Rashid Ashraf
محفلین
شام و سحر کے درمیاں
شام و سحر کے درمیاں, پاکستان کی سول سروس سے وابستہ رہے رئیس عباس زیدی کی خودنوشت ہے جو حال ہی میں لاہور سے شائع ہوئی ہے۔ ان کا آبائی تعلق جھنگ سے ہے۔ رئیس زیدی کو یونائٹڈ بینک کے لیے آغا حسن عابدی کے رفقاء کار نے منتخب کیا، وہ جلد ہی وہاں سے استعفی دے کر جھنگ کالج میں پڑھانے لگے، بعد ازاں سول سروس کا امتحان پاس کرکے ڈی ایم جی گروپ میں شمولیت اختیار کی، اسسٹنٹ کمشنر اور پھر ڈپٹی کمشنر رہے
اس سے قبل سول سروس کے جن نمائندوں نے اپنی خودنوشت تحریر کی ہیں ان میں سرفہرست قدرت اللہ شہاب ہیں ان کے علاوہ لیاقت علی عاصم (ڈپٹی کمشنر کی ڈائری) اور مہر جیون خان (جیون دھارا - دو ضخیم حصوں میں) اپنی داستان حیات قلم بند کرچکے ہیں۔ سول سروس سے تعلق رکھنے والے ایک اور صاحب ہیں، خاصے مشہور اور ایک منجھے ہوئے لکھاری, یہ شوکت علی شاہ ہیں جن کے سفرنامے اپنی مثال آپ ہیں۔
سول سروس سے وابستہ رہے لوگ اپنی خودنوشت خال خال ہی تحریر کرتے ہیں، اس کی وجہ سیدھی سی ہے، کتاب وہ شخص لکھے گا جس کا دامن صاف ہو، جو ایماندار رہا، غیر جانبدار رہا، انصاف پسند رہا بصورت دیگر تو معاملات عیاں کرنے سے مشکلات میں اضافہ متوقع ہے۔
رئیس زیدی پنجاب یونورسٹی میں پڑھتے تھے، گرمیوں کی ایک دوپہر ایک ریچھ والے کا گزر ہوا۔ رئیس کے ساتھی چوہدری صاحب نے ریچھ والے کو آواز دی:
اوئے! ہن تک کنے پیسے کمائے نے ?
ریچھ والے نے کچھ پیسے بتائے۔ چودھری صاحب نے وہ قوی الجثہ ریچھ بمعہ چھڑی اس سے لے لیا۔ اب کیفیت یہ تھی یہ دونوں حضرات ریچھ کو لے کر ہاسٹل کے ہر کمرے میں جاتے اور ریچھ کو کرسی کرسی پر بٹھا کر کمرے کے رہائشی طالب علم سے کہتے کہ تمہارا مہمان آیا ہے اس کی خدمت کرو، پیسٹریاں، شیزان کی بوتل یا پھر پانچ روپے نقد۔ کمرے سو سے اوپر تھے، کچھ خالی بھی تھے، ہوتے ہوتے اڑتالیس روپے اور کچھ پیسے اکھٹے ہوئے۔ یہ پیسے اور ریچھ، ریچھ والے کے حوالے کیے۔ وہ انہیں دعائیں دیتا ہوا چلا گیا۔ سستا زمانہ تھا، یہ رقم اس وقت اچھی خاصی ہوتی تھی۔
سول سروس کے امتحان کا نتیجہ آچکا تھا، رئیس زیدی منتخب ہوگئے اور سندھ میں تعینات کیے گئے۔
ضلع نواب شاہ ۔ ۔ ۔ وڈیروں کی ریاست ۔۔
وڈیرا کیا ہوتا ہے، یہ رئیس زیدی کو ایک روز معلوم ہوا۔ سکرنڈ کی نہر کے کنارے کنارے گشت کرتے ایک ہاری پر نظر پڑی جس کے چہرے پر دو خون آلود سوراخ تھے۔ رئیس کے ساتھ بیٹھے اے ایس پی نے پوچھا کہ کیا ہوا، وہ بتانے پر راضی نہ تھا، مشکل سے بتایا کہ کسی معمولی سے بات پر ناراض ہوکر وڈیرے نے اس کی مونچھیں اکھڑوا دیں۔
بھٹو صاحب کی پھانسی کے دن تھے، سندھ میں شورش عروج پر تھی، رئیس زیدی نے دوران ملازمت کبھی جابرانہ حکم نہیں مانا۔ جلوس بپھرا ہوا تھا، اوپر سے حکم آیا کہ گولی چلاؤ، رئیس زیدی نے حکم عدولی کی اور تبادلے کے احکامات صبح سویرے ہی آگئے۔
حکام بالا کے دلوں سے اتر گئے لیکن اہل علاقہ کے دلوں میں گھر کیا۔ رخصت ہورہے تھے تو دو ڈھائی سو کا مجمع تھا، لوگ ہاتھ چوم رہے تھے کہ انہیں حقیقیت کا علم ہوچکا تھا۔
"سائیں ہمیں پتہ ہے کہ آپ کے ساتھ کیا ہوا ہے"
اسی دوران ایک بکریاں چرانے والا ایک بوڑھا شخص وہاں آ نکلا، کہنے لگا:
" سائیں! اگر ہمارا ایک بھی جرنیل سندھی ہوتا تو ہمارے بھٹو سائیں کو پھانسی نہ لگتی"
ایم آر ڈی کے دوران سندھ میں صرف دو پنجابی افسر زیر عتاب آئے اور دونوں نے سندھیوں پر گولی چلانے سے انکار کیا تھا۔ ایک تو رئیس زیدی تھے اور دوسرے قاضی ایوب جن پر الزام تھا کہ جب تعلقہ قنبر علی خان کی ٹیلی فون ایکسچینج جل رہی تھی تو انہوں نے ہجوم پر فائرنگ کا حکم کیوں نہیں دیا۔ اس استفسار کے جواب میں قاضی بھول پن سے جواب دیتے تھے:
" ٹیلی فون ایکسچینج تو پھر لگ جائے گی۔"
نواب شاہ کے بعد رئیس زیدی اسسٹنٹ کمشنر ٹھری میر واہ تعینات ہوئے، آفس سپرنٹنڈنٹ ڈی سی آفس خیر پور نے استقبال کیا۔ نام سن کر ڈی سی رو پڑا۔ رئیس زیدی سے کہنے لگا کہ آپ سے پہلے بھی ایک زیدی صاحب یہاں آئے تھے
"تو بھائی اس میں رونے کی کیا بات ہے " ? رئیس نے پوچھا
اس نے بتایا کہ ایم اے انگریزی کرکے اسے کہیں نوکری نہ ملی تو ڈی سی آفس میں کلرک ہوگیا تھا۔ اچھی زبان لکھنے کی وجہ سے مصطفی زیدی (شاعر) اسے ہی ڈکٹیشن دیا کرتے تھے۔ ایک روز ایسا ہوا کہ کچھ غلطیاں ہوگئیں، مصطفی زیدی نے پہلے تو ڈانٹا پھر حسب عادت بلا کر پوچھا:
" آج غلطیاں کیوں کیں ? خیریت تو ہے ? "
اس نے کہا: " سر! بہن کی شادی کی تاریخ طے ہوگئی ہے مگر جہیز کے لیے پیسے نہیں ہیں"
مصطفی زیدی مرحوم نے فورا مختیار کار کو بلایا اور کہا:
"اسے پچاس ہزار روپے دے دو"
یہ بات 1962 کی ہے۔
ہائے کیوں خاک کی مانند بجھے بیٹھے ہو
شعلہ رو شعلہ فشاں بداماں زیدی
سندھ کے عوام سید پرست، رئیس زیدی کا واسطہ پڑا ڈاکوؤں سے۔ ہوا یوں کہ ایک ہندو بنیا اغوا ہوگیا۔ وفاقی وزارت داخلہ سے فون آنے لگے کہ اس مسلے کو جلد سلجھایا جائے۔ یہ کارنامہ ڈاکو جمعہ خشک کے گروہ کا تھا۔ ایک واسطہ دار وڈیرے کے توسط سے سردار سے ملاقات طے ہوئی۔ چاروں طرف ڈاکو تھے، اتنے میں جمعہ خشک آیا، کافی منت سماجت کے بعد تاوان کی رقم میں کمی پر آمادہ ہوگیا۔ تمام معاملات طے ہوگئے لیکن جمعہ خشک تھا کہ اپنی جگہ کھڑا رہا۔ رئیس زیدی کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے:
" سائیں آپ اولاد علی ہیں، میرے لیے دعا کریں"
اور رئیس زیدی نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا.
اندرون سندھ سے رئیس زیدی کا پہلے کراچی اور پھر پنجاب تبادلہ ہوا۔ منزل تھی گوجرنوالہ۔ ایک صاحب تھے بائی وکیل خاں نامی، رئیس کی ان سے دوستی ہوگئی۔ ایک روز لاہور سے واپسی پر بائی وکیل خاں کی بیٹھک میں رک گئے، وہاں ان کی راجپوت برادری اکھٹی تھی۔ رئیس مجمع سے کہنے لگے کہ آپ راجپوتوں نے ہم سادات کو پناہ دی، زمینیں دیں، آپ لوگ بہادر ہیں، وچن دینے کے بعد مرمٹنے کو تیار۔ اس کے بعد رئیس زیدی نے راجپوتوں کے تاریخ بیان کرنا شروع کردی۔
اس بیٹھک میں کسی گاؤں سے آئے ہوئے ایک بزرگ رانگڑ بیٹھے تھے۔ مہندی لگے ہوئے لمبے لمبے بال، ہاتھ میں بانس کی ڈنگوری، اپنی پاٹ دار آواز میں گویا ہوئے:
" یاہ چھوکرا ٹھیک کہہ را۔ ہم ایسے تھوڑی تھے۔ یاہ بے غیرت تو ہم مسلمان ہوکر ہوگئے۔"
رئیس زیدی سیکریٹری اوقاف مذہبی و اقلیتی امور بنائے گئے۔ چودھری پرویز الہی کے عملے کی طرف سے حکم ملا کہ پچھلے وزیر کے حکم پر جتنے لوگوں کو ملازمت دی گئی تھی، ان تمام کو فارغ کردیا جائے۔ رئیس زیدی پرویز الہی کو پاس گئے اور کہا:
" سر! جب کسی غریب کو ملازمت مل جاتی ہے تو وہ شہر میں مکان کرائے پر لے لیتا ہے، شادی کرلیتا ہے، باپ کی آنکھوں کا آپریشن کروالیتا ہے، اپنے خرچے بڑھا لیتا ہے، ان لوگوں کو بے روزگار نہ کریں، ان کی دعائیں لیں۔""
پرویز الہی نے رئیس زیدی کو گلے سے لگا لیا:
" او شاہ جی، جذباتی کیوں ہوندے او، نہ کڈھو انہاں نو"
ان گیارہ لوگوں کو یہ معلوم نہ ہوا کہ ان کی نوکریاں کس طرح اور کیسے بچ گئیں۔
رئیس زیدی ملازمت سے سبکدوش ہوچکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ زندگی، جدوجہد، افسری لیکن ٹارگٹ فقط دو باتیں ہونی چاہیں- عزت اور محبت۔
سول سروس سے وابستہ رہے افراد کی بیان کردہ داستانوں کے درمیان، زیر تبصرہ خودنوشت "شام و سحر کے درمیاں" ایک مہکتے پھول کی حیثیت سے یاد رکھی جائے گی۔
شام و سحر کے درمیاں, پاکستان کی سول سروس سے وابستہ رہے رئیس عباس زیدی کی خودنوشت ہے جو حال ہی میں لاہور سے شائع ہوئی ہے۔ ان کا آبائی تعلق جھنگ سے ہے۔ رئیس زیدی کو یونائٹڈ بینک کے لیے آغا حسن عابدی کے رفقاء کار نے منتخب کیا، وہ جلد ہی وہاں سے استعفی دے کر جھنگ کالج میں پڑھانے لگے، بعد ازاں سول سروس کا امتحان پاس کرکے ڈی ایم جی گروپ میں شمولیت اختیار کی، اسسٹنٹ کمشنر اور پھر ڈپٹی کمشنر رہے
اس سے قبل سول سروس کے جن نمائندوں نے اپنی خودنوشت تحریر کی ہیں ان میں سرفہرست قدرت اللہ شہاب ہیں ان کے علاوہ لیاقت علی عاصم (ڈپٹی کمشنر کی ڈائری) اور مہر جیون خان (جیون دھارا - دو ضخیم حصوں میں) اپنی داستان حیات قلم بند کرچکے ہیں۔ سول سروس سے تعلق رکھنے والے ایک اور صاحب ہیں، خاصے مشہور اور ایک منجھے ہوئے لکھاری, یہ شوکت علی شاہ ہیں جن کے سفرنامے اپنی مثال آپ ہیں۔
سول سروس سے وابستہ رہے لوگ اپنی خودنوشت خال خال ہی تحریر کرتے ہیں، اس کی وجہ سیدھی سی ہے، کتاب وہ شخص لکھے گا جس کا دامن صاف ہو، جو ایماندار رہا، غیر جانبدار رہا، انصاف پسند رہا بصورت دیگر تو معاملات عیاں کرنے سے مشکلات میں اضافہ متوقع ہے۔
رئیس زیدی پنجاب یونورسٹی میں پڑھتے تھے، گرمیوں کی ایک دوپہر ایک ریچھ والے کا گزر ہوا۔ رئیس کے ساتھی چوہدری صاحب نے ریچھ والے کو آواز دی:
اوئے! ہن تک کنے پیسے کمائے نے ?
ریچھ والے نے کچھ پیسے بتائے۔ چودھری صاحب نے وہ قوی الجثہ ریچھ بمعہ چھڑی اس سے لے لیا۔ اب کیفیت یہ تھی یہ دونوں حضرات ریچھ کو لے کر ہاسٹل کے ہر کمرے میں جاتے اور ریچھ کو کرسی کرسی پر بٹھا کر کمرے کے رہائشی طالب علم سے کہتے کہ تمہارا مہمان آیا ہے اس کی خدمت کرو، پیسٹریاں، شیزان کی بوتل یا پھر پانچ روپے نقد۔ کمرے سو سے اوپر تھے، کچھ خالی بھی تھے، ہوتے ہوتے اڑتالیس روپے اور کچھ پیسے اکھٹے ہوئے۔ یہ پیسے اور ریچھ، ریچھ والے کے حوالے کیے۔ وہ انہیں دعائیں دیتا ہوا چلا گیا۔ سستا زمانہ تھا، یہ رقم اس وقت اچھی خاصی ہوتی تھی۔
سول سروس کے امتحان کا نتیجہ آچکا تھا، رئیس زیدی منتخب ہوگئے اور سندھ میں تعینات کیے گئے۔
ضلع نواب شاہ ۔ ۔ ۔ وڈیروں کی ریاست ۔۔
وڈیرا کیا ہوتا ہے، یہ رئیس زیدی کو ایک روز معلوم ہوا۔ سکرنڈ کی نہر کے کنارے کنارے گشت کرتے ایک ہاری پر نظر پڑی جس کے چہرے پر دو خون آلود سوراخ تھے۔ رئیس کے ساتھ بیٹھے اے ایس پی نے پوچھا کہ کیا ہوا، وہ بتانے پر راضی نہ تھا، مشکل سے بتایا کہ کسی معمولی سے بات پر ناراض ہوکر وڈیرے نے اس کی مونچھیں اکھڑوا دیں۔
بھٹو صاحب کی پھانسی کے دن تھے، سندھ میں شورش عروج پر تھی، رئیس زیدی نے دوران ملازمت کبھی جابرانہ حکم نہیں مانا۔ جلوس بپھرا ہوا تھا، اوپر سے حکم آیا کہ گولی چلاؤ، رئیس زیدی نے حکم عدولی کی اور تبادلے کے احکامات صبح سویرے ہی آگئے۔
حکام بالا کے دلوں سے اتر گئے لیکن اہل علاقہ کے دلوں میں گھر کیا۔ رخصت ہورہے تھے تو دو ڈھائی سو کا مجمع تھا، لوگ ہاتھ چوم رہے تھے کہ انہیں حقیقیت کا علم ہوچکا تھا۔
"سائیں ہمیں پتہ ہے کہ آپ کے ساتھ کیا ہوا ہے"
اسی دوران ایک بکریاں چرانے والا ایک بوڑھا شخص وہاں آ نکلا، کہنے لگا:
" سائیں! اگر ہمارا ایک بھی جرنیل سندھی ہوتا تو ہمارے بھٹو سائیں کو پھانسی نہ لگتی"
ایم آر ڈی کے دوران سندھ میں صرف دو پنجابی افسر زیر عتاب آئے اور دونوں نے سندھیوں پر گولی چلانے سے انکار کیا تھا۔ ایک تو رئیس زیدی تھے اور دوسرے قاضی ایوب جن پر الزام تھا کہ جب تعلقہ قنبر علی خان کی ٹیلی فون ایکسچینج جل رہی تھی تو انہوں نے ہجوم پر فائرنگ کا حکم کیوں نہیں دیا۔ اس استفسار کے جواب میں قاضی بھول پن سے جواب دیتے تھے:
" ٹیلی فون ایکسچینج تو پھر لگ جائے گی۔"
نواب شاہ کے بعد رئیس زیدی اسسٹنٹ کمشنر ٹھری میر واہ تعینات ہوئے، آفس سپرنٹنڈنٹ ڈی سی آفس خیر پور نے استقبال کیا۔ نام سن کر ڈی سی رو پڑا۔ رئیس زیدی سے کہنے لگا کہ آپ سے پہلے بھی ایک زیدی صاحب یہاں آئے تھے
"تو بھائی اس میں رونے کی کیا بات ہے " ? رئیس نے پوچھا
اس نے بتایا کہ ایم اے انگریزی کرکے اسے کہیں نوکری نہ ملی تو ڈی سی آفس میں کلرک ہوگیا تھا۔ اچھی زبان لکھنے کی وجہ سے مصطفی زیدی (شاعر) اسے ہی ڈکٹیشن دیا کرتے تھے۔ ایک روز ایسا ہوا کہ کچھ غلطیاں ہوگئیں، مصطفی زیدی نے پہلے تو ڈانٹا پھر حسب عادت بلا کر پوچھا:
" آج غلطیاں کیوں کیں ? خیریت تو ہے ? "
اس نے کہا: " سر! بہن کی شادی کی تاریخ طے ہوگئی ہے مگر جہیز کے لیے پیسے نہیں ہیں"
مصطفی زیدی مرحوم نے فورا مختیار کار کو بلایا اور کہا:
"اسے پچاس ہزار روپے دے دو"
یہ بات 1962 کی ہے۔
ہائے کیوں خاک کی مانند بجھے بیٹھے ہو
شعلہ رو شعلہ فشاں بداماں زیدی
سندھ کے عوام سید پرست، رئیس زیدی کا واسطہ پڑا ڈاکوؤں سے۔ ہوا یوں کہ ایک ہندو بنیا اغوا ہوگیا۔ وفاقی وزارت داخلہ سے فون آنے لگے کہ اس مسلے کو جلد سلجھایا جائے۔ یہ کارنامہ ڈاکو جمعہ خشک کے گروہ کا تھا۔ ایک واسطہ دار وڈیرے کے توسط سے سردار سے ملاقات طے ہوئی۔ چاروں طرف ڈاکو تھے، اتنے میں جمعہ خشک آیا، کافی منت سماجت کے بعد تاوان کی رقم میں کمی پر آمادہ ہوگیا۔ تمام معاملات طے ہوگئے لیکن جمعہ خشک تھا کہ اپنی جگہ کھڑا رہا۔ رئیس زیدی کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے:
" سائیں آپ اولاد علی ہیں، میرے لیے دعا کریں"
اور رئیس زیدی نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا.
اندرون سندھ سے رئیس زیدی کا پہلے کراچی اور پھر پنجاب تبادلہ ہوا۔ منزل تھی گوجرنوالہ۔ ایک صاحب تھے بائی وکیل خاں نامی، رئیس کی ان سے دوستی ہوگئی۔ ایک روز لاہور سے واپسی پر بائی وکیل خاں کی بیٹھک میں رک گئے، وہاں ان کی راجپوت برادری اکھٹی تھی۔ رئیس مجمع سے کہنے لگے کہ آپ راجپوتوں نے ہم سادات کو پناہ دی، زمینیں دیں، آپ لوگ بہادر ہیں، وچن دینے کے بعد مرمٹنے کو تیار۔ اس کے بعد رئیس زیدی نے راجپوتوں کے تاریخ بیان کرنا شروع کردی۔
اس بیٹھک میں کسی گاؤں سے آئے ہوئے ایک بزرگ رانگڑ بیٹھے تھے۔ مہندی لگے ہوئے لمبے لمبے بال، ہاتھ میں بانس کی ڈنگوری، اپنی پاٹ دار آواز میں گویا ہوئے:
" یاہ چھوکرا ٹھیک کہہ را۔ ہم ایسے تھوڑی تھے۔ یاہ بے غیرت تو ہم مسلمان ہوکر ہوگئے۔"
رئیس زیدی سیکریٹری اوقاف مذہبی و اقلیتی امور بنائے گئے۔ چودھری پرویز الہی کے عملے کی طرف سے حکم ملا کہ پچھلے وزیر کے حکم پر جتنے لوگوں کو ملازمت دی گئی تھی، ان تمام کو فارغ کردیا جائے۔ رئیس زیدی پرویز الہی کو پاس گئے اور کہا:
" سر! جب کسی غریب کو ملازمت مل جاتی ہے تو وہ شہر میں مکان کرائے پر لے لیتا ہے، شادی کرلیتا ہے، باپ کی آنکھوں کا آپریشن کروالیتا ہے، اپنے خرچے بڑھا لیتا ہے، ان لوگوں کو بے روزگار نہ کریں، ان کی دعائیں لیں۔""
پرویز الہی نے رئیس زیدی کو گلے سے لگا لیا:
" او شاہ جی، جذباتی کیوں ہوندے او، نہ کڈھو انہاں نو"
ان گیارہ لوگوں کو یہ معلوم نہ ہوا کہ ان کی نوکریاں کس طرح اور کیسے بچ گئیں۔
رئیس زیدی ملازمت سے سبکدوش ہوچکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ زندگی، جدوجہد، افسری لیکن ٹارگٹ فقط دو باتیں ہونی چاہیں- عزت اور محبت۔
سول سروس سے وابستہ رہے افراد کی بیان کردہ داستانوں کے درمیان، زیر تبصرہ خودنوشت "شام و سحر کے درمیاں" ایک مہکتے پھول کی حیثیت سے یاد رکھی جائے گی۔