زھرا علوی
محفلین
اچھی غزل ہے زہرا۔۔ گرو نے وزن یعنی عروض کی بات کی ہے جو غلط ہے بلکہ شعر کو عروض سے آزاد بنا دیا ہے انہوں نے۔ لیکن ان کے اعتراض سے قطعِ نظر مجھے یہ محسوس ہوا کہ عکسِ ذات کی جگہ اگر ’میرا ہی عکس‘ کہو تو کیسا رہے؟
اور نویدِ صبحِ بہار بحر میں نہیں آتا اور فاتح کی اصلاح یوں تو درست لگتی ہے لیکن رخِ بہار کی ترکیب ابھی اچھی نہیں لگ رہی۔
عبید انکل اب دیکھیے ذرا ان مصرعوں کو۔۔۔کیا ٹھیک ہیں یا میں نے مزید بخیئے ادھیڑ دیئے ہیں۔۔۔
جو نویدِ بہارِ نو ہے اسی
ہری رت کی نمو ہو تم شاید
یا پھر
جو بہاروں کے رخ کی یے لالی
اسی رت کی نمو ہو تم شاید
اور
یا مری ذات کا ہے یہ پرتو
یا کہ پھر ہو بہ ہو ہو تم شاید