیت​
چلو پھر سے مسکرائیں
چلو پھر سے دل جلائیں
جو گزر گئی ہیں راتیں
اُنہیں پھر جگا کے لائیں
جو بسر گئی ہیں باتیں
اُنہیں یاد میں بُلائیں
چلو پھر سے دل لگائیں
چلو پھر سے مسکرائیں
کسی شہ نشیں پہ جھلکی
وہ دھنک کسی قبا کی
کسی رگ میں کسمسائی
وہ کسک کسی ادا کی
کوئی حرفِ بے مروّت
کسی کُنجِِ لب سے پھُوٹا
وہ چھنک کے شیشۂ دل
تہِ بام پھر سے ٹوٹا
یہ مِلن کی نامِلن کی
یہ لگن کی اور جلن کی
جو سہی ہیں وارداتیں
جو گُزر گئی ہیں راتیں
جو بِسر گئی ہیں باتیں
کوئی ان کی دھُن بنائیں
کوئی ان کا گیت گائیں
چلو پھر سے مسکرائیں
چلو پھر سے دل جلائیں​
1974ء​
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہم تو مجبور تھے اس دل سے
ہم تو مجبور تھے اس دل سے کہ جس میں ہر دم
گردشِ خوں سے وہ کُہرام بپا رہتا ہے
جیسے رندانِ بلا نوش جو مل بیٹھیں بہم
میکدے میں سفرِ جام بپا رہتا ہے
سوزِ خاطر کو ملا جب بھی سہارا کوئی
داغِ حرمان کوئی، دردِ تمنّا کوئی
مرہمِ یاس سے مائل بہ شِفا ہونے لگا
زخمِ اُمّید کوئی پھر سے ہرا ہونے لگا
ہم تو مجبور تھے اس دل سے کی جس کی ضد پر
ہم نے اُس رات کے ماتھے پہ سحر کی تحریر
جس کے دامن میں اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہ تھا
ہم نے اُس دشت کو ٹھہرا لیا فردوس نظیر
جس میں جُز صنعتِ خونِ سرِ پا کچھ بھی نہ تھا
دل کو تعبیر کوئی اور گوارا ہی نہ تھی
کلفتِ زیست تو منظور تھی ہر طور مگر
راحتِ مرگ کسی طور گوارا ہی نہ تھی
1974ء
 

فرخ منظور

لائبریرین

نہ اب رقیب نہ ناصح نہ غم گسار کوئی
تم آشنا تھے تو تھیں آشنائیاں کیا کیا

جُدا تھے ہم تو میسّر تھیں قربتیں کتنی
بہم ہوئے تو پڑی ہیں جدائیاں کیا کیا

پہنچ کے در پہ ترے کتنے معتبر ٹھہرے
اگرچہ رہ میں ہوئیں جگ ہنسائیاں کیا کیا

ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے
بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا

ستم پہ خوش، کبھی لطف و کرم سے رنجیدہ
سکھائیں تم نے ہمیں کج ادائیاں کیا کیا

1974ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
ڈھاکہ سے واپسی پر

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مُلاقاتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی مداراتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبّے دھُلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
تھے بہت بے درد لمحے ختمِ دردِ عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد
دل تو چاہا پر شکستِ دل نے مہلت ہی نہ دی
کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد
اُن سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کیے
اَن کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد


1974ء
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین

یہ موسمِ گُل گرچہ طرب خیز بہت ہے
احوالِ گُل و لالہ غم انگیز بہت ہے

خوش دعوتِ یاراں بھی ہے یلغارِ عدو بھی
کیا کیجیے دل کا جو کم آمیز بہت ہے

یوں پیرِ مغاں شیخِ حرم سے ہوئے یک جاں
میخانے میں کم ظرفیِ پرہیز بہت ہے

اک گردنِ مخلوق جو ہر حال میں خم ہے
اک بازوئے قاتل ہے کہ خوں ریز بہت ہے

کیوں مشعلِ دل فیضؔ چھپاؤ تہِ داماں!
بُجھ جائے گی یُوں بھی کہ ہوا تیز بہت ہے

1975ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہار آئی
بہار آئی تو جیسے یک بار
لَوٹ آئے ہیں پھر عدم سے
وہ خواب سارے، شباب سارے
جو تیرے ہونٹوں پہ مر مٹے تھے
جو مٹ کے ہر بار پھر جیے تھے
نِکھر گئے ہیں گلاب سارے
جو تیری یادوں سے مُشکبو ہیں
جو تیرے عُشّاق کا لہو ہیں
اُبل پڑے ہیں عذاب سارے
ملالِ احوالِ دوستاں بھی
خمارِ آغوشِ مہ وشاں بھی
غُبارِ خاطر کے باب سارے
ترے ہمارے
سوال سارے جواب سارے،
بہار آئی تو کھِل گئے ہیں
نئے سرے سے حساب سارے
اپریل 1975ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
تم اپنی کرنی کر گزرو

اب کیوں اُس دن کا ذکر کرو
جب دل ٹکڑے ہو جائے گا
اور سارے غم مِٹ جائیں گے
جو کچھ پایا کھو جائے گا
جو مل نہ سکا وہ پائیں گے
یہ دن تو وہی پہلا دن ہے
جو پہلا دن تھا چاہت کا
ہم جس کی تمنّا کرتے رہے
اور جس سے ہر دم ڈرتے رہے
یہ دن تو کئی بار آیا
سو بار بسے اور اُجڑ گئے
سو بار لُٹے اور بھر پایا
اب کیوں اُس دن کی فکر کرو
جب دل ٹکڑے ہو جائے گا
اور سارے غم مِٹ جائیں گے
تم خوف و خطر سے در گزرو
جو ہونا ہے سو ہونا ہے
گر ہنسنا ہے تو ہنسنا ہے
گر رونا ہے تو رونا ہے
تم اپنی کرنی کر گزرو
جو ہو گا دیکھا جائے گا
اکتوبر 1975ء

 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
موری اَرج سُنو

(نذرِ خسرو)

"موری ارج سُنو دست گیر پیر"
"مائی ری، کہوں کاسے میں
اپنے جیا کی پیر"
"نیا باندھو رے،
باندھو رے کنارِ دریا"
"مورے مندر اب کیوں نہیں آئے"
اس صورت سے
عرض سناتے
درد بتاتے
نیّا کھیتے
مِنّت کرتے
رستہ تکتے
کتنی صدیاں بیت گئی ہیں
اب جا کر یہ بھید کھُلا ہے
جس کو تم نے عرض گزاری
جو تھا ہاتھ پکڑنے والا
جس جا لاگی ناؤ تمھاری
جس سے دُکھ کا دارُو مانگا
تورے مندر میں جو نہیں آیا
وہ تو تُمھیں تھے
وہ تو تُمھیں تھے

ستمبر 1975ء
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
ہمیں سے اپنی نوا ہم کلام ہوتی رہی
یہ تیغ اپنے لہو میں نیام ہوتی رہی

مقابلِ صفِ اعداء جسے کیا آغاز
وہ جنگ اپنے ہی دل میں تمام ہوتی رہی

کوئی مسیحا نہ ایفائے عہد کو پہنچا
بہت تلاش پسِ قتلِ عام ہوتی رہی

یہ برہمن کا کرم، وہ عطائے شیخِ حرم
کبھی حیات کبھی مَے حرام ہوتی رہی

جو کچھ بھی بن نہ پڑا، فیضؔ، لُٹ کے یاروں سے
تو رہزنوں سے دعا و سلام ہوتی رہی
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
تُجھے پُکارا ہے بے ارادہ
جو دل دُکھا ہے بہت زیادہ

نَدیم ہو تیرا حرفِ شیریں
تو رنگ پر آئے رنگِ بادہ

عَطا کرو اِک ادائے دیریں
تو اشک سے تر کریں لبادہ

نہ جانے کس دن سے منتظر ہے
دلِ سرِ رہگزر فتادہ

کہ ایک دن پھر نظر میں آئے
وہ بام روشن، وہ در کشادہ

وہ آئے پُرسش کو، پھر سجائے
قبائے رنگیں، ادائے سادہ
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
حسرتِ دید میں گزراں ہیں زمانے کب سے
دشتِ اُمّید میں گرداں ہیں دوانے کب سے


دیر سے آنکھ پہ اُترا نہیں اشکوں کا عذاب
اپنے ذمّے ہے ترا قرض نہ جانے کب سے


کس طرح پاک ہو بے آرزو لمحوں کا حساب
درد آیا نہیں دربار سجانے کب سے


سر کرو ساز کہ چھیڑیں کوئی دل سوز غزل
"ڈھونڈتا ہے دلِ شوریدہ بہانے کب سے"


پُر کرو جام کہ شاید ہو اسی لحظہ رواں
روک رکھّا ہے جو اِک تیر قضا نے کب سے


فیض پھر کب کسی مقتل میں کریں گے آباد
لب پہ ویراں ہیں شہیدوں کے فسانے کب سے
 
Top