شام ڈھلنے والی ہے سوچتے ہیں گھر جائیں - معظم سعید

کاشفی

محفلین
شام ڈھلنے والی ہے سوچتے ہیں گھر جائیں
پھر خیال آتا ہے، کس طرف، کدھر جائیں

ہجرتی پرندوں کا کچھ یقیں نہیں‌ ہوتا
کب ہوا کا رخ بدلے کب یہ کوچ کر جائیں

دھوپ کے مسافر بھی کیا عجب مسافر ہیں
سائے میں ٹھہر کر یہ سائے سے ہی ڈر جائیں

دوسرے کنارے پر تیسرا نہ ہو کوئی
پھر تو ہم بھی دریا میں بے خطر اتر جائیں

کون بچ کے نکلا ہے ڈوب کر اُن آنکھوں‌میں
کاش ایسا ہو جائے کاش ہم بھی مر جائیں

سوچئے تو ہم سب اک خاکداں میں رہتے ہیں
خاک میں نمو پائیں خاک میں‌بکھر جائیں

گر سعید کُھل جائے بند ایک دریچہ پھر
اس اُداس بستی کے لوگ بھی سنور جائیں


(معظم سعید۔۔۔کراچی، پاکستان)
(بشکریہ: علیگڑھ اردو کلب)
 
Top